نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
ہر انسان کی چاہت ہوتی ہےکہ اس کے پاس مال ہی مال ہواور دولت مند بنےلیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ انسان سوچتا نہیں ہے کہ مال کو کس طریقہ سے محفوظ رکھے اور مال میں اضافہ کس طریقے سے ہو،الا ماشاء اللہ جو سمجھتے ہیں وہ عمل بھی کرکے دکھاتے ہیں، اللہ انہیں مزید توفیق دے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتاہے کہ میری راہ میں خرچ کروصدقہ کرو ،غریبوں کا خیال رکھو،میں اس کے بدلے تمھیں اور زیادہ دوں گا ،بظاہر تو مال گھٹتا نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت ڈال کر اضافہ فرماتا ہے جس کا تصور انسان نہیں کرسکتا،سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ مجھے اپنی زندگی میں دولوگ تلاش کر نے سے بھی نہیں ملے ایک وہ جو صدقہ کرنے کے باوجود مفلس نہیں ہوا دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور سزا نہ ملی ہو،یعنی صدقہ کرنے سے کبھی بھی، کوئی شخص مفلس، ناکارہ،بے سہارا نہیں ہوتا بلکہ وہ امیر ہوتا چلا جاتا ہے، بساوقات انسان اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہے تو اللہ اس کے بقیہ مال میں برکت ڈالتا ہے اور آ نے والی آفات، بیماری،تنگدستی دور کردیتا ہےاور انسان خوشگوار زندگی گزارتا ہے۔ذیل میں کچھ ایسے واقعات درج کئے ہیں جنہیں آپ غور سے سے پڑھیں اور اپنی زندگی کو تبدیل کریں دراصل یہ واقعات حقیقت پر مبنی ہیںاگر کوئی توجہ دے اور لوگوں کی اصلاح کرے۔
واقعہ نمبر 1
بھائی جان میں نے تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی دُکان خرید لی ہے،جمعہ 26 جنوری کو جب شرجیل نے لاہور سے فون کیا تو اتنا جوش وخروش میں تھا کہ میرا حال احوال دریافت کرنا بھی بھول گیا۔ پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟کراچی میں” میں نے جواب دیا ۔ دو دن بعد لاہور پہنچوں گا۔
بولا ” لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کیجئے گا” میں نے حامی بھر لی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کامیانی پر مجھے اطمینان قلب محسوس ہوا۔دس سال قبل شرجیل نے ” ایم ایس سی” کر لی تو خاندانی حالات کے باعث جاب یا بزنس اس کی شدید ضرورت تھی، شرجیل ایک روز کہنے لگا بھائی جان کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل بتائیں کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاؤںمیں نے توقف اور غوروخوض کے بعد کہا تین دن بعد میں اسلام آباد جا رہا ہوں میرے ساتھ چلنااور پھر ہم بزرگ دوست “قاضی صاحب” کے پاس گئے۔ قاضی صاحب حکیم اور روحانی دانشور ہیں۔
قاضی صاحب کو مسئلہ بتایا تو بڑے اطمینان سے مسئلہ سنتے رہے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی تو بولے شرجیل صاحب آپ حوصلہ مند دکھائی دیتے ہیں۔آپ دو کام کریں کوئی چھوٹا موٹا دھندا کرلیں اور دوسرا یہ کہ جو بھی کریں اس میں اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ بزنس پاٹنر بنالیں۔ شرجیل نے میری طرف اور میں نے شرجیل کی طرف حیرت سے دیکھا۔ قاضی صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ” یہ کام مردوں کا ہے ، صرف عزم با لجزم رکھنے والا مرد ہی کر سکتا ہے اگر کاروبار کے نیٹ پرافٹ میں پانچ فیصد اللہ تعالیٰ کا شیئر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری نہ کریں تو لازما ًآپ کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔واپسی پر لگتا تھا شرجیل اس پر عمل نہیں کرے گا لیکن اس نے کمال حیرت سے عمل کر دکھایا”مجھے یاد ہے یہ 1997 کا سال تھا ،اس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ تھا،اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایااسی ایک ہزار روپے سے اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انار کلی بازار میں ایک شیئرنگ سٹال پر رکھ دیےدو دن میں تین سو روپے پرافٹ ہوا تھا۔ تین سو روپے میں سے اس نے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کی راہ میں دے دیئے تھے،پھر اور سوٹ خریدتا اور اصل منافع میں سے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کے نام کا شیئر مخلوق پر خرچ کرتارہا۔یہ پانچ پرسنٹ بڑھتے بڑھتے چھ ماہ بعد 75 روپے روزانہ کے حساب سے نکلنے لگے یعنی روزانہ کی آمدنی تقریبا سات سو روپے ہو گئی ایک سال بعد ڈیڑھ سو روپے ، تین سال بعد روزانہ پانچ پرسنٹ کے حساب سے تین سو روپے نکلنے لگے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ تین سال بعد اسے روزانہ چھ ہزار بچنا شروع ہو گئے تھے۔ اب سٹال چھوڑ کر اس نے دوکان لے لی تھی۔ جب فون آیا تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ اب روزانہ پانچ پرسنٹ کتنا نکل رہا ہے؟اس نے بتایا کہ روزانہ ایک ہزار نکل آتا ہے جو خلق خدا پر خرچ کر دیتا ہوں ۔ گویا اب آمدنی روزانہ بیس ہزار روپے ہے۔
یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالی کے ساتھ ” بزنس” میں اس نے آج تک بےایمانی نہیں کی قاضی صاحب نے بتایا تھا کہ جس کاروبار میں اللہ تعالی کو پارٹنر بنالیا جائے یعنی اللہ تعالی کی مخلوق کا حصہ رکھ لیا جائے وہ ہمیشہ پھلتا پھولتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کے اندر تکبر نہ ہو ” عاجزی ہو” انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ کاروبار اتنا چل نکلتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب بندہ سوچتا ہے ، میرا کافی روپیہ لوگوں میں مفت میں تقسیم ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ دولت مند بننے کا یہ نسخہ انہیں بزرگوں سے منتقل ہوا ہے اور کبھی بھی یہ نسخہ ناکام نہیں ہوا ماشاء اللہ
ہماری زبان میں اصطلاح ہے ” دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا”آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین افراد کا کیا وطیرہ ہے۔
واقعہ نمبر 2
51 سالہ ٹی وی میزبان ” اوہراہ دنفرے ” ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی مالک ہے وہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر بے سہارا بچوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہےدولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اٹلی کے سابق وزیراعظم “سلویابرلسکونی” اپنے ملک کے سب سے امیر اور دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ مشہور زمانہ فٹبال کلب ” اے سی میلان” انہی کی ملکیت ہے۔ وہ دس ارب ڈالر کے مالک ہیں ، سالانہ تقریبا پانچ کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔کمپیوٹر پرسنیلٹی ” بل گیٹس” اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ہیں ان کی دولت کا اندازہ 96 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، وہ اپنی آرگنائزیشن “بل اینڈ اگیٹس فاونڈیشن” کے پلیٹ فارم سے سالانہ 27 کروڑ ڈالر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیںدولت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔
مشہورومعروف یہودی’’جارج ساروز‘‘  دس ارب ڈالر سے زائد کے مالک ہیں ہر سال دس کروڑ ڈالر انسانی فلاحی اداروں کو دیتے ہیںدولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور جہاں تذکرہ دولت وثروت کا ہوتو اس وقت مکمل نہیں ہوتا جب تک یہودی قوم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔
قارئین کرام کےلئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ صرف ایک کروڑ یہودی دنیا کی 60 پرسنٹ دولت کے مالک ہیں جب کہ چھ ارب انسان 40 پرسنٹ دولت پر تصرف رکھتے ہیں۔ نیز انٹرنیشنل پرنٹ اور میڈیا کے اہم ترین 90 پرسینٹ ادارے ان کے ہیں مثلاآئی ایم ایف،نیویارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ریڈرزڈائجسٹ، سی این این، فاکس ٹی وی، وال سڑیٹ جرنل، اے ایف پی، اے پی پی،ا سٹار ٹی وی کے چاروں سٹیشن یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ شاید ہم میں سے چند ایک نے ہی اس بات پر غور کیا ہوکہ یہودیوں کی دن دوگنی رات چوگنی دولت بڑھنے کا راز کیا ہے؟
عقدہ یہ کھلا کہ ہزاروں سال سے یہ قوم اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ ہر یہودی اپنی آمدنی کا 20 پرسنٹ لازمی طور پر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتاہے۔
واقعہ نمبر 3
پاکستان میں ایک مثال منشی محمد کی بھی ہےآپ بہت غریب تھے، بڑی مشکل سے گزربسر ہوتی تھی ایک دن آپ نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی آمدنی کا 4 پرسینٹ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کروں گاآپ بازار میں کھڑے ہوکر کپڑا بیچنے لگے اور باقاعدگی سے اپنے منافع کا 4 پرسینٹ اللہ کے بندوں پر خرچ کرنا شروع کردیاکچھ عرصہ بعدآپ نے ایک پاور لوم لگالی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے فیکٹری کے مالک بن گئے۔ آپ نے اپنے منافع کے 4 پرسنٹ کو مستحق مریضوں پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور ایک دن ایسا بھی آیاکہ منشی محمد نے چار کروڑ روپے کی لاگت سے منشی محمد ہسپتال لاہور بناکرحکومت کے حوالے کر دیا، اس ہسپتال کا افتتاح جرنل محمد ضیاالحق نے کیا تھا۔
واقعہ نمبر 4
کتابوں میں لکھا ہے کہ سیدناموسیٰ علیہ اسلام کے زمانے میں دو بھائی تھے جنہیں ایک وقت کا کھانا میسرآتا تھاتو دوسرے وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن انہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کی خدمت میں عرض کیاآپ جب کوہ طور پر تشریف لے جائیں تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کہ ہماری قسمت میں جو رزق ہے وہ ایک ہی مرتبہ عطا کر دیا جائے تاکہ ہم پیٹ بھر کر کھالیں” چنانچہ بارگاہ الٰہی میں دعا قبول ہوئی اور دوسرے دن انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعے تمام رزق دونوں بھائیوں کو پہنچا دیا گیا،انہوں نے پیٹ بھر کر تو کھایا لیکن رزق خراب ہونے کے ڈر سےانہوں نےتمام رزق اللہ تعالیٰ کے نام پر مخلوق خدا میں تقسیم کر دیا۔ اگلے دن پھر ملائکہ کے ذریعے انہیں رزق مہیا کر دیا گیاجو کہ شام کو پھر مخلوق خدا میں تقسیم کر دیا گیا اور روزانہ ہی خیرات ہونے لگی۔
سیدنا موسیٰ uنے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا یا باری تعالی ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں تو تھوڑاسا رزق تھا۔ پھر یہ روزانہ انہیں بہت سا رزق کیسے ملنے لگ گیا؟
ندا آئی موسیٰ جو شخص میرے نام پر رزق تقسیم کر رہا ہے اسے میں وعدے کے مطابق دس گنا رزق عطا کرتا ہوں۔ یہ روزانہ میرے نام پر خیرات کرتے ہیں اور میں روزانہ انہیں عطا کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
“جو شخص میرے نام پر ایک درہم خیرات کرتا ہے اس میں دس درہم عطا کرتا ہوں۔ جو ایک بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے ، اسے دس کا کھانا ملتا ہے۔ اپنے رزق کو بڑھاؤ۔ گھٹاؤنہیں‘‘
یہ شنید نہیںدید ہے کہ اصل منافع میں سے پانچ فیصد ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والا بہت جلد دولت مند بن جاتا ہے۔
حرف آخر : آج ہمارے پاس مواقع بہت ہیں لیکن ہم اپنے ہاتھوں سے نکال دیتے ہیں ۔ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی کمائی میں سے 2، 3، 4، 5یا10 فیصد اللہ کے لئے مقرر کریں،پھر آپ خود اپنی کامیاب زندگی دیکھیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے