عراق میں اہل تشیع کی اکثریت تھی لیکن صدر صدام حسین کا تعلق اہل سنت سے تھا امریکہ نے عراق پر حملہ کرکے صدام کا تختہ الٹ دیا۔ اہل سنت کی طرف سے مزاحمت کا معاملہ جاری تھا کہ امریکی فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوئے اہل سنت نے بائیکاٹ کیا جبکہ اہل تشیع نے بھر پور حصہ لیا اور انہیں انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی جنہوں نے حکومت ملنے پر صدام کے حامیوں کا جینا دوبھر کردیا اس طرح مذہبی خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔ فرقہ وارانہ عداوت نے طاغوتی قوتوں کو موقع فراہم کیا اچانک داعش نمودار ہوئی جس کی دہشت گرد کارروائیوں سے عراق اور شام جنگ کی لپیٹ میں آگیا بمباری اور خودکش حملوں میں لاکھوں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے۔ موجودہ عراق حکومت نے خانہ جنگی کے شعلوں کو بجھانے کے لیے مزاحمت کاروں سے مذاکرات کئے اور اُن کو حکومت میں شامل ہونے پر آمادہ کیا لیکن ایران نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
بغداد (این این آئی)عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے اپنی کابینہ میں اہم تبدیلیاں لاتے ہوئے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے سابق شاہی خاندان کے ایک سرکردہ سیاست دان الشریف علی بن الحسین کو وزارت خارجہ کا عہدہ سونپنے پرایران نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان اور سنی مسلک کا وزیرخارجہ عراق کو ایران سے دور اور عرب ممالک کے قریب کرنے کا موجب بنے گا۔ (روزنامہ ایکسپریس 2016۔04۔06)
ایرانی انقلاب کی پالیسی ہے کہ مسلم دنیا میں اُن کے ہم نوا ممکنہ ذرائع بروئے کار لاکر اقتدار پر قابض ہوں اور ایران کی طرح مخالفین کو مذہبی وسیاسی حقوق سے محروم کر دیں۔ عراقی وزیر اعظم نے امن وامان کی خاطر سنی مسلک کا وزیر مقرر کیا لیکن اس پر ایران کا ناراض ہونا انتہا پسندی ہے یا رواداری؟
اللہ کرے کہ وزیر اعظم حیدر العبادی کے اعتدال پسندانہ رویہ سے عراق میں امن وسلامتی کی فضا بحال ہوجائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے