’’حیاء ایمان سے ہے اور ایماندار جنت میں داخل ہوگا بے حیائی بد اخلاقی ہے اور بد اخلاق کا مقام دوزخ ہے۔‘‘ (بخاری)
شریعت میں ’’حیاء‘‘ اس اچھائی کا نام ہے جو انسان کو ان تمام چیزوں کے چھوڑنے پر ابھارے جو شریعت میں قبیح ہیں اور اسی بنا پر ارشاد نبوی ﷺ ہے :
’’ حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے۔‘‘ (مشکوۃ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ
’’حیاء تمام کی تمام خیر ہے۔‘‘ (مسلم)
ایسی عادت حیاء کہلاتی ہے جو بُری چیز سے اجتناب پر ابھارے اور حق والے کے حق میں کمی سے روکے۔ حیاء کو ایمان کا حصہ قرار دیاگیا ہے اسے دیگر نیک اعمال کی طرح کوشش اور محنت کرکے حاصل کیا جاسکتاہے لیکن بسا اوقات یہ فطرت میں پہلے سے شامل ہوتی ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ
’’ حیاء بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے : ’’حیاء اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک چیز ہوگی تو سمجھو دوسری بھی ہوگی۔‘‘ (مشکوۃ)
’’حیاء ایمان کا جزء ہے اور ایمان بہشت میں لے جاتاہے اور بے حیائی بدکاری ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
’’حیا اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اور اخلاق حسنہ کے تاج میں جگمگاتا ہیرا ہے اگر حیاء ہے تو دوسرے خصائل بھی ہوسکتے ہیں۔
’’بے شک ہر دین کے لیے ایک خلق ہے اور اسلام کا (خلق) حیاء ہے۔‘‘ ( مشکوۃ)
جتنے دین ہم سے پہلے گزرے ہیں ان میں ایک نہ ایک اچھی خصلت نمایاں طور پر موجود رہی ہے سوائے حیاء کے یعنی حیاء کو اسلام کےاندر تمام اخلاق میں بلند مقام اور غالب حیثیت حاصل ہے۔
’’حیاء‘‘ انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے ۔ افعال میں ہو ، اخلاق میں ہو یا اقوال میں، جس میں حیاء کا جذبہ نہ ہو اس کے لیے ہر آن گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’شرم اُٹھ جانے کے بعد جو جی چاہے کرو۔‘‘ (مشکوۃ)
’’جب تو حیا نہیں کرتا تو پھر جو جی چاہے کر۔‘‘ (بخاری)
انسان میں حیاء تین اقسام پر مشتمل ہوتی ہے :
1 اللہ تعالیٰ سے حیاء :
یہ حیاء دین کی قوت اور یقین کی صحت سے حاصل ہوتی ہے۔
2 لوگوں سے حیاء :
لوگوں سے حیاء کا مفہوم یہ ہے کہ ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے اور فضول بات پر دشمنی مول نہ لی جائے۔
3 اپنے آپ سے حیاء :
اس کا مفہوم پاک دامنی اور تنہائیوں کی حفاظت سے پورا ہوتاہے یہ نفس کی فضیلت اور اچھی نیت سے حاصل ہوتی ہےاللہ تعالیٰ سے حیا پر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :

اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الحَيَاءِ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَسْتَحْيِي وَالحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ، وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَالبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْتَذْكُرِ المَوْتَ وَالبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الحَيَاءِ (ترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحديث:2458 حكم الالباني حسن)

’’لوگوں اللہ سے حیاء کرو اور حیا کا حق ادا کرو ، کسی نے آپ ﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اللہ سے شرماتے تو ہیں ، آپ ﷺ نے جواب دیا یہ حیاء نہیں بلکہ دماغی تخلیات پر پورا قابو رکھا جائے قبر میں ہڈیوں کے گل جانے کا دھیان رہے ، پیٹ کو حرام سے بچایا جائے، موت کو ہمیشہ یادر کھا جائےجو شخص آخرت کا ارادہ رکھتا ہے دنیا کی زینت کو ترک کر دیتاہے جس نے یہ کام کئے اس نے درحقیقت اللہ کی حیاء کا حق ادا کر دیا۔‘‘ (ترمذی)
جب انسان میں تینوں طرح کی حیاء مکمل ہوگی تو اس میں خیر کے اسباب بھی کامل ہوجائیں گے اور برائی کے اسباب کی نفی ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ حیاء سے فقط بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (مسلم)
فحشاء حیاء کی ضد ہے ، جس سے فحش اور فحاشی کے الفاظ نکلے ہیں جس کا مطلب ہے : بے شرمی، بے حیائی، انتہا درجے کی بے غیرتی اور سرعام برائی اور نافرمانی کرنا۔
قرآن میں بے حیائی پھیلانے والوں کے بارے میں سخت وعید ہے ، ارشاد ربانی ہے :

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور19)

’’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘

تقویٰ اور حیاء کا تعلق :

’’تقوی‘‘ دل کے اندر اللہ کے خوف سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر اعمال پر اثر کرتا ہے اور ’’حیاء‘‘ تقوی کے زیر اثر( اللہ کا ، لوگوں کا یا اپنا) لحاظ رکھ کر اس کے سامنے شرمندئہ نفس ہوکر دل کے اندر غلط کا م پر احساسِ ندامت سے بچنے کی خواہش اور کوشش کا نام ہے جو غلط کام سے

روک دیتاہے۔
جتنا زیادہ تقوی ہوگا اتنی حیاء زیادہ ہوگی اس کے بارے میں حدیث رسول ﷺ ملاحظہ فرمائیں :
’’حیاء اور ایمان دونوں ایک ساتھ ہیں اگر ان میں سے ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود اُٹھ جاتاہے۔‘‘ (الحاکم)
حیاء اور ایمان اکھٹے کئے گئے ہیں پھر جب ان میں سے ایک اٹھ جاتاہے تو دوسرا بھی چلا جاتاہے۔ ( مشکوۃ)
قرآن میں مرد وعورت دونوں کو حیاء کا رویہ اپنانے کا حکم دیاگیا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ (النور30۔31)

’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ۔‘‘
اس آیت میں مرد وعورت دونوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ مومن بے حیاء نہیں ہوتا اور ایمان والی عورت کا اصل زیور سونا،چاندی نہیں بلکہ حیا اور پردہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
’’ جس میں حیاء ہوگی اس میں ایک خاص قسم کی زینت ہوگی۔ ‘‘ ( ترمذی)
مردوں کے لیے حیاء کی بہترین مثال آپ ﷺ کی ذات مبارک ہے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مثال بھی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ
’’عثمان رضی اللہ عنہ شرم وحیا کے پیکر تھے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے