اصلی مقصد حیات:
اس حصے کو پڑھنے سے قبل گذشتہ تمام سطور کو ایک بار پھر پڑھیں،تو آپکو انسان کا اصلی مقصد حیات معلوم کرنے میں دشواری نہیں ہوگی،آپ از خود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ اس عارضی زندگی کا مقصدایک ایسی زندگی کی تیاری ہے جو لافانی ہے ،جو اصلی وطن ”جنت“میں بسر ہو، اس لافانی زندگی اور اسکے مَحَلّ”جنت“کا پتہ دنیا کے کسی علم سے حاصل نہیں کیا جاسکتا،اسکا واحد ذریعہ ربانی ہدایات ہیں،جو قرآن مقدس اور حدیث صحیح کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہیں،ان دونوں میں اس موضوع پر تفصیلی مباحث موجود ہیں جو انہی کا خاصہ ہیں،قرآن مقدس میںغور و فکر کرنے پر تخلیق انسانی کے چند مقاصد سامنے آتے ہیںجو کہ درج ذیل ہیں:
1 انسان کو اس بات کا علم دیناکہ وہ اکیلا معبود برحق ہے:
قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں یہ مضمون جابجا بیان کیا گیا ہےکہ معبود حقیقی صرف ایک ہے اور وہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالی،تمام انبیاء و رسل علیھم الصلاۃ و السلام نے سب سے پہلے اسی نکتے کو اٹھایااور اس پر سب سے زیادہ زور دیا،اسی نکتے کو نجات کی اصل بنیاد قرار دیا،اللہ تعالی فرمایا:
وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقرة : 163)
’’اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے،اسکے سوا کوئی معبود نہیں وہ رحمن اور رحیم ہے۔‘‘
نیز محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ
جسکی موت ہو اس حال میں ہوکہ اسے علم ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہوا۔
نیز فرمایا:
مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ
’’جسکی موت ہو اس حال میں ہوکہ وہ اللہ کے ساتھ (کسی اور کو بھی معبود مان کر)شریک کرتا تھا وہ جہنم میں داخل ہوا۔‘‘
نیز فرمایا:
أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي، فَأَخْبَرَنِي - أَوْ قَالَ: بَشَّرَنِي - أَنَّهُ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ \" قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ
ـ’’میرے پاس فرشتہ آیا،جس نے مجھے بشارت دی کہ:میری امت کا جو فرد اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا ہو،وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا،میں نے کہا :اگرچہ وہ زنا کرے،چوری کرے،اس نے جواب دیا:اگرچہ وہ زنا کرے ،چوری کرے۔‘‘
ان آیات و احادیث سے صاف ظاہرہوا کہ نجات کی اساس عقیدہ توحید کےاہتمام اور شرک سے اجتناب میں ہے،کم ازکم بوقت موت ایسا ضروری ہے،جبکہ دیگر جرائم خواہ کتنے ہی بڑے ہوں انکی معافی کی گنجائش ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ(النساء : 48 و 116)
’’اللہ نہیں معاف کرے گا اس بات کو کہ اسکے ساتھ شرک کیا جائے،اور اس کے سوا جو چاہے گا جس کے لئے چاہے گا معاف کردے گا۔‘‘
اور جسکی موت شرکیہ عقیدے پر ہوئی اسکی بڑی سے بڑی نیکی بھی اسکے کسی کام نہ آئے گی ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ (الزمر : 65)
آپکی جانب اور آپ سے پہلے نبیوں کی جانب وحی کی گئی کہ اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرےعمل برباد ہوجائیں گےاور تو خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا،بلکہ صرف اللہ ہی کو معبود مان اور اسکا شکر گذار بن۔
2 انسان کو اس بات کاعلم دیناکہ وہ قادر مطلق ہے:
اس مضمون سے بھی قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول ﷺ بھری پڑی ہیں،کہ اللہ تعالی ایک ایک ذرے پر قادر ہے،اور تمام اشیاء اسکے حکم کے تابع ہیں، اور وہ ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا (الطلاق: 12)
اللہ ہی ہے جس نے سات آسمانوں اور انہی کی مثل زمینوں اور ان میں جو بھی ہیں سب کو پیدا کیا،اسکا حکم انکے درمیان اترتا ہے،تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے،اور اللہ نے ہر شے کا علمی احاطہ کررکھا ہے۔
نیز فرمایا:
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ( يس : 77ــ83)
کیا انسان نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا، پھر وہ جھگڑا کرنے لگا،اور ہماری مثال بیان کرنے لگا،جبکہ خود اپنی تخلیق کو فراموش کردیا،اس نے کہا:ہڈیوں کو انکے بوسیدہ ہونے کے بعد کون جِلا سکتا ہے؟آپ کہیں:انہیں وہی جی اٹھائے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا،اور وہ ہر طرح پیدا کرنا جانتا ہے،وہی تو ہے جس نے تازہ شاخ سے تمہارے لئے آگ پیدا کی،جسےتم سلگاتے ہو،بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ ان جیسے (انسان)نہیں بناسکتا؟کیوں نہیں،وہ بہت پیدا کرنے والا جاننے والا ہے،بس جب وہ کچھ چاہے تو اسکا کام ہے یہ کہنا کہ :ہوجا،تو وہ ہوجاتا ہے،پس پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر شے کا اختیار ہے،اور تم اسی کی جانب لوٹائے جاؤ گے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنی قدرت و تخلیق کے لامتناہی سلسلے کو بیان کیا،کہ کچھ بھی اسکی قدرت و اختیار سے باہر نہیں،تو انسان جیسی کمزور اور چھوٹی سی مخلوق کو مارکر پھر سے بنادینا اس کے لئے کیا مشکل ہوسکتا ہے۔
نیز محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا،کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ شَعِيرَة
ایک روایت میں ہے:
فَلْيَخْلُقُوا بَعُوضَةً
ان سے بڑھ کر ناحق کون ہوگا،جو میری مخلوق کی نقل(تصویر،شبیہ)بنانے کی کوشش کرتے ہیں،تو پھروہ ایک ذرہ(حقیقی)یا ایک گندم کا یا جو کا دانہ پیدا کرکے دکھائیں-ایک روایت میں ہے:ایک مچھر بنا کر دکھائیں؟
یعنی اللہ تعالی نے ان اشیاء کو عدم سے وجود بخشا،کلمہ کن سے پیدا کیا،جبکہ ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا کیا،پھران میں افزائش،طعم،حرکت، سمع و بصروغیرہ صلاحیتیں پیدا کیں،کیا اسکے سوا اور کوئی ایسا کرنے پر قادر ہے؟
نیز فرمایا:
قَالَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ: فَإِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ وَاذْرُوا نِصْفَهُ فِي البَرِّ، وَنِصْفَهُ فِي البَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لاَ يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ العَالَمِينَ، فَأَمَرَ اللَّهُ البَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، وَأَمَرَ البَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: لِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: مِنْ خَشْيَتِكَ وَأَنْتَ أَعْلَمُ، فَغَفَرَ لَهُ
ایک شخص جس نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا ،جب مرنے لگا تو اس نے کہا،:جب وہ مرجائے تو اسے جلا کر اسکی آدھی راکھ خشکی اور باقی سمند میں بہا دینا،کیونکہ اللہ کی قسم اگر اللہ اس پر (اسے دوبارہ زندہ کرنے پر)قادر ہے تو وہ اسے ایسا عذاب دیگا جو اس نے کسی کو نہ دیا ہو،پھر اللہ تعالی نے بحر و بر کو حکم دیا،تو انہوں نے اسکے ذرات کو جمع کردیا،پھر اللہ نے اس سے پوچھا:تو نے ایسا کیوں کیا؟اس نے کہا:تو جانتا ہے کہ تیرے ڈر سے، چنانچہ اللہ نے اسے بخش دیا۔
ان دونوں نکات میں بیان کردہ آیات و احادیث میں یہ بتایا گیا کہ:
الوہیت کا منصب صرف اور صرف اللہ تعالی کے لئے خاص ہے،جو کہ اسکی ذات کے تفرّدووحدانیت پر دلالت کرتا ہے،کہ کسی کی بھی ذات اسکے مثل نہیں۔
اللہ تعالی قادر مطلق،عالِم مطلق اور حاکم مطلق ہے اور کوئی بھی شے اسکے علم وقدرت اور تصرف سے خارج نہیں، اور یہ چیز اسکی صفات وافعال و تصرفات میں تفرد و وحدانیت پر دلالت کرتی ہے،کہ کسی کی بھی صفات ، افعال و تصرفات اسکی صفات ،افعال و تصرفات جیسے نہیں،نیز ان تمام امور کا تعلق نظریے و عقیدے سے ہے،گویا اللہ سبحانہ وتعالی کو اسکی ذات و صفات ،افعال و تصرفات میں وحدہ لاشریک ماننا انسان کا ”نظریاتی مقصد حیات“ ہے۔
نیز اللہ تعالی کا علم اوراسکی قدرت ایک ایک ذرے ،ایک ایک قطرے پر ہے،اور اسقدر ہے کہ وہ ہر ذرے کو دوسرے ذرےاورہر قطرے کودوسرے قطرے سے ممتاز کرکے جمع کرنے پر قادر ہے۔
مذکورہ بالا امور میں ذرہ برابر شک بھی انسان کے لئے اخروی نجات میں مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔
3انسان کو عملِ عبادت کے لئے پیدا کیا:
گذشتہ دو نکات میں مقصد حیات کا نظریاتی پہلو اجاگر کیا گیا تھا،اب” عملی پہلو “بیان کیا جارہا ہے،جو کہ عبادت ہے،صرف یہ ایک عمل ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 56)
’’میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں جو انداز بیان ہے وہ حصر پر مبنی ہے،جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی عبادت میں بسر کردے، اسکی زندگی کا ہر لمحہ اسی عمل میں صرف ہو اسکے سوا وہ اور کوئی عمل نہ کرے،حتی کہ اسے موت آجائے۔
جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر: 99)
’’اپنے رب کی عبادت کرتا رہ حتی کہ تجھے موت آجائے۔‘‘
نیز فرمایا:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبۃ: 31)
ان سب کواس کے سوا اور کوئی حکم نہیںدیا گیا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کرتے رہیں،جس کے سوا کوئی معبود نہیں،جو ان کے شرکاء سے پاک ہے۔
بظاہر یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے ،حالانکہ اس میں کچھ بھی باعث تعجب نہیں،دراصل اکثریت”عبادت“ کے حقیقی معنی و مفہوم سے نابلد ہے ،وہ سمجھتے ہیں کہ عبادت صرف مخصوص اعمال مثلاً:نماز،روزہ،تلاوت،ذکر، طواف، سعی وغیرہ کی ادائیگی کانام ہے،حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں،عبادت کا معنی ہے،”بندگی“،”غلامی“اور عبادت کا اصل مفھوم ہے،خالق و مالک کی اطاعت دل و جان سےاسکے رسولوں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرتے رہنا،عبادت کی دو قسمیں ہیں:
ایک :عبادات شعار،ان سے عبادت کے مخصوص طریقے مراد ہیں،جیسا کہ نماز روزہ وغیرہ۔
عبادت کی دوسری قسم پوری انسانی زندگی کو محیط ہے،یعنی اگر وہ اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں حسب طاقت خالق و مالک کی پسند و ناپسند کا خیال رکھے اور اسکی ہدایات پر کاربند رہے ،اسکی نافرمانی سے بچےتو اسکا ہر عمل عبادت سے تعبیر ہوگا،جیسا کہ نبی ﷺ نے بہت سی احادیث میں اس کی صراحت فرمائی ہے،ارشاد فرمایا:
ہر انسان کو 360 جوڑوں پر پیدا کیا گیا،اس پر لازم ہے کہ ہر جوڑ کی جانب سے روزصدقہ کرے،
مسلمانوں پر یہ بات گراں گذری لہذا انہوں نے پوچھا:
اللہ کے رسول ﷺہم صدقہ کرنے کا اسقدر سامان کہاں سے لائیں؟
آپ نے فرمایا:نیکی کے بہت سے راستے ہیں،ہر تسبیح(سبحان اللہ ،کہنا) صدقہ ہے،ہر تحمید(الحمد للہ ،کہنا) صدقہ ہے،ہر تہلیل (لاالہ الا اللہ،کہنا)صدقہ ہے،ہر تکبیر(اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے،میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں،(یعنی یہ بھی صدقہ ہے)،ہر نماز،روزہ،حج صدقہ ہے،اپنے مسلمان بھائی کے چہرے کو دیکھ کر تیرا مسکرانا صدقہ ہے،اللہ کے بندوں کو تیرا سلام کرنا صدقہ ہے،تو دو افراد کے مابین فیصلہ کردے ،یہ صدقہ ہے،کسی آدمی کو اسکی سواری پر سوار کروانے میں مدد کردے ،یہ صدقہ ہے،یا تو اس پر اسکا سامان لدوادے،یہ صدقہ ہے،ہر اچھی بات صدقہ ہے،نماز کی طرف تیرا اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے،تیرا اچھے کام کا حکم دینا صدقہ ہے،برائی سے تیرا روکنا صدقہ ہے،توتکلیف دہ شے،پتھر،کانٹے،ہڈی کو لوگوں کے راستے سے ہٹادے ،یہ صدقہ ہے،مسجد میں لگا ،پڑا تھوک کو زائل کردے ،اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی انڈیل دے،یہ صدقہ ہے،پانی کا گھونٹ پلادے صدقہ ہے،گونگے ،بہرے کو مطلب سمجھادے یہ صدقہ ہے،کمزور نگاہ والے کو دکھا دے،نابینا کو راستہ بتادے،کسی کو بھی راستہ سمجھا دینا، صدقہ ہے،کسی حاجت مند کو اسکی ضرورت پوری کرنے کا مقام بتادے،مظلوم مدد کے طالب کی جانب اپنی پوری قوت کے ساتھ دوڑ کر تیرا جانا،اپنی قوت بازو کے ساتھ کسی کمزور کا بوجھ اٹھادینا،یہ سب تیری جانب سے تیری اپنی جان پر صدقہ ہے،تیرا اپنی بیوی سے ہمبستر ہونا بھی صدقہ ہے،اللہ کی رضا کی خاطر تو جو بھی خرچ کرے،حتی کہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے ،تو اس پر بھی تجھے اجر دیا جائیگا۔
(بخاری،مسلم،ابوداؤد،ترمذی،احمد،ابن حبان،الادب المفرد)
اس نکتے میں بیان کردہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا مقصد حیات ”عبادت“ہے،اورعبادت کی گذشتہ تشریح سے واضح ہے کہ عبادت دراصل خالق کی مرضی پر اسکے رسولوں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق چلنے کا نام ہے،اور دنیا میں اس سے اچھا کوئی عمل نہیں،بلکہ صرف یہی ایک عمل اچھا ہے،اسی لئے صرف اسی ایک عمل کا مطالبہ کیا،یعنی عبادت کا،جو پوری زندگی کرنی ہے،اگرچہ خالق و مالک کو اسکی حاجت نہیں،نہ ہی اس سے اسکی شان و شوکت اور سلطنت میں کچھ فرق پڑتا ہے،اسکی عبادت کے لئے معصوم و مطیع فرشتوں کی کمی نہیں،لیکن!
/ وہ عبادت کو پسند کرتا ہے:
وہ عبادت جسکے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو ،اور جس کی ادائیگی میں بہت سی رکاوٹیں بھی ہوں،جسے ”تکلیف شرعی“کہا جاتا ہے،اس نوع کی عبادت کی پیشکش خالق و مالک نے آسمان و زمین کو بھی کی لیکن انہوں نے اسے بہت مشکل جانا،وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے ڈر گئے اورانکار کردیا،چنانچہ انہیں اس مخلوق کے سامنے مسخر کردیا گیا جس نے اس بوجھ کو اٹھانے کی حامی بھری یعنی حضرت انسان،اور پھر اس نوع کی عبادت کے امتحان کے لئے انسان کو آسمان و زمین پر مبنی اس کائنات میں بسا دیا،جیسا کہ اللہ تعالی کے درج ذیل فرامین سے عیاں ہوتا ہے،ارشاد فرمایا:
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (ھود: 7)
’’وہی ہے جس نے آسمان وزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،جبکہ اسکا عرش پانی پر تھا،تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے؟‘‘
اسی کی خاطر اس دنیا میں عارضی موت و حیات کا سلسلہ شروع کیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الملك : 2)
’’جس نے موت و حیات کو پیدا کیا،تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے ۔‘‘
اور اسی کی خاطر زمین کو اسقدر خوبصورت بنایا،تاکہ وہ انسان کو آزما سکے کہ وہ اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اپنے مقصد حیات کو فراموش کردیتا ہے،یا دنیا کی رونق کو فراموش کرکے مقصد حیات کی تکمیل میں لگا رہتا ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الكهف: 7)
’’زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے اسکی زینت بنادیا، تاکہ ہم انکا امتحان لیں کہ ان میں کون اچھا عمل لاتا ہے۔‘‘
/ وہ عبادت گذاروں کو جزااور بغاوت کرنے والوں کو سزا دینا چاہتا ہے:
عدل کا یہی تقاضا ہے،کیونکہ دنیا کی عارضی زندگی ہر ایک کے ساتھ عدل نہیں کرتی،کتنے ہی مجرم سزا کے بغیر مرجاتے ہیں، جبکہ کتنے ہی بے قصور ظلم کی چکی میں پِستے، پِستے مرجاتے ہیں،پس ضروری ہے کہ سب کے ساتھ عدل ہو،زندگی میں جو اچھا یا برا کیا اسکا حقیقی بدلہ ملے،اسی لیے ”یوم الدین“بدلے کادن مقرر کیا گیا،جس دن سب انسان فطری حالت میں اور خالی ہاتھ ہوں گے،لیکن جنہیں انکا اعمال نامہ انکے داہنے ہاتھ میں دیا گیا وہ کامیاب جبکہ جنکا اعمال نامہ انکے بائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ ناکام قرار پائیں گے،یہ بدلہ ہوگا اس سب کا جو دنیا میں کیا۔
4امتحان کی جزاء کے لئے:
گذشتہ نکتے میں یہ بتایا گیا کہ انسان کا مقصد حیات ”عبادت“ہے اور یہ ایک امتحان ہے،کہ کون بندگی و عبادت کرتا اور کون سرکشی و بغاوت کو اختیار کرتا ہے،اور اس امتحان کا نتیجہ بھی برآمد ہوگا،کامیاب ہونے والوں کو جزا جبکہ ناکام ہونے والوں کو سزا دی جائے گی،جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (يونس : 4)
وہ تخلیق کا آغاز کرتا ہے پھر وہ اسے دوبارہ کرے گا،تاکہ ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو انصاف کا بدلہ دے، جبکہ جن لوگوں نے کفر کیاانکے لئے پینے کا کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے کیونکہ وہ کفر کرتے ہیں۔
نیز فرمایا:
وَلِلهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى (النجم: 31)
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کی ملکیت ہے، تاکہ برائی کرنے والوں کو انکے عمل کی سزا دے،اور اچھائی کرنے والوں کو ”حُسنی“دے۔
ان تمام آیات سے واضح ہے کہ انسان کو عارضی زندگی بمعہ محدوداختیارات دینے کا مقصد یہ ہے کہ اسکا امتحان ہو کہ دائمی زندگی میں اسے مکمل اختیارات دے کر جنت میں داخل کیا جائے یا اسکے اختیارات کو بالکل ہی سلب کرکے اسے جہنم میں بھیج دیا جائے،باالفاظ دیگر انسان کو عارضی زندگی دی گئی تاکہ وہ خودکو دائمی زندگی میںجنت کا اہل ثابت کردے یا جہنم کا،جیسا کہ درج ذیل آیات سے واضح ہے، ارشاد فرمایا:
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ( ھود : 118-119)
اگر تیرا مالک چاہتا،لوگوں کو ایک جماعت بنادیتا،اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گےمگر جن پر تیرا رب رحم فرمائے،اور اسی لئے انہیں پیدا کیا،اور تیرے رب کی بات پوری ہوگی،میں جہنم کو سبھی جنّوںاور انسانوں سے ضرور بھروں گا۔
اس آیت میں جرم اور سزا دونوں کو واضح کیا گیا ،جرم ”اختلاف“ہے،یعنی اللہ تعالی کی وحدانیت سے اختلاف رسولوں کی تعلیمات سے اختلاف،جبکہ سزا جہنم ہے، البتہ اللہ تعالی اپنے ازلی علم کی بنیاد پر یہ پہلے سے جانتا تھا کہ اختیار دینے کے باوجود بہت سے انسان اس حقیقت سے اختلاف کریں گے،چنانچہ اس علم کی بنیاد پر اس نے فرمایا:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الأعراف: 179)
ہم نےبہت سے جنّوں اور انسانوں کو جہنم کے لئے بنایا،کیونکہ وہ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں،اپنی نگاہوں سے دیکھتے نہیں، اپنے کانوں سے سنتے نہیں،یہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر۔
یعنی عقل و فہم،سماعت و بصارت رکھنے کے باوجود آیات الہیہ پر غور و فکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے علم ازلی کا اظہار کیا ہے کہ بہت سے جن و انس کی تخلیق سے قبل ہی وہ انکے انجام کو جانتا تھا،بلکہ وہ اپنی جمیع خلق کا مکمل علم رکھتا تھا،ساتھ ہی انکے اس انجام بد کی وجوہات بھی بیان کردیں،تاکہ اسکے علم ازلی کی تصدیق بھی ہوجائے اور انسان کا بااختیار ہو کر مذکورہ جرائم کا ارتکاب کرنا بھی ثابت ہوجائے،اور جبر محض کا الزام بھی نہ رہے،یہاں سے تقدیر پر ایمان کا مسئلہ بھی واضح ہوتا ہے،کہ تقدیر کسی قسم کا ”جبر“ یا ”اکراہ“ نہیں بلکہ اللہ تعالی کے پیشگی علم کا نام تقدیر ہے جس میں خطا کا امکان صفر ہے،جبکہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے نیک یا بد وہ اپنی مرضی سے کرتا ہے،اسی لئے اس سے اسکے اعمال کا مؤاخذہ ہوگا،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا أُولَئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا (الكهف: 29۔31)
آپ کہہ دیں کہ :حق تمہارے رب کی جانب سے (آچکا)تو اب جو چاہے ایمان لے آئے جو چاہے انکار کردے،ہم نے انکار کرنے والے ظالموں کے لئے آگ تیار کی ہے جسکی لپٹیں انہیں گھیر لیں گی،اور اگر وہ مدد چاہیں گے تو تو انہیں کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو انکے چہرے پگھلا دے گا،پینے کی بڑی بری شے ہے،اور رہنے کی بدترین جگہ،جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے تو ہم اچھائی کرنے والے کا اجر ضائع نہیں کریں گے،ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں،جن میں انہیں سونے کے کڑے اور سندس و استبرق ریشم کے سبزلباس پہنائے جائیں گے،ان میں وہ تکیوں پر ٹیک لگائے ہوں گے ، بہت اچھا بدلہ ہے اور بہت ہی اچھا ٹھکانہ۔
نیز اللہ تعالی اپنے بندوں کو بلاوجہ عذاب میں مبتلا نہیں کرتا،اسی لئے اس نے انبیاء کی بعثت،کتب کے نزول اور شرائع کے تقرر کا سلسلہ شروع کیا تاکہ بنی نوع انسان کو جہنم کے عذاب سے بچایا جاسکے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (النساء:145۔147)
منافقین آگ کے سب سے نچلےحصے میں ہوں گے،اور آپ انکا کوئی مددگار نہ پائیں گے،البتہ جو ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال کئے،اور اللہ سے تعلق مضبوط کیا اور اپنی عبادت اللہ کے لئے خالص رکھی،تو یہ مومنوں کے ساتھ شامل ہوں گے،اور مومنو کو اللہ بہت جلد اجر عظیم سے نوازے گا،اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر کرتے رہو اور ایمان رکھو؟،اللہ بڑا قدردان اور علم والا ہے۔
اس مضمون میں درج شدہ گذشتہ آیات میں انسانوں کے دو گروہوں کا ذکر ہوا،مومن اور کافر،اس آیت میں ایک اور گروہ کا ذکر ہے یعنی منافقین کا،یہ گروہ اہل ایمان میں شامل ہوکردر پردہ اہل کفر کا ہمنوا ہوتا ہے،یعنی دل سے تو کفر پر قائم ہوتا ہے لیکن زبان سے خود کو مسلمان کہتا ہے،اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں اہل ایمان میں شامل ہی نہیں کیا،بلکہ انہیں کفار سے بھی بدتر قرار دیا جیسا کہ اس آیت میں انکی بیان کردہ سزا سے عیاں ہے،البتہ انکے لئے توبہ کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے کیونکہ یہ اہل ایمان سے قریب ہوتے ہیں، انکے عقائد و اعمال و اخلاق کو پرکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے انکے تائب ہونے کے امکانات اصلی کفار کی نسبت زیادہ روشن ہوتے ہیں،جبکہ توبہ کا دروازہ سبھی کے لئے کھلا ہے ، خواہ وہ کفار ہوں یا منافقین یا فاسقین وغیرہ ،یہ اسکے فضل کی جانب اشارہ ہے،اورتوبہ کرکے اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہوجانے والوں کی جزاء اور ان پر اپنے خصوصی انعام کا ذکر بھی کیا ہے۔
ساتھ ہی اللہ تعالی نے بندوں پر اپنی شفقت کو بھی بیان کیا کہ وہ بلاوجہ کسی کو عذاب سے دوچار نہیں کرتا،یہ اسکے عدل کی جانب اشارہ ہے، بلکہ روز جزا وہ اپنے بندوں پر پہلے ہرطرح سے حجت قائم کرے گا ،انکے تمام اعذار ، حیلے بہانے ختم کرے گا،جب وہ پوری طرح لاجواب ہوجائیں گے اور انکے پاس سوائے اعتراف جرم کے اور کوئی راستہ نہیں بچے گا ،نیز انکے لئے معافی کی بھی گنجائش نہ ہوگی ،پھر اللہ تعالی انہیں سزا سے دوچار کرے گا،جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان سے ظاہر ہے،ارشاد فرمایا:
وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًااقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (الإسراء: 13۔15)
ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اسکے گلے میں لٹکادیا ہے اور روز قیامت ہم انکے سامنے ایک کتاب لائیں گے جسے وہ کھلا ہو ا پائے گا،پڑھ لے اپنی کتاب آج تیرے حساب کے لئے یہی کافی ہے،جس نے ہدایت کا راستہ چنا اپنے لئے ہی چنا اور جو اس سے ہٹ گیا وہ اپنے نقصان میں ہٹا،اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،نہ ہی ہم کسی کو عذاب دیں گے جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے روز جزا میں قیام حجت کی ہلکی سی منظر کشی کی ہے،ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ دنیا میں انسان ہدایت و گمراہی اختیار کرنے کے سلسلے میں بااختیار تھا اس پر کسی قسم کا جبر نہیں تھا،اور اسی اختیار کی بنا پر جزا و سزا کا سلسلہ ہے،وگرنہ جبر و اکراہ کی صورت میں جزا و سزا کا کوئی جواز نہیں بنتا،نیز اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کیا کہ ہدایت و گمراہی میں سے ہر ایک کی تفصیل اور انجام بیان کرنے کے لئے اس نے رسول بھی مبعوث کئے تاکہ انسان کے لئے دونوں راستے واضح ہوجائیں،اور وہ اپنی مرضی سے ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرلے،نیز بعثت انبیاء و رسل کا سلسلہ کسی ایک یا چند اقوام تک محدود نہ رکھا بلکہ ہر قوم میں اپنے نمائندے بھیجے،جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 24)
ہم نے آپکو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے،اور ہر امت میں ڈرانے والا ہوا ہے۔
اس آیت میں لفظ ”امت“پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی قوم کی ایک نسل میں تو نبی یا رسول کی بعثت ہوئی مگر آئندہ نسل میں نہ ہوئی تب بھی اس رسول کی تعلیمات اور ان تعلیمات کی جانب بلانے والے دعاۃ و مبشرین و منذرین کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوا تاآنکہ کوئی نیا نبی یا رسول آجائے،جیسا کہ ”سورۃ یس“میں بیان کردہ تین انبیاء کی یکے بعد دیگرے بعثت کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے،گویا وقفہ وحی کے زمانہ میں بھی ہدایت و رہنمائی کا سلسلہ کلیۃً موقوف نہیں ہوابلکہ جاری رہا،اس میں اللہ تعالی کے عدل اور بندوں کے ساتھ اسکی شفقت و رحمت کی جانب اشارہ ہے۔
نیز فرمایا:
فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُكَذِّبُونَ وَاللهُ أَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (الإنشقاق:20۔25)
انہیں کیا ہے ؟وہ ایمان نہیں لارہے،اورجب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے،وہ جھکتے نہیں،بلکہ بات یہ ہے کہ انکار کرنے والے جھٹلارہے ہیں،اور جو وہ دلوں میں چھپارہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے،توآپ انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنائیں،سوائے ان کے جو ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال کئے انکے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے تعجب کا اظہار کیا کہ اللہ تعالی کی آیات اور رسول ﷺ کی تعلیمات پر ایمان نہ لانے کی آخرکیا وجہ ہوسکتی ہے؟ ، جبکہ ہر طرح کے عقلی ، نقلی ،فطری،اعجازی،اخباری،تشریعی،کلامی وغیرھا دلائل کے ذریعے اتمام حجت کے تمام تقاضے پورے ہوچکے ہیں، اور انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ باقی نہ رہی،اسکے باوجود انکار پر اصرار اور تکذیب پر استمرار کا سوائےبغض و عناد ،ضد و ہٹ دھرمی کے اور کیا مطلب ہوسکتا ہے؟
سو اسکی سزا بھی مستقل دردناک عذاب ہے،لیکن حق و ہدایت کی راہیں واضح ہوجانے کے بعد ان پر چل پڑنے والے اور اس سفر میں درپیش مشکلات کا سامنا کرنے والےیقیناً انعام و اکرام کے مستحق ہیں،چنانچہ اللہ تعالی نے ان کے لئے مستقل اور غیر منقطع انعامات کا وعدہ کیا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (التين : 4۔6)
ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھالا،پھر ہم نے اسے پستیوں میں لاپھینکا،سوائےان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے،ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ واضح کیا کہ فطری اور تخلیقی طور پراس نےا نسان کوبلند مرتبےپر فائز کیا،لیکن وہ اپنے اس اعزاز کو برقرار نہ رکھ سکا،اورشیطان کے خوبصورت شکنجے میں پھنس کر شرک و بدعت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، جب خالق و مالک کے نمائندوں نے انہیں اس دلدل سے نکالنا چاہا تو اس نعمت غیر مترقبہ کے میسر ہونے کے باوجود صرف حسد،بغض،عناد ،اندھی تقلیداور عصبیت ،مادی مفادات کی بنیاد پر اس سہارے کو تھامنے سے انکار کردیا اور پستیوں میں گرنا گوارا کیا،جبکہ جن لوگوں نے ان منفی جذبات اور سوچوں کا گلا گھونٹا اور خود کو اس دلدل سے نکالنے والے مضبوط سہاروں ایمان و عمل صالح کو تھام لیا وہ اپنے فطری اعزاز کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہےاور جنت کے بالا خانوں کے حقدار بن گئے۔
اب تک بیان کردہ آیات و احادیث میں ،انسان کا مقصد حیات بھی بتایا گیا،اور ضمناً، خالق و مالک،انبیاء و رسل علیھم الصلاۃ والسلام ، دعاۃ و ناصحین ، آغاز و انجام، ایمان و کفر، عبادت و بغاوت،نیکی و بدی،جزا و سزا، راحت و عذاب، جنت و جہنم،کا مختصر تعارف بھی کروایا گیا تاکہ مقصد کی معرفت کے ساتھ مقصد کی تکمیل کا طریقہ بھی معلوم ہو جائے،اور ان دونوں کا مبنی بر حق ہونا بھی ثابت ہو جائے، تاکہ اس راہ پر چلنے والا دل و جان سے اس پر گامزن رہے،اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کرے، نہ ہی اسکے قدم لغزش کھائیں،نہ ہی وہ تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا شکار ہو،بلکہ اسکی بصیرت اسے ہر لمحہ بیدار وتازہ دم رکھے،جنت کا حصول اور جنت میں دیدار الہی کا شوق اسے منزل پالینے تک بے چین و مضطرب رکھے، اور جنت کے مراتب عالیہ کا حصول اسکی سبک رفتار کو برق رفتار میں بدل دے۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ جب تک زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھے اور جب موت دے تو ایمان پر موت دے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین