Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

دور جاہلیت اور ترقی یافتہ دورایک تقابل

Written by حافظ محمد یونس اثری 10 Apr,2016
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

زیر نظر مضمون میں ہم دور جاہلیت اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں ایک تقابل پیش کرتے ہیں، کہ قدیم دور کو پتھر کا دور کہنے والے اور انہیں علم و شعور سے دور ماننے والے جن برائیوں کا شکار تھے، وہیں برائیاں آج کے ترقی یافتہ دور میں موجود ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ انہی خامیوں کی بناء پر دور جاہلیت یا پتھر کے دور کے کہلائے، اور آج انہی خامیوں اور برائیوں میں لت پت اور جکڑے ہوئے ، جدت پسند ،وقت کے ساتھ چلنے والے ، اور ماڈرن کہلائے۔ جبکہ درحقیقت یہ وہی جہالت اور تاریکی ہے، جسے اسلام کے نور نے آکر ختم کیا تھا۔ اور آج بھی روشنی اور نور کی راہ یہی اسلام کی راہ ہے اور اس کے علاوہ وہی ظلمات اور اندھیرے کی راہ ہے۔ واضح رہے کہ صرف دنیاوی فنون کو جدت و قدامت کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ،کیونکہ سب جانتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ دنیا آگے ہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ لہذا پچھلے ادوار میں بھی یہ دنیا دنیاوی فنون میں ترقی کی طرف گامزن تھی جس کی دلیل کے طور پر قرآنی واقعات میں پچھلی قوموں کی صنعت و حرفت کے مناظرموجود ہیں، پہاڑوں کو تراش کر محلات بنانے والے تھے، اور پھر آج بھی کئی ایک قدیم قوموں کے آثار موجود ہیں، جن آثار سے معلوم ہوتا ہے، وہ بھی دنیاوی اعتبار سے ترقی کی دوڑ میں لگے رہتے تھے، لیکن پھر دور جاہلیت کے کہلائے، یا اللہ کے عذاب کے مستحق ٹھہرے ، اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے، انہیں دور جاہلیت سے موسوم کرنے کی وجہ دنیاوی ترقی میں پیچھے رہنا نہیں بلکہ دراصل وہ برائیاں اور خامیاں تھیں ، جنہیں اسلامی تعلیمات نے آکر ختم کیا، اورجب تک اسلامی تعلیم سے نا آشنا یعنی جاہل تھا انہی برائیوں میں مبتلا تھا،اور جیسے جیسے اسلامی تعلیمات کے نور سے منور ہوتا گیا ان برائیوں سے دور ہوتا گیا۔تو آج کے ترقی یافتہ اور ترقی پسند ماڈرن قسم کے لوگ اسی دھوکےکا شکار ہیںکہ وہ ترقی کی دوڑ میں آگے نکل رہے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اسی دور جاہلیت کی برائیوں اور خامیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں ،لہذا یہ دنیاوی متاع و ترقیاں ایک دھوکہ ہے ، جسے ہمیں سمجھ لینا چاہئے۔ یہاں یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ دور جاہلیت باوجود اس کے کہ وہ اپنے سے پچھلی قوموں میں دنیاوی اعتبار سے آگے نکل گئے تھے جسے ترقی کہا جاتا ہے، تو اس ترقی کے باوجود وہ جاہل ہی کہلائے ،تو آج جدت پسند لوگوں کو بھی کسی گھمنڈ میںنہیں رہنا چاہئے بلکہ وہ جب تک ان برائیوں میں مبتلا ہیں تو وہ سمجھ لیں کہ وہ دور جاہلیت ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔
ذیل میں ہم چند نکات پیش کرتے ہیں، جو یہ واضح کریں گے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور کس حد تک قدیم برائیوں کا شکار ہے۔
zدور نوح علیہ السلام میں والدین کی نافرمانی تھی جیساکہ نوح علیہ السلام کی ان کے بیٹے نے نافرمانی کی۔ اور نوح علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہ کیا، حتی کہ نوح علیہ السلام کے بلانے کے باوجود آپ کے ساتھ کشتی میں سوار نہ ہوا نتیجتاً غرق ہوگیا ۔ (ہود:42، 43 ) نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کی میرا بیٹا غرق نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تیرےاہل میں سے نہیں ، یعنی تیرےاہل میں سے تو تیرے فرمانبردار ہی ہیں۔ (ہود: 45، 46)آج بھی یہ گناہ موجود ہے۔ بلکہ آج یہ قوم اس گناہ میں اس قدر آگے نکل گئی کہ بچوں نے والدین کا قتل تک شروع کردیا ،جیسا کہ 27 اکتوبر 2015ء کی خبر کے مطابق لاہور میں جائیداد کے تنازع پر بیٹے نے مبینہ طور پر ماں اور سوتیلے باپ پر فائرنگ کردی، جس سے دونوں جاں بحق ہوگئے۔
بلکہ ایک خبر تو یہ بھی پڑھنے کو ملی کہ افضل پور میں بیوی کی خوشنودی اور بینک میں جمع رقم کے لالچ میں نا خلف بیٹے نے سوئی ہوئی والدہ کو کلہاڑی کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا اورپولیس تھانہ افضل پور میں ما ں کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ کا مدعی بن گیا ۔
6جنوری 2016 ء کی خبر کے مطابق بہاولپور میں جائیداد کی خاطرظالم بیٹے نے باپ کی جان لے لی۔
یہ تو چند ایک واقعات کی نشاندہی ہے ورنہ سینکڑوں واقعات ہیں جو دل کو دہلادینے والے ہیں ، جبکہ اسلامی تعلیم میں تو والدین کے قتل کا تصور تو کجا اف تک کہنے کی اجازت نہیں ۔ (الاسراء:23 )
zدور موسی علیہ السلام میں گئو پرستی موجود تھی۔ (البقرۃ : 51)
آج بھی موجود ہے۔ ہندو مذہب میں آج بھی گائےماتا معبود کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہندو جتنا بھی دنیاوی علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلے لیکن اس کا سارا شعور و فہم یہاں آکر ختم ہوجاتا ہےجب وہ اس گائے ماتا کا پیشاب تک مقدس مان کر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
zدور ابراہیم علیہ السلام میں سورج چاند ، ستاروں کی پرستش موجود تھی۔(الانعام: 76،77، 78 ) آج بھی سوری، نمسکار کیا جاتا ہے۔ جوکہ دراصل اس کی پوجا کی حیثیت رکھتا ہے۔
zدور ابراہیم علیہ السلام میں پتھروں کی پوجاکی جاتی تھی ۔(دیکھئے: الانبیاء: 57 تا 67 ، ) بلکہ دور جاہلیت میںبھی بتوں کی پوجا موجود تھی۔ آج بھی پتھروں کی پوجا کی جاتی ہے۔ ہندومت اور دیگر مذاہب میں یہ پوجا تو موجود ہے ہی، بلکہ آج کے نام نہاد مسلمان بھی شبیہات بنا کر اسی طرف چل پڑے۔ یا پھر قبر پرستی کی صورت میں بھی پتھر ہی کی پوجا کی جارہی ہے۔
zدور لوط علیہ السلام میں ہم جنس پرستی موجود تھی (الاعراف: 80تا 83، الانبیاء :74، الشعراء : 165، 166، النمل: 54، 55، 56)جوکہ قدیم اور پتھروں کا دور ٹھہرا ،اسلام نے فاعل ومفعول کو سزا جاری کی، اور اس قبیح کام سے روکا، لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی یہ وبا موجود ہے اور 1967 سے اسے بعض ممالک میں باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ بلکہ یہ وبا اب یورپ سے نکل کر اسلامی ممالک میں بھی آگئی ہے۔ اور خود کو مسلمان کہنے والے نام نہاد مسلمان بڑے فخر سے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اس فعل بد کے عادی بنتے جارہے ہیں۔
zدور جاہلیت میں باپ بیٹی اور بھائی بہن کی کوئی تمیز نہیں تھی تو آج بھی ایسا ہورہا ہے۔
zدور جاہلیت میں خود پادری ہی معبود باطل کی حیثیت اختیار کرگئے تھےجیساکہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت کریمہ
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (التوبۃ: 31)
یعنی : انہوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ۔ عدی بن حاتم نے جب یہ سنا تو کہنے لگے اللہ کے رسول ﷺ! ہم نے تو ایسا نہیں کیا تھا ؟؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه ‘‘ (جامع ترمذی: 3095، حسنہ الالبانی )
یعنی : وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ،البتہ پادری جس چیز کو حلال قرار دیتے یہ لوگ اس کو حلال سمجھ لیتے اور جسے حرام قرار دیتے اسے حرام سمجھ لیتے۔
آج بھی یہی صوت موجود ہے اور ایسے شعبدہ باز موجود ہیں جو خود کو سجدے کرواتے نہیں تھکتے۔ اور نادان عوام بس وہ جو کہتے جائیں کرنے کو تیار ہیں۔ خواہ کس قدر ہی خلاف اسلام، اخلاقی طور پر بھی ناجائز ہی کیوں نہ ہو۔
zقدیم دور میں ایک ہندو مؤرخ کے مطابق ہندوؤں کی آبادی سے زیادہ ان کےمعبود تھے ، آج بھی معاملہ ایسا ہی ہے۔ بلکہ مخصوص اعضاء تک کی پرستش کی جاتی تھی ۔ آج بھی ایسی جگہیں موجود ہیں جہاںمخصوص اعضاء کی شبیہ بناکر اس کی پرستش کی جاتی تھی۔
zاخلاقی حالت ایسی تھی کہ ایک عورت کئی کئی شوہر رکھ سکتی تھی آج بھی ایسا ہی ہےکہ بظاہر ترقی یافتہ یورپ میں عورت بوائے فرینڈ کے نام پر جتنے چاہے آشنا بنائے۔ اسے قانونی طور پر بھی اجازت ہے اور نہ ہی اخلاقی اقدار کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
zعرب میں گیارہ قسم کے بھیانک نکاح موجود تھے جو دراصل زناکے مختلف طریقے تھے۔ آج بھی یہ ساری صورتیں موجود ہیں۔
zلڑکی کو زندہ درگور کردینا اور اس کے حقوق کا استحصال دور جاہلیت کا اگر حصہ ہے آج بھی یہ موجود ہے۔
zدور جاہلیت میں جنگلوں میں نکل کر خود کو ایذاء پہنچانا عبادت سمجھا جاتا تھا۔ تو آج بھی خود کو ایذاء پہنچانا ، چیخنا ،چلانا، خود کو پیٹنا اور ماتم کرنا ، چلہ کشی وغیرہ موجود ہے۔
zدور جاہلیت میں جنات کی پرستش کی جاتی تھی تو یہ آج بھی موجود ہے۔
zدور جاہلیت میں مختلف مہینوں کو منحوس سمجھا جاتا تھا یہ آج بھی ہے۔
zدور جاہلیت میں مختلف بتوں کے نام کی نیازیں ، اور جانور چھوڑے جاتے تھے ۔ یہ آج بھی ہے۔
zدور جاہلیت میں اگر خانہ جنگیوں کی مثالیں موجود ہیں تو آج بھی جدید قوم جدید قسم کی خانہ جنگیوں کا شکار ہے۔
zدور جاہلیت میں اگر شراب کے رسیا تھے، تو آج بھی شراب عام ہے حتی کہ مسلم ممالک میں بھی بس ایک لائسنس حرام کو حلال کردیتا ہے۔
zدور جاہلیت میں جوا عروج پر تھا، تو آج کے ماڈرن لوگ میں سمجھتا ہوں کہ دور جاہلیت کے جواریوں سے کہیں زیادہ بڑے جواری ہیں۔ جہاں کھیلوں، انتخابات سمیت ناجانے کس کس چیز اورجوا میں اربوں روپے لٹا دئیے جاتے ہیں۔
zشعر و شاعری میں خواتین سے عشق و محبت کی داستانیں و اور عورت کی نسوانی حسن سے متعلقہ اخلاق سوز شاعری اگر ان کی قدیم تہذیب کا حصہ تھی آج یہی چیز جدت پسند شخص میں بھی موجود ہے۔
اس گفتگو کا ما حاصل یہ ہے کہ اس جہالت کو اسلام نے آکر ختم کیا تھا، شرک کی تاریکی کو نور توحید سے بدل دیا، اور یہی اسلام کا نور ہی اصول روشنی تھا اور ہے، اسلام کی پہلی وحی اقرا نے ہی جہالت کے اندھیروں کوختم کیا تھا۔
آج بھی روشن خیال یورپ یا اس سے متاثر جس مقابلے میں نکل چکے ہیں دراصل وہ جدت نہیں بلکہ قدامت ہے ، جسے وہ پتھر کا دور کہتے نہیں تھکتے ، چاند پر جانے کی باتیں کرنے والوں کو غور کرنا چاہيے کہ ان کے دل کی دنیاتاریک ہے یا روشن اگر تاریک ہے اور اس میں اسلام کی روشنی نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو ظاہری چاند کی روشنی کو پالینا بے کار ،شمعیں روشن کرنے والوں کو بھی یہی کہا جائے گا کہ اگر تیرے دل کی شمع روشن نہ ہو جسے اسلام اور اس کے احکامات نے روشن کرنا تھا ، تو اس روشنی کو حاصل نہ کرسکا تو یہ شمعوں کی روشنی کسی کام کی نہیں۔

Read 1236 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(1 Vote)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in اپریل 2016
حافظ محمد یونس اثری

حافظ محمد یونس اثری

Latest from حافظ محمد یونس اثری

  • عقیدہ آخرت اور سائنس
  • عدل کے رکھوالے
  • شراب تمام جرائم کی جڑ مگر ۔۔۔۔۔!!
  • قربِ قیامت حکمرانوں اور عوام کی عقل و شعور کے فقدان کا منظر
  • بھیانک سازش اور مسلمان!
More in this category: « شام میں فلسطین کی تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے جہنمیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا »
back to top

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2022 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2016