تحفظ نسواں بل 2016ء پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے جب سے پاس ہوا ہے، اس کی مخالفت اور حمایت نہایت شدومد سے جاری ہے۔
مخالفت کرنے والے بلاتفریق مسلک ومشرب علمائے کرام اور تمام دینی جماعتیں ہیں، کسی بھی مذہبی مکتب فکر کی حمایت اس کوحاصل نہیں ہے۔
حمایت کرنے والے کون ہیں؟ایک تو اس کے بنانے والے، اور وہ ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے امن وامان سے متعلق خصوصی یونٹ،خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں، انسانی حقوق کے کارکن اور پنجاب اسمبلی کی خواتین رکن۔ (روزنامہ نوائے وقت ۲۱مارچ ۲۰۱۶،مضمون شہزاد خالد)
ان میں دیکھ لیجئے، ایک بھی عالم دین یا ایسی شخصیت نہیں ہے جسے علوم دینیہ میں مہارت یاکم ازکم شناسائی ہی ہو۔
حمایت کرنے والوں کی دوسری قسم وزراء ،ودیگر وابستگان حکومت اور ان اراکین اسمبلی پر مشتمل ہے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل تعلیمی اداروں میں رقص وسرور کی محفلوں کے انعقاد کے خلاف پاس ہونے والے بل کی مخالفت کرکے اس کوختم کروادیاتھا اور ان حیاباختہ پروگراموں اور بے ہودگیوں کو جاری رکھنے پر اصرار کیا اور اسے ’’حق‘‘ تسلیم کروایا۔ اس سے ان اراکین کی اسلام سے وابستگی کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
تیسری قسم ان خواتین کے ہے جنہوں نے این ،جی اوز(غیرسرکاری تنظیمیں) قائم کررکھی ہیں ،جن کا مقصد ہی مسلمان عورت کو بے پردہ کرکے اور بے حیابناکر مردوں کے دوش بدوش کھڑاکرنا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اپنی اسلامی خصوصیات سے محروم ہوکر مغربی تہذیب کو اپنالے۔
اسلامی معاشرے کی اصل خصوصیت کیاہے؟ عورت تعلیم کے ساتھ ساتھ حیاوعفت کےجذبہ وتصور سے آراستہ ہو،اور اپنی فطری خصوصیات اور فطری مقاصد کے مطابق گھر کی چاردیواری کے اندرامورخانہ داری،خاوند کی خدمت و اطاعت ،بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم وتربیت وغیرہ سرانجام دے ۔یاپھر ان کے ساتھ جزوی طور پر ایسے کام کرلے جن میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو، جیسے پرائمری اسکول میں ٹیچنگ، بطور لیڈی ڈاکٹرمریض عورتوں کا علاج وغیرہ۔
مغربی تہذیب کیا ہے جس کے فروغ کےلئے مذکورہ تنظیمیں سرگرم ہیں، اور جس کے لئے ان تنظیموں اور ان کے بانیوں کومغرب کے استعماری اور اسلام دشمن ممالک یاتنظیموں کی طرف سے بھاری مقدار میںفنڈز مہیا کیے جاتے ہیں؟
وہ تہذیب یہ ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کو معاشی مشین کا کل پرزہ بننا چاہئے وہ گھر کی چاردیواری کوخیربادکہہ کرملوں،فیکڑیوں میں کام کرے،دفتروں میں کلرک اختیار کرے یا افسروں کی بانہوں میں جھولے۔ راتوں کوکلبوں میں مردوں کےساتھ ڈانس کرے اور ہر وہ کام کرے جو اسلام میں اس کےلئے ناپسندیدہ ہے،لیکن مغربی تہذیب میں پسندیدہ ہے۔ جیسے بے پردگی ،نامحرم مردوں کے ساتھ بے باکانہ اختلاط، مردوں کے ساتھ دوستی اور ان کے ساتھ سیرسپاٹا وغیرہ۔
یہ خواتین اس بل کی حمایت کیوںنہیں کریں گی۔ اس بل نے تو ان کی آرزؤں اورمقاصد کے ہفت خواں کو ایک ہی جست میں طے کرادیا ہے۔ اگرخدانخواستہ ی بل واقعی نافذ ہوگیا تو پاکستان میں بھی مغرب کی طرح خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکاراو ر عورت یکسر غیرمحفوظ ہوجائے گی۔ اس مقصد کی حصول میںمغرب اپنی ایجنٹ خواتین کے ہزار جتن کے باوجود، ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ لیکن حکومت پنجاب مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے جس طرح پہلی جماعت ہی سے انگریزی مسلط کرکے مغرب کے طوق غلامی کو ہر مسلمان بچے کے زیب گلو کردیا ہے۔ اب مسلمان عورت کے لئے وہ نظام بھی تجویز کردیا ہے جس سے چند سالوں میں نہایت تیزی سے وہ خاندانی حصار اور تحفظ ،جو پاکستانی عورت کو بہت حد تک حاصل ہے، ختم ہوجائے گا اور پاکستانی عورت بھی مغرب کی طرح خاندانی حصارسے آزاد ،مرد کی بالادستی ،جو اس کی حفاظت کاضامن ہے ،اسے محفوظ اور کٹی پتنگ کی طرح آوارہ منشوں اور ہوس کاروں کی مرکزنگاہ ہوگی۔ لاقدرہ اللہ ،ثم لاقدرہ اللہ
اس بل کی حمایت کرنے والا چوتھا طبقہ، روزنامہ اخبارات کے ان کالم نگاروں پر مشتمل ہے جو ہر نئے پیش آمدہ مسئلے میں کالم نگاری ضروری سمجھتے ہیں چاہے وہ اس موضوع کی اہمیت،تقاضوں اور اس کی ضروری اہلیت سے کوئی آگاہی نہ رکھتے ہوں ۔کچھ اور نہیں تو وہ متعلقہ مسئلے سے آگاہی رکھنے والوں کو ہی طعن وتشنیع کاہدف بناکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کالم نویسی کاحق اداکردیا ہے، یا وہ سمجھتے ہیں کہ ہرمسئلے میں ٹانگ اڑانا، یعنی رائے زنی کرنا ہمار ا بنیادی اور جمہوری حق ہے۔ اسی لئے وہ اظہار رائے کی آزادی کو جمہوریت کالازمی حصہ سمجھتے اور باور کراتے ہیں۔لیکن جوابِ آں غزل کے طور پر جب آگاہی رکھنے والے اہل علم وتحقیق تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں تو اس کو بالعموم اخبارات میں شائع نہیں کیاجاتا۔ ان کے نزدیک آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ اظہاررائے صرف یہ ہے کہ خود ان کو لکھنے اور شائع کرنے کی اجازت ہو وہ جوچاہیں لکھیں اور شائع کریں۔اگر وہ رات کو دن او دن کورات باور کرائیں تو ان کاحق ہے جسے سلب کرناجمہوریت کے خلاف ہے لیکن دوسرے کسی باخبر شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ لکھے یہ رات کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ سورج کی روشنی ہر سوپھیلی ہوئی ہ اور یہ دن کس طرح ہوسکتا ہے جب کہ تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی ہے؟یہ بھی جمہوریت ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت یا آزادیٔ رائے کا حق صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے کہ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہے اوروہ اخبارات کےمالک،یا ان کے مستقل تنخواہ دار کالم نگار ،یامشہور قلم کار ہیں!!
رہے اہل علم وتحقیق اور ارباب فکر ونظر ،۔چونکہ بدقسمتی سے نہ وہ اخبارات کے مالک یا مدیر ہیں اور نہ اخبارات کے مستقل تنخواہ دارملازم اور کالم نگار ۔وہ چاہے آسمان علم وتحقیق کے درخشندہ ستارے ہوں، بحرعلوم دینیہ کے غواص اور ماہرہوں، اصابت فکرونظر کے حامل ہوںلیکن ان کی تحقیقی یاوضاحتی بیان ناقابل اشاعت قرارپائے گا، وہ سردخانے کی نذر ہوگا یا ردی کی ٹوکری اس کامقدر ہوگا۔ مالکان ومدیر ان اخبارات کا یہ وہ ’’جمہوری حق یا رویہ‘‘ ہے جو سالہاسال سے راقم کے تجربہ ومشاہد کاحصہ ہے۔ یہ جگ بیتی ہی نہیں، آپ بیتی بھی ہے جس میں ایک فیصد بھی غلط بیانی نہیں۔
بہرحال بات ہورہی تھی اس متنازعہ بلکہ مغربیت میں ڈوبے بل کی کہ اس کی حمایت میں جوچوتھا طبقہ سرگرم ہے وہ اخباری کالم نویسوں کا ہے یہ ظاہر ہے کہ یہ جرعۂ تلخ ان کے لئے کتنا بھی ناخوش گوار ہو،مگر حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ تینوں حمایتوں کی طرح، یہ بھی قرآن وحدیث کے علوم سے بہرحال بہرہ ورنہیں ہے۔
دنیائے علم وتحقیق میں یہ بات مسلمہ ہے کہ سائنس، ریاضی، انجیئرنگ،طب وحکمت، معاشیات، سیاسیات، یا کسی بھی علم وفن میں کوئی کتاب یامضمون لکھنے کاحق صرف اسی کو  حاصل ہے جو اس علم یا فن کاماہر ہو اور اس پر کامل عبور رکھتا ہو۔ اس کے بغیر کوئی شخص بھی اس فن پر لکھنے کی جرأت نہیں کرتا اور اگر کوئی ایسی جسارت کرلے تو اسے کوئی قبول کرنے کے لئےتیار نہیں ہوگا بلکہ اسے دنیا احمق یا پاگل تصو رکرے گی کہ ذات کی کوڑھ کرلی اور ….
لیکن دین اسلام، وہ دنیا کامظلوم ترین دین ہے کہ اس کی ابجد سے بھی ناآشنالوگ اس میں رائے زنی بلکہ اس میں’’اجتہاد‘‘ کرنا نہ صرف اپناحق سمجھتے ہیں بلکہ جن علماء نے علوم دینیہ کے سیکھنے سکھانے میں اپنی عمر صرف کی ہیں، ان کو دینی معاملات میں رائے دینے کا اہل نہیں سمجھاجاتا۔
اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ۝۵ (ص:۵)
دیکھ لیجئے! اس بل کا سارا تعلق خاندانی نظام سے ہے جس میں سب سے زیادہ اہم پہلو، میاں بیوی کاباہمی تعلق ہے۔ اس کے بارے میں اسلام میں اتنی تفصیلی ہدایات ہیں کہ دنیاکے کسی نظام، مذہب یا نظریے میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ بل بناتے وقت اسلام کی ان روشن تعلیمات کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا ہے بلکہ سارا بل قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے اور مغربی افکار کاچربہ یا اس کی بھونڈی نقل ہے۔ اسی لئے کسی عالم دین سے قطعاً مشاورت کا اہتمام نہیں کیاگیا۔
اس کے بنانے یابنوانے والے تو کہہ ہی رہےہیں کہ یہ بل اسلام کے عین مطابق ہے اور ان کی تو یہ مجبوری ہے کہ انہوں نے تو یہ ساری کاوش کی ہے، ان کی طرف سے تو یہ دفاع صحیح ہے یاغلط؟ اس سے قطع نظر،سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ لیکن اخبارات کے کالم نگار بھی ماشاءاللہ ،چشم بددور،مفتیان دین متین اور قرآن وحدیث کے سکالر بن گئے ہیں اور فتویٰ صادر فرمارہے ہیں کہ بل میں کوئی چیزخلاف اسلام نہیں ہے بلکہ وہ یہاں تک دعوے کررہے ہیں کہ علماء یوںہی شور مچارہے ہیں لیکن وہ اس کی کوئی شق خلاف اسلام ثابت نہیں کرسکے۔
زیرنظر مضمون بل کے اداکاروں اور ہدایت کاروں کے علاوہ، جدید اسلام کے ان ’’مفتیان کرام‘‘ اور ’’محققین عظام‘‘ کی خدمت میں پیش ہے کیونکہ اس میں ان کے دعوؤں کے برعکس اس بل کو مکمل طور پر خلاف اسلام ثابت کیا گیا ہے جس سے ان کے چیلنج کا جواب بھی سامنے آجائے گا کہ علماء اس کوخلاف اسلام ثابت نہیں کرسکے یا نہیں کرسکتے۔ بعون اللہ وتوفیقہ.
بل جائزہ:بل حقیقی بنیادوں سے محروم اور چند مفروضوں پرمبنی ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
بل کاآغاز ان الفاظ سے کیاگیا ہے:
’’چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اصناف کے مابین مساوات کی ضمانت دے کر ریاست کو خواتین کے تحفظ کے لئے خصوصی قانون وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ خواتین کو گھریلو تشددسے تحفظ فراہم کیاجائے….(بل کا اردومتن)
تبصرہ: ’’اصناف کے مابین مساوات‘‘ کے الفاظ آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۵ کی ذیلی دفعہ ۲سے ماخوذ یا اس کامفہوم ہے،آئین کے اصل الفاظ(اردومتن) حسب ذیل ہیں:
’’جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیاجائے گا‘‘
اس کامطلب اگر یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ دونوں ایک ہی قسم کی صلاحیتیں لے کر دنیا میں آئے ہیں اور دونوں دنیا کا ہرکام کرسکتے ہیں۔تو یہ بداہۃً غلط ہے۔ گومغرب کے نزدیک مساوات مردوزن کایہی مطلب ہے اور مغرب زدگان بھی اس غیر عقلی اورغیرفطری نظریے پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں  ،لیکن اسلام اس مساوات مردوزن کوتسلیم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے درمیان فرق کیا ہے، ان کے مقصد تخلیق میں بھی اور دائرۂ کار میں بھی، اور اسی اعتبار سے دونوں کو صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف عطا کی ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘ اور زیر طبع کتاب’’حقوق نسواں اور حقوق مرداں‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اور اگر اس دفعہ کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت اگرچہ دوجنس ہیں،لیکن اس بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیاجائے گا، دونوں کے حقوق کاتحفظ اور دونوں کی فلاح وبہبود کے لئے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ تو یہ مطلب بالکل صحیح ہے اور اسلام سے متصادم نہیں، جب کہ پہلا مطلب اسلام سےیکسر متصادم ہے۔
اس دوسرے مفہوم کی رُو سے عورت پرظلم وتشدد کی جو جو صورتیں بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ان کا سد باب نہایت ضروری اور حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس ذمے داری کی ادائیگی میں موجودہ قوانین اگرناکافی ہیں تو نئے قوانین بنانا اور مناسب تدابیر اختیار کرنا بھی نہایت ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ کیونکہ یہ نہ اسلام کے خلاف ہے اور نہ علماء اس میں مزاحم یا اس کے مخالف ہیں۔ اسلام عورت کو ہرقسم کاتحفظ دیتا ہے بلکہ اسلام ہی عورت کوتحفظ دیتا ہے ،علماء اس کے مخالف کس طرح ہوسکتے ہیں؟
ایں خیال است ومحال است وجنون .
لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت کے جن ذمے داران یا ان کے پس پردہ دیگر حضرات وخواتین نے آئین کی مذکورہ شق یادفعہ کا مطلب یہ نہیں سمجھا اور اس کو صرف اپنی مطلب برآری کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کوایک مثال سے اس طرح سمجھاجاسکتا ہےکہ ملک میں آجر اور اجیر (محنت کش اورمالک) دوفریق ہیں،ملک کی ساری آبادی انہی دوفریقوں پر مشتمل ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہےکہ دونوں فریقوں کے حقوق کاتحفظ کرے اور ایسے قوانین بنائے کہ نہ محنت کش مالک پر ظلم کرسکے اور نہ مالک مزدوروں کےساتھ ظلم وزیادتی کامعاملہ کرسکے۔
اب اگر مالکان مزدوروں کے حقوق کاخیال نہیں رکھتے ،ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کا معاملہ کرتے ہو،جس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور ہیں جن کو ہرباشعور شخص سمجھتا ہے۔
ریاست کی یقیناً ذمے داری ہےکہ وہ مزدوروں (محنت کشوں ،ملازموں) کے حقوق کا تحفظ کرے اور ایسی قانون سازی کرے کہ مظلومین کی دار رسی ہوسکے، ان کے حقوق کو کوئی پامال نہ کرسکے اور ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جاسکے۔ لیکن حکومت مزدوروں کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین بنائے جن میںمالکان کے حقوق کونظر انداز کردیاجائے تو کیا یہ قانون سازی معقول کہلائے گی؟ یا ایسے قوانین سے مزدوروں کے حقوق کاتحفظ ممکن ہوگا؟ یا اس کو اسلام کے مطابق قرار دیاجاسکے گا؟ نہیں ،یقیناً نہیں۔ نہ ایسی قانون سازی میں کوئی معقولیت ہوگی، نہ اس سے مزدوروں کے حقوق کاتحفظ ہی ہوگا اور نہ اسے اسلام کےمطابق ہی کہاجاسکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام مزدوروں پرظلم کوجائز قرار دیتا ہے،یا اسلام میں مزدوروں کے حقوق کی وضاحت اور ان کے اہتمام کی تاکید نہیں ہے، یا ان کی بابت اسلامی ریاست کو ذمے دار قرار نہیں دیتا۔بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں نہایت اعتدال اور توازن ہے، وہ اللہ کا بنایاہوانظام ہے اور اس میں تمام طبقات کے حقوق کاتحفظ کیاگیا ہے۔ اگر اس میں مزدوروں کی بابت نہایت اعلیٰ تعلیمات دی گئی ہیں جن کا خیال رکھنا مالکوں کے لئے ضروری ہے تودوسری طرف مالکوں کی بابت بھی احکام دیےگئے ہیں جن کوملحوظ رکھنا مزدوروں اور ملازمین کے لئے ضروری ہے۔ جب تک دونوں کے حقوق کا تعین اور ان کاتحفظ یکساں طور پر نہیں کیاجائے گا، کسی بھی ملک کانظام چل ہی نہیں سکتا۔
اس لئے علماء کہتےہیں کہ یک طرفہ قانون سازی (ون وے ٹریفک) اسلام کے خلاف ہے، کیوں؟ اس لئے کہ کوئی ریاست اگر صرف مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایسے قانون بنائے جن میں دوسرے فریق(مالکان) کے حقوق نظرانداز کردے، تو اس کانتیجہ کیا ہوگا؟ ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ ملک کی تمام فیکڑیاں،کارخانے،ملیں ،مارکیٹیں بند ہوجائیں گی۔ اور جن کے تحفظ کے لئے یک طرفہ قانون بنائے گئے ہوں گے،وہ سب بے روزگار ہوجائیں گے اور ان کو کھانے کے لالے پڑ جائیں گے ۔ملوں، کارخانوں کے مالک تو کارخانے بند کرنے کے بعد بھی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پوزیشن میں رہیں گے لیکن مزدوروں کےپاس کون سا اندوختہ ہوتا ہے کہ وہ مزدوری اور ملازمت کے بغیر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں ،علاوہ ازیں صنعت کا پہیہ جام ہوجانے سے خود حکومت کو جوٹیکسوں سے محرومی ہوگی، اس کے بعد نظام حکومت کس طرح چل سکے گا؟
ایک ہی فریق کے حقوق کے تحفظ کی یہ یک طرفہ کاروائی کتنی بھیانک اورخطرناک ہے، جس سے اللہ کی ہزاربار پناہ۔ مزدور بھی صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ کیا ہمارے حقوق کاتحفظ ہے کہ ہم بے روزگار ہوگئے اور دووقت کی روٹی کھانی بھی مشکل ہوگئی ہے۔
اس لئے ریاست کی ذمے داری صرف کسی ایک فریق کے حقوق کاتحفظ نہیں ہے بلکہ اس سے متعلقہ دوسرے فریق کے حقوق کاتحفظ بھی ہے۔ اگرایک فریق دوسرے فریق پر ظلم کرتا ہے تو بلاشبہ ریاست کی ذمےداری ہےکہ وہ مظلوم کی داررسی کرے اور ایسے قانون بنائے کہ ظلم کاراستہ بند ہوجائے۔ لیکن اس میں قطعا نہ کوئی معقولیت ہے اور نہ اس کاحق ہے کہ ایک فریق کے تحفظ کے لئے ایسی قانون سازی کرے کہ دوسرے فریق کے حقوق اس سے متأثر ہوں۔
تحفظ نسواں بل میں پہلی خرابی یامفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میں صرف عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور اس کے ذمےدار مرد ہیں۔اس لئے عورتوں کے حقوق کاتحفظ ضروری ہے۔
اور تو یہ صرف مفروضہ اور پروپیگنڈہ ہے کہ ہر صورت میں عورت مظلوم اورمردظالم ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میںجہالت اور اسلامی تعلیمات سے بے خبری عام ہے، جس کی وجہ اگر کبھی مردعورت پر ظلم کرتا ہے،تو عورت بھی کم وبیش کےکچھ فرق کے ساتھ اس معاملے میں مرد سے پیچھے نہیں ہے، وہ بھی مختلف انداز سے مرد پرظلم کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عورت میں صبر اورحوصلے کی -مرد کے مقابلے میں-کمی ہے( عورت مانے یا نہ مانے، یہ چیز فطری ہے) اگر اس پر ظلم ہوتا ہے وہ وہ وایلا کرتی ہے اور مغربی فنڈز پر پلنے والی این جی اوز بھی اس کو -نمک حلالی کے طور پر-خوب اچھالتی ہیں۔ جب کہ مرد کے اندر عزم وحوصلہ زیاد ہ ہے، وہ عورت کی طرف سے کی گئی زیادتی کوبالعموم نظرانداز کردیتا ہے جیسا کہ اس کوکرناہی چاہئے کہ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے اور اس کی قوامیت کاتقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے بغیر گھر کانظام چل ہی نہیں سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں۹۰فی صد گھرانوں میں چھوٹے موٹےتنازعات کے باوجود عورت امن وسکون کی زندگی گزار رہی ہے اور اس کو ان مسائل کاقطعا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کے لئے بل کی صورت میں پاپڑ بیلے گئے ہیں۔ صرف۱۰ فیصد گھرانے بمشکل ایسے ہوں گے جہاں ایک دوسرے پرظلم کیاجاتا ہے جو کبھی عورت کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سے اور کبھی اس میں دونوں برابر کے شریک ہوتےہیں۔ ان صورتوں میں صرف مرد ہی کوظالم تصور کرکے قانون سازی کرنا-اور وہ بھی یکطرفہ-قطعا غیر معقول ہے۔
ہماری بات پر یقین نہ آئے تو ایک کونسلر اورماہرنفسیات لیڈی ڈاکٹر کے مشاہدات ملاحظہ فرمالیںـ:ان کانام فوزیہ سعید ہے وہ ایک مضمون بعنوان:-کیاصرف مردذمے دار ہے؟ تصویر کادوسرارخ -میں لکھتی ہیں:
’’8مارچ خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایاجاتاہے جس میں خواتین کو خراج تحسین پیش کیاجاتاہے، جگہ جگہ سیمینار کیے جاتے ہیں وہاں مردوں کے ظلم کی داستانیں اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ کچھ لوگ رونے لگتے ہیں ۔ 2015ء کو میں نے کافی ورلڈویمن ڈے اٹینڈ کیےتمام کا فوکس مردوں کے ظلم، عورتوں کو جلائے جانے کے واقعات، عورتوں پر پھینکے گئے تیزاب یا تعلیمی میدان میں آگے نہ بڑھنے دینے یا وقت سے پہلے شادی کر کے ان کے حقوق غصب کرنے یا عمرگزرجانے پر بھی شادی نہ ہونے جائیداد میں ان کے حقوق پامال کرنے کونمایاں طور پربیان کیاگیا۔ بطور ماہرنفسیات میں نے نہایت ہی سوچ بچار کےبعد یہ تجزیہ کیا کہ 80فی صد واقعات میں عورتوں کا اپناقصور ہوتا ہے،میں ایک کونسلر ہوں، میں نے دیکھا ہے ہرظلم کے پیچھے اکیلا مرد ذمے دارنہیں، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی عورت بھی برابر کی شریک ہوتی ہے ،بلکہ آپ بلاتعصب جائزہ لیں تو جومرد ظلم کرتا ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے وہ عورت اس کی ماں بھی ہوسکتی ہے ،بہن بھی،بھابھی بھی، یا جدیددور کی نیورشتے دارگرل فرینڈبھی ہوسکتی ہے۔
پھرالزام مرد پر ہی کیوں؟
اگر آپ بلاتعصب تحقیق کریں تو معلوم ہوگا بے شمار NGOSاس پرکام کررہی ہے اور مردودں کے ساتھ کئے گئے ظلم پر کوئی ایک یا دوNGOSہیں۔عورتوں پر ظلم کی بات کو اچھالا جاتا ہےمگر اس کا کوئی حل یا جڑ سے ختم نہیں کیاجاتا، جڑ میں اصل مجرم کوئی نہ کوئی عورت کسی نہ کسی روپ میں بیٹھی اپنےبیٹے،بھائی،دیور ،خاوند کو بہکارہی ہوتی ہے۔
عورت پر ظلم کیاجاتا ہے ،میں اتفاق کرتی ہوں، مردوں کی سوسائٹی ہے۔ مگر مردوں کو پالنے اور پروان چڑھانے والی اور شیر کا جگر دینے والی عورت ہی ہوتی ہے۔ مردوں کو دوسری شادی پر اکسانے والی بھی کوئی نہ کوئی عورت ہی ہوتی ہے جو اپنے بھائی یابیٹے کو کہتی ہے،بیوی کو آگ لگادو ،تیزاب پھینک دو،طلاق دے دو، ہم تمہارے لئے نئی بیوی لے کر آئیں گے۔ کسی طرح کوئی گرل فرینڈ یہ جانتے ہوئے کہ مرد شادی شدہ ہے،بچوں کاباپ ہے، اس کے پیچھے لگ جاتی ہے اور کسی عورت کا گھر تباہ کردیتی ہے اور بدنام مرد ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ مرد کو اپنی عقل سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے، یپولین بوناپارٹ نے کہا تھا:’’مجھے اچھی مائیں دومیں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘گویا ذمے داری عورت پر آن پڑی ہے کہ اچھے مردوں کو جنم دینے والی عورت ہی ہے، ذمے داری ماں پر آگئی ہے کہ وہ اپنے بچے کو کیسے پروان چڑھاتی ہے اوراسے دوسری عورت کے حقوق ادا کرنےکی تعلیم دیتی ہے یا عورت کے حقوق غصب کرنے پر اکساتی ہے، عورت کا دل اس کے دماغ پر حکومت کرتا ہے،اس کوکمزور کہنا اس کی توہین ہے ۔ آؤ اس دن عہدکریں کہ ہم اپنی حفاظت کا ذمہ خود لیں گے
ایسے رہا کروکہ کریں لوگ آرزو
ایسا چلن چلو، زمانہ مثال دے
(روزنامہ’’نوائےوقت‘‘لاہور خواتین ایڈیشن ،۲۱مارچ ۲۰۱۶)
یہ ایک پڑھی لکھی،تجربہ کار،ماہرنفسیات اور کونسلرخاتون کا ان لوگوں کے مونہوں پر ایک زناٹے دارطمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ ظلم صرف مرد ہی کی طرف سے ہوتاہے ، اور سنیے صرف ایک ہی دن کے دوواقعات ،جو اخبار میں رپورٹ ہوئے، دونوں میں ظالم مرد نہیں، عورت ہے۔
’’میاں بیوی فوزیہ اور اکرام شاہد کاخرچہ نہ دینے پر گھر میں جھگڑا ہوا جس کے بعد فوزیہ بی بی نے اپنے بھائی کوبلایا اور دونوں بہن بھائیوں نے مل کر کلہاڑی ما رکر35سالہ شوہر کوشدید زخمی کردیا جسے زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کرادیاگیا (یہ گوجرانوالہ کا واقعہ ہے) (روزنامہ آواز، ص:۲،۲اپریل ۲۰۱۶)
اسی تاریخ کا دوسرا واقعہ عورت کے ظلم اور سنگ دلی کا یہ نقل ہوا ہے کہ بچوں کی آپس کی لڑائی میں شفقت بی بی نےد وسالہ بچے محمد حسنین کا گلادبا کر اسے قتل کردیا۔(یہ سرگودھا کا واقعہ ہے) (روزنامہ ’’آواز‘‘ص:۲،۲اپریل ۲۰۱۶)
ایک اور خبر ملاحظہ ہو ،بے اولاد خاتون نے سوتن کا سواماہ کا بیٹا زمین پر پٹخ کر مار ڈالا۔ (روزنامہ ایکسپریس ،ص:۱۰،۴اپریل۲۰۱۶)
اس تفصیل سے یہ واضح ہےکہ زیربحث بل کاپہلا سبب ہی حقائق پرمبنی نہیں کہ عورتوں پر تشدد ہوتا ہے بلکہ مفروضے پرقائم ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم دونوں ہی طرف سے ہوتا ہے۔ ریاست کی ذمےداری ہے کہ وہ ظلم وتشدد کا سد باب کرے ۔کسی ایک فریق کو ظالم باور کرکے یا کراکے یک طرفہ قانون سازی خود ایک ظلم ہے جو آئین پاکستان کے بھی خلاف ہےاور عدل وانصاف کی مسلمہ روایات کے بھی خلاف ہے۔ عدل،آئین اور اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو واقعی ظالم ہیں، ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے نہ کہ اپنے طور پرکسی ایک فریق یاجنس کوظالم فرض کرکے اس کے خلاف قانون سازی کی جائے۔
ہمارے ملک میں کون سا طبقہ ایسا ہے جو ظلم وتشدد سے محفوظ ہے؟ عورتیں تو بالعموم پھر بھی گھروں میں رہتی ہیں، سارے بیرونی کام مرد ہی کرتےہیں ۔لیکن ہمارے ملک میں مردوں کو قدم قدم پرظلم کاسامنا کرناپڑتا ہے۔ جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں جن سے رات دن عوام کا واسطہ پڑتا ہے،بجلی، سوئی گیس، ایل ڈی اے، واسا، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس ، کچہری، پٹوارخانہ ،عدالتیں (سول ،فیملی، دیوالی، فوجداری، حتی کہ ہائی کورٹس وغیرہ) سیکرٹریٹ میں سرکاری ادارے، پاسپورٹ آفس، نادراآفس اور دیگر اس قسم کے دیگر ادارے اور سرکاری دفاتر جہاں عوام کو اپنے مسائل ومشکلات کے حل کے لئے سرکاری اہل کاروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ان اداروں کے چھوٹے بڑے افسران واہل کار ان کی منصبی ذمے داری ہے کہ وہ پوری دیانت داری سےعوام سے تعاون کریں اور متعلقہ کام کرکے دیں، عوام کے خون پسینے کی کمائی ہی سے ان کو تنخواہ ہیں اور دیگرمراعات دی جاتی ہیں۔ لیکن ہرچھوٹا بڑا افسر ااور اہل کار فرعون بن کر بیٹھا ہوا ہے اور کسی بھی دفتر میں عوام کی شنوائی نہیں ہوتی۔ شنوائی اگر ہوتی ہے تو اس رشوت کی جس کو’’فضل ربی‘‘ کا نام دیا ہوا ہے۔
(نعوذباللہ من ذلک)
جب تک اس لقمۂ حرام سے ان کی مُٹھّی گرم نہیںکی جاتی ،ان سے متعلقہ کام کروانے کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔ان تمام سرکاری اداروں میں مردوں کو اپنے ہی ان’’خادموں‘‘ کے ہاتھوں جس ذلت ورسوائی اور ظلم کا سامنا کرناپڑتا ہے اور عوام یہ ’’خادم‘‘ جس طرح ایک ایک مرحلے پر مردوں کی عزت نفس کومجروح کرتے ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ یہ تو مردوں کاحوصلہ ہے کہ وہ ظلم وتشدد کی ان صورتوں کو برداشت کررہےہیں کیونکہ وہ ان ظالموں کے سامنے بے بس ہیں اور حکومت بے حس ہے، ورنہ ان کی چیرہ دستیاں تو اتنی عام ہیں کہ خودکشی کرنے کو جی چاہتا ہے۔
کیاحکومت کومردوں کی یہ ذلت ورسوائی نظر نہیں آتی؟ سرکاری اہل کاروں کا یہ ظلم وتشدد اس کے علم میں نہیں ہے؟ کیا ریاست کی یہ ذمےداری نہیں ہے کہ وہ مردوں کے ان حقوق کاتحفظ کرے جن کو تمام سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے فراعنہ نہایت دردی سے پامال کرتے ہیں؟
عورتوں پر ظلم وتشدد کی صورتیں توقطعاً اتنی عام نہیں ہیں جتنا پروپیگنڈہ کے ذریعےسے باور کرایاجارہاہے لیکن اس کے سدباب کے لئے تو حکومت کی ’’پھرتیاں‘‘ ایک ناقابل فہم معمہ ہے، ہاں ایک پہلو قابل فہم ہے کہ یہ مغربی ایجنڈا ہے۔لیکن ملک سے رشوت کاخاتمہ ہو، کرپشن کا انسداد ہو، عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی آسان میکنزم تیار ہو، سرکاری اہل کاروں کی لوٹ کھسوٹ کاخاتمہ ہو جس نے عوام کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ مغرب کو چونکہ اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لئے مردوں کی عزت نفس کا یہ مسئلہ ،جوحکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہوناچاہئے ،حکومت مردوں کے اس اہم ترین مسئلے سے یکسرغافل ہے ۔ان چہ بوالعجبی است
علاوہ ازیں کیا یہ ’’صنفی امتیاز‘‘ نہیں جس کی نفی آئین پاکستان میں کی گئی ہے کہ عورتوں کے مفروضہ ظلم وتشدد کے خلاف توقانون سازی ؟لیکن مردموجودہ نظام میں واقعتاً اور حقیقتاً گوڈے گوڈے ظلم وتشدد میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ان کی داد رسی کا اور ان کو ظلم سے بچانے کا کوئی اہتمام نہیں۔

تِلْكَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِيْزٰى۝۲۲ (النجم:۲۲)

دوسرامفروضہ: بل میں دوسرامفروضہ یہ کارفرما ہے کہ عورتوں پر ناجائز تشدد ہوتا ہے۔ پھر اس تشدد میں بھی مغربیت کی نقالی میں کئی صورتیں بیا ن کی گئی ہیں جس کی تفصیل ممکن ہوتی تو ہم ان شاءاللہ آگے چل کر بیان کریں گے ۔
اول تو جسمانی تشدد کامسئلہ بھی ایسا ہے کہ اسے مغربی ذہن نے، جو اس بل کی ایک ایک شق میں کارفرما ہے، ہوا بنا کر پیش کیا ہے اور مسلسل اس کا پروپیگنڈہ کیا ہے اور کررہا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے جس طرح پیش کیاجارہا ہے بلکہ اس کاتعلق اصل میں حاکمیت اور قوامیت سے ہے جو گھر کانظام چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کی ہے۔ اگر گھر کانظام چلانے میں مرد اور عورت دونوں کو یکساں اختیارات دیے جاتے ہیں تو کبھی بھی گھر کانظام خوش اسلوبی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔جیسے کسی مملکت میں ایک کے بجائے دو سربراہ (چیف ایگزیکٹو) ہوں۔تو اس مملکت کانظام نہیں چل سکتا۔ لازم ہےکہ چیف ایگزیکٹو ایک ہی ہو،اس کی بالادستی کو چیلنج نہ کیاجاسکتا ہو، باقی عہدے دار (گورنر، وزراءاور دیگر افسران اعلیٰ) سب ا س کے ماتحت ہوں۔ یہی اختیارات کی مرکزیت نظام کائنات میں بھی ،جب سے یہ کائنات معرض وجود میںآئی ہے ،کارفرما ہے جس کی وجہ سے اتنی وسیع وعریض کائنات بغیر کسی ادنی خلل کے چل رہی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا ،بلکہ تدبیر کا ئنات میں کسی اور کی بھی شرکت ہوتی تو سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔

لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا

’’اگرآسمان وزمین میں کئی معبود ہوتے تو یہ سارانظام درہم برہم ہوجاتا‘‘
مرد اور عورت کو بنانے والا صرف اللہ ہے اور وہی ان کی فطرت ،جذبات،میلانات کو جاننے اور سمجھنے والا ہے۔جیسے کسی مشین کو موجد ہی سمجھتاہے کہ وہ کس طرح صحیح طریقے سے کام کرے گی، اس کو کسی اور طریقے سے چلایاجائے گا تو وہ کبھی کامیابی سے نہیں چل سکے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مرداور عورت کو دو الگ الگ جنسوں کےطورپر پیدا فرمایا ہے۔ اور وہی جانتا ہےکہ ان دو جنسوں کا جب ملاپ ہوگا تو زندگی کا یہ ملاپ کس طرح کامیاب رہے گا اور انسانی زندگی کی یہ دوسپیوں والی گاڑی شاہراہ زندگی میں کس طرح اپنا سفر زندگی صحیح طریقے سےطے کرسکے گی اس کے لئے اس نے دونوں کے حقوق وفرائض بھی طے کردیے اور تاکید کردی کہ دونوں اپنے اپنے فرائض ادا کریں تاکہ دونوں کے حقوق ادا ہو جائیں ۔ان احکامات کی پابندی کی صورت میں دونوں کی زندگی نہایت خوش گوارماحول میں گزرتی ہے۔ لیکن اگرعورت کی طرف سے نشوز کااظہار ہو۔ جس کا مطلب ہے کہ مرد کی حاکمیت وبالادستی کو وہ چیلنج کرے اور خودبالادست بننے کی کوشش کرے تو ؟؟؟ یہ فطرت اور احکام الٰہی کے خلاف ہے، اس سے یقینا گھرکانظام خلل اور فساد کا شکار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں بطور علاج تین تدبیر اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔
1عورت کو وعظ ونصیحت کےذریعے سے سمجھایاجائے۔(یہ کارگرنہ ہوتو)
2ان سے گھر کے اندربستر الگ کرلو(اس سے بھی وہ نہ سمجھے تو)
3توا ن کی سرزنش کرو(ہلکی سےمار سے ان کوراہ راست پرلاؤ) (النساء:۳۵)
واضربوھن(مارو) یہ اللہ کاحکم ہے ۔کسی مفسر ،عالم یا فقیہ کا اجتہاد یاتوضیح نہیں صاف اور واضح حکم ہےلیکن اس کامطلب تشدد یاظلم ہرگز نہیں ، نہ اس کی اجازت ہی ہےیہ اصلاح کے لئے ایک تادیبی حکم ہے اور تادیب وتنبیہ کاحق ہر سربراہ کو حاصل ہوتا ہے۔لیکن اس تادیبی حکم کاتعلق چونکہ میاں بیوی سے ہے جن کےد رمیان فرمان رسول کی رُو سے ایسی مثالی محبت ہوتی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں۔ اس لئے حامل قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ نے اس ضرب (سرزنش) کی وضاحت فرمادی کہ یہ غیرمبرح ہو، یعنی ایسی مارکہ جس سے اس کو نہ ایذاء پہنچے اور نہ کوئی زخم ہو۔ اسی طرح چہرے سے اجتناب کیاجائے۔ علاوہ ازیں اس کی مزیدحوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا کہ تادیب کے طور پر بھی ایسا کرنے والے بہتر لوگ نہیں ہیں۔ مزیدفرمایا کہ یہ کون سی دانش مندی ہے کہ صبح کو مارے اور رات کو پھر اس کی آغوش محبت میں پناہ لے۔
چنانچہ یہ حقیقت ہےکہ شاید ہی چند فی صد گھرانے ایسے ہوں گے کہ جہاں عورت کو اس قسم کی سرزنش سے واسطہ پڑتا ہو۔ ورنہ الحمدللہ بیشتر گھرانوں میں اس کی نوبت نہیں آتی اور جہاں کہیں بھی اس کی نوبت آتی ہے تو اکثر وبیشتر اس کی وجہ عورت ہی کی بدزبانی ،بداخلاقی یانافرمانی ہوتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے اس تادیبی حکم اوراجازت کو ظلم وتشدد سے تعبیر کرنا ہر لحاظ سے غلط بھی ہے اور خلاف واقعہ بھی۔ یہ وہ تشدد ہرگز نہیں جس کے لئے اتنی لمبی چوڑی قانون سازی کی گئی ہے یہ بلاجواز اور حکم قرآنی کے یکسر خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے باہمی تعلق، ان کے مابین محبت وقربت اور ان کی پرائیویسی کو[ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ] (البقرۃ:۱۸۷) کے نہایت بلیغ الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے کہ ’’وہ عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ یہ خانگی معاملات اور باہمی تنازعات ،یہ ایسے معاملات نہیں ہیں کہ ان میں سوائے ناگزیر حالات کےکسی کے دخل دینے کی ضرورت ہو۔ وہ لباس کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ،دوسرے تمام لوگوں سے بے نیاز ہیں۔
ان خانگی معاملات کو،جرائم بناکر، پولیس کو ان میں مداخلت کاحق دینا، یاعورت کو یہ اختیار دینا کہ وہ فون کرکے مرد کو حوالۂ پولیس کردے۔ یہ قرآن کے مذکورہ پرائیویسی حکم کے بھی خلاف ہے اور یہ ایسی غیردانش مندانہ تدبیر ہے کہ جو عورت بھی ایسا کرے گی وہ اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مارے گی۔ جب کوئی عورت مردکی بالادستی کو چیلنج کرے گی تو کوئی بھی مسلمان مرداتنا بے غیرت نہیں ہے کہ وہ اس بےغیرتی کو برداشت کرلے۔ یہ صورت حال ایسی ہے جہاں بھی عورت کی حفاظت کے ٹھیکے داروں اورٹھیکے دارنیوں کی طرف سے بنائے ہوئے اس قانون کو کوئی عورت اختیار کرے گی تو مردآخر مرد ہے ،وہ گھر کامالک ہے، عورت کاکفیل ہے، وہ اللہ کا بنایاہواگھرکاسربراہ ہے۔ وہ اس بے غیرتی اور بے بسی ولاچارگی کو کب برداشت کرے گا، وہ کڑاپہننےکےبجائے اپنا یہ لباس ہی اتارپھینکے گا، یعنی عورت ہی کو طلاق دےکرفارغ کردے گا یعنی جب ان کومُحب اور محبوب کے رشتے سے جدا کرکے ایک دوسرے کا دشمن قرار دے کر قانون ایک ہاتھ میں ہتھیار دے کر دوسرے پر حملہ آور ہونےکا اختیار دے گا تودوسرا بھی محب کے بجائے دشمن بن جائے گا اور اس کے ہاتھ میں خدائی اختیار-حق طلاق-ہے۔ وہ عورت کے وار کرنے سے پہلے ہی اپنا وار کرکے اس کاکام تمام کردے گا،یعنی اس کو طلاق دے دے گا اور پولیس جوہتھکڑی یاکڑا مرد کو لگانے یا پہنانے کے لئے آئے گی، مرداس کو کہے گا اس عورت کو شیلٹرہوم میں پہنچادو، اس سے میرا اب کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت ہی سے خارج کردیا ہے۔ یہ محض افسانہ سازی یا افسانہ سرائی نہیں ہے ،یہ مستقبل کا وہ نقشہ ہے جو اس بل کے نفاذ کے بعد سامنے آئے گا۔
اور فرض کرلو کہ کوئی مرد اس بے غیرتی کو برداشت کرتےہوئے اپنے آپ کو حوالۂ پولیس کرکے چند روز کے بعد گھر سے بے گھر ہونا گواراکرے گا تو اس کے پیچھے دوصورتیں ہوں گی۔
اس گھر میں اس کی بیوی کے ساتھ،مرد کی ماں، اس کی بیٹیاں، بھابھیاں وغیرہ بھی رہائش پذیر ہوں گی توماں سمیت ان عورتوں پر کیاگزرے گی، اور ان عورتوںکے دلوں میں اس خاتون کی کیاعزت باقی رہ جائے گی جس نے اپنے سر کے تاج کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا؟
دوسری صورت ،کہ اس گھر میں صرف میاں بیوی ہی رہنے والے ہوں گے ،مرد کے گھر سے نکل جانے کے بعد اکیلی عورت کیا محفوظ ہوگی؟ اور اگرعورت بدکردار ہوگی تو اس تنہائی کو کیا وہ اسی طرح ’’یوز‘‘نہیں کرے گی جس طرح مغربی عورت کرتی ہے۔ یہ صورت تو یقیناً اس بل کے خالقوں کےنزدیک ’’آئیڈیل‘‘ ہوگی کہ مسلمان عورت کوپاکستان میں بھی وہ کھل کھیلنے یارنگ رلیاں منانے کاموقع میسر آئے جو مغرب میں عام ہے۔
ماشاءاللہ ،چشم بددور، کیاخوب تحفظ حقوق نسواں ہے؟
یہ ’’خدمت ‘‘اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
4اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور ہر طرح سےمکمل ہے جس کی تکمیل کا اعلان بھی اللہ نے سورۂ مائدہ کی آیت میں کیا ہے۔ لیکن بل کی ساری بنیاد اور اس کی ساری شقیں اس مفروضے پر قائم ہیں کہ اسلام میں مردوعورت کے باہمی تنازعات کا کوئی حل ہی نہیں ہے۔ اب ساڑھے چودہ سوسال کےبعد اس ’’خلا‘‘ کے پر کرنے کی ’’سعادت‘‘ پنجاب حکومت کوحاصل ہورہی ہے۔
کیا یہ مفروضہ صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تونعوذباللہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:

[اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ الآیۃ]

غلط ہے۔ اور اگرمفروضہ غلط اور اللہ کا فرمان صحیح ہے تو پھر یہ ساری قانون سازی-دیں دفتر بے معنی،غرق مئے ناب اولیٰ-کی مصداق ہے۔
فرما ن باری تعالیٰ یقیناً صحیح ہے، جو اس میں شک کرتا ہے وہ اپنے ایمان کی خیرمنائے۔ اللہ تعالیٰ نے خانگی زندگی کی استواری اورخوش گواری کےلئے اتنی ہدایات اور ایسی اعلیٰ تعلیمات ہمیں دی ہیں کہ اگر دونوں میاں بیوی ان کاخیال رکھیں اور ان پر صحیح معنوں میں عمل کریں تو نہایت خوش گوار زندگی گزرتی ہے اور گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اور اگر بوجوہ عدم موافقت یافریقین میں سے کسی ایک کے غلط رویے کی وجہ سے کچھ اختلافات رونما ہوجائیں تو اس کا بھی بہترین حل قرآن کریم ہی میں بیان فرمادیاگیا ہے، جن میں سے تین تدبیریں تو وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں ۔سمجھ دار عورت توبغیر کسی اورکی مداخلت کے، بالعموم ان تدابیرہی سے اپنا رویہ درست کرلیتی ہے۔ لیکن اگر اس طرح مسئلہ حل نہ ہو تو دوسرا حل-چوتھی تدبیر کی صورت میں-یہ بیان فرمادیا کہ دوحَکم(ثالث) ان کافیصلہ کریں ایک میاں کے خاندان سے ہو، دوسرا بیوی کےخاندان سے ۔ ساتھ ہی اللہ نے بیان فرمادیا کہ دونوں ثالث اگرصلح کرانے میں مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور مصالحت ومفاہمت کی صورت پیدا فرمادے گا۔(النساء:۳۵) بصورت دیگر آخری چارۂ کار کے طو ر پر پھر ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی ۔علماء نے اس کو توکیل بالفرقۃ کےنام سے موسوم کیا ہے۔ یعنی اگر یہ ثالث صلح کرانے میں ناکام رہیں تو پھر یہ بطور وکیل ایک دوسرے کی جدائی کا فیصلہ کردیں۔ یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا۔
5اللہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کاحق دیا ہے۔ اور یہ حق پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ ہےجس میں وہ رجوع کرسکتا ہے۔ اس حق کو بھی صرف اسی لئے محدود کیاگیا ہے کہ کوئی مرد عورت پرظلم نہ کرسکے۔ورنہ اسلام سے پہلے یہ حق غیرمحدود تھا جس کی وجہ سے ایک شخص اگر چاہتا کہ وہ عورت کو نہ صحیح طریقے سے آباد کرے اور نہ اسے آزاد کرے کہ وہ کسی اور جگہ شادی کرلے، تو وہ یہ کرتا تھا کہ طلاق دیتا اور عدت گزارنے سے پہلے رجوع کرلیتا۔یہ سلسلۂ ظلم وہ جب تک چاہتا، جاری رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ نے حق طلاق کی حدبندی کرکے اس ظلم کاانسدا د کردیا۔
دوسراحکم یہ دیا کہ طلاق صرف ایک ہی دی جائے ،وہ بھی اشتعال اورغصے میں نہیں کہ ذرا ساجھگڑا ہوا اور طلاق دے دی۔ بلکہ اول تو طلاق کوسخت ناپسندیدہ عمل قرار دیا، تا ہم بعض حالات میں چونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا، اس لئے اس کی اجازت بھی عنایت فرمائی۔لیکن اس کاطریقہ یہ بتلایا کہ اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بنے تو پھر عورت کے پاک ہونے کاانتظار کرو۔ اس طرح حالتِ طہر میں اس سے صحبت کئے بغیر صرف ایک طلاق دو۔ ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کو رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کرنا قرار دیا اور اس پر سخت برہمی کااظہارفرمایا۔ اس طریقۂ طلاق میں بڑی حکمت ہے۔ زیادہ طلاقیں جہالت کے علاوہ غصے اور اشتعال میں دی جاتی ہیں۔ اگر فوری طلاق نہ دی جائے بلکہ حیض سے پاک ہونے پر حالت طہر میں بغیر جنسی تعلق قائم کیے طلاق دینے کے وقت کاانتظار کیا جائے ۔توپچاس فی صد طلاق کے واقعات ویسے ہی کم ہوجائیں گے۔کیونکہ طہر کے انتظار تک غصہ اور اشتعال ختم ہوجاتا ہے اورطلاق دینے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
تیسراحکم یہ دیا کہ پہلی طلاق دینے کے بعد، اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد، طلاق کی عدت تین حیض یاتین مہینےہیں، عدت کے ان ایام میں پہلی اور دوسری طلاق میں عورت کو گھر سےنہیں نکالنا۔(سورۃ الطلاق) بلکہ وہ عدت، طلاق یافتہ ہونے کے باوجود بھی، خاوند کے گھر ہی میں گزارے۔ اس کی حکمت یہ بتلائی گئی ہے کہ شاید خاوند کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے، بیوی کے گھر ہی میں ہونے کی وجہ سے بیوی کی محبت اسے دوبارہ ملاپ پر مجبور کرے یابچوں کے بے سہارا ہونے کااحساس اس کو اپنے فیصلے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کردے، یا بیوی کی بے چارگی کااحساس اس کے اندر رحم وشفقت کا جذبہ بیدار کرے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
ایسی صورتوں میں پہلی اور دوسری طلاق میں خاوند کو عدت کے اندررجوع کرنے کاحق حاصل ہے اور یہ مرد کا ایسا حق ہے کہ عورت یا عورت کے گھر والوں کو انکار کرنے کاحق نہیں ہے۔
ایک، ایک طلاق کادوسرا فائدہ یہ ہے کہ پہلی دونوں طلاقوں میں اگر عدت گزرنے کے بعد، ان کے درمیان صلح کی صورت بن جائے توبالاتفاق دوبارہ نئے نکاح سے ان کاتعلق بحال ہوسکتا ہے۔
اگر پہلی اور دوسری طلاق میں، جیسا کہ وہ اللہ کاحکم ہے(سورۃ الطلاق) عورت خاوند ہی کے گھر میں رہے تو اس سے بھی طلاقوں کے بعد بھی پچاس فی صدگھراجڑنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور جدائی کے لمحات جلد ہی ملاپ میں بدل سکتے ہیں۔
اس تفصیل سےمقصود یہ بتلانا ہے کہ شریعت میں میاںبیوی کے تعلق کو اتنی اہمیت اور طلاق کے باوجود ان کی قربت کاایسا اہتمام کیا گیا ہے کہ یہ فراق جلد ہی وصال میں اور نفرت محبت میں تبدیل ہوجائے اورٹوٹا ہوارشتہ دوبارہ بحال ہوجائے۔
اس تفصیل سے ایک دوسرا پہلویہ بھی واضح ہواکہ اس قرآنی حکم کی روح اورخود ساختہ بل کی روح میں کس طرح بعدالمشرقین ہے ۔روح قرآنی یہ ہے کہ اختلاف اور کشیدگی ،حتی کہ طلاق کے باوجود بھی،میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کوختم کیاجائے اور ان کو دوبارہ باہم جڑنے کے مواقع مہیا کیے جائیں۔ اور مغربی روح میں ڈوبے ہوئے بل کی روح یہ ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سےاتنادور کردیاجائے اور ان کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کردی جائے کہ عدم طلاق کے باوجود ان کاملاپ ناممکن ہوجائے۔بل میں اس کا مکمل اہتمام کیاگیا ہے ۔ایک تو مرد کو گھر سے باہرنکال کرشیلٹرہوم میں بھیجنا،اس کی مردانگی اور غیرت کوچیلنج کرنا، پھر ان کوآپس میں بالکل قریب نہ آنے دینا کہ کہیں یہ دونوں باہم مل کر تلافی اور ازالہ کااہتمام نہ کرلیں اور یوں ان کے درمیان صلح ہوجائے ۔
اندازہ کیجئے کہ اس بل کے اندر کس طرح شیطانی روح کومکمل طور پر گھسیڑدیاگیا ہے کہ میاں بیوی کے ملاپ کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ شیطان اپنے اس چیلے کو اس کی اس ’’حسن کارکردگی‘‘ پر سب سے زیادہ شاباشی دیتا ہے جو آکر اس کو یہ رپورٹ دیتا ہے کہ آج میں نے فلاں میاں بیوی کےدرمیان جدائی کروادی ہے۔
یہ بل نافذ ہوگیا تو مغرب کاشیطان بھی اپنے پاکستانی چیلوں کے اس کارنامے پربڑا خوش ہوگا کہ انہوں نے بھی اس بل کے ذریعے سے پاکستان کےخاندانی نظام کوتباہ کرنے کا پورا ’’سروسامان‘‘ مہیا کردیا ہے۔ع
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کندد
اس کے باوجود ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ کہاجارہا ہے کہ بتلاؤ،اس کی کون سی شق خلاف اسلام ہے۔ سچ ہےع
مستند ہے ان کافرمایا ہوا
واقعی بل بنانے والے جس’’اسلام‘‘ کو جانتے ہیں، اس کی رو سے اس کی ایک ایک شق ’’اسلامی‘‘ ہے،کیونکہ ان کے اسلام میں مرد وعورت کے درمیان حجاب نہیں ہے۔ رقص وسرور تفریح ہے، موسیقی روح کی غذا ہے۔ فلموں،ڈراموں اورٹی وی پروگراموں میں جوحیا باختہ تہذیب رات دن پیش کی جارہی ہے، وہ اسلامی تعلیمات کا’’اعلیٰ نمونہ‘‘ ہیں۔ مخلوط تعلیم ناگزیر ہے، عورتوں کامردوں کے دوش بدوش ملکی ترقی میں اور زندگی کے ہر شعبے میں حصہ لینا بھی نہایت ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ
جن کا’’اسلام‘‘ یہ ہے تو ان کا بنایا ہوا بل غیر اسلامی کس طرح ہوسکتا ہے؟
علماء بے چارے چونکہ اس’’اسلام‘‘سے ناآشنا ہیں اس لئے وہ اس کے غیر اسلامی ہونے کی دہائی دے رہے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ سچے ہیں، کیونکہ دونوں کا اسلام ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
بنابریں پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ حکومت کی سرپرستی میں جوکچھ ہورہا ہے، وہ اسلام ہے یا اسلام وہ ہے جو قرآن مجید کی شکل میں نازل ہوا، اور صاحب وحی ،پیغمبر اسلام ﷺ نے اس کی توضیح وتفسیر-قولی اور عملی صورت میں-فرمائی اور آج وہ قرآن وحدیث میں محفوظ ہے۔
علماء تو صرف اسی کو اسلام سمجھتے اور جانتے ہیں جو قرآن وحدیث میں محفوظ ہے۔ اور یہ بل سراسر اس کے خلاف ہے جیسا کہ اللہ کی توفیق سے اس کی ضروری تفصیل ہم نے پیش کردی ہے۔ والحمد لله على ذلك
وزرائے کرام،بل کے بانیان عظام، لیڈیاں ذی احترام مل کر پڑھیں
….تو میندیشن زغوغائے رقیباں
کہ آواز ’’علماء‘‘ کم نہ کند رزق’’وزراء‘‘
بطورنمونہ تنازعات کا جوخودساختہ لمباچوڑا حل، بل میں پیش کیاگیا ہے،اس میں لیڈی افسران کاتقرر ہے، عدالتوں کاقیام ہے، شیلٹرہومز کی تعمیرات ہیں، پولیس کی داروگیر ہے اورگھر کے حاکم اعلیٰ کی تذلیل وتوہین ہے، اسے کڑا پہنانا ہے اور پتہ نہیں کیاکچھ ہے۔اور وہ صرف عورت کے کہنے پربغیرثبوت اور بغیر گواہوں کے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا بیان کردہ طریقہ کتنا آسان او رمختصر ہے گویا-ہلدی لگے نہ پھٹکڑی ،رنگ چوکھا آئے- کے مصداق
کیا اس کے باوجود بل بنانے والوں کا یہ کہنا کہ اس بل میں کوئی چیز خلاف شریعت نہیں ہے،صحیح ہے؟ سارا طریق کاراللہ کےبیان کردہ طریقے سے یکسر خلاف ہے، پھر بھی دعویٰ ہے کہ اس میں شریعت کےخلاف کچھ نہیں ہے
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریںخون کا دعویٰ کس پر
بہرحال بل کے یہ چند بنیادی نکات ایسے ہیں جن کے رو سے یہ واضح ہے کہ یہ سارا بل’’ الف ‘‘سے لےکر ’’ی‘‘ تک قرآنی احکام اور نصوص شریعت کے یکسر خلاف ہے۔ اس کے بعد اس کی ایک ایک شق پربحث یکسر غیرضروری ہے۔ تاہم اگرضروری ہوا تو اس کی لغویت کو شق واربھی واضح کردیا جائے گا ۔بعون اللہ وتوفیقہ

وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ (الانفال:19)

عورت کے اصل مسائل اور ان کاحل
حمایت کنندگان ،یابانیان بل کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ علماء اس کی مخالفت توکررہے ہیں لیکن کوئی متبادل حل پیش نہیں کررہے ہیں، توبات دراصل یہ ہے کہ بل میں جومسائل پیش کیے گئے ہیں، وہ عورت کے اصل مسائل ہیں ہی نہیں۔ سارے بل کی عمارت مفروضوں پرکھڑی کی گئی ہے، اس لئے یہ بل
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریامی رود دیوار کج
کاآئینہ دار اورمصداق ہے ،یا ہمارے اردو محاورے کی رُو سے کہاجاسکتا ہے۔
اونٹ دے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی
اس کی کوئی شق بھی صحیح نہیں۔ البتہ اس میں میاں بیوی کے تنازعے کا ذکر ہے، یہ مسئلہ یقیناً موجود ہے لیکن اس کا جو بقراطی حل بل میں پیش کیا گیا ہے، وہ اتنا غلط ہے کہ اس سے عورت کوقطعاً کوئی تحفظ نہیں ملے گا، بلکہ وہ یکسر غیرمحفوظ ہوجائے گی اور خاندان اورخاوند کی ہمدردیوں سےمحروم ہوکر صرف حکومت کے رحم وکرم کی محتاج ہوکر رہ جائے گی۔ یہ اس کاتحفظ ہے یا اس کی بربادی؟
خرد کا نام جنون رکھ دیا اور جنون کاخرد
جو چاہے آپ کاحسن کرشمہ کرے
بہرحال اگر حکومت عورت کے تحفظ میں مخلص ہے اور یہ واقعتاً اس کی ذمے داری بھی ہے، گو وہ ذمے دار سب ہی طبقوں کے تحفظ کی ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا۔ علمائے اسلام عورت سمیت تمام طبقوں کاتحفظ چاہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ علماء عورت کے ان حقوق کاتحفظ چاہتے ہیں جو اسلا م نے اسے دیے ہیں کیونکہ وہ بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ عورت کاتحفظ اسلام کے عطاکردہ حقوق ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سے ا نحراف کرکے عورت کے حقوق کاتحفظ نہیں، اس کی ہلاکت ہی کاسامان کیا جاسکتا ہے۔
حکومت کو عورت کے ان اسلامی حقوق سے،جو اس کی حفاظت کے اصل ضامن ہیں، کوئی غرض نہیں۔وہ صرف ان نسوانی حقوق کاتحفظ چاہتی ہے جو مغرب کےحیاباختہ معاشرے میں مغربی عورت کو حاصل ہیں۔
وہ اسباب جن کی وجہ سے عورت کو مشکلات کاسامنا کرناپڑتا ہے، یا وہ مردوں کےظلم وستم کاشکار ہوتی ہے،حسب ذیل ہیں:
سب سے اہم سبب اسلامی تعلیم وتربیت کافقدان اور اخلاقیات سے محرومی ہے اور یہ کمی ایسی ہے کہ ہم کسی ایک فریق کو اس کاذمے دار قرار نہیں دےسکتے۔اس فقدان اور محرومی میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں۔ اسی لئے کبھی زیادتی مرد کی طرف سے ہوتی ہے اور عورت کو مشکلات کاسامنا کرناپڑتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سے اس قسم کا اقدام، جس سے عورت کوناخوشگوار صورت حال سےد وچار ہوناپڑتا ہے،اس کاسبب عورت ہی کی غلطی یا ناسمجھی ہوتا ہے۔ اس لئے ہرحال میں مرد ہی کوظالم یا سزا وارِ سزا سمجھنا غلط اور یکسر خلاف واقعہ ہے اور عدل وانصاف کےمسلمہ اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس بل میں سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ صرف مرد کوہرصورت میں ظالم فرض کرلیا گیا ہے اور سزا کا اہتمام بھی صرف اسی کے لئے ہے۔ قطع نظر اس سے کہ جرم کی نوعیت کیا اور اس کا سبب کیا ہے؟ اس میں خطاکار مرد ہے یا عورت؟ یا دونوں ہی اس کے ذمے دار ہیں؟ علاوہ ازیں مرد کے خلاف ساری کاروائی صرف متاثرہ (عورت ،بیٹی، بہن، بیوی) کے بیان پر بغیر ثبوت اور بغیرگواہوں کے ہوگی۔ اور’’مدعاعلیہ‘‘ (مرد) میں خاوند کے علاوہ باپ اور بھائی وغیرہ بھی ہوسکتا ہے ۔کیونکہ خاوند کے علاوہ باپ بھی بیٹی سے، بڑابھائی بھی اپنی بہن سے اس کی کسی غلطی یا بے راہ روی پر باز پرس کرسکتا ہے،ڈانٹ ڈپٹ کرسکتا ہے اور بل میں اس تادیبی اوراصلاحی کاروائی کو بھی’’تشدد‘‘ قرار دیا گیا ہے،کیونکہ ایسا کرنا گو اسلام کی رو سے تو جائز ہے،لیکن مغرب میں یہ واقعی ایسا جرم ہے کہ بیٹی یا بیوی فون کے ذریعے سےپولیس کو بلواکر باپ یاشوہر کو گھر سے نکلواکر جیل بھجواسکتی ہے۔
بات پھر بل کی طرف چلی گئی کیونکہ بل ایسی کشش ثقل کاحامل ہے کہ فیصل آباد کے گھنڈ گھر کی طرح، جدھر دیکھو تو ہی تو ہے، والامعاملہ ہے۔
بات تربیتی فقدان ،اسلامی تعلیمات کے عدم شعور اوراخلاق سے محرومی کی ہورہی تھی، اس کی عامۃ الورودمثال طلاق کی ہے۔ بلاشبہ بہت سے مرد جہالت کامظاہرہ کرتے ہو ئے معمولی سے لڑائی جھگڑے پر طلاق دےدیتے ہیں اور طلاق بھی ایک ہی سانس میں تین مرتبہ۔ جن سے علمائے احناف کےنزدیک طلاق بتہ ہوجاتی ہے اور گھراجڑجاتا ہے، میاں بیوی کے خوار ہونے کے علاوہ بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے ۔
لیکن یہ سمجھنا خلاف واقعہ ہے کہ اس جہالت اورحماقت کامظاہرہ صرف مرد ہی کی طرف سے ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ بلکہ بسا اوقات اس میں عورت کی بدزبانی اور بداخلاقی اور ناسمجھی کادخل ہوتا ہے اور وہ ذرا سی بات پر طلاق کامطالبہ کرتی ہے ۔مردٹالنے اور درگزر کرنےکی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ ناسمجھی میں اتنا اصرار کرتی ہے کہ مرد کو،نہ چاہتے ہوئے بھی، طلاق دینی پڑ جاتی ہے۔اور پھر وہ ایک مرتبہ تین طلاقیں۔اس صورت حال کاحل کئی اقدامات کامتقاضی ہے۔
1حکومت کی طرف سے اسلامی تعلیم وتربیت کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں ہے۔ نہ مردوں کے لئے اور نہ عورتوں کے لئے۔ تعلیم وتربیت انسان کو حوصلہ مند بناتی اور عزم وحوصلہ کے ساتھ مسائل ومشکلات کاسامنا کرنا سکھاتی ہے،بالخصوص جلد بازی میں فیصلہ کرنے سے روکتی ہے۔ اور طلاق کے فیصلے اکثرعجلت، بےصبری،عدم برداشت اور بدا خلاقی کانتیجہ ہوتے ہیں۔ حکومت میاںبیوی کے حقوق اور ذمےداریوں پرمبنی اسلامی تعلیمات کومیٹرک کے بعد نصاب کاحصہ بنائے اوراخبارات اورٹی وی پروگرامزکے ذریعے سے بھی ان کونشر کروائے۔
2بالخصوص اسلامی طریقۂ طلاق کو، جس کی وضاحت، گزشتہ صفحات میں کی گئی ہے، زیادہ سے زیادہ اس کی نشرواشاعت کی جائے اور اسے نصاب تعلیم میں شامل کیاجائے۔
3ایک ہی مرتبہ تین طلاقوں کو جرم قرار دیاجائے ،جو عرضی نویس یاوکیل طلاق نامہ لکھے، ان کوبھی صرف ایک طلاق لکھنے کا پابند اور ان کے لئے بھی بیک وقت تین طلاقیں لکھنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ یہ سفارش اسلامی نظریاتی کونسل بھی کرچکی ہے۔
4اس غلط فہمی کا وسیع پیمانے پر ازالہ کیا جائے کہ طلاق لے لئے تین مرتبہ۔طلاق، طلاق، طلاق۔ کہنا یامیں-طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں-کہنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی صرف یہ کہتا ہے کہ میں طلاق دیتا ہوں،یاتجھے طلاق ہے۔ تو اس طرح ایک مرتبہ ہی طلاق کے لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے اور تین حیض یاتین مہینے تک رجوع نہ کرنے کی صورت میں طلاق بائنہ ہوجاتی ہے ۔ یعنی میاں بیوی والاتعلق ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد عورت آزاد ہے کہ اپنےولی کی اجازت اوررضامندی سےجہاں چاہے نکاح کرے۔
یہ طلاق کا ہی شرعی طریقہ ہے جس میں کسی کااختلاف نہیں۔ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اگر مرد کو اپنی غلطی کااحساس ہوجائے تو وہ عدت کے اندر رجوع کرکے دوبارہ اس کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے۔ اور عدت گزرنے کےبعد اگرصلح کی کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو نئے نکاح کےذریعے سے یہ دوبارہ تعلق زوجیت میں جڑ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ایسا مسئلہ ہے جو اتفاقی ہے۔ اس میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔
فقہی اختلاف اس وقت سامنے آتا ہے جب طلاق کاغیر شرعی طریقہ-ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں-اختیار کیاجاتاہے۔ اور اس اختلاف کی وجہ سے ان کا دوبارہ باہم ملاپ تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے الا یہ کہ وہ حلالہ مروجہ کیاجائے جس کابعض علماء فتویٰ دے دیتے ہیں، حالانکہ اسلام میں اس کاقطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کوئی غیرت مند مرد اسے برداشت نہیںکرسکتا۔علاوہ ازیں یہ خودساختہ فتویٰ جس طرح نقل(شرعی دلائل) کے خلاف ہے ،اسی طرح عقل کےبھی خلاف ہے کہ جرم کرنے (بیک وقت دین طلاقیں دینے )والا مرد ہوتا ہے لیکن سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے کہ وہ چند راتوں کے لئے کرائے کے سانڈ کے حوالے کردی جاتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ ۔یاد رہے کہ ’’کرائے کے سانڈ‘‘ کے الفاظ رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئےہیں۔حدیث کے اصل عربی الفاظ ہیں:’’التیس المستعار‘‘
5یا اس کادوسراحل ،جوشرعی ہے ،یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق (رجعی) شمار کیاجائے ،اس صورت میں بھی پھر عدت کے اندررجوع کرنا اور عدت گزرجانے کے بعد(بغیرحلالہ مروجہ کے) نکاح کرنا جائز ہے۔ اس کےاہل حدیث کے علاوہ کئی ائمہ اعلام(امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم وغیرہ) اور بعض صحابہ وتابعین اور دیگر متعدد اہل علم قائل ہیں۔شرعی دلائل بھی اس کی تائید میں موجود ہیں۔علاوہ ازیں پاک وہند کے متعدد علمائے احناف(دیوبندی وبریلوی) حالات کے پیش نظر اس کے قائل ہیں، جس کی تفصیل اور ان کے فتاوے اورمضامین راقم کی کتاب میں موجود ہیں، یہ کتاب ’’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کاشرعی حل‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔
دیگرعلمائے احناف بھی اگر مسئلہ طلاق میں یہی موقف اختیار کرلیں تو عورتوں کی مشکلات کے حل میں،جوبیک وقت تین طلاقوں کی تین ہی شمار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ،کافی مدد مل سکتی ہے۔
اس کی ایک نظیر بھی موجود ہے کہ زوجۂ مفقود الخبر کا کوئی معقول حل فقہ حنفی میںموجود نہ ہونے کی وجہ سے متحدہ ہند میں عورتوں کے لئے بڑی مشکلات تھیں تومولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے امام مالک کی رائے کو نہ صرف اختیار کیا بلکہ کبار علمائےاحناف سے بھی اس کی تائید میں فتاوے حاصل کیے۔اور یہ سارے فتاوے انہوں نے ایک کتاب-الحیلۃ الناجزہ فی الحلیلۃ العاجزۃ-میں شائع کردیے، یہ پون صدی (80-75سال)قبل کی بات ہے اس کتاب کا نیاایڈیشن -ادارۂ اسلامیات لاہور-نے شائع کیا ہے جس کے دیباچے میں مولانا تقی عثمانی صاحب کا یہ اعتراف ہے کہ عورتوں کی بہت سی مشکلات کاحل فقہ حنفی میں نہیں ہے۔
اس اعتراف کی روشنی میںپون صدی قبل کی اپنے اکابر کی نظیر کوسامنے رکھتے ہوئے اور ان کے سے طرز عمل کو اپناتے ہوئے اگر موجودہ علمائے احناف بھی بیک وقت تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے والے مسلک کو اختیار کرلیں، تو جاہلانہ طلاق کانہایت آسان حل نکل آتا ہے اور طلاق کے باوجود 80فی صد گھرانے اجڑنے سے بچ سکتے ہیں۔
6طلاق کا جوصحیح اور شرعی طریقہ ہے، اسے اخبارات وغیرہ میںاور اسی طرح ایک وقت میں تین طلاقوں کے دینے کو قابل تعزیر جرم ہونے کو، حکومت کی طرف سے اشتہار کےطورپرصفحۂ اول پر شائع کرایاجائے۔
اگرحکومت اور دیگر این، جی ،اوز واقعی عورتوں کی مشکلات کے حل میں مخلص ہیں تو حکومت اپنے کارناموں کی تشہیر میں کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کرتی ہے۔ تو کیا وہ اس اہم مسئلے پر،جس سے 80فی صد گھرانے اجڑنے سے بچ سکتے ہیں ،چند کروڑروپے سالانہ قومی خزانے سے اس مد کے لئے مخصوص نہیں کرسکتی؟ یہ حکومت کے اخلاص کااور عورتوں کے مسائل کے حل میں حکومتی دلچسپی کا امتحان اور ٹیسٹ کیس ہے۔
عورتوں کی مشکلات کا ایک اور قرآنی حل-محلہ وار پنجائتیں
یہ حل قرآن کریم کی سورۃ النساء ،آیت نمبر۳۵میں بیان کیا گیا ہے جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کرآئے ہیں۔ اس کی رُو سے ،محلوں کی سطح پر،پنجائتی نظام کاقیام ہے، اسے کونسلروں اورناظموں کے ذریعے سے بھی بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔ یونین کونسلیں پہلے بھی اس سلسلے میں کچھ کام کرتی آرہی ہیں، ان کومزید فعال بھی کیاجائے اور کچھ اختیارات بھی دیے جائیں تاکہ عدالتوں پر بھی بوجھ نہ بڑھے اور عوام بھی عدالتی چارہ جوئی کے بجائے، جولمبا بھی ہے اورمہنگا بھی، اپنے علاقے ہی میں ان پنچائتوں کی طرف رجوع کریں۔ یہ پنچائتیں پہلی اور دوسری طلاق میں صلح کرانے کی کوشش کریں جس کی گنجائش عدت کے اندر، یعنی تین مہینے تک،موجود ہے۔ نیز عدت گزرنے کے بعد بھی نکاح جدید کے ذریعے سے ٹوٹاہوا تعلق دوبارہ قائم ہوسکتا ہے ،اگر یہ پنچائتیں مخلصانہ کوشش کریں۔
یہ قرآنی حل اورطریقہ اس طریقے سےہزاردرجے بہتر ہے جو بل میں تجویز کیا گیا ہے جو اس قرآنی حل کے برعکس شیطانی حل ہے۔ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کسی طرح بھی غلط فہمیاں دور نہ ہوں اور دوبارہ جڑنے کی کوئی صورت نہ رہے۔
cفیملی عدالتوں کو مزید فعال اور ان کو ایک معین مدت تک فیصلے کرنےکاپابند بنایا جائے۔تاکہ جوعائلی تنازعات ، پنچائتوں کے ذریعے سے حل نہ ہوسکیں، عدالتوں سےان کو فوری ریلیف مل جائے۔ جیسے خلع، طلاق کے بعد بچوں کی تحویل، نان ونفقہ، وراثت وغیرہ کے مسائل ہیں۔
cاگرحکومت پنچائتی نظام کو صحیح معنوں میں قائم کردے اور ان کومناسب اختیارات بھی دے دیے جائیں تو یہ سارے مسائل محلوں کی سطح پر ،عدالتوں کی طرف رجوع کیے بغیر ہی، حل ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ صرف اخلاص اور عزم وہمت اور قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کا ہے۔ اور اگرمغرب ہی کی نقالی یا ان کی خوشنودی یا ان سے فنڈ لینا مقصود ہے تو پھر بات اور ہے ۔لیکن نہ نقالی سے عورت کے مسائل حل ہوں گے اور نہ فنڈز کے حصول سے۔عورت کی مشکلات جوں کی توں رہیں گی بلکہ علم نجوم میں مہارت کے بغیر یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہےکہ ان میں اضافہ ہی ہوگا۔ گوہماری خواہش اور دعاتو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن غلط طریق کار کے غلط نتائج کومحض آرزؤں اور تمناؤں سے نہیں روکاجاسکتا۔
cجہیز کی لعنت کا نہایت سختی سے خاتمہ کیاجائے ،اب تک کی بعض نیم دلانہ کوششوں سے اس رسم بد کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں مل سکی۔ ضرورت ہے کہ اس محاذ پر بھی حکومت سنجیدگی سےکوشش کرے۔ اس لعنت کی وجہ سے بھی بہت سی عورتوں کو متعدد مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
cعورت کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے ایسی قانون سازی کی جائے کہ کسی کو بھی عورت کو باپ کی جائیداد سےمحروم کرنے یامحروم رکھنےکی جرأت نہ ہو۔ اگر اس قسم کےکیس عدالتوں میں جائیں تو اس کے لئے بھی عدالتوں کو ایک معین مدت کے اندر فیصلہ کرنے کاپابند کیاجائے۔عدالتی نظام کی متعدد خامیوں کی وجہ سے جوتاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیںاور سالہاسال تک عورتوں کواپناحق لینے کے لئے جن جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،وہ شدید ظلم کی ایک صورت ہے جس سے عورت کونجات دلاناحکومت کی ذمےداری ہے۔
cمیٹرنٹی ہوم(زچےبچے کی سہولتیں) عام کی جائیں اور ہرمحلے میں یہ نہ صرف قائم کیے جائیں بلکہ تربیت یافتہ اسٹاف ان میں متعین ہو اور دیگر سہولتوں کاانتظام ہو۔ یہ عورت کےلئے موت وحیات کی کشمکش کاسنگین مرحلہ ہوتا ہے، اس مرحلے میں عورت کے لئے سہولتیں مہیاکرنا بھی حکومت کی ذمے داری اور اس سے پہلوتہی کرنا عورت پرسخت ظلم ہے جو عورت کیلئے ہمدردی ظاہر کرنے والی حکومت کے لئے ناقابل معافی ہے۔
cمعاشرے میں جو عورتیں مطلقہ یابیوہ ایسی ہوں کہ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو، ان کے لئے شیلٹرہوم بنانے کاشوق پوراکرکے ان کی آبرومندانہ کفالت کا انتظام کیا جائے۔
cکاروکاری کاسدباب کیاجائے ۔اس کا ارتکاب بڑے جاگیردار،تمن دار، وڈیرے قسم کے لوگ کرتےہیں۔ اپنی زمینوں ،جاگیروں وغیرہ کوبچانے کے لئے نوجوان بچیوں کی شادیاں قرآن کریم سے کرنے کاڈھونگ رچاتے ہیں۔ بھلا قرآن کریم سے بھی کسی کانکاح ہوسکتا ہے۔ یہ وڈیرے اس ملک میں اس طرح عورت پر ظلم کرتے ہیں ۔کون سا عالم ہے جو اس ظلم کی حمایت کرتا یاحکومت کو اس کے سدباب کے لئے قانون سازی سے روکتا ہے؟
cاس طرح وَنّی کی جاہلانہ اورظالمانہ رسم ہے کہ اپنے ناجائز ظلم کے بدلے میں کم سن بچیوں کی شادیاں بوڑھوں کے ساتھ کرکے اورمعصوم بچیوں پر ظلم کرکے اپنے ظلم کاازالہ کرتے ہیں۔ اس کے خلاف قانون سازی سے کون سا عالم اس ظلم کی حمایت کرتاہے؟
cغیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون بنائیں۔ کوئی عالم غیرت کےنام پر قتل کو جائز قرار نہیں دیتا۔چندروز قبل ہیومن رائٹس آف پاکستان کی رپورـٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے جس میں بتلایاگیا ہے کہ2015ء میں 1100 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ جنسی تشدد میں بھی اضافہ ہوا جس میں بچے اور بچیاں اس کاشکار ہوئیں۔
(روزنامہ ’’آواز‘‘ ۲اپریل ۲۰۱۶ء)
اس کے اسباب کابھی خاتمہ فرمائیں جوبالکل واضح ہیں کہ نوجوان نسل ٹی وی کےفحش اور عشقیہ فلمیں اور ڈارمے دیکھ کر نہایت تیزی سے بے راہ روی کاشکارہورہی ہے، اس کے نتیجے میں ہی ایسے واقعات رونماہوتے ہیں کہ بعض لوگ ان کو دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اورغیرت میں آکر اپنی ہی بیٹی ،بہن یابیوی کوقتل کردیتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ اسلامی غیرت ہی کامظہر ہے تاہم نہ اسلام میں، اس قتل غیرت کی اجازت ہے اور نہ کوئی عالم ہی اس کی حمایت کرتا ہے۔
cاسی طرح جنسی تشدد بھی نہایت وحشیانہ حرکت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اس کی وجہ بھی ٹی وی پروگرام اورفلمیں وغیرہ ہیں۔
ان کے اسباب کاخاتمہ اور اس قسم کے واقعات کے سد باب کے لئے قانون سازی یا موجودہ قوانین پر عمل داری یہ کس کاکام ہے؟ حکومت کے سوا یہ کام کون کرسکتا ہے؟ حکومت اپنی یہ ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتی؟
cعورت کے چہرے پرتیزاب پھینک کر اس کو مردوں کے لئے ناقابل قبول بنانا، نہایت سنگ دلانہ حرکت اور عورت پربڑا ظلم ہے۔ علماءتو کہتے ہیں کہ فوجداری قانون میں اس قسم کے کاموں کی سزائیں موجود ہیں۔ان کونافذ کریں بلکہ اسلام کے قانون قصاص پر عمل کرتے ہوئے ایسے ظالم مردوں کے چہروں کوبھی تیزاب سے جُھلسادیں۔ پھر دیکھیں کہ کوئی مرد اس ظلم کاارتکاب کرتا ہے؟ ہمیں سو فی صد یقین ہے کہ اس قانون قصاص پر عمل کی برکت سے ان شاء اللہ اس جرم کاسوفی صد سدباب ہوجائے گا۔
cمخلوط تعلیم کاخاتمہ کرکے خواتین کے لئے الگ تعلیمی ادارے (کالجز اوریونیورسٹیاں) قائم کیے جائیں یہ بھی مسلمان عورت کا ایسا حق ہے کہ جس کاپورا کرنا ایک مسلمان مملکت کافرض منصبی ہے۔ اس کے بغیر عورت کو مردوں کی ہوس کاری سے بچانا ناممکن ہے۔
21فروری2016ء کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور میں ایک امریکی ادارے کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو بشم ہاروڈ یونیورسٹی امریکہ کی 27نامور یونیورسٹیوں کے سروے پر مبنی ہے۔ اس میں مخلوط تعلیم کے نتیجے میں طالبات جس کثرت سے جنسی حملوں کا شکار ہوتی ہیں، اس کی تفصیل ہے۔ یہ ان کے لئے نہایت چشم کشارپورٹ ہے جو پاکستان میں مغربی ایجنڈے کے مطابق مخلوط تعلیم کومسلط کیے ہوئے ہیں ۔یہ رپورٹ الگ منسلک ہے۔
cاسی طرح عورتوں کے لئے نصاب تعلیم بھی مردوں سے الگ مرتب کیاجائے تاکہ مسلمان عورت اپنے مقصد تخلیق اور فطری صلاحیتوں کے مطابق زیادہ بہتر طریقے سے ملک وقوم کی خدمت کرسکیں ۔علاوہ ازیں ان کے لئے چند شعبے بھی مخصوص کیےجاسکتےہیں جن کی وہ تعلیم وتربیت حاصل کریں اور وہاں وہ مردوں سے الگ رہ کر خدمات سرانجام دیں۔ مثلاتعلیم کا شعبہ ہے،طب(ڈاکٹر) کا شعبہ ہے، اسی طرح اور بہت سے شعبے ایسے ہوسکتے ہیں جہاں وہ ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ مفوضہ فرائض انجام دی۔
حرف آخر:
پاکستانی عورت مسلمان ہے، یہاںکامعاشرہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، پاکستانی ریاست کاسرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ ان تمام باتوں کاتقاضا ہےکہ پاکستانی عورت کے بحیثیت مسلمان، جوحقوق ہیں، وہ اسے اس کے مذہب اسلام کی روسے ملنے چاہئیں اور حکومت کابھی فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کی روشنی میں ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس سے انحراف پاکستانی عورت کی بھی حق تلفی بلکہ اس پرظلم ہے اور حکومت بھی اپنے حلف سے انحراف کی مجرم ہوگی۔
وماعلینا الاالبلاغ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے