نیا اسلامی ہجری سال ۱۴۳۸ھ شروع ہورہا ہے اور اس کا ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیادتو نبی کریم ﷺ کے واقعہ ٔ ہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز ِ باقاعدہ طور پر ۱۷ھ میں سیدناعمر فاروق  کے عہد حکومت میں ہوا۔
محرم کا مہینہ ادلہ شرعیہ کی روشنی میں عزت واحترام والا مہینہ قرار دیا ہے، خصوصا محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ”عاشوراء“ کہاجاتا ہے جس کے معنی ہیں ”دسواں دن“یہ دن اللہ تعالی کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے۔
یومِ عاشوراءکی فضیلت
عاشوراء کے دن کی فضیلت خود فرامین محمدیہ میں عیاں اور واضح ہے ذیل میں دو تین احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا اليَوْمَ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ (صحيح البخاري کتاب الصوم باب صيام يوم عاشوراء الحديث 2006)

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
مطلب یہ ہے کہ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشوراء کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے اس حدیث میں مذکورہ دن کی فضیلت اظہر من الشمس ہوئی۔
عاشوراء کے دن کی فضیلت میں دوسری روایت بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَيْسَ لِيَوْمٍ فَضْلٌ عَلَى يَوْمٍ فِي الصِّيَامِ إِلَّا شَهْرَ رَمَضَانَ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ (شرح معانی الآثار کتاب الصیام باب صوم يوم عاشوراء الحدیث : 3286۔ المعجم الکبیر للطبرانی ، رقم الحدیث : 11253 )

روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشوراء کو ۔
مذکورہ دن کی فضیلت میں تیسری دلیل جو کہ آئندہ سطور میں آئےگی کہ اس دن کے روزہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ گذشتہ سال کے گناہ معاف فرمادیتاہے۔
ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی فضیلت اور عظمت کا حامل ہےلہٰذا ہمیں اس دن کی فیوض وبرکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے دس محرم (عاشوراء) کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض تھا ،جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَرَأَى اليَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ: فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ (صحيح البخاري کتاب الصوم باب صيام يوم عاشوراء الحديث 2004)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے یہود عاشورا ءکے دن کا روزہ رکھتے تھے۔ تو آپ ﷺ  نےوہاں کے لوگوں سے اس روزہ سے متعلق پوچھا توان (یہودیوں) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دی تھی اس کے شکر میں سیدناموسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میں سیدناموسیٰ علیہ السلام کا (بھائی ہونے کے ناطے) ان
سے زیادہ مستحق ہوںچنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی
اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس دن کے روزہ کا حکم دیا۔
بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء(دس محرم) کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکننبی کریم ﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا بلکہ مذکورہ روزہ ایک سال کے کفارہ کا سبب ہےاس کی دلیل صحیح مسلم میں سیدناابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺیوم عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کے

روزہ سے متعلق سوال کیا گیاتو آپ ﷺنے فرمایا:

وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ (رواہ مسلم کتاب الصیام باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس الحدیث:1162)

یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے میں مجھےاللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک برس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے شمار فضل و احسان ہے کہ وہ ایک دن کے روزہ کے عوض پورے ایک سال کے گناہ معاف کردیتا ہے ۔
محرم میں مسنون عمل صرف روزے ہیں۔ حدیث میں رمضان کے علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔

أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم، ح: 1163)

رمضان کے بعد ، سب سے افضل روزے ، اللہ کے مہینے ، محرم کے ہیں۔
بالخصوص دس محرم کے روزے کی حدیث میں یہ فضیلت آئی ہے کہ ایک سال گزشتہ کا کفارہ ہے۔
یہ ماہ مبارک حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اس پر بے شمار ادلہ فرامین محمدیہ ﷺ کی صورت میں موجود ہیں ان میں چند ذیلی سطور میں ذکر ہیں۔

عَن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ (صحیح البخاری کتاب الصوم ، باب صیام یوم عاشوراء ، الحدیث : 2001)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے لیکن جب رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے تو آپ نےاپنی امت کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ شاہے تو روزہ رکھ لے اگر شاہے تو چھوڑدے۔

عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ

سیدہ عائشہرضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ جاہلیت میں قریش اور رسول اللہ ﷺ رکھتے تھے جب مدینہ تشریف لے آئے تو خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیالیکن جب رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے عاشوراء کے دن کاروزہ امت کی منشا پر چھوڑ دیاگیا۔
اس روز آنحضر ت ﷺ بھی خصوصی روز ہ رکھتے تھے(ترغیب) پھر نبی کریمﷺ کے علم میں یہ بات آئی کہ یہودی بھی اس امر کی خوشی میں کہ دس محرم کے دن حضرت موسیٰ کو فرعون سے نجات ملی تھی ، روزہ رکھتے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ عاشورہ (دس محرم) کا روزہ تو ضرور رکھو لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اس کے بعد یا اس سے قبل ایک روزہ اور ساتھ ملا لیا کرو۔ ۹، ۱۰ محرم یا ۱۰، ۱۱ محرم کا روزہ رکھا کروجیسا کہ مسند احمد کی حدیث میں ہے :

صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا(مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ح: 2154 و مجمع الزوائد: 3/434

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ نے آپ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ(صحیح مسلم، الصیام، باب ای یوم یصام فی عاشوراء، ح؛ 1134)
\”اگرمیں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔
لیکن اگلا محرم آنے سے قبل ہی آپﷺ اللہ کو پیارے ہوگئے۔یہاںایک قابل غور بات یہ ہے کہ نبی کریم _ﷺنے غیر مسلموںکی مشابہت عام زندگی میںتو کجا عبادات میںبھی آپ نے احتراز فرمایا اور صحابہ کو ان کی مخالف کرنے کا حکم دیا۔اللہ رب العزت کما حقہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے