بیسواں اصول:
وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ (الحج :۱۸ )
’’جسے اللہ ذلیل کر دے اُسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔‘‘
انصاف اور بدلے کے حوالے سے یہ بہت ہی مستحکم اصول اور قاعدہ ہے اور اس اصول پر غور کرنے سے مؤمن کی سوچ پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ جو کچھ بھی وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے‘ یا تاریخ کی کتابوں میں پڑھتا ہے‘ یا دنیا میں رہنے والوں کے ساتھ مرورِ زمانہ سے ہوتا ہے‘ یہ صورت ِحال ایک انسانی جان کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور مختلف گروہوں کے ساتھ بھی۔ یہ وہی قرآنی اصول ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہے ‘ فرمایا:
وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَالَـہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ (الحج:۱۸)
’’جسے اللہ ذلیل کر دے اُسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔‘‘
جس آیت ِ کریمہ میں یہ اُصول بیان ہوا اُس آیت کو مکمل بیان کرنے سے اہانت کی تصویر اور زیادہ واضح ہو جائے گی‘ جس میں انسان اپنی بلندی سے نیچے کو آتا ہے۔ فرمایا:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ (الحج 18)
’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے سامنے سجدے میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمین والے اورسورج اورچانداور ستارے اورپہاڑ اور درخت اورجانوراور بہت سے انسان بھی۔ ہاں بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ثابت ہو چکا ہے۔ جسے اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔‘‘
اس آیت ِ کریمہ کی تلاوت کے بعد ‘ کیا تمہیں بھی میرے ساتھ اس حقیقت کاعلم ہوگیا ہے کہ کسی بندے کا سب سے اعلیٰ مقام ‘ سب سے خوبصورت شکل ‘ سب سے زیادہ مقامِ عزت واحترام اپنے رب کی توحید میں اور تنہا اُسی رب کی عبادت کرنے میں ہے‘ کہ وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو اور اپنے خالق ومالک رب کے سامنے عاجزی اور اسی کی چاکری کرے۔ اس ذات کے ہاتھ میں ہی انسان کی نجات وفلاح کا فیصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق کے اعتراف کے ساتھ وہ یہ سب کچھ کرے‘ اُسی سے فضل کا امیدوار ہو اور اُسی کی سزا سے ڈرتا رہے۔
کیا تمہیں یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ انسان کی سب سےبڑی ذلت ‘رسوائی اورگھٹیاپن یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکاری ہو جائے یا اپنے خالق کے ساتھ کسی اور کو شریک بنائے؟ اور یہ ساکت وجامد پہاڑ‘ درخت اورگویائی سے محروم جانور اس انسان سے بہترقرار پائیں‘ کیونکہ وہ اپنے خالق اور معبودِ حقیقی کو سجدہ کرتے ہیںـ؟
ذرا غور کرو کہ کن الفاظ کے ساتھ عذاب کا تذکرہ ہوا ہے‘ فرمایا: وَمَنْ یُّـھِنِ اللّٰہُ ’’جسے اللہ رسواکردے‘‘۔ یہ نہیں فرمایا: ’’جسے اللہ سزا دے دے‘‘۔ واللہ اعلم ‘اہانت سے مراد کسی کو ذلیل کرنا‘ حقیر بنانااوررسواکرناہوتا ہے اور یہ کیفیت کسی سزا کی تکلیف سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی عزت دار کو سزا تو مل جائے‘ لیکن رسوائی نہ ہو۔جب یہ طے پا گیا کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا‘ اپنے آپ کو ذلیل کرنے کی سب سے بڑی اور اپنے آپ کو اہانت کی کھائیوں میں پھینکنے والی صورت ہے‘ تو اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور صورتیں بھی ہیں‘ اگرچہ وہ شرک سے کم کم ہیں ‘ البتہ بندے کی توہین میںان کا اثر بھی ظاہر وواضح ہے‘ اور وہ ہے گناہ کی ذلت
اور اس کی وجہ سے انسان کی اہانت۔
امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ اسی محکم قرآنی قاعدے کی وضاحت کرتے ہوئے اور گناہ کی نحوست اورنقصانات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
(۱)گناہ کرنے سے انسان کی قدروقیمت اپنے ر ب کے سامنے ختم ہو جاتی ہے اور وہ اُس کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اور جب بندہ اپنے رب کے سامنے ہی بے وقعت ہو جائے تو کوئی اُس کی عزت نہیں کرتا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِن مُّکْرِمٍ(الحج:۱۸) ’’جسے اللہ ذلیل کر دے تو اُسے کوئی عزت دینے والا نہیں‘‘۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ لوگ بظاہر اُس کی عزت کریں کہ لوگوں کی بعض ضرورتیں اُس کے ذریعے پوری ہوتی ہوں یا اُس کے شرکاخوف ہو۔ فی الواقع گناہگارشخص لوگوں کی نظروں میں بہت ہی حقیر اور بے وقعت ہوتا ہے۔
گناہ کی سزا بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا :
(۲) اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں سے گناہگارکے رعب کو مٹا دیتا ہے اوروہ بے قیمت ہو جاتا ہے اور لوگ اسے بہت ہی ہلکا لیتے ہیں‘ جیسا کہ اُس نے اللہ کے حکم کو ہلکا لیا ہے اور اُس کی کوئی قدر نہیں کی۔ جس قدربندہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے گا اُسی قدر بندے اُس سے محبت کریں گے‘ اور جس قدر بندہ اللہ سے ڈرے گا اُسی قدر لوگ اُس سے ڈریں گے‘ اور جس قدر بندہ اللہ تعالیٰ اور اُس کی محترم چیزوں کی تعظیم کرے گا ‘اُسی قدر لوگ اُس کی اور اُس کی محبوب چیزوں کی عزت کریں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی محترم چیزوں کو پامال کرے اور لوگوں سے امید کرے کہ وہ اُس کی عزتوں کو پامال نہ کریں؟ اور یہ بھی کیسے ہو سکتا ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ا دائیگی میں کوتاہی کرے اور اللہ تعالیٰ اُسے لوگوں پر بے وقعت نہ بنادے؟ اور یہ بھی کیسے ہو سکتاکہ وہ تو اللہ کی معصیت دھڑلے سے کرے اور اللہ کی مخلوق اس کوبے وقعت نہ کرے؟اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جب گناہوں کی سزا کا ذکر کیا ہے تو اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے‘ اور یہ کہ اُس نے گنہگاروں کی ساری کمائی کو اُلٹا کر کے رکھ دیا ہے اوران کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے گناہوں کی وجہ سے ا ن کے دلوں پر مہر لگادی ہے‘ اور جیسے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو بھولے ہوئے تھے‘ اللہ بھی انہیں بھول گیا ہے۔ اور جیسے انہوں نے اللہ کے دین کو بے قدر سمجھا تھا اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں حقیر سمجھ لیا ہے‘ اور جیسے ان لوگوں نے اللہ کے حکم کوضائع کر دیا تھا ‘اللہ نے بھی انہیں ضائع کردیا ہے ۔
اور اس اصول وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَــہُ مِن مُّکْرِمٍ (الحج:۱۸) ’’جسے اللہ ذلیل کر دے اُسے کوئی عزت دینے والا نہیں‘‘ کا معنیٰ یہ ہے کہ جس آدمی کو شریعت کی ظاہری وباطنی تابعداری کرنے اور اپنے رب کی اطاعت کرنے کی وجہ سے اللہ نے عزت بخشی ہو‘وہی صحیح معنی میں عزت داراورکرامت دار ہے‘ خواہ کافروں اور منافقوں نے اس کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ہو۔ منافقوں اور ان کے ہمنوالوگوں کی آنکھوں کے نورِ بصیرت کو اللہ تعالیٰ نے چھین لیا‘ اور ان کے بارے میں فرمایا:
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَــآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَـیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰــکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (المنافقون 8 )
’’یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا۔سنو! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اُس کے رسول کے لیے اورایمان والوں کے لیے ہے‘ لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔‘‘
اللہ کی قسم !واقعتا یہ نہیں جانتے کہ حقیقی عزت دار کون لوگ ہیں۔
خاتمہ: اس محکم قرآنی اصول کے آخر میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی قیمتی بات نقل کررہا ہوں‘ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:’’دین پر ڈٹ کر کھڑے ہونے سے ہی حقیقی عزت ملتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو اس سے بڑی عزت نہیں دی کہ اپنے محبوب اوررضا والے کاموں کی اُسے توفیق دے دی ‘اوروہ ہے اللہ کی اطاعت ‘ اُس کے رسولﷺ کی اطاعت ‘اللہ کے ولیوں کی محبت اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی۔ درحقیقت یہی اللہ تعالیٰ کے سَچے اورسُچے ولی ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: اَلآ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ’’سن لو کہ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی غم۔‘‘