ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں رکھی مغلیہ خاندان کو ایک طویل مدت کے لیے اقتدار ملا، خاندان کے انیس حکمران تخت ہند پر متمکن
ہوئے جذبۂ جہاد کے ساتھ شروع ہونے والی حکومت نے مختلف ادوار دیکھے اور زمام اقتدار سنبھالے ہوئے مغلوں کو تقریباً تین صدیاں ہونے کو آئیں ، قوت وشوکت جذبۂ جہاد کے ختم ہوجانے کی وجہ سے کم ہوتے ہوتے آخر کو یہ نوبت پہنچی کہ اٹھارویں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے عہد میں دائرہ حکمرانی صرف قلعہ معلی تک محدود ہو کر رہ گیا اورایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے پنجے گاڑ لیے تمام اختیارات ان کے پاس مرتکز ہوگئے۔ انیسویں صدی کے اس پُر آشوب دور میں دہلی کو بہت سے جلیل القدر علماء کا مسکن ہونے کا شرف حاصل تھا۔ شاہ عبد العزیز محدث ،شاہ عبد القادر،شاہ رفیع الدین،شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید جیسے اساطین دہلی کو رونق بخشے ہوئے تھے۔ درس وتدریس کی محافل جہاں دہلی میں آباد تھیں وہاں دور ونزدیک کے دوسرے شہروں میں بھی اہل علم علمی خدمات سرانجام دے رہے تھے اس علمی شادابی کے باوجود یہ دور سیاسی،معاشرتی اور دینی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ دور تھا جو لوگ مسلمانوں کی اس حالت سے بہت زیادہ پریشان ہوئے ان میں سرفہرست سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید تھے اسی طرح ان کے رفقائے کرام جو ان کے ساتھ میدانِ عمل میں اترے یہ انتہائی پاکباز لوگ تھے جنہوں نے دو بڑے مقاصد کے تحت تحریک جہاد شروع کی ۔ ایک مقصد یہ تھا کہ لوگ بدعات ترک کر دیں ، ہندوانہ اختلاط کی وجہ سےجو رسومات ان میں گھر کر چکی ہیں اور شرک ان میں رواج پاچکاہے ان سب سے دست بردار ہوکر توحید وسنت پر اپنی زندگی کی بنیادوں کو استوار کریں اس مقصد کے حصول کے لیے سیدین شہیدین قریہ قریہ ،بستی بستی گئے تمام ہندوستان کا دورہ کیا لوگوں کی خاص تربیت کی اور ایک منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ دوسرا بڑا مقصد جو نہایت اہم تھا اور جس کی وجہ سے امت کا درد رکھنے والے حضرات انتہائی اذیت میں تھے وہ تھا اس ملک سے انگریزی اثر ورسوخ کو ختم کرکے استعمار سے آزادی کے لیے باقاعدہ جہاد کی طرح ڈالناوہ جہاد جس کے خلاف ماضی اور حال میں بھی مغرب نے ایسا پروپیگنڈابرپا کیا کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ جہاد کے قائل دوسری قوم کے حق خواردیت کو ماننےسے انکار کرتے ہیں وہ جب چاہیں کسی قوم کو لوٹ لیں ،غارتگری کریں اور پھر اس مفہوم کو سچا ثابت کرنے کے لیے کچھ ایسے جہادی گروہ وجود میں لائے گئے جن میں سے اکثر اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی بے بہرہ تھے وہ ظلم کے رد عمل کے طورپر کھڑے ہوئے مگر جانے اور انجانے میں خود ظالموں کے آلہ کاربن گئے مثال ملاحظہ فرمائیں :
بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی این جی اوCRAکی رپورٹ کے مطابق بھارت داعش کے لیے جدید ترین دھماکہ خیزہتھیار (LEDs)کی تیاری میں استعمال ہونے والے 700 اجزاء تیار کر رہا ہے بھارت داعش کو اسلحے کی سپلائی میں دوسرے نمبر پر ہے،بھارتی جاسوس پاکستان سے پکڑے جارہے ہیں ۔ایران(بھارتی جاسوس) کلبھوشن کےساتھی کو حوالے کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہےمگر ہمارا میڈیا ان سب پہ خاموش تماشائی ہے حکومت کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے بھارت کا میڈیا پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔
کراچی میں امن قائم کرنے والے اداروں کی بدولت لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تو لوگوں کو ماہ فروری میں یہ کہہ کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ گھروں میں راشن جمع کر لیںاہل کراچی تو خوفزدہ نہ ہوئے البتہ بھارتی میڈیا خاکم بدہن اس خبر کو پاکستان کے خاتمے پر محمول کرنے لگا اور وہ دھما چوکڑی مچائی کہ عقل دنگ رہ جائے خیر کمینے دشمن سے یہی توقع ہوسکتی ہے مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دو اہم خبروں پر ہمارا نام نہاد ومحب وطن میڈیا کیوں اتنا خاموش ہے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ خود ایسی خبریں ڈھونڈ کے لاتے ہیں جن سے عوام میں مایوسی پھیلے بعض اوقات تو ایسا لگتا  ہے کہ یہ پڑوسی ملک کا میڈیا ہے یا پھر اس کا کام یہ ہے کہ کسی طرح بے حیائی اور بے لباسی میں پڑوسیوں پر سبقت لے جائیں وہ شاید اس قرآن کو نہیں مانتے جس میں یہ آیت اتری ہے ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ  ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ النور:19)

’’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘۔

لباس کی تشہیر بے لباسی کی ترغیب کے ساتھ کی جاتی ہے اس میں جہاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا شریک ہے وہاں شہری حکومتیں بھی پیچھے نہیں اسی لیے بڑی بڑی شاہراہوں کے اہم اور نمایاں مقامات پہ ایسے ہورڈنگز لگائے گئے ہیں جہاں خواتین کی قد آدم ، نیم برہنہ تصویریں مسلمان معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی عکاسی کررہی ہیں یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اور بات دور نکل گئی بات تذکرہ سیدین سے شروع ہوئی تھی وہ بھولی بسری تحریک جسے غیروں نے بے حد بدنام کیا اور اپنوںنے فراموش،مئی کا مہینہ ان پاکباز لوگوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار کو خیر باد کہا جن کا تذکرہ لکھتے ہوئے اگر میرے لیے ممکن ہوتا تو میں اپنے قلم کو کوثر وتسنیم سے وضو کرواتا میں نفوس مبارکہ کا تذکرہ لکھنے کے لیے اس قلم کی روشنائی کسی شب زندہ دار کے آخری پہر کے آنسوؤں کو بناتا اگر الفاظ کے بغیر جذبات کی عکاسی ممکن ہوتی تو ان صفحات پہ صرف آنسو بکھیر دیتا مگر یہ ممکن نہیںاگرچہ ستم کی داستانوں کا بیاں آساں نہیں ہوتا پھر بھی یہ کام ایک عاجز کوقلم سے ہی لینا ہے کہ شاید خراج عقیدت کے یہ چند الفاظ لکھنے والے کے لیے توشۂ آخرت بن جائیں۔
ان کی للہیت جانثاری قرون مفضلہ کے نفوس قدسیہ کی یاددلاتی ہے وہ دلی ولکھنؤ کے نازونعم میں پلنے والےبانکے جنہوں نے گھر بار کو خیرباد کہا ہجرت کی صعوبیتوںاور تکلیفوں کو صرف اللہ کے لیے گلے لگایا، مجاہدین کا پہلا قافلہ جو پانچ چھ سو مجاہدین پر مشتمل تھا امیر المجاہدین سید احمد شہید اور مولانا شاہ اسماعیل شہید کی قیادت میں 17 جنوری 1826 کو روانہ ہوا سینکڑوں میل کی مسافت طے کرکے سفری صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے راجستان سے ہوتے ہوئے سندھ پہنچے پھر قندھار وکابل سے گزر کر آزاد قبائل کو اپنا مسکن ٹھہرایا یہ قافلہ سخت جان 1826 کے اواخر میں پشاور پہنچا پھر نوشہرہ آئے پوری طرح آرام بھی نہ کرنے پائے تھے کہ سکھوں نے یلغار کر دی بدھ سنگھ نے حملوں کا آغاز کیا اور ساڑھے چار سال تک سلسلہ جہاد جاری رہا پھر بدبخت شیر سنگھ اس سلسلہ ٔ جہاد کے پہلے دور کے اختتام کا سبب بنا اور یوں 6 مئی 1831ء/ 24 ذی القعدہ 1246ھ بروز جمعہ سالار قافلہ سید احمد اور ان کے دست راست مولانا شاہ اسماعیل نے لگ بھگ تین سو رفقاء کے ہمراہ دریا ئےکنہار کے کنارے جام شہادت نوش کیا۔  عجیب سماں تھا یہ پردیسی گھروں سے دور تحریک آزادی اور ظلم کے خاتمے کی کوشش میں استعماری ایجنٹوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن        خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ان کے حق میں سچا ثابت ہوا۔

اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ   ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ  وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ  وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (سورة التوبة:111)

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
یہ زندہ وجاوید لوگ ہیں جن کے متعلق رب رحمن نے فرمایا :

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ  (سورۃ البقرۃ:154)

اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔
یہ ان وفا شعار اور راست باز لوگوں کا پاکیزہ خون تھا جو نظریۂ پاکستان کے پیش ہونے سے بھی ایک صدی پہلے پاکستان کی بنیاد بنا جماعت مجاہدین کا یہ پہلا دور بالا کوٹ کی رزم گاہ شہادت میں ختم ہوگیا۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جو لوگ غلامی کی طویل تیرہ وتاریک رات میں لوگوں کے لیے ستاروں کی طرح چمک کر دلیل راہ بنے مایوسی کے اندھیروں میں اپنی  متاع حیات تک لٹا کر امید کا سامان بہم پہنچایا جن کی جائیدادیں قرق ہوئیں جوانیاں جیلوں کی نذر ہوئیں وہ صبح آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی منظر سے اس طرح غائب ہوئےجیسے شب تاریک میں آسمان پہ ستارے چراغاں کرنے ،زینت بخشنے اور بہار دکھانے کے بعد صبح کے نمودار ہوتے ہی غروب ہوجاتے ہیں حالات کا جبر دیکھیں چاہیے یہ تھا کہ ان محسنین کو یادر کھا جاتا ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتیں جن کی قربانیوں سے غلامی کی رات ختم ہوئی مگر قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے امیر مجاہدین مولانا فضل الٰہی رحمہ اللہ 27 اپریل 1948ء کو وزیر آباد آئے تو انہیں زیر دفعہ 302 ایک ایسے الزام اور مقدمے میں گرفتار کر لیاگیا جو 28 سال پہلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے