ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللہُ ذَلِکَ إِلَّا بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (یونس:5)

’’وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی والا اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ، تاکہ تم سالوںکی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ اللہ نے ان چیزوںکوبامقصد پیداکیا ہے ۔ وہ اپنی آیات کو ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتا ہے جو جانتے ہیں۔‘‘
وہی ایک ذات ہے جس نے شمس و قمر اور لیل و نہار بنائے اسی نے سورج کو روشنی دی اورچاند کو چاندنی عطا فرمائی۔ سورج کی روشنی سرخ ، تیز اور گرم ہوتی ہے۔ چاند کی روشنی سفید ٹھنڈی اور پرُ کشش ہوتی ہے۔ جس بنا پر کچھ فصلیں سورج کی تیز روشنی میں اور کچھ فصلیں چاند کی پر کشش روشنی میں پکتی اور تیار ہوتی ہیں۔ دنیا کو دونوں قسم کی روشنی کی ضرورت تھی اور ہے جس کا دائمی انتظام کردیا گیا ہے۔چاند اور سورج دو ہیںلیکن خبر واحد لائی گئی۔ جس میں اشارہ ہے کہ تم چاند کے حساب سے اپنے معاملات طے کرو۔ اسی لیے مسلمانوں کی تقویم(Calendar) کی بنیاد چاند پر رکھی گئی ہے۔ سورج اور چاند کی منازل متعین کیں جن پروہ دن رات سفر کرتے ہیں۔ مسلمان چاند کے آنے جانے کے مطابق اپنی زندگی کا حساب و کتاب اور دینی معاملات چلاتے ہیں جس طرح رمضان کے روزے، حج کی ادائیگی، عیدین کا تعیّن یہ تمام امور شمسی حساب کی بجائے قمری حساب کی بنیاد پر مقرر اور ادا کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ

’’بے شک اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے جس دن سے ا س نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہی قائم رہنے والا دین ہے‘‘ (التوبہ:۳۶)
جن کے ناموں کی تصریح کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب کامہینہ ہے گویا کہ اسلامی سال کا گیارہواں ، بارہواں ، پہلا مہینہ محرم اور ساتواں مہینہ رجب حرمت والے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسلامی جنتری اور کیلنڈر قمری حساب پر مرتب ہوتا ہے اور اسلامی عبادات کے شمار اور حساب کا دارومدار بھی چاند کے حساب پر رکھا گیا ہے جب مسلمان سیاسی اعتبار سے دنیا میں غالب تھے تو ان کے حساب و کتاب کا معیار قمری مہینہ ہوا کرتا تھا ۔ لیکن جب سے یہ سیاسی اعتبار سے پسپا ہوئے تو ان کا تہذیب و تمدن اور حساب و کتاب کا شمار اورمعیار بھی پسپائی اختیار کرتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ آج عام مسلمان ہی نہیں بلکہ دینی طبقہ بھی اپنی تقویم کو فراموش کر چکا ہے۔ حالانکہ ہماری زندگی کے لمحات اور ایام شمسی حساب سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قمری حساب پر مشتمل ہیں۔
ایک معمولی عقل رکھنے والا انسان غور کرے تواسے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس نظام کو بنانے اور چلانے والا کوئی نہیںجب چاند اور سورج جیسے عظیم سیارے ،رات اوردن کا تسلسل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قبضہ میں ہے اور وہی رات دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لاتا ہے ۔کبھی رات طویل تر ہوجاتی ہے اور کبھی دن رات کے وجود کو چھوٹا کردیتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وقت کے اعتبار سے رات اوردن برابر ہوجاتے ہیں۔ اسی
نظام کے مطابق ہی انسان کی زندگی ہے۔ پہلے چھوٹا
ہوتاہے پھرجوان ہو کر بھرپور صلاحیتوں کا پیکر بن جاتا ہے۔ آخر عمر میں بچوں کی طرح کمزور اوردوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کبھی تندرستی اور کبھی بیماری، کبھی خوشحالی اور تنگدستی ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ گویا کہ شمس و قمر کا غروب اور طلوع ہونا زندگی اور موت اور مر کر جی اٹھنے کی واضح دلیل ہے۔ یہ اس بات کی بھی واضح اور ٹھوس دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے بعد انہیں زندہ کرنے پر قادرہے اور ان سے حساب لے گا۔

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (نوح:15-16)

’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے ہیں اور ان میں چاند کو روشن اور سورج کو چمکتا ہوا چراغ بنایا ہے۔‘‘
مزید فرمایا :

فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

’’اللہ ہی صبح کو پھاڑ کر نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو آرام کے لیے، سورج اورچاند کو حساب لگانے کاذریعہ بنایا۔ یہ نہایت غالب، سب کچھ جاننے والے کا مقرر کردہ ہے۔‘‘(الانعام:۹۶)
جو ذات ’’فالق الاصباح ‘‘ ہے وہی غم اور خوف کے پردے چاک کرتا اور ہرقسم کی مشکلات دور فرما کر اپنے بندے کی حفاظت کرتا ہے۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کا آغاز پھاڑنے کے عمل سے کیا ہے۔ انسان اورچوپائے کا بچہ رحمِ مادر اور جانور کا بچہ انڈے کو پھاڑ کر نکلتا ہے، نباتات زمین کے سینے کو چیر کر نکلتی ہیں ،بارش بادلوں کو پھاڑ کر نازل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بھی ایک دوسرے سے پھاڑ کر الگ کیا ہے۔ (الانبیاء:۳۰) اور قیامت کے دن مُردے بھی زمین کے پھٹنے سے باہر نکلیں گے۔

وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہْتَدُوا بِہَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ} (الانعام:97)

’’اور وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تا کہ تم ان سے بحر و بر کی تاریکیوں میں راستہ پا ئو ہم نے جاننے والوں کے لیے آیات کو کھو ل کر بیان کر دیا ہے ۔‘‘
چاہے انسان پر کائنات کے راز کس قدر منکشف ہو جائیں مگر یہ حقیقت ہر دور میں اپنا آپ منواتی رہے گی کہ انسان کے تیار کردہ آلات جس مقام پر ناکام ہو جائیں وہاں وقت کا پتہ چلانا ، موسموں کا حال معلوم کرنا ،بارش اور آندھی کا اندازہ لگانا بالخصوص رات کے وقت راستے کا تعین کرنا ستاروں سے راہنمائی لیے بغیر ممکن نہیں۔ ستاروں کا علم بہت وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ ہر غور کرنے والا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کارخانہ حیات کے پیچھے ایک علیم و بصیرہستی کی قدرت اور حکم کار فرما ہے۔ جو تمام کرّوں کی رفتار اور گردش کا انتظام کرتا ہے اور انھیں آپس کے تصادم سے بچاتا ہے۔ یہ کسی اتفاق کا نتیجہ نہیںبلکہ اس کے پیچھے قادر مطلق کی قدرت کام کر رہی ہے ۔ اسی لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ جاننے والوں کے لیے ہم نے آیات کی تفصیل بیان کردی ہے ۔
علم نجوم کے بارے میں صرف ان پڑھ ہی نہیں بلکہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ بھی توہم پرستی کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اس بیماری کا اس قدر شکار ہیں کہ پامسٹوں اور علم نجوم جاننے والوں کے پاس جا کر انگوٹھی کا نگینہ ‘ گاڑی کی نمبر پلیٹ‘ شادی یا کسی تقریب کا دن مقرر کرنے کیلئے مارے مارے پھر تے ہیں‘ تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ان کیلئے کون سے دن اورکس چیز میں برکت رکھی گئی ہے۔ حالانکہ رحمت اور زحمت ‘ برکت اور نحوست صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں وہی نازل کرتا ہے اور انکے نازل ہونے کے اوقات جانتا ہے۔کوئی چیز اپنی ذات میں نہ منحوس ہو سکتی ہے اور نہ ہی برکت کا سرچشمہ۔ اسلام نے ان توہّمات سے بچنے کے لیے علم نجوم پر اعتقاد رکھنے کو کفر کے مترادف قرار دیا ہے جس سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
’’سیدنا زید بن خالد جہنی tسے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رات کے وقت بارش ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد فرمایا : آج کچھ لوگ ابرباراں کی وجہ سے ہدایت یافتہ ٹھہرے اور کچھ لوگ اسی بارش کی وجہ سے گمراہی کے گھاٹ اتر گئے۔ صحابہؓ کے استفسار پر وضاحت فرمائی کہ جن لوگوں نے یہ عقیدہ ٹھہرایا کہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے وہ گمراہ ہو گئے اور جنہوںنے بارش کو اللہ کی رحمت اور فضل قرار دیا وہ ہدایت پر قائم رہے۔‘‘ (صحیح مسلم:بَابُ بَیَانِ کُفْرِ مَنْ قَالَ

مُطِرْنَا بِالنَّوءِ)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم أَنَّہُ قَالَ إِنْ یَکُنْ مِنَ الشُّؤْمِ شَیْئٌ حَقٌّ فَفِی الْفَرَسِ وَالْمَرْأَۃِ وَالدَّارِ (صحیح مسلم: بَابُ الطِّیَرَۃِ وَالْفَأْلِ وَمَا یَکُونُ فِیہِ مِنَ الشُّؤْمِ)

سیدناعبداللہ بن عمر  بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولe نے فرمایا :’’ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے ، عورت اور گھر میں ہوتی ۔‘‘ یعنی حقیقی طور پر کسی چیز میں نحوست نہیں ہے۔
ترقی یافتہ اقوام اپنے مقابلے میں دوسروں کو اجڈ‘ جاہل اور غیر مہذب تصور کرتی ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان کا پروپیگنڈا ہے کہ مسلمان غیر مہذب‘ ان پڑھ اور بنیاد پرست لوگ ہیں۔ حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ان فرسودہ خیالات اور تصورات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ انکی مکمل نفی کی ہے۔ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے کادعوے کرنے والی اقوام نہ صرف جاہلانہ تصورات رکھتی ہیں بلکہ انہوں نے ہفتے کے ایام کو ان بروج اور سیاروں کی طرف منسوب کر رکھا ہے اور ہفتہ کے ایام کے نام بھی ستاروں اور سیاروں پر رکھے ہوئے ہیں :۔
۱۔Sun-day(سورج کا دن)
۲۔Mon-day(چاند کادن ) Moon کا مخفّف ہے۔
۳ ۔Tues-day(مریخ کادن)۔ یہ (Tues) فرانسیسی زبان کے لفظ (Mars)کاترجمہ ہے۔
۴۔Wednes-day(عطارد کا دن) کیونکہ Wednesکا لفظ فرانسیسی لفظMercuryکا ترجمہ ہے۔ اور فرانسیسی زبان میں Mercuaryسیارہ عطارد کو کہا جاتا ہے۔
۵۔Thurs-dayمغربی لغت میں “Thurs” مشتری سیارے کو کہتے ہیں۔ یعنی ’’مشتری کادن‘‘
۶۔Fri-day(زہرہ کا دن)
۷۔Satur-day(زحل کادن) زحل کو انگریزی زبان میں Saturnکہتے ہیں۔
قرآن مجید نے لوگوں کو ان باطل تصورات اور توہّمات سے بچانے کے لیے یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں اور سیاروں کو تمہاری خدمت ، آسمان کی حفاظت اور اس کے حسن و جمال کے لیے پیدا کیا ہے ان کا تمہاری تقدیر اور نفع و نقصان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
’’سیدناابو ہریرہ  بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث پہنچی کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح چٹان پر کوئی چیز گھسٹنے سے آواز نکلتی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے بارے میں یوں فرماتے ہیں ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب اُن کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ جو فرمایا حق فرمایا وہ سب سے بلند و بالا ہے۔ شیاطین اس سے چوری چھپے کچھ سُن لیتے ہیں۔ اُن کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بیان کرنے والے راوی سفیانؒ نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے یہ ذکر کیا۔ کئی مرتبہ سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب پڑتا ہے اس سے پہلے کہ وہ اُس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسااوقات شہاب ثاقب اُسے نہیں لگتا۔اس وقت تک وہ شیطان اُسے نیچے والوں تک پہنچا چکا ہوتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تابعی ابو سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں اُسے شیاطین جادو گر کے دماغ میں القاء کرتے ہیں ۔ وہ اُس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے، اُس کی ایک سچی بات کی وجہ سے اُس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی؟ جو سچ ثابت ہوئی تھی اس لیے کہ وہ بات اسے شیاطین کے ذریعے آسمان سے پہنچی تھی ۔ ‘‘(رواہ البخاری باب قَوْلِہِ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِينٌ )

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَا بِیْحَ وَجَعَلْنٰـھَا رُجُوْ مًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ[الملک:3۔5]

’’بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے خوبصورت بنایا اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے ہم نے شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔‘‘

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ

’’وہ آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور ان چیزوں کا بھی جوان دونوں کے درمیان ہیں اور مشرقوں کا بھی رب ہے۔ بلاشبہ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزیّن کیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنا دیا ۔ وہ عالم بالا کی باتیں نہیں سن سکتے کیوں کہ ان پر ہر طرف سے شہاب پڑتے ہیں تاکہ وہ بھاگ جائیں اور ان کے لیے دائمی سزا ہے۔‘‘
[الصافات: 5۔9]
دوسرے مقام پر قرآن مجید میں یوں ارشاد ہوا:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ

’’او ریقینا ہم نے آسمان میں برج بنائے او راسے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا ہے اور اس کی ہر شیطان مردود سے حفاظت کی ہے جو کوئی سُنی ہوئی بات چرا لے تو ایک بھٹکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے ۔ (الحجر:۱۶-۱۸)
خالقِ کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے آسمان کو خوبصورت بنایا اور شیطان مردود سے اسے محفوظ کر دیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔پرانے زمانے کے اہل ہئیت یعنی فلکیات کا علم رکھنے والوں نے آسمان ِدنیا کے بارہ برج متعین کیے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ بُرج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے ہیں اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بروج سے مراد وہ مقام ہوں جہاں ملائکہ شیاطین پر شہابِ ثاقب پھینکتے ہیں۔اکثر اہلِ علم نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ کیا گیا ہے۔
’’شہاب مبین ‘‘ کے لغوی معنی ’’ روشن شعلہ‘‘ ہے ۔ دوسرے مقام پر قرآن مجید میں اس کے لیے ’’شہابِ ثاقب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، یعنی ’’اندھیرے کو چیرنے والا شعلہ ۔ ‘‘ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارہ ہی ہو جسے ہماری زبان میں شہاب ِثاقب کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شعاعیں ہوںیعنی کائناتی شعائیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی زیادہ شدید قسم کی کوئی چیز جو اب تک سائنس دانوں کے علم میں نہ آئی ہو۔ ممکن ہے کہ یہ شہاب ثاقب وہ ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں ۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ِثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے ہیں، ان کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب یومیہ ہے جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں بمشکل ایک آدھ زمین تک پہنچتا ہے۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے جو بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے ۔ کئی دفعہ ایساہواہے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے ٹوٹنے والے ستاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہاب ِثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے ۔
(انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا )
نزولِ قرآن کے وقت مسلمان جِنّات نے اس حقیقت کا یوں اعتراف کیا:

وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا

’’اور یقینا انسان بھی ایسا ہی خیال کر تے تھے جیسے تم کرتے ہو کہ اللہ کسی کو دوبارہ نہیں اٹھائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرے داراور شہابوں سے بھرا ہوا پایا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم سننے کے لیے آسمان کے ٹھکانوں میں بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو سننے کے لئے کان لگاتا ہے تو وہ شہاب کو اپنا پیچھا کرتے ہوئے پاتا ہے۔‘‘[الجن۷ تا ۹]

وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَ النُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِہِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (النحل:۱۲)

’’اور اس نے تمہارے لیے رات ، دن ، سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینابہت سی نشانیاںہیں جو عقل رکھتے ہیں ۔‘‘
انسان ہی نہیں دنیا میں بسنے والی ہر چیز کی زندگی ،رات اور دن کے حساب سے شمار کی جاتی ہے۔ ہر ذی روح اور ہر چیز پر رات اور دن کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دن کی روشنی اور اس کی تپش کے اپنے اثرات اور فوائد ہیں ۔رات کی تاریکی اور اس کے سکون کے اپنے نتائج ہیں۔ جو ہر جاندار اورغیر جاندار چیز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ رات اوردن میںسب سے بڑی ’’ اللہ ‘‘ کی قدرت کی نشانی یہ ہے کہ رات کی تاریکی ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے ،ہر ذی روح نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے ۔ صبح طلوع ہونے پر تازہ دم ہو کراپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتاہے۔ یہی انسان کی موت وحیات کا معاملہ ہے۔ جس طرح نیند کے بعد ہر ذی روح اپنے آپ بیدار ہو جاتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن صور پھونکنے پر ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سورج اور چاند ایسی نشانیاں ہیں جس کی کائنات میں کوئی نظیر موجود نہیں ۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات کے درمیان ایک کہکشاں ایسی ہے جس کے گرد تمام کہکشائیں چکر کاٹ رہی ہیں۔ ان کا ایک چکر پچیسکروڑ سال میں پورا ہوتا ہے ۔
سورج کا وزن دس کھرب 19889xکھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجۂ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ اس میں 40لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سکینڈ استعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت 6000ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ سورج کی حرارت ابھی مزید 5اَرب سال کے لیے کافی ہے ۔
سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے ، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہو جائیں مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ’’ کائناتی انگیٹھی ‘‘ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے ۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہو جائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آجائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہو جائیں گے ۔
چاند ہم سے تقریباً 384,400کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اس کی بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مد و جزر کی لہریں اتنی بلند ہو تیں کہ تمام کرہ ٔ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہو جاتے ۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے مدار قائم کررکھے ہیں جو اپنی اپنی منازل طے کرتے ہوئے طلوع اورغروب کے عمل سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوجائے یا چاند سورج کوتنی صدیاں بیت چکیں لیکن چاند اور سورج ، رات اوردن ایک دوسرے سے سبقت نہیں کرسکے اور کبھی ایسا نہیں ہو گا۔

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (یٰس:37۔40)

’’ اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کیا ہوا حساب ہے اور ہم نے چاند کے لیے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ اُن سے گزرتا ہوا وہ کھجور کی سوکھی ٹہنی کی مانند ہو جاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پا لے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں۔ ‘‘
یہاں سورج کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ چاند کو نہیں پاسکتا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ چاند سورج کے آگے آگے چلتاہے کیونکہ رات پہلے ہوتی ہے اور دن رات کے بعد نمودار ہوتاہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا مقر ر کیا ہوا تقویمی حساب ہے جوقیامت تک اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کاحکم صادر ہوگا تو چاند بے نور ہوکر گر پڑے گا اورسورج اپنی جگہ پر تھم جائے گا۔ چانداور سورج کے آنے جانے ، رات اور دن کی آمدروفت میںانسان کے لیے ایک ایسا سبق ہے جس سے انسان اپنی موت اورزندگی کے بارے میں سوچ سکتاہے کہ اسی طرح ہی ایک وقت آئے گا کہ جب میری زندگی کے سورج نے غروب ہوناہے اور قیامت کے دن مجھے زندہ کیا جانا ہے۔
یہاں سورج کے لیے’’ مُسْتَقَرٌّ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے اہل علم نے اس کے دو مفہوم اخذکیے ہیں ۔ایک جماعت کا خیال ہے کہ مستقرسے مراد وہ جائے استقرار ہے جہاں پہنچ کر سورج دنیا کے ایک حصہ سے اوجھل ہوجاتاہے ۔دوسری جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ مقام ہے جہاں قیامت کے دن سورج کو رُک جانے کا حکم ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شمس و قمر کا نظام اس طرح ترتیب دیا ہے کہ دونوں اپنے اپنے وقت کے مطابق آتے جاتے ہیں کبھی اس نظام میں خلل واقع نہیں ہوا۔
’’سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس دن نبی کریم ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی اس دن سورج کو گرہن لگ گیا ، لوگ کہنے لگے کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے ، اس موقع پر آپؐ نے فرمایا:سورج اور چاند کو کسی کی موت و زیست سے گر ہن نہیں لگتا یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ۔ ‘‘[ رواہ البخاری:کتاب الصلٰوۃ ، باب الدعاء فی الخسوف)
’’سیدناابو ذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسولِ مکرم ﷺ نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے کہ جب سورج غروب ہو تا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا ‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے ۔ آپ نے فرمایا سورج جاکرعرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا مگر اسے اجازت نہ ملے ۔ اسے حکم ہو گاجدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہو جا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلاجاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔‘ ‘ (رواہ البخاری: باب صفۃ الشمس والقمر)
’’ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ ہمیںسیدنا ابو ہریرہ tنے اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث سنائی۔ آپ ؐ نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حسن نے پوچھا: ان کا کیا جرم ہے؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبیؐ کی حدیث سنا رہا ہوں۔ ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے ۔‘‘ (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاء ت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ)

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ

’’اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیںکہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کیا ہے ؟وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر وہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔‘‘(العنکبوت:۶۱)
قرآن مجید لوگوں کو صرف دلائل کی بنیاد پر عقیدہ توحید اور حقائق تسلیم کرنے پر زور نہیں دیتا بلکہ وہ لوگوں کا ضمیر بیدار کرنے کے لیے ان سے استفسار کرتا ہے کہ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند و سورج کو کس نے تمہاری خدمت میں لگا یا ہے؟قرآن مجید مکہ میں نازل ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے انہی سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانے والو!بتاؤ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور شمس و قمر کو تمہارے لیے کس نے مسخر کر رکھا ہے ؟ توحید انسان کی فطرت کی آواز ہے اور یہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اس لیے مشرکین مکہ بے ساختہ جواب دیتے کہ انہیں صرف ایک ’’اللہ‘‘ ہی نے پیدا کیاہے ۔ اس اقرار پر انہیں جھنجھوڑا گیا ہے کہ پھر ایک اللہ کو چھوڑ کر کیوں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو؟

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی وَأَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ذَلِکَ بِأَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ (لقمان:۲۹،۳۰)

’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتاہے ۔اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں اور جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے۔یہ اس لیے ہے کیونکہ اللہ ہی حق ہے اور اُسے چھوڑ کر جن کو لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یقینا اللہ ہی بلند وبالا بڑا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو باربار اپنی قدرتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اے انسان دیکھ اور غور کر کہ جس زمین پر تیرا بسیرا اور جس آسمان کے نیچے تیرا ڈیرہ ہے۔ جس لیل ونہار پر تیری حیات کا انحصارہے اور جس شمس و قمر کے آنے جانے پر تیری زندگی کے رات دن بنتے ہیں۔غور کر کہ کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں ضم ہو جاتا ہے اور کبھی دن رات میں کئی کئی گھنٹے گم ہوجاتی ہے ۔سورج کو دیکھ کہاں سے نکلتا ہے اور کہاں غروب ہوتا ہے۔ اب چاند پر توجہ کر کہ وہ پندرہ راتیں کہاں غائب رہتا ہے جب نکلتا ہے تو کس قدر باریک ہوتا ہے ۔ غائب ہونے سے پہلے چودھویں رات کو کس طرح تاباں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں یہ اسی طرح اپنی ڈیوٹی دیتے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گا جو دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے وہی ’’اللہ ‘‘تمہارا خالق اور حقیقی معبود ہے اور وہی تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور اپنے حضور پیش کرے گا۔بس ہرحال میں اسی کو پکارو ،اسی کی بندگی کرو اوراس کی غلامی میں آجاؤ ۔اس کے سوا جن کو تم پکارتے اور جن کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے اور جن کے حضور سجدے کرتے ہو، وہ نہ معبود ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے شرکیہ تصورّات اور اعمال سے بلندوبالا ہے۔ ہاں یہ بھی یاد رکھو جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی اچھی طرح خبر رکھنے والا ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ

’’کیا تم غور نہیںکرتے کہ اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہے اورجو زمین میں ہے ۔سورج ،چاند ، ستارے ، پہاڑ، درخت ، جانور بہت سے انسان اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اور جسے اللہ ذلیل کر ے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ کرتا ہے ۔‘‘ (الحج:۱۸)
’’ اللہ ‘‘ کی بندگی کا انکار اور اس کے حکم سے سرتابی کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ کائنات میں جو چیز پیدا کی گئی ہے ،وہ اپنے رب کی عبادت کرنے کے ساتھ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ ان میں کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو اپنے رب کی حکم عدولی کرتی ہو۔ ہر چیز اپنے خالق کا حکم مانتی اور اس کے سامنے سربسجود ہوتی ہے اے انسان تجھے بھی صرف اپنے خالق کے سامنے جھکنا چاہیے۔

وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ

’’رات اور دن اور سورج اور چاند، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں چاند اور سورج کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے والے ہو۔‘‘(حٰم السجدہ:۳۷)
اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ رات اوردن سورج اورچاند اسی کے تابع فرمان ہیں۔ کیامجال کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے رب کی سرِمو حکم عدولی کرے ۔جب رات اوردن ،سورج اورچاند اس کے حکم کے تابع ہیں تو پھر چاند اور سورج کو سجدہ کرنا چہ معنٰی دارد؟سجدہ تو اس ذات کو کرنا چاہیے جس نے سورج اورچاند کو پیدا کیا،رات اوردن بنائے۔جو حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اسے سب کی بندگی چھوڑ کر صرف اور صرف ایک رب کی عبادت کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے