زمینی حقائق اور انسانی دعوؤں میں اکثر تضاد پایا جاتا ہے۔سچائی سے چشم پوشی اختیار کر کے اپنے فکری میلانات کو ترجیح اور فوقیت دینا انسانی فطرت کا خاصّہ ہے۔قوموں کے حالات میں مکمل تغیر و تبدل کسی جزوی تبدیلی سے رونما نہیں ہوسکتا۔انسانوں کی فلاح اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ان کے خمیر میں شامل شرکے مادے کے رخ کو نہ موڑا جائے۔کیونکہ یہ تو فطری تقاضے ہیں ان کو نکال کر پھینکا نہیں جاسکتا، البتہ ان کے رخ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور یہ کسی حد تک انسان کی دسترس میں ہے۔
ہمارے دانشور یہ دعویٰ کر تے ہیں کہ آج انسان تہذیب و تمدن کی تمام نعمتوں سے سر فراز ہورہا ہے، انسانی تاریخ ایک طویل سفر طے کر کے آج اس نظام کو تشکیل دے چکی ہے جو انسانیت کی فوز و فلاح ، ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔کمیونزم کا بت پاش پاش ہوچکا ہے اور جمہوریت امن و آشتی لے کر آچکی ہے۔جس میں ہر انسان کے مساوی حقوق موجو دہیں، مگر اس دعوے کے بر خلاف موجودہ دور کے حالات کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ تو یہ ہے انسانیت ظلم و استحصال وحشت و درندگی، احترام آدمیت سے محروم ، غربت و افلاس کی چکی میں پستی اور حیوانوں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔پھر فلاح کہاں ہے؟ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کیوں عنقا ہیں؟ یہ کیسا طرزِ حکومت ہے جس میں انسان اپنی بنیا دی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے سے لا چار ہے۔موجودہ تہذیب میں شر کی قوتوں کو خیر پر غلبہ حاصل ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج کی تہذیب انسان کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے سودمند نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی تہذیب اور کوئی بھی قوم اللہ سے تعلق توڑ کر ثمر بار نہیں ہو سکتی، سچ یہ ہے کہ اعلیٰ انسانی اقدار کے بغیر ہر تہذیب جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔
سیاسی چالبا زیوں ،طبقاتی نا ہمواریوں اور حقوق و فرائض کی غیر منصفانہ تقسیم نے دنیا میں غربت و افلاس کو جنم دیا۔ عدل و انصاف کے تقاضوں سے مجرمانہ غفلت اور غریبوں کی پسماندگی سے انسانوں کی بھوک، قحط ،مفلوک الحالی اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔اللہ نے انسانوں کو آزادپیدا کیا ہے جو اپنی بنیادی ضرورتوں کو پور اکرنے اور جہد للبقا کے لیے ہر لحاظ سے اور زندگی کے ہر گوشے میں اس آزادی کے مستحق ہیںجو قدرت نے اس کی مخلوق ہونے کے ناتے انہیں عطا کی ہے۔لیکن حکومت اور قوانین مرتب کر نے والا اور اس پر عمل کروانے والا طبقہ مراعات یافتہ اور سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے۔اس لیے وہ عوام سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور اس سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں خواہ اس کے اس استحصالی عمل سے قومی و ملی مفادات کے بخیے ہی کیوں نہ ادھڑ جائیں۔
مفاد پرستی اور خوغرضی نے ہی مجبور اور بے کس انسانوں کی ذلت آمیز خرید و فروخت کی منڈیوں کو جنم دیا۔غربت و افلاس کے مارے معصوم بچے اور عورتوں کی دنیا کے ہر ملک میں اسمگلنگ شروع ہوگئی۔نیشنل جیو گرافک رسالے کی ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا میں 27ملین سے زیا دہ خواتین اور بچوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کا بے انتہا جنسی استحصال ہوتاہے۔آج انسانوں کی خرید و فروخت(Human Trafiking)خورد و نوش کی اشیا کی مانند سہل الحصول ہو چکی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس روشن اور ترقی یافتہ دور میں بھی کوئی بھی شخص ایک بچے کو ساڑھے تین ہزار میں خرید سکتا ہے۔جبکہ تل ابیب میں ایک لڑکی کی قیمت چار ہزار ڈالر سے زیادہ نہیں۔
افریقہ میں بچوں میں ایڈز پھیلنے کی ایک بڑی وجہ بھی غربت ہے۔افریقہ کے دقیانوسی معاشرے میں یہ مفروضہ عام ہے کہ اگر جسمانی مرض میں مبتلاکوئی مرد کم عمر لڑکی سے کوئی جسمانی تعلق پیدا کرے تو اگر اس لڑکی نے پہلے کسی سےیہ تعلق قائم نہ کیاہو تو ایسی صورت میں جسمانی تعلق قائم کرنے والے مرد کو اپنے مرض سے نجات مل سکتی ہے۔غربت کے مارے والدین دولت کے لالچ میں معصوم بچیوں کو موت کی آغوش میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس جسمانی تعلق سے مرد کو جنسی مرض سے تو نجات نہیں ملتی البتہ وہ معصوم لڑکی خود ایڈز جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ افریقہ میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں ایڈز کا تناسب زیادہ ہے۔ان تمام حقائق کے شعور کے با وجود بھوک ،افلاس اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر والدین اپنی کمسن اور نو خیز بچیوں اور بچوں کو صاحب ثروت لوگوں کی ہوس کی پیاس بجھانے کے لیے ان ایجنڈوں کے حوالے کر دیتے ہیں ، جو انہیں عیاش لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس طرح ان ہوس پرستوں کو سستی عیاشی میسر آجاتی ہے۔ آج یہ گھناؤنا کارو بار دنیا میں سب سے زیا دہ منافع بخش دھندا بنا ہو اہے۔
بچوں کا جنسی استحصال بر صغیر اور دیگر کئی ممالک میں بھی معمول کی بات ہے۔کچھ سال قبل لاہور کے جاوید اقبال کی طرف سے 100بچوں کا پہلے جنسی استحصال اور بعد میں ان کا انتہائی بے دردی سے قتل ایک ایسا واقعہ تھا جس نے لوگوں کی آنکھوں سے پٹیاں کھول دیں۔لیکن اس بھیانک واقعہ سے ہمارے معا شرے نے کوئی سبق نہیں سیکھابلکہ معاشرے میں بچوں کا جنسی استحصال بڑے بھیانک انداز سے آج بھی جاری ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ اب تک بر قرار ہے جو کہ غربت ہے۔گلیوں میں کچرا چننے والے بچے، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے سامنے بچی ہوئی ہڈیاں چوسنے والے بچے جنسی استحصال کے لیے بڑی سازگار کھیتیاں ہیں۔ہمارے معاشرے کا فرض ہے کہ وہ طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد تیز کرے۔جب تک طبقاتی معا شرہ قائم ہے ،امیر غریب کا فرق بر قرا ر اور معصوم بچوں کا استحصال بغیر روک ٹوک کے جاری رہے گا۔
پاکستان میں بھی جہاں مذہب ، سماجی قدغنوں اور مشرقی اقدار کی دم توڑتی زندگی اس معاشرے کا حصہ ہے، وہاں بھی جسم فروشی حصول دولت کاایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔اس کام میں بیشتر گھر یلو عورتیں( se House Wiv) بھی شامل ہیںجو غربت ، مہنگائی اور احساس محرومی کا شکار ہو کر یہ گھنا ؤنا کام کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان میں صرف پاکستا نی خواتین ہی نہیں بلکہ دیگر مما لک سے اسمگل کر کے لائی جانے والی عورتیں بھی شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطا بق اس وقت کراچی میں 10لاکھ بنگلہ دیشی اور 2لاکھ سے زائد بر می خواتین ہیں۔پاکستان میں فروخت ہونے والی ایک بنگلہ دیشی یا برمی خاتون کی قیمت 15سو امریکی ڈالر سے لے کر ڈھائی ہزار امریکی ڈالر تک ہوتی ہے۔اور اس قیمت کا تعین خاتون کی عمر،شکل و صورت، فرماں برداری اور اس کی پاک دامنی پر ہوتا ہے۔پولیس ہر سودے پر 15سے 20فیصد تک کمیشن وصول کر تی ہے۔اور اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ان خواتین کے علاوہ8سے 15برس کی بچیوں کو بھی جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس گھنا ؤنے کھیل کے پیچھے غربت ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔
امرا اور صاحبِ ثروت طبقات کی یہ عیش پرستیاں ان کے گھروں اور پانچ ستارے والے ہوٹلوں سے ہوتی ہوئی ایوان اقتدار کے بام و در تک جا پہنچی ہیں، جبکہ مصیبت کے مارے لاکھوں انسانوں کو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لیے چھوٹا سا سائبان بھی میسر نہیں۔نہ سردی گرمی سے بچاؤ کا کوئی وسیلہ حاصل ہے ۔کبھی جھلسا دینے والی گرمی کے تھپیڑے ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں تو کبھی سردی کی خون جما دینے والی ہوائیں ان مظلوموں کو ایک اکڑی ہوئی لاش میں تبدیل کر دیتی ہے۔دنیا کے دکھوں ،مصائب اور انسانوں کی بے بسی اور نا گفتہ بہ حالت سے چشم پوشی اختیار کرکے اپنے ہی عیش و عشرت اور دولت و ثروت کے اسیر ہو کر رہنا، محروم انسانوں کے ذہنوں میں تعصب، انتقام اور ظلم کو جنم دیتا ہے اور یہ طرز عمل دنیا میں تباہی، بربادی،خون ریزی، دہشت گردی اور حیوانیت کی راہیں ہموا ر کرتا ہے۔
انسانی معاشرے میں غیر مساوی ترقی کے نقصانات کو واضح کر تے ہوئے عالمی بینک کے ایک ڈائریکٹر پالس اسٹریٹن لکھتے ہیں: ’’آج دنیا میں ترقی کا مطلب معاشرے کے دشمنوں مثلاً بھوک، بیماری، ناخواندگی، بیروزگاری، غیر مساوی دولت کی تقسیم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔اگر ہم اقتصادی پیداوار کے حوالے سے دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یقینا اس ضمن میں تو بڑی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔لیکن اگر یہی صورت حال ملازمتوں کی فراہمی ،سماجی انصاف ، غربت کے خاتمے جیسے زاویوں سے دیکھی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم اپنے ہدائف(Achivements) میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔تیز رفتاری کی ترقی کے باوجود سماجی تفریق کا خاتمہ نہیں لایا جا سکا‘‘۔اسی بات کو عالمی بینک کے ایک سابق صدر لوئس پرسٹن اس طرح کہتے ہیں: ’’ترقی کے تمام نظریات اس وقت تک مکمل طور پر بے معنی ہیں جب تک کے اس کا فائدہ عوام کو نہ پہنچے اور اس کی زندگی کے حالات بہتر نہ ہوں‘‘۔
انسانوں کی با عزت اور خوش حال زندگی کی تمام تر ذمہ داری ریاست کے اوپر عائد ہوتی ہے۔جب ریاست اپنے عوام کے ذریعہ ملک پر حکمرانی کا حق حاصل کرتی ہے تو اس کے بعد ریاست کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود ، امن و سکون اور احترامِ آدمیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا پورا انتظام و انصرام کرے۔ خواتین اپنی پاک دامنی کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک بے خوف و خطر زندگی گزاریں۔اس کے علاوہ معاشرے میں ہر قسم کے انسانی استحصال کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا جائے تاکہ تمام شہریوں کو اطمینان قلبی کے ساتھ اپنی استعداد و صلاحیتوں کو استعمال میں لانے اور ان سے فیض یاب ہونے کے مواقع حاصل ہوسکیں۔بورژوا ماہر اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ پرو فیسر والٹ پروسٹو کا مشہور زمانہ نظریہ Rostow\’s stages of growth modle of developmentکا حاصل یہ ہے کہ اس بات پر غور نہ کیا جائے کہ پیداوار کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد معاشرے کے کن طبقوں تک پہنچ رہے ہیں بلکہ اصل غور طلب بات یہ ہے کہ اس پیداوار سے با لآخر ملک کی مجموعی اقتصادی حالت بہتر ہوتی ہے اس لیے اس نظریہ ٔ پیداوار کی مکمل حمایت کی جا ئے۔
کرۂ ارض پر آج بھی انسانی معاشرہ طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔یہ تقسیم فطری اور ابتدائی نہیں بلکہ تاریخ انسانی کے مختلف پیداواری ادوار میں استحصالی قوتوں کے غالب آجانے کے باعث ہوئی ہے۔اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ استحصالی طبقوں کے اقتدار پر قابض ہوجانے کے باعث عام پیداورای قوتوں اور پیداواری عمل ان کے رحم و کرم پر آگیا ہے۔سرمایہ داراور جاگیر دار نے غریب کو دبانے کے لیے ہمیشہ ریاست کی قوت کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ہمارے وطن میں بھی اس کی مثالیں اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہیں کہ ہمارے حکمران کن کن راستوں سے ملک کے خزانے اور ملکی وسائل کو اپنے ذاتی ضرورتوں ، بے مقصد اسفار اور اپنے پروٹوکول پر پانی کی طرح بہا تے رہتے ہیں۔اول تو مصیبت کے مارے اور نا مسائد حالات کے ہاتھوں کچلے ہوئے عوام صدائے احتجاج بلند کر ہی نہیں سکتے اور اگر کوئی یہ جرأت کر بھی لے تو ریاستی وسائل کو استعمال کر تے ہوئے ا ن کے ساتھ ایسا وحشیا نہ سلوک کیا جاتا ہے کہ ان کی آواز حلق کے اندر ہی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔
سلطنت برطا نیہ نے جب اپنی وسیع ترین حکومت کی طنابیں کھولنا شروع کیں تو اپنی نو آبادیوں کو آزادی دیتے ہوئے حکومتوں کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھوں میں تھمادی جنہیں نوآبادیا ت میں پہلے سے ہی جاگیریں سو نپی ہوئی تھیں۔یہ جاگیر دار عیش پرست اور نااہل تھے ، اس لیے انہوں نے اپنے اختیارات کا فائدہ اٹھانے اور امور مملکت چلا نے کے لیے برطانوی دور کی تربیت یافتہ سول بیورو کریسی کو ہی استعمال کیا۔اس بیورو کریسی کی وفاداریاں کبھی بھی اپنے ملک کے غریب عوام کے لیے نہیں رہیں۔
جدید مشرقی عورت کے مصائب کا سب سے بڑا سبب بھی افلاس ہے۔اگر اس کا خاتمہ ہوجائے تو عورت کے بیشتر مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔اس کے ساتھ ہی اس کی کھوئی ہوئی عزت و احترام بھی حاصل ہو جائے گا۔اور پھر اس کو گھر سے باہر جا کر ملازمتیں تلاش کر نے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔ان تمام ذلتوں، آلائیشوں، جنسی استحصال، انسانوں کی خرید و فروخت اور اخلاق باختہ منڈیوں کے خاتمے کا واحد علاج اسلام کا سائبان ہے۔مذہب کا صحیح شعور ہی انسان کی نجات کا واحد راستہ ہے۔مذہب کے بغیرزندگی میں کوئی معنویت سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔دین کی بنیادی خصوصیت آخرت کا عقیدہ ہے۔اس عقیدے کے بعد کرہ ارض پر انسان کی زندگی نئی وسعتوں کے دامن چھونے لگتی ہے اور انسان کے سامنے امکانات کے نئے نئے افق ابھرنے لگتے ہیں کہ وہ اگر نہ ہوں تو انسان ہیچ میرزی کے اذیت ناک احساس کا شکار ہوجائے۔حیات کے بعد موت کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی مجموعی عمر میں سے ایک معتد بہ حصہ حذف کر دیا جائے اور اسے اپنی اندھی بہری خواہشات اور تو ہمات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔اس کے بعد انسان اپنی خواہشات نفس کی آسودگی میں گم ہوجاتا ہے اور اس کی کوششوں کا ہدف صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ جتنی مسرتیں وہ سمیٹ سکتا ہے سمیٹ لے اور کسی کو ان میں شریک نہ کرے۔ یہیں سے رقابتیں اور وحشیانہ جنگیں جنم لیتی ہیں، کیونکہ خواہشات کے بندوں کی اس دنیا میں ہر کوئی اپنے سامنے پھیلے ہوئے خوانِ یغما پر بڑھ بڑھ کر ہاتھ مارنا چاہتا ہے۔اور زیادہ سے زیادہ فائدے کم سے کم وقت میں خود سمیٹ لینا چاہتا ہے۔اس کے دل میں کسی بالا تر ہستی کا خوف نہیں ہوتا، کیونکہ اس دنیا کا نہ کوئی رب ہوتا ہے اور نہ کوئی نظامِ عدل و انتقام۔
عورت کا مسئلہ ہو یا مرد کا ،اسلام اور اسلام ہی اس کو حل کر سکتا ہے۔اس لیے ہم مردوں ،عورتوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا سب سے پہلا فرض ہے کہ مل جل کر ایک صحیح اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشش کریںاور اپنی زندگیوں کو اسلامی قا نون کے مطابق ڈھالیں اور جب ہم یہ کرلیں گے تو عمل کی دنیا میں اپنے عقائد اور نظریات کو بھی غالب کر سکیں گے۔زندگی میں توازن اور ہم آہنگی کے حصول کی یہی واحد راہ ہے، جو ہر قسم کی بے انصافی، جورو ستم اور جبر و استبداد سے پاک ہے۔
حوالہ جات
1- CATW Fact Book, Citing Gabrel, Diana Mendoza, April 1966.
2- Manila Hails Child Sexcase, \”ECPAT Bulletin, March April 1966.
3- CATW Fact Book, Citing Department of Social Welfare and Development 375000 Filipino Women & Kids are into Prostitution, Philippino Daily Inquirer, 26 July 1997.
4- National Geograpic, Sep 2003.
5۔ افلاس، سماجی نا ہمواریاں اورترقی کا تصور، مؤلف: ریاض احمد شیخ، مطبوعہ: فکشن ھاؤس، 18مزنگ روڈ، لاھور۔
6۔اسلام اور جدید ذہن کے شبہات،مؤلف: محمد قطب، مطبوعہ: البدر پبلی کیشنز، اردو بازار، لاھور۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے