ترجیحات ہماری دنیاوی اور اخروی دونوں زندگیوں کی کامیابی اور ناکامی میں اہم ترین کردار ادا کر تی ہیں،اس لیے درست ترجیحات کا تعین ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے۔میرے خیال میں ہر شخص اپنی اور اپنے متعلقین کی ترجیحات کے تعین کا ذمہ دار ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ:
” کُلُّکُم رَاعٍ وَ کُلُّکُم مسئول عن رعیتہ”
’’تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے جس سے اس کے ریوڑ کے بارے میں پرسش کی جائے گی‘‘
گویا ترجیحات کا تعین دراصل تربیت کا دوسرا نام ہے اور یہ تو طے ہے کہ تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہیں،تربیت کے بغیر تعلیم اس طرح ہے جیسے خوشبو کے بغیر پھول۔ بطور استاد میں طالب علموں سے اکثر ان کی ترجیحات کے بارے میں پوچھتی رہتی ہوں تاکہ ان کے جوابات کی روشنی میں باتوںباتوں میں ان کی درست ترتیب کرسکوں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اکثر والدین اور اساتذہ کرام اپنی اس اہم ترین ذمہ داری سے غافل ہیں۔
میں ہر سال نئی آنے والی طالبات سے کہتی ہوں کہ وہ اپنی ترجیحات کو ترتیب سے بتائیں کہ وہ محبت کے اعتبار سے پہلے تین نمبروں پر کسے رکھتی ہیں؟تو ان کی ترتیب میں عموماً تین رشتے ہوتے ہیں
(۱)ماں،باپ،بہن بھائی
(۲)باپ،ماں،بہن بھائی
(۳)ماںباپ،بہن بھائی، استاد،دوست وغیرہ وغیرہ۔
یعنی محبت میں ان کی ترجیحات کی ترتیب میں ماں، باپ، بہن،بھائی یا زیادہ سے زیادہ استاد اور دوست شامل ہوتے ہیں تو میں انہیں پیار سے سمجھاتی ہوں کہ محبت میں ہماری ترتیب یوں ہونی چاہئیے ۔
1-آپ نے جن رشتوں کا ذکر کیا ہے،یہ سب رشتے تخلیق کرنے والی ،ہمارے دلوں میں ان رشتوں سے محبت پیدا کرنے والی پاک ذات خالق کائنات ،رب کائنات کی ہے اس لئے محبت کی فہرست میںہماری پہلی ترجیح انعامات کی بارش کرنے والے خالق وباری تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیئے ۔
2-اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر،رسول،انبیائے کرام علیہم السلام سے محبت کا ہماری ترجیحات میں دوسرا نمبر ہونا اس لئے ضروری ہے کہ انہی ہستیوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی پہچان سکھائی،ان کی تعلیمات نے ہی ہمیں جینا سکھایا۔انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ محبت کیا ہے اور کس سے کتنی محبت کرنی ہے؟سارے انبیائے کرام علیہم السلام پر بالعموم اور خاتم الانبیاء رسول اکرمﷺ جیسے مشفق ومہربان نبی جو امّت کی خاطر راتوں کو آہ وزاری فرماتے تھے ،سے بالخصوص محبت کرنا ہمارا فرض ہے ۔
3-صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وسلف صالحین سے محبت کریں جن کی قربانیوں اور محنتوں کی وجہ سے دینِ اسلام ہم تک پہنچا۔
4-اپنے والدین سے محبت کریں،جنہوں نے تکالیف برداشت کرکے آپ کی پرورش کی۔
5-ماں،باپ،بہن،بھائی،بیوی،شوہر،اولاد یعنی اپنے محرم رشتہ داروں سے محبت کریں جو ہر مشکل وقت میں آپ کے کام آتے ہیں۔اپنے والدین،دیگر بزرگوںکی خدمت ودیکھ بھال،اپنے بیوی،بچوں،شوہراور دیگر محرم رشتہ داروں سے حسنِ سلوک،ان کے نان ونفقہ،دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
بعض لوگ گھر سے باہر حسنِ اخلاق کے مجسمے اور سخاوت کے پیکر کے طور پر پہچانے جاتے ہیںلیکن گھر میںداخل ہوتے ہی ــ”ہٹلر” بن جاتے ہیں۔حالانکہ اس کے اپنے اہل وعیال اوررشتہ دار ان کے حسنِ سلوک اور سخاوت کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔جیسا کہ حدیث مبارک ہے کہ:
“جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے اپنے رشتہ داروں سے حسن ِ سلوک کرنا چاہئے “(بخاری ومسلم)
٭ہر رشتے سے اہمیت کے اعتبار سے محبت کرنا ہمارا فرض ہے۔ہمارے دین اسلام نے ہمیںسکھایا ہے کہ جب آپ زکوٰۃ اورصدقات دینے لگیں یامال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے لگیںتو آپ کی پہلی ترجیح ضرورت مند رشتہ دار ہونے چاہیئیں۔اگر رشتہ داروں میںکوئی آپ کی مدد کا محتاج نہ ہوتو پھر پڑوسیوں کو ترجیح دی جائے گی ۔اگر پڑوسی بھی خوشحال ہوںتو اپنے علاقہ اور شہر کے ایسے ضرورت مندوں کو ترجیح دی جائے گی جو ضرورت مند تو ہیںمگر کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ہمیں یہ بھی سکھادیا گیا کہ صدقات وزکوٰۃ دیتے وقت مسلمانوں کو ترجیح دی جائے گی۔
٭ایثاروقربانی کا درس دیتے ہوئے ہمیں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ جب ایک ہی جگہ یا موقع پر ایک سے زیادہ ضرورت مندہوں توآپ اپنی ضرورت کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی یا بہن کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیں۔جیسا کہ ایک غزوہ میںایک سے زیادہ مسلمان مجاہدین زخمی حالت میںپڑے تھے۔ایک زخمی نے پکارا “پانی”۔ پانی پلانے والا پانی لے کر اس زخمی کے پاس پہنچا تو دوسرے زخمی کی آواز آگئی “پانی”۔ پہلے زخمی نے پانی پلانے والے سے کہا،پہلے میرے اس بھائی کو پانی پلادو۔ وہ دوسرے زخمی کے پاس پہنچا تو ایک تیسرے زخمی نے کہا “پانی”۔ دوسرے زخمی نے کہا پہلے اس بھائی کو پانی دے دو۔ وہ پانی لے کر تیسرے زخمی کے پاس چلا گیا۔ اس نے کہا جس نے مجھ سے پہلے پانی مانگا تھا، اسے پہلے پانی پلائو۔ پانی پلانے والا پہلے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا تھا۔ وہ دوسرے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ بھی جامِ شہادت نوش کرچکا تھا۔ وہ تیسرے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے ایثاروقربانی کی ایک لازوال داستاں رقم کرچکا تھا۔
٭ہمیں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ دوست بناتے وقت،رشتہ داری قائم کرتے ہوئے ہمیں”دین داری” اور سیرت واخلاق کو ترجیح دینی چاہئے۔قرآن مجید میں سورۃالعصر میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کس قدر خوبصورتی سے ہمیں “انتخاب”کا معیار بتایا ہے۔
وَالْعَصْرِ،اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ(العصر:1-2)
’’ زمانے کی قسم ، بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے‘‘
سب سے پہلے قسم کھائی،پھر اپنے پیدا کردہ انسان کی مجموعی حقیقت اور قلعی کھولتے ہوئے بیان فرمایاکہ”بے شک انسان خسارے میں ہے”
اپنا نقصان خود کررہا ہے۔پھر وضاحت کردی کہ گھاٹے کا سودا کرنے والے انسانوں میں ایسے بھی ہیںجو اللہ کی توفیق سے گھاٹے کا سودا کرنے والوںمیںشامل نہیں ہیںکیونکہ ان کی اولین ترجیح رضائے الٰہی کا حصول ہے۔یہ وہی لوگ ہیں ہیں جو”دائمی نفع”کمارہے ہیں۔وہ یہ لوگ ہیں:الاالذین اٰمنواوعملواالصلحٰت یعنی جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال کئے۔ان کی پہچان یہ ہے کہ انہوں نے کفروشرک کے راستے کی بجائے توحید اور ایمان باللہ کے راستے کو ترجیح دی ۔انہوں نے اقرارباللسان صرف زبانی اقرار نہیں کیا بلکہ تصدیق بالقلب یعنی دل سے تصدیق بھی کی۔انہوں نے صرف اللہ ہو،اللہ ہو یا مجھے اللہ سے “محبت” ہے “محبت” ہے کی گردان نہیں کی بلکہ اپنے اعمال وکردار کو اللہ کی پسند کے “سانچے”میں ڈھالتے ہوئے سرتاپا “مسلمان” اور”مٔومن” بن گئے۔گویا ایسے لوگوں سے دوستی اور رشتہ داری قائم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ مشہور آزمودہ مقولہ ہے کہ:”انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے”۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:
“قابلِ رشک ہے وہ محبت جس میںتم کسی ایسے کو پالو جو تمہارے ایمان کو مضبوطی بخشے اور تمہیں صالح بنادے”
ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ”ادخلوافی السلم کافۃ”یعنی دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو”
لہٰذا ہمیں شکل وصورت کی بجائے سیرت وکردار کو ترجیح دینی چاہئے۔بقول شاعر؎
سیرت نہ ہوتو عارض ورخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
ایک پنجابی شاعر کے الفاظ میں:؎
 سوہنی صورت تے عاشق ہونا ایہہ کیہڑی وڈیائی      عاشق بن توں اس سوہنے دا جس ایہہ شکل بنائی
٭آج کل فیس بُک اور سوشل میڈیا پر “دوستی” کا بڑا چرچا ہے۔دوستی کی آڑ میں بڑا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔”دین” اور “محبت”کے نام پر مقدس رشتوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔اس لئے پیاری بیٹیو،بہنو!آپ سے گزارش ہے کہ ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو آپ سے محبت کے نام پر گفتگو کرتا ہے،آپ کی آواز کی تعریف کرتا ہے،آپ کو ایک “آئیڈیل شخصیت” قرار دیتا ہے۔آپ سے شادی کا وعدہ کر رہا ہے لیکن شادی سے پہلیـ اپنی ” مستقبل کی بیوی ” کو جاننا چاہتا ہے۔ آپ کی تصویر دیکھنا چاہتا ہے ،تومحتاط رہیں۔ اسلام نے شادی کا پیغام بھیجنے کے بعد لڑکا، لڑکی کو ولی کی اجازت سے محرم کی موجودگی میںصرف ایک نظر دیکھنے کی اجازت دی ہے۔
میری عزیز بیٹیو!زندگی کے اس اہم ترین معاملہ میں بھی اپنی ترجیحات کا تعین کرلیں۔ “عزت” آپ کی سب سے بڑی ترجیح (Demand)ہونی چاہیئے کیونکہ جو آپ کی عزت کرے گا وہ آپ سے محبت اور پیار بھی کرے گا۔اپنے جیون ساتھی کے طور پر ایسے شخص کا انتخاب کریں جو “دین دار” ہو،غیرت مند ہو۔کیونکہ محبت ہوجانا یا مل جانا اہم نہیں ہوتا،محبت کو زندہ رکھنا اور عزت دینا اہم ہوتا ہے،تبھی رشتے بنتے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ غیرت مند شخص اپنی محبت کو دوام بخشنے کے لئے باقاعدہ “نکاح”کا پیغام بھیجے گا۔آپ کو اپنے گھر کی “عزت “بنا کر لے جائے گا ۔
٭عزیز بھائیو،بیٹو! نکاح “آدھا دین “ہے۔اسلام محبت کے خلاف نہیں، اگر کسی لڑکی سے محبت کرتے ہیں اسے اپنی عزت بنائیں نہ کہ غلط راستے پر چلیں۔
اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ:”اسلام نکاح کے لئے کسی کو پسند کرنے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن نکاح سے پہلے محبت کی نہیں،اصل محبت نکاح کے بعد ہوتی ہے۔”
لہٰذا اظہار محبت کرنے والے سے مطالبہ کریں کہ وہ فوراً شرعی طریقہ سے آپ کے والدین کے پاس رشتہ بھیجے۔اگر وہ آئیں،بائیں،شائیں کرے تو اسے ہمیشہ کے لئے دوستوں کی فہرست سے نکا ل دیں Unfriendکر دیں کیونکہ اسلامی اور مشرقی معاشرہ میںBoy friendاورGirl freind کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ “بیوی”اور”شوہر” کارشتہ “Best friend” کا رشتہ ہوتا ہے۔سو اپنے آپ کو،اپنی خوبصورتی کواپنے “شریکِ حیات” کے لئے “مخصوص” رکھیںکیونکہ باحیا اور با کردار لڑکیوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔
میں عورت ذات ہوں
مجھے بے باکی نہیں جچتی
تمہارے سنگ چلنا ہے
مگر شریعت کے اصولوں پر
—————-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے