انسانی زندگی اپنی موجودہ شکل میں نا مکمل اور تشنہ ہے۔
مادی دنیا کے حصار میں مقید یہ زندگی نامرادیوں، محرومیوں اور ناپائید اریوں کی زد میں ہے۔اور محض اپنے وجود میں سمٹی ہونے کے باعث یہ قطعی بے مقصد اور بے معنی ہے۔انسان کا یہ مادی وجود غیر تشفی بخش صورت حال میں غیر شعوری طور پر ہمیشہ اس حیثیت کے لیے آرزومند رہتا ہے جو مکمل ہو،بے عیب اور لازوال ہو۔مادی جسم کے ساتھ بھٹکتی روح ہمیشہ اپنے اصل مسکن اور مرکز تک پہنچنے کے لیے مضطرب و بے قرار رہتی ہے۔
انسان کی یہ بنیادی آرزو دنیا میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔وہ تمام آرزوئیں ، خواہشات، آدرش، مقاصد اور امیدیں جو انسان اپنی اس حیا ت دنیوی میں مختلف اشیاء سے وابستہ کر لیتا ہے، وہ دراصل اسی مکمل اور بے عیب ذات کی طلب ہے جو کہ انسانی روح کا اصل منبع و محور ہے۔چنانچہ انسان اپنے وجود کے اس خلا کو پر کرنے کے لیے اپنی فکر و نظر میں سینکڑوں بت تراش لیتا ہے۔ اور لا علمی اور لا شعوری طور پر ان بتانِ آزری سے تسکین قلب حاصل کر تا ہے۔لیکن روح کی تشنگی پھر بھی نہیں جاتی۔وطن پرستی، نسل پرستی، علاقائیت اور انا نیت۔ یہ سب ان ہی معبودان ِ باطلہ کے رنگ ہیں۔یہ دنیا کی اکثریت کا خود ساختہ فکری محور ہے جس کے گرد وہ برسہا برس سے طوافِ آرزو کر رہا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’ فلسفہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے اندرونی تقاضوں کا جواب ہے ۔اسے حیوانی سطح سے بلند ہونے اور انسانیت ِ اعلیٰ کے درجے تک پہنچنے کے لیے بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے اور اس نصب العین کی طلب بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہوسکتی جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے لیکن مشکل یہ ہےکہ مطلق کا تصور سامنے آ نہیں سکتا۔ وہ جبھی آئے گا کہ ایجابی صفتوں کے تشخص کا کوئی نہ کوئی نقاب چہرے پر ڈال لے۔ چنانچہ ہمیشہ اس نقاب ہی کے ذریعے جمال حقیقت کو دیکھنا پڑا۔ یہ کبھی بھاری ہوا ، کبھی ہلکا، کبھی پر خوف رہا، کبھی دل آویز ، مگر اترا کبھی نہیں۔
انسان کو قلیل علم دیا گیا ہے ، بس اتنا ہی کہ اس عارضی و فانی دنیا میںوہ ایک بہتر زندگی گزار سکے، خیر و شر کی تمیز کر سکے۔ یہ دونوں صفات اس کے خالق و مالک نے اس کے جسمانی وجود میں از خود رکھ دی ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا

’’اور نفس انسانی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا، پھر اس میں بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی‘‘۔ (الشمس : 7۔8)
اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ:

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (البلد 10 )

’’اور (نیکی اور بدی کے) دونوں نما یاں راستے اسے (نہیں) دکھادیے؟‘‘۔
ان سب کے ساتھ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی بھی دے دی، اس لیے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے،جس میں ہر متنفس حالت امتحان میں رکھا گیا ہے۔ارادہ و اختیار کی آزادی کے بغیر کسی امتحان کا تصور بھی محال ہے۔ہاتھ پیر باندھ کر کسی سے مقابلہ نہیں کرایا جاسکتا اگر ایسا ہونے لگے تو یہ مقابلہ اور امتحان نہیں ظلم و جبر ہوگا۔اور یہ فطرت کے اٹل قانون کے صریح خلاف ہے۔
جب انسان عقل قلیل کی بنا پر اپنی زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے تو اس میں بہت سے جھول اور نقائض پیدا ہوجاتے ہیں۔کیونکہ الہامی ہدایت اور رہنمائی کے بغیر محض عقل کی بنیا د پر بنائے ہوئے سارے نقشے ریت پر
لکھی تحریر ثابت ہوتے ہیں۔اور ریت تیز و تند ہواؤں
کے سامنے بے بس ہوتی ہے۔یہی سبب ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اللہ کے حضور یہ درخواست پیش کی جاتی ہے کہ:

اھد نا الصراط المستقیم

بارِ الٰہا! ہمیں ھدایت دے سیدھے راستے کی طرف۔
انگریز مفکر تھامس ہابز (1588-1669 ) کہتا ہے: ’’ ہمارا قائم کیا ہوا ہر تصور محدود ہوتا ہے، اس لیے لا محدود کا علم نہیں ہو سکتا۔لا محدود کا لفظ صرف ایک سلبی حد ہے۔اور یہ لفظ اس کے لیے بولا جاتا ہے جس کی ہم کوئی حد قائم نہ کریں۔یہ لفظ کسی وجود کی صفت نہیں بلکہ ہمارے عجز کا اظہارہے۔ کائنات کا بحیثیت مجموعی بھی کوئی علم نہیں ہوسکتا، اس کے آغاز اور زمانۂ قیام اور حجم کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ علم دینیات کے لیے وقف ہے۔‘‘
اب چونکہ جسم مادی اس دنیا کا اسیر اور حصول دولت ، حشمت و وجاہت کے سبب فریب خوردہ ہے، اس لیے اس کے خالق کی طرف سے خصوصی فضل و کرم اور تو فیق کی ضرورت ہے تاکہ روح کا یہ جذبہ اور طلب ، اللہ کی طرف مر کوز ہوجائے، جب دنیا کی تما م چیزوں سے ہٹ کر روح انسانی کی یہ طلب محض ایک نکتہ یعنی معبود حقیقی پر مرکوز ہوجاتی ہے تو روح اپنے اصل مقصود کو پہچان لیتی ہے تو اس کا جذبہ وفا داری، درد اور شوق بھی قوی تر ہوجاتا ہے۔
سلف صالحین کے نزدیک بھی سلوک الی اللہ میں محبت کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔قرآن و حدیث میں نہ صرف اللہ تعالیٰ کے بندے کے لیے محبت اور بندے کی اللہ کے لیے محبت کے شواہد موجود ہیں، بلکہ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کی تلقین کی گئی ہے اور اسے ایمان کی علامت بنا یا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّہِ أَندَاداً یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِلّہِ

’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو شریک بناتے ہیں اور ان سے اللہ کی سی محبت کر تے ہیںلیکن جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ ہی کو سب سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ ‘‘(البقرہ165)
اسی بات کو سورۃ آلِ عمران میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا:

قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ

’’کہہ دو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گااور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔‘‘(آل عمران : 21)
امام قشیری نے اپنے ’ رسالہ قشیریہ‘ میں نقل کیا ہے:
انسان کے نفسانی تقاضوں سے ابھر ے یہ سب میلانات عارضی طور سے یا کچھ عرصے کے لیے جھوٹی تسلی دے سکتے ہیں یا عمر بھر کا فریب بھی ثابت ہو سکتے ہیں ، بقول میر ؎
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ’’ جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے‘‘۔کیونکہ زندگی کے ان مشاغل اور خودساختہ نظریات کی زد میں آکر اصل روح انسانی اپنی گہرائیوں میں مضطرب اور بیمار رہتی ہے۔مولانا رومؒ اپنے ملفو ظات میں لکھتے ہیں:
’’ آدمی میں ایک ایسی جان، درد، کسک اور طلب ہے کہ اگر اس کو لاکھ جہانوں کی حکومت مل جائے،تب بھی اس کی تسلی نہیں ہوگی اور اس کو آرام نہیں آئے گا۔لوگ نہایت محنت سے مختلف پیشوں ،صنعتوں ، اور عہدوں کے لیے کوشاں رہتے ہیں، علم نجو م اور طب وغیرہ کی تحصیل کرتے ہیںاورذرا دم نہیں لیتے کیوںکہ جو چیز مقصود ہے وہ نہیں حاصل ہوسکی ہے۔ آخر محبوب کو دل آرام کہا جاتا ہے، یعنی دل کو اس سے آرام ملتا ہے، تو بھلا پھر کسی غیر سے اس کوکیونکر آرام اور قرا رحاصل ہو۔‘‘
’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کر تا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا نہیں چاہتا ، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند نہیں فرماتے‘‘
اسی طرح ایک مشہور حدیث قدسی ہے جس میں ربّ کائنات نے فرما یا:
’’ جب میرا کوئی بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا تقرب چاہتا ہے تو میں بھی اس کو محبوب رکھتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کر نے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ،جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں ، جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں لازماً دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے کوئی پناہ چاہتا ہے تو اسے پناہ بھی لازماً دیتاہوں‘‘(بخاری)
اللہ کی معرفت اور اس کی بندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کواللہ کے مقام و مرتبے کا صحیح علم حاصل ہو۔اللہ کے بارے میں ناقص علم بسا اوقات انسان کو گمراہی کے راستے پر بھی ڈال دیتا ہے، یہ کوتاہ علمی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے اپنے کلام کے بارے میں فرما یا ہے:

یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْراً (البقرة:26)

’’ اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کا گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔‘‘
صحیح علم کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ:
’’ علم کثرت روایت اور طول و عرض کا نام نہیں بلکہ وہ ایک نور ہے جس کے بعد دماغ رٹنے کا محتاج نہیں رہتا، اس کی روشنی میں حقائق ِ اشیاء اسی طرح نظر آنے لگتی ہیں جیسا کہ آفتاب کی روشنی میں سیا ہ و سفید‘‘علم درحقیقت اسی نور کا نام ہے جب تک یہ نور پیدا نہ ہو اس وقت تک مسائل غامضہ تو در کناربدیہیات بھی اپنی پوری حقیقت کے ساتھ منکشف نہیں ہوتے۔ پھر بھلا اس شکستہ علم کی بنا پر انسان اپنے ربّ کی معرفت کیونکر حاصل کر سکتا ہے۔
حق کا علم ہی اصل علم ہے، اور اس کی روشنی میں جوافکار و نظریات انسان کے قلب پر مرتب ہوں گے ،وہی انسان کے اندر وہ تقویٰ پیدا کریں گے جو اس کو معرفت ربّ سے قریب تر کر تا جائے گا۔حق اللہ کی پہچان ہی ا س کی معرفت ہے۔علم کی ابتدا حقائق ہی کے ادراک سے ہوتی ہے، یہی حقائق اور آیات بینات ہیں جن سے ہمیںربّ کائنات کا سراغ ملتا ہے اور جن کا عمیق مطا لعہ معرفت الٰہی کے لیے ناگزیر ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّہُ مِنَ السَّمَاء ِ مِن مَّاء فَأَحْیَا بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِن کُلِّ دَآبَّۃٍ وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَاب و الْمُسَخِّرِ بَیْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (البقرۃ:164)

’’بے شک آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں،ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے بر ساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش ،اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا رکھے ہیں ، اس میں عقل مندوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں ۔‘‘
یہ آیات بینات فا طر السمٰوٰت و الا رض کے علم و قدرت کے مظاہر ہیں جن کے مطالعہ سے ہمیں معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ ان سب کی گہرائیوں میں اس کی مشیت کا رفرما ہے۔جب تک کسی کو علم حقیقی کا یہ مقام حاصل نہ ہوجائے اس وقت تک معرفت ربّ کا حصول محض جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔اگرچہ مجرد علم و عقل ہی اشیاء کو پہچاننے کے ذرائع ہیں ، تاہم معرفت ربّ کے لیے مجرد علم کفایت نہیں کر سکتا کیونکہ کسبی علم اور عقل معرفت کی علت نہیں ہوتے ، معرفت کی علت ربّ کائنات کی خاص عطا اور عنایت ہے جووہ اپنے چیدہ چیدہ بندوں کو ہی دیا کر تا ہے۔اور اس علت معرفت کے ساتھ تقویٰ کو مشروط کیا گیا ہے۔
ارسطو کے نزدیک اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ’’ وہ علت ِ اولیٰ یا محرک اول ہے۔ہر شے کی کوئی علت ہوتی ہے اور اس علت کی پھر کوئی علت ہے۔
اس طرح علتوں کا یہ سلسلہ چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ ایک ایسی علت پر ختم ہوجاتا ہے جس کا کوئی معلول تو ہوسکتا ہے لیکن اس کی علت نہیںہوسکتی۔ آخری علت لازمی طور پر ازلی و ابدی ہے، نہ اس کی ابتدا ہے اور نہ انتہا،وہ ہر قسم کی ترکیب و تعدد سے مبرا ہے اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہے۔‘‘
امیر المؤمین علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرما یا:
’’ہم نے اللہ عز و جل کو اسی کی عنا یت سے پہچانااور جو کچھ اس کے ما سوا ہے اسے اس کے نور سے پہچانا‘‘۔
عقل و استدلال دلائل کی بنیاد پر اپنے ما فی الضمیر کے آئینہ میں تدبر کر تے ہیں ،جبکہ معرفت ربّ تمام دلائل و استدلال اور امثال و تشبیہات سے قطعی ما وراء ہے۔امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ معرفت یہ ہے کہ تمہیں کسی شے کو بھی دیکھ کر یا جان کر تعجب نہ ہو۔‘‘مطلب یہ ہے کہ اللہ کی معرفت کے لیے کسی دلیل، سوچ بچار اور استدلال کی کسی پہلو سے بھی گنجائش نہیں ہوتی۔اسی چیز کو مزید واضح کر تے ہوئے ایک بزرگ ابو یزیدؒ فر ماتے ہیں:’’ معرفت تو یہ ہے کہ تو جان لے کہ مخلوق کی تمام حرکات و سکنات اللہ کی طرف سے ہیں اور کسی شخص کو اس کے اذن کے سوا اس کے مِلک میں کوئی تصرف حاصل نہیں ہے۔ اور ہر شے میں بھلا اور برا جو اثر ہے اسی کی طرف سے ہے۔یہ جان لینے کے بعد انسان میں کامل تفویض الی اللہ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔‘‘
اللہ کی معرفت اور اس پر ایمان کامل نہ حسی ہے اور نہ انانیتی، بلکہ یہ انسان کی فطرت میں اخلاقی قانون کی موجودگی کا اظہار ہے۔ اس کا منبع فطرت انسانی کی ایک عمومی اور کلی حقیقت ہے،تاہم شرط یہ ہے کہ انسان کی فطرت مرور زما نہ سے مسخ نہ ہو گئی ہو۔امام غزالی رحمہ اللہ ’’ احیا ء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ دل میں ایک قوت ہے جس کو نور الٰہی کہتے ہیں، جس کے باب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

أَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ (الزمر:22)

’’ بھلا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہواور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے(اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا ہو؟)‘‘
اس کیفیت کو عقل ،بصیرت ِ باطنی، نورِ ایمان اور نورِ یقین بھی کہتے ہیں۔یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے دل ان باتوں کی دریا فت کر تا ہےجو متخیل ہیں نہ محسوس۔آگے فرماتے ہیںکہ: ’’ موت محل معرفت الٰہی کوفنا نہیںکرتی اور محل معرفت روح ہے جو امر ربانی اور آسمانی ہے، موت صرف روح کے حالات اور اس کے کاموں اور عوائق کو تبدیل کرتی ہے۔اور اس کو حبس سے رہا کر دیتی ہے،نیست ہر گز نہیں کر تی
چنانچہ اللہ تعا لیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُواْ بِہِم مِّنْ خَل َسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّہَ لاَ یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ

’’جو لوگ لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ نہ سمجھو،وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں، ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پرشاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مؤمنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (آل عمران:169-171)
معرفت الہیہ تک پہنچنے کا راز اللہ عزّ وجلّ کے کلام میں عمیق تدبر کرنے سے انسان پر کھلتا ہے۔کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے۔اللہ کے اسماء و صفات کے معنی و مفہوم کا گہرا فہم اور کلام الٰہی کی آیات میں استغراق اور غوطہ زنی غیر محسوس طور پر بندے کو اللہ کے قریب کر نے کا سبب بنتے ہیں۔
حدیث جبرائیل میں ذات الہٰیہ کے شعوری ادراک کی کیفیت کو واضح کیا گیا ہے۔:
’’ تو اللہ کی اس طرح عبادت کر گویا اسے اپنے سامنے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو یہ استحضار رہے کہ اللہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے‘‘۔(مسلم)
چنانچہ یہ مقام ہر شخص کو اپنے ذاتی تجربے اور جذب و آہنگ میں مستغرق ہوکر حاصل ہوسکتا ہے۔اور یہ حق الیقین تک رسائی کا مؤثر ترین راستہ ہے۔اور معرفت الہٰیہ کے لیے تمام پیچیدہ راہوں کو اس طرح کھولتا ہے جیسے علی الصبح مشرق سے ابھر تا سورج ہر سو اجالے بکھیر دیتا ہے۔اور گل رنگ سویرا چہار سو پھیل جاتا ہے۔
خرد سے آدمی روشن بصر ہے
خرد کیا ہے چراغِ رہگذر ہے
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہے
٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے