اسلام مکمل دستورِ حیات ہے یہ مسلمان کی شخصیت کا ایک مکمل نقشہ بتاتا ہے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں اختیار کرے، کتاب وسنت کے دلائل اور سلف صالحین کے اقوال میں غوروفکر کرے اور ان کی خوب چھان پھٹک کرے پھر اپنی زندگی کی ضروریات اور تقاضوں میں ان کو بنیاد بنائے۔
تمام مسلمانوں کو وقت سے متعلقہ ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کہا وقت کا شمار ان چیزوں میں ہوتاہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا وقت کو بھر پور طریقے سے استعمال کرنا بنیادی ضرورت ہے جو لوگ وقت کی پہچان رکھتے ہیں ان کے ذریعے وقت جیسے اہم وسیلے کی بہت زیادہ اہمیت کی طرف توجہ دلانا ممکن ہے ۔
وقت ایسی قیمتی شے ہے جو چلی جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں لاسکتی نیز یہ محاورات کیا خوب ہیں گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ، آج کا کام کل پر مت ڈال، وقت تلوار کی دھار ہے۔ یہ سب جملے وقت کو بہتر ڈھنگ سے کام میں لانے کے لیے کہے گئے ہیں اگر مسلمان وقت کو اچھے ڈھنگ سے کام میں لائے تو وہ دنیا وآخرت میں کامیاب انسان بن سکتاہے۔
قرآن کریم نے وقت کی اہمیت پر مختلف سیاق وسباق میں خبردار کیا ہے اور اس کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں کچھ یہ ہیں :
العصر (عصر کا وقت ) ، زمانہ
الحین (وقت)
الاجل (موت اور مقررہ وقت)    اور
الامد (دور کا وقت)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے الفاظ ہیں جو وقت کو کسی نہ کسی معنی میں ظاہر کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو زمانے کی قدروقیمت،فوقیت اور اس بلند درجے کی شہادت اور انسانی زندگی میں اس کے بہت زیادہ اثر کو بیان کرتی ہیں۔
سورۃ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ  ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا  ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ    (ابراھیم : 33۔34)

اور اس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے کہ وہ دونوں ہمیشہ اور مسلسل چلتے رہتے ہیں اور اس نے تمہارے لیے دن اور رات کو مسخر کر دیا ہے اور تم نے اس سے جو کچھ بھی مانگا وہ اس نے تمہیں عطا کیا اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم انہیں شمار نہ کر سکو گے بے شک انسان ظلم کرنے والا اور ناشکری کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑی بڑی نعمتوں میں دن اور رات کو بھی بطور احسان کے ذکر فرمایا ہے اور انہی دونوں کو زمانہ کہتے ہیں ۔ ان نعمتوں میں سب سے بڑی اور سب سے عظیم الشام نعمت وقت ہے جو بنیادی نعمتوں میں سے ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھائی ہے اور وقت کی عظمت پر تنبیہ کی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالْعَصْرِ  اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ   (العصر:1۔2)

وقت کی قسم ! بے شک انسان خسارے میں ہے ۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوا :

وَالضُّحٰى   وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى  (الضحی:1۔2)

چاشت کے وقت کی قسم جب ڈھانپ لے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت مقرر اور محدود کر دیاگیا ہے اس سے مسلمان کی زندگی میں وقت کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے ان تمام عبادات میں پانح نمازوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا

بے شک نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں ادا کرنا فرض کی گئی ہے۔‘‘(سورۃ النساء : 103)
یعنی ایک خاص وقت میں اس کا ادا کرنا فرض کیا گیا ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ ان سب باتوں کی پر زور تائید کرتی ہے جو قرآن کریم میں ملتی ہیں رسول کریم ﷺ وقت پر بہت توجہ دیتے تھے وقت مسلمان کے پاس ایک امانت ہے قیامت کے  دن اس کے بارہ میں پوچھا جائے گا قیامت کےدن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر بندے سے چار سوال کیے جائیں گے ان میں سے دو سوالات کا تعلق صرف وقت سے ہے۔

عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
سیدنا ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بھی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیاجائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کی، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا۔ ( ترمذی : 2417)
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسی عبادات کے لیے خاص وقت مقرر ہیں اس وقت میں تاخیر درست نہیں بعض عبادات تو ایسی ہیں کہ اگر ان کو اصل وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں ادا کیا جائے تو وہ عبادت قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر پاتی ان کا وقت سے گہرا تعلق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عبادات کو ان کے وقت پر ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا

أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:الصَّلاَةُ لِوَقْتِهَا

 کون سے اعمال افضل ہیں جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ (بخاری:7534)
نبی کریم ﷺ لوگوں کی نسبت اپنے وقت کے بارے میں بہت زیادہ حساس تھے۔ ان کا کوئی بھی وقت اللہ تعالیٰ کے کام کرنے کے علاوہ نہیں گزرتا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لاتے تو اپنے گھریلو وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے لیے (یعنی آرام کے لیے) پھر اپنے حصے کو اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔‘‘
(بیہقی :1430)
نبی کریم ﷺ تو یہ کوشش فرماتے کہ آپ کا سارا وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں گزر جائے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وقت کی تنظیم اور ترتیب کا اہتمام کریں اور اپنی خصوصی اور عمومی زندگی میں اس کو بلند مقاصد کے حصول کے لیے کام میں لائیں۔ ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنا وقت اس طرح تقسیم کرے کہ عبادات ومناجات میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: ” اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ

 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی شخص کو نصیحت فرما رہے تھے’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے قبل غنیمت سمجھو، بڑھاپے سے پہلے جوانی،بیماری سے پہلے صحت،فقیری ،محتاجی سے پہلے خوشحالی،مصروفیت سے پہلے فرصت اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘( مستدرک حاکم :7846)
رسول اللہ ﷺ اعمال کی ادائیگی صبح سویرے کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔

عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا(ابو داؤد : 6202)

سیدنا صخر الغامدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ اے اللہ میری امت کے لیے صبح کیے جانے والے کام بابرکت بنا دے۔‘‘
سیدنا صخر رضی اللہ تاجر پیشہ تھے وہ اپنے تجارتی سامان کو دن کے ابتدائی حصے میں روانہ فرماتے جس سے وہ انتہائی زیادہ دولت مند ہوگئے(آج ہم اپنا حال دیکھیں کہ دوپہر تک سوتے رہتے ہیں پھر روزی میں بے برکتی کا شکوہ کیسا؟)
اسلام نے وقت کا خیال نہ رکھنے اور ضائع کرنے سے ڈرایا ہے اور اس کے لیے ایسے ضابطے مقرر کیے ہیں جن کی بنیاد پر مسلمان اپنے وقت کی حفاظت کر سکتاہے۔
وقت ضائع کرنے والے امور میں سب سے زیادہ سخت تاخیر کرنا، ٹال مٹول کرنا اور لمبی لمبی امیدیں باندھنا ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’لمبی امیدسے کام میں سستی پیدا ہوتی ہے ، تاخیر اور ٹال مٹول کرنے کی عادت پیدا ہوتی ، فضول مشغولیت (اور نیک عمل سے) پیچھے ہٹنے کا سبب بنتی ہے زمین کی طرف یعنی ذلت کی طرف لے جاتی ہے اور رذالت کے گڑھے میں پھنکتی ہے۔ (القرطبی الجامع لأحکام القرآن : 3010)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ’’جس قدر ندامت مجھے اس دن کے سورج غروب ہونے پر ہوتی ہے اتنی ندامن مجھے کسی دوسرے چیز پر نہیں ہوتی جس دن میری عمر تو کمر ہوگئی ہے اور اس میں کوئی نیک عمل میں اضافہ نہیں کرسکا۔

(الوقت فی حیاۃ المسلم ، ص:13)

قارئین کرام! یادرکھو دنیا میں عمل ہے حساب نہیں ، آخرت میں حساب ہے عمل نہیں ، مسلمانو! اگر چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں روزی میں برکت عطا فرمائے تو چاہیے کہ اسلام کے روز مرہ نظام حیات کے مطابق زندگی گزاری جائے اس نظام کا تقاضا رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے جلدی اٹھنا ہے اور نبی کریم ﷺ کی دعا کا مستحق بنتا ہے۔
دوسروں کے حقوق میں سے کسی کے حق کے ساتھ کوئی ظلم نہ کرے نہ کسی کا حق مارے اور نہ ہی ایک کا حق دوسرے کو دے بلکہ سب کے حقوق اپنے اپنے اوقات میں ادا کرے اسلام ایک مسلمان انسان میں ذاتی نگرانی کا شعور ابھارتا ہے اور اس کی نشوونما کرتاہے۔
مسلمان وقت پر اچھے اعمال کرے تو اسے اجر ملے گا اگر وہ خطا کا ر ہے تو اسے اپنی برائی اور گناہ کی سزا سے دوچار ہونا پڑے گا یہ ایسا شعور ہے جس سے مسلمان اپنے اعمال کو بہت اچھے طریقے اور اخلاص سے وقت پر ادا کرنے کی کوشش کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر وقت نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے