کتاب کا نام:ماہنامہ ترجمان الحدیث(اشاعت خاص)
مولف کا نام:جید علماءومذہبی شخصیات و معتقدین وسوگواران مولانا محمد اسحاق بھٹی
مضمون:علامہ مرحوم کی سوانح حیات اور انکی دینی، سیاسی،قلمی،تاریخی،تدریسی،اصلاحی و تبلیغی خدمات پر خراج تحسین اور وفات پر تعزیتی تاثرات۔
ناشر:ادارۃ البحوث والتالیف والترجمۃ جامعہ سلفیہ فیصل آباد۔
صفحات کی تعداد:352 قیمت:300
کتاب کا تعارف و تبصرہ:
”ماہنامہ ترجمان الحدیث“جماعت اہل حدیث کا ایک مؤقر ،علمی و تحقیقی جریدہ ہے ،جسےعلامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ تعالی نے نومبر1969ء میں جاری کیا جو مارچ 1987ء تک باقاعدگی کے ساتھ علامہ شہید کی ادارت میں شائع ہوتا رہا،بعد میںموصوف کی شہادت سے تعطل کاشکار ہوگیا ،ایک سال بعد پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کی ادارت میں دوبارہ ترجمان الحدیث کی اشاعت شروع ہوئی،اور تاحال جاری ہے،زمانہ اجراء سے اب تک اسکے بہت سے خصوصی نمبر شائع ہوچکے ہیں،زیر تبصرہ خصوصی نمبرمؤرخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی وفات پر انکی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے شائع کیا گیا ہے،اس خصوصی اشاعت میں اداریے کے علاوہ 41مضامین اور شعراء کا خراج تحسین اور تعزیتی تاثرات شائع کئے گئے ہیں،اپنے مندرجات کے اعتبار سے یہ اشاعت مولانا مرحوم کی مختصر سوانح ہونے کے ساتھ انکی زندگی کے بہت سے گمنام پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتی ہے،اور انکی وفات کے بعد انکے لئے شاہد بالخیر کی حیثیت رکھتی ہے،اس میں 50 سے زائد افراد نے تحریری طور پر مولانا مرحوم کے حق میں اپنی بہترین آراء کا اظہار کیا ہےجو کہ انکے عند اللہ مقبول اور عند الناس ثقہ ہونے کی علامت ہے، إن شاءاللہ۔
ذہبی دوراں،مورخ اہل حدیث،علامہ، مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تعالی کا مختصر تعارف:
نام و نسب:محمد اسحاق بھٹی بن عبد المجید بن محمد بن دوست محمد
پیدائش:15مارچ 1925ءبمطابق 19 شعبان 1343ھ بروز اتوار اپنے ننھیال ہنڈائیہ میں پیدا ہوئے۔آبائی علاقہ :کوٹ کپورہ ریاست فرید کوٹ۔
تعلیم و تربیت:آٹھ سال کی عمر تک گھر میں لکھنا پڑھنا سیکھا پھر 1933 میں سرکاری مڈل اسکول کی چوتھی کلاس میں داخلہ لیا ،ساتھ ہی حافظ عبد اللہ بڈہیمالوی رحمہ اللہ سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے لگے کچھ عرصہ بعد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی قریبی مسجد میں آمد پر ان سےچار سال 1933 تا1936تک درس نظامی کی مختلف کتب پڑھیں،پھر مختلف مقامات پر انہی سےنیز دیگر اجلہ اکابرین سے 1940 تک کسب فیض کیا،نیز 1940 میں محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ سے صحیحین ،موطا و ترمذی پڑھی اور مولانا اسماعیل سلفی سےبھی تفسیر،فقہ،ادب وغیرہ علوم میںمختلف کتب پڑھیں۔
ملازمت:1942 میں درس نظامی کی تکمیل کے بعد واپس گھر تشریف لائے اور امامت و خطابت کا سلسلہ شروع کیا،پھر کچھ عرصہ سیاحت میں گزارا،پھر 1943 تا 1947 مرکز اسلام لکھوکی میں تدریس کی،قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ دربدر رہے،پھر 1948 میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے دفتر واقع لاہورمیں 90 روپے ماہانہ پر ملازمت شروع کی ،پھر جب 1949 میں ہفت روزہ الاعتصام جاری ہوا تواس میں لکھنا شروع کیا ، آخر کار 1950 میں اسکے معاون مدیر بنے،1951 میں انہیں الاعتصام کا مدیر بنادیا گیا،1965 تک یہ ذمہ داری بحسن و خوبی نبھاتے رہے،پھر چند ہی دنوں بعد مجلہ ثقافت (المعارف)سے وابستگی اختیا رکرلی،پھر بائیس سال تک اسکے ایڈیٹر بھی رہے،آخر کار مارچ 1996 کو اس سے علیحدگی اختیار کی،1960 تا 1997 تک ریڈیو پر تقریر بھی کرتے رہے،
شادی خانہ آبادی:مرکز الاسلام لکھوکی میں تدریس کے دوران حافظ عبداللہ بڈہیمالوی کےچچا محی الدین کی بیٹی سے ہوئی جو محترم مولانا عبداللہ امجد چھتوی کے والد محترم مولوی عبد العزیز کی بیوی کی بہن تھیں ۔
خدمات:موصوف رحمہ اللہ نے دینی خدمات کے تقریباً ہرشعبے تحریر،تقریر،تدریس،ارشادوافتاء،دعوت و تبلیغ، دفاع و مناظرہ ورد و کد وسیاست وغیرہ میںخدمات سر انجام دیں ،لیکن تحریر کے میدان کے شہسوار رہے،خاص طور پر سیروسوانح نگاری میں مولانا مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں،جسکی ہلکی سی جھلک ”حکیم مدثر محمد خان“کے مضمون”اپنے مربی مولانا محمد اسحاق بھٹی کی یاد میں“میںدیکھی جاسکتی ہے،اس مضمون سے درج ذیل اقتباس بھی ملاحظہ ہو:
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انہوں نے تحریک اہلحدیث پر لکھنے کا آغاز 1950 میں کیا،یہ سفر مختلف حالات اور کیفیات سے گزرتا ہوا 2015 میں انکی وفات پر اختتام پذیر ہوا،اس اعتبار سے انہوں نے سرسٹھ برس تک یہ خدمت انجام دی ہے،اور ان برسوں میں انہوں نے سینکڑوں اصحاب علم و فضل کے تراجم کو کامل مہارت سے ہزاروں صفحات پر منتقل کردیا ہے۔
نیز مولانا محمد رمضان یوسف سلفی اپنے مضمون”مولانا محمد اسحاق بھٹی اور انکی تصانیف“میںرقمطراز ہیں:مولانا محمد اسحاق بھٹی برصغیر پاک و ہند کے مشاہیر اہل قلم سے تھے،انہوں نے تصنیف و تالیف،تاریخ صحافت اور شخصی خاکہ نگاری میں نام پیدا کیا،اور شہرت دوام حاصل کی،وہ بلا شرکت غیرے عصر حاضر کے عظیم مورخ،بلند پایہ مصنف،اور خاکہ نویس تھے،70 سال اپنے قلم سے دین اسلام اور اردو زبان و ادب کی خدمت کی،مختلف موضوعات پر انکی کئی دینی،علمی ،تاریخی،اور سیر و سوانح پر کتب زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منصہ شہود پر آکر داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
وفات حسرت آیات
علماء کی موت کتنی بڑی مصیبت ہے اسکا اندازہ انکی خدمات سے ہوتا ہے جسکا سلسلہ انکی وفات کے ساتھ رک جاتا ہے،دنیا میں کسی بھی فن یا شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص ہمیشہ شرعی رہنمائی کا محتاج رہتا ہے جو صرف علماء ہی فراہم کرسکتے ہیں،جبکہ علماءوامراءو و عوام نت نئی ایجادات اور سائنسی ترقی کے بغیر بھی راہ یافتہ رہ سکتے ہیں لیکن ہدایات الٰہیہ کے بغیر ہر گز نہیں،پس کوئی بھی ایجاد یا ترقی یا انکشاف” عالم“ کی موت سے پیدا ہونے والا نقصان پورا نہیں کرسکتا ،اللہ تعالی نے قرآن مجید میں زمین کے اسکی جوانب سے کم ہوجانے کا ذکر کیا ،ارشاد فرمایا:
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُها مِنْ أَطْرافِها
کیا انہوں نےغور نہیں کیا کہ کس طرح ہم زمین کو اسکی جوانب سے کم کررہے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نےرئیس المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباس کا قول نقل کیا کہ اس سے مراد:
مَوْتُ عُلَمَائِهَا وَفُقَهَائِهَا
زمین پر بسنے والے علماء و فقہاء کی موت ہے۔
یعنی عالم کی موت درحقیقت اہل دنیا کی معنوی موت ہے۔
امام حسن بصری نے کہا:سلف کہا کرتے تھے کہ:عالم کی موت اسلام میں پڑنے والا ایسا شگاف ہے جسے کوئی بھی شے پُر نہیں کرسکتی۔
حیان نے کہا کہ:میں نے سعید بن جبیر سے پوچھا:لوگوں کی ہلاکت کی کیا علامت ہے،انہوں نے جواب دیا کہ:انکے علماء کی موت۔
علامہ ابن القیم الجوزیہ نے (مفتاح دار السعادۃ)میںکہا:
علماء کا وجود مسعود سارے نظام عالَم کی اصلاح ہے،اگر وہ نہ ہوتے تو لوگ جانوروں کی مانند ہوتے،بلکہ اس سے بھی بدتر،سو عالم کی موت ایسا نقصان ہے جسکی تلافی اسے حقیقی جانشین کے علاوہ کسی صورت ممکن نہیں،کیونکہ علماء ہی عباد،بلاد،اور ممالک کی رہنمائی کرتے ہیں انکی موت سےسارا نظام خراب ہوجاتا ہے،اسی لئے اللہ تعالی علماءدین کی شکل میں ایک دوسرے کے جانشین پیدا کرتا رہتا ہے،جنکے ذریعے وہ اپنے دین،اپنی کتاب اور اپنے کی حفاظت فرماتا ہے۔
مؤرخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تعالی ان علماء میں سے تھے جو خود تو اس دار فانی سے چلے گئے لیکن انکی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور کل بھی زندہ رہیں گی۔ان شاءاللہ
اللہ تعالی علامہ مرحوم کی تمام چھوٹی بڑی لغزشوں اور خطاؤں سے درگذر فرمائےاور انہیں اپنے مقربین میں شامل فرمائے۔اللہم آمین
کتاب کی خصوصیات:
1مولانا مرحوم کی زندگی کو مختلف زاویوں سے اجاگر کیا گیا ہے
2جید علماء و اسکالرز ،معتقدین و پسماندگان کے تاثرات درج کئے گئے ہیں۔
3تقریبا تمام مضامین کے انداز بیان میں روانی پائی جاتی ہے
4مولانا مرحوم کی بہت سی کتب کا تعارف بھی دیا گیا ہے۔
5معیاری کاغذ و طباعت۔
6خوبصورت ٹائٹل۔
۔۔۔۔۔