دین اسلام زندہ اور مردہ بھائیوں سے خیر خواہی کا درس
دیتاہے سرراہ کسی مسلمان سے ملاقات ہوجائے تو اسے السلام علیکم کہو جب بیمار ہوجائے تو تیمار داری کرو ار جب فوت ہوجائے تو اسے غسل دو کفن پہناؤ، جنازہ پڑھو اس کے لیے دعائے مغفرت کرواور باعزت جگہ میں دفن کرو کچی قبر کو بالشت بھر اونچا رکھو قبر پر کھڑے ہوکر دعائیں مانگو تاکہ میت کی پہلی منزل آسان ہوجائے۔
قرون اولی تک قبریں کچی تھیں فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا تو نومسلموں کی تعداد میں اضافہ ہوا تعلیم و تزکیہ کے فقدان کی بنا پر روحانی لحاظ سے تدریجی زوال شروع ہوا مصر کی عبیدی (فاطمی) حکومت کا اثر روسوخ بڑھاتو اس دوران دیگر علاقوں کے علاوہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بھی قبروں پر قبے اور گنبد تعمیر ہوئے عوام الناس نے ان پر شرکیہ رسوم شروع کردیں۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نے دعوت والارشاد کی تحریک چلائی آل سعود اس سے متاثر ہوئے ۔ سلطان ابن سعود نے حجاز پر قبضہ کرنے کے بعد قبروں پر قبے اور گنبد مسمار کردیےلیکن قبروں کی بے حرمتی نہیں کی ۔
سلطان نورالدین زنگی کا دور حکومت تھا جب روضۃ النبی ﷺ میں سرنگ کا واقعہ 557 ھجری میں ہوا اس کے چالیس سال بعد مفسدین نے شیخین کی قبروں کو بے حرمت کرنے کا ارادہ کیا تو رب تعالی کا قہر نازل ہوا اور وہ زمین مین دھنس گئے اس واقعے کی تفصیل کے لیے درج ذیل کتب کی طرف رجوع کریں ۔
1-گنبد خضراء ازمحمد معراج الاسلام صدر مدرس محمدیہ غوثیہ بھیرہ(سرگودھاص:257،258) ناشر ضیاء القرآن پبلشرزلاہور۔
2-فیضان روضۃ النبی ﷺ از مولانا اسحٰق حقانی مدیر ماہنامہ محاسن اسلام ملتان ۔ ناشر ادارہ تالیفات اشرفیہ چوک فوارہ ملتان پاکستان، ص:99تا100
چالیس مفسرین نے سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی قبروں کی بے حرمتی کرنے کا صرف ادارہ کیا تو زمین نے ان کو نگل لیا، سوچنے کا مقام ہے کہ اگر آل سعود نے قبروں کی بے حرمتی کی ہوتی تو ان کو حجاز کی زمین پر حکومت کیوں کر حاصل ہوگئی؟
درحقیقت آل سعود نے خاتم النبیین ﷺ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔
نَهَى أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ أَوْ يُبْنَى عَلَيْهِ(مسند أبي داود الطيالسي (3/ 341)
’’نبی مکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ اس سے قبر وں گچ کی جائے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جائے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جائے ۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تین کام حرام ہیں، قبروں کو پختہ بنانا قبروں پر عمارت تعمیر کرنااور قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا(مشکوٰۃ باب الدفن )
أَبْعَثُكَ فِيمَا بَعَثَنِي " رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي أَنْ أُسَوِّيَ كُلَّ قَبْرٍ، وَأَطْمِسَ كُلَّ صَنَمٍ(مسند أحمد ط الرسالة (2/ 100)
’’ابو ہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو ا س کا م پر نہ بھیجوں جس پر مجھ کو رسول اکرم ﷺ نے بھیجا تھا وہ کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑو مگر مٹادو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر ا س کو برابر کردو‘‘
وَرَأَى ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فُسْطَاطًا عَلَى قَبْرِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ:انْزِعْهُ يَا غُلاَمُ، فَإِنَّمَا يُظِلُّهُ عَمَلُهُ(صحيح البخاري (2/ 95)
’’ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالرحمٰن کی قبرپر قبہ خیمہ دیکھا پس آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے اس کو علیحدہ کردو کیونکہ ان پر ان کے عمل سایہ کررہے ہیں‘‘
مذکورہ احادیث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قبر پر عمارت بنی ہوئی ہو تو اس کو مسمار کرنے میں حرج نہیںاور اونچی قبروں کو سطح زمین سے بالشت بھر رکھ کر درست کرنا چاہیے۔
سلطان ابن مسعود نے مکہ مکرمہ میں اجلاس طلب کیا جس میں دنیا بھر کے نامور علماء کرام کو مدعو کیاگفت وشنید اور بحث ومباحثہ کے بعد عالم اسلام میں نفرت کی لہر محبت میں تحلیل ہوگئی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں مدفون صحابہ کرام و اہل بیت عظام کی زیارت کرنے پر کوئی قدغن نہیں، قبور سطح زمین سے بالشت بھی اونچائی میں ہیں اور موقع کی مناسبت سے مختلف احاطوں میں منقسم ہیں جن کے دورمیان گزرگاہیں بنی ہوئی ہیںحفاظت اور احترام کی خاطر ان کے اردگرد خاردار تار لگی ہوئی ہے جن کے باہر کھڑے ہوکر زائرین مسنون دعائیں پڑھتے رہتے ہیںان پر کوئی پابندی نہیں البتہ احاطہ کے اندر داخل ہوکر قبروں کی مٹی اٹھانے کی اجازت نہیں لمحہ فکریہ ہےجنت البقیع میں لاکھوں کے مجمع کواندر گھس کر قبروں سے مٹی اٹھانے کی اجازت دی جائے تو اس سے قبروں کا تقدس بحال رہے کا یا بے حرمتی ہوگی؟
ارباب علم ودانش کے نزدیک یقیناً بے حرمتی ہوگی، صحابہ کرام واہل بیت عظام نے توحید وسنت کی سر بلندی کے لیے تن من دھن قربان کردیا اللہ نے ان کی قبروں کی بے حرمتی کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنادیا اور جنہوں نے تحفظ وادب و احترام کو بحال کیا ان کو استحکام نصیب ہوا۔