اسلام شرفِ اِنسانیت کا علمبردار ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ نہیں پایا جاتاجواحترام انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی بنیادامورِدین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

 لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ( البقرة:256)

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے، سو جوکوئی معبودانِ باطل کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا :  لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ’’(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔‘‘(الکافرون6)
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ رسول اکرم ﷺکے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے

:أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (سنن ابی داؤد كتاب الخراج والإمارة والفيء باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات صححہ الشیخ الألباني رحمہ اللہ)

’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
ایک دفعہ سیدناعمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا

:متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم امهاتهم احرارا’’

تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔ (حسام الدين، کنز العمال2/455)
اسلام رب واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا

:اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ( النحل: 125)

’’(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔‘‘
پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا ملک ہےجس کی تحریک آزادی میں زور وشور سے لگنے والا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ تھا اور آج 69 سال بعد بھی اس نعرے کی تازگی برقرار ہے ۔ پاکستان کے آئین میں بھی یہ شق موجود ہے کہ اسلام کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا اس کے باوجود ایسا قانون لانے کی کوشش کی جاری ہے جو کہ اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف ہےجس کو بظاہرتو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا نام دیاگیا ہے لیکن پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں دراصل ہمارے حکمران مغرب کی نظر میں پسندیدہ بننے کے لیے اور سندھ کے برہمنوں کوخوش کرنے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔مغرب کے ایجنڈے کے تحت مادرپدر ںآزاد اقدار کو پاکستانی معاشرے میں فروغ دینے کے لیے دن رات ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے اور اب اسلام قبول کرنے کے لیے شرائط عائد کی جارہی ہیں ۔ اٹھارہ برس سے کم عمر کے افراد اپنی مرضی سے مذہب تبدیل نہیں کرسکیں گے بالغ افراد بھی مذہب تبدیل کرنے کے بعد اکیس روز تک سرکاری تحویل(سیف ہاؤس) میں رہیں گے اور اس کے بعد ہی اعلان کر سکیں گے اس دوران انہیں اپنی رائے پر نظر ثانی کا موقع دیا جائے گا۔ جبکہ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی پابندی ثابت نہیں بلکہ اسلامی تاریخ میں ایسی ایسی مثالیں جا بجا ملتی ہیں کہ نو عمر بچے بھی اسلام قبول کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس میں سرفہرست سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے جنہوں نے آٹھ سال کی عمر میں اسلام کیا تھااس کے علاوہ ایک اور یہودی بچے کے اسلام قبول کرنے کی مثال بھی ملتی

ہے ۔

عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ غُلاَمٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ ‏”‏ أَسْلِمْ ‏”‏‏.‏ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهْوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَقُولُ ‏”‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ ‏”‏‏(صحيح البخاري كتاب الجنائز باب إذا اسلم الصبي فمات هل يصلى عليه … رقم الحديث:1356)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم ﷺکی خدمت کیا کرتا تھا ، ایک دن وہ بیمار ہو گیا ۔ آپﷺ اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا ۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا ، باپ وہیں موجود تھا ۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسمﷺ جو کچھ کہتے ہیں مان لے ۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا ۔ جب رسول اکرمﷺ باہر نکلے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا ۔
بعض سینئر وکلا اور قانون دانوں نے اس بل کو غیر آئینی اور مضحکہ خیر قرار دیتے ہوئے عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بل انتہائی پیچیدہ،غیر جمہوری اور آئین سے متصادم ہے۔ قبول اسلام پر پابندیاں لگانے والوں نے اس نکتے پر غور ہی نہیں کیا کہ اگر کسی خاندان نے اسلام قبول کیا تو ان بچوں کا کیا بنے گا جن کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہوں گی؟ کیا مسلم والدین کے بچے اٹھارہ برس ہونے تک غیر مسلم ہی شمار ہوں گے۔ اس دوران اگر ان میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اس کی آخری رسومات کس طرح ادا کی جائیں گی؟ اگر والدین کا انتقال ہوجائے تو کیا غیر مسلم بچے مسلم ماں باپ کی میراث میں حصہ پائیں گے یا انہیں محروم قرار دے کر جائیداد دور کے رشتہ داروں میں تقسیم کی جائے گی؟ پھر بعض بچے طبی بنیادوں پر اٹھارہ برس میں بھی بالغ قرار نہیں پاتے تو کیا وہ ساری زندگی اسلام قبول کرنے کے حق سے محروم رہیں گے؟ عجیب بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جو خود کو سیکولر جماعت کہلاتی ہے اور سیکولر عناصر کی تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ مذہب فرد کا خالص نجی اور ذاتی معاملہ ہے پھر تو اس پر ریاست اور حکومت کو کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگانی چاہیے مگر اس کے باوجود پی پی کی صوبائی حکومت اسے پابندیوں میں کیوں جکڑ رہی ہے۔برصغیر میں سندھ کو باب الاسلام (اسلام کا دروزاہ) ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہاں پہلی صدی ہجری میں ہی محمد بن قاسم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی پہنچی تھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی عمر سترہ سال تھی پھر تحریک آزادی کے دوران بھی سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے دو قومی نظریئے کے تحت پاکستان کی قرار داد پاس کی تھی۔اب اسی سندھ کی صوبائی اسمبلی میں دو قومی نظریئے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے قبول اسلام پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ہندوارکان اسمبلی کی جانب سے پیش کردہ اس بل کے خلاف کسی مسلمان رکن کو بھی آواز بلند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ سب نے متفقہ طور پر اسے منظور کر لیا اسلام کی بنیاد پر بننے والے اس ملک کولبرل اور سکولر بنانے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ ہماری نظرمیں جن اسمبلی ممبران نے یہ قانون منظور کیا ہے انہوں نے اپنی عاقبت کی بربادی کا سامان کیا ہے ان پر لازم ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کریں اور اپنی غلطی کا ازالہ کریں۔ گورنر سندھ جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانون کی توثیق نہ کریں اور اسے نظر ثانی اور قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے واپس اسمبلی کو بھیجیں، کیونکہ یہ ایکٹ آزادیٔ مذہب اور حقوق انسانی کے بھی منافی ہے اپنے مذہب کے اظہار کے لیے کسی پر قانونی پابندی عائد کرنا شریعت اسلامی اور پاکستان کے آئین کے خلاف ہے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں تک جبراً مسلمان بنانے پر تعزیری سزا مقرر کرنے کا تعلق ہے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن رہا یہ سوال کہ آیا کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے طے کرناعدالت کا کام ہے یہ کسی انتظامی افسر کادائرۂ اختیار نہیں ہے عدالت میں کسی بھی الزام کے ثبوت کے لیے اقرار یا شہادت یا عدالت کے نزدیک قابل قبول قرائن وشواہد کا پیش کرنا ضروری ہوتا یہ بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔
مرحباً جنرل قمر جاوید باجوہ :
پاکستان فوج کے نئے سپہ سالار پاک آرمی کے 16ویں آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف آف جنرل اسٹاف جناب جنرل زبیر محمود حیات کو اپنی اور ادارہ کی طرف سےدل کی گہرائیوں سے مبارک مباد اور نیک خواہشات کا ہدیہ پیش کرتے ہیں۔
جس طرح جنرل راحیل شریف نے بھارت کی لاکھ سازشوں اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی تمام کاوشوں کو جس شجاعت اور اعلیٰ ترین حکمت عملی کے نتیجہ میں بھارتی اور دیگر دشمنوں کی تمام تر کاوشوں کو خاک میں ملاکر اپریشن ضرب عضب اور سی پیک(پاک چائنہ اکنامک کو ریڈور) آپریشنل بنانے میں کامیابی حاصل کی اوراب ہم جنرل قمر باجوہ سے بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ تمام آپریشنز کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریںگے ویسے بھی ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بھی جنگی تربیت ومہارت کا وسیع تر تجربہ رکھتے ہیں اور لائن آف کنٹرول سمیت کشمیر کے بارے مکمل آگاہی رکھتے ہیں دشمن پر ان کی دھاک کے علاوہ پاکستان کے اندر بھی باخبر حلقے اندرونی اور بیرونی ایجنٹوں کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کو سخت گیر فوجی کمانڈر تصور کرتے ہیں ہم ان کی کامیابی کے لیے اللہ رب العالمین سے دعا گو ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اسلام ، ملک وقوم کا حقیقی محافظ بنائے۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے