پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول  ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! کما حقہ اللہ سے ڈرو اور تقوی الہی راہِ ہدایت اور اس سے تصادم کا راستہ بدبختی ہے۔
مسلمانو!اللہ تعالی نے آدم کو پیدا کیا اور اپنی عبادت کیلئے زمین پر انہیں خلیفہ بنایا، تو اولاد آدم دس صدیوں تک اللہ تعالی کی وحدانیت اور محبت پر متحد رہی، پھر شیطان نے انہیں پھسلا کر دینِ الہی اور اللہ کی ا طاعت سے منحرف کر دیا، ایک امت رہنے کے بعد بکھرنے لگے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، لیکن شیاطین  نے ان کے پاس آ کر انہیں دین سے گمراہ کر دیا ۔ (مسلم)
تو اللہ تعالی نے ان کے بکھرنے پر مذمت فرمائی اور رسولوں کو مبعوث فرمایا تا کہ ان میں اتحاد اور حق بات پر ان کے دل متحد ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ

لوگ ایک ہی امت تھے، تو اللہ تعالی نے نبیوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا [البقرة: 213] یعنی: ان کے بکھرنے کے بعد۔
اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو چنا اور ان میں انبیائے کرام اور رسولوں کو بھیجا؛ لیکن انہوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور کتابِ الہی کو پس پشت ڈال کر گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے، عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی۔(ابن حبان)
اور آپ ﷺ نے اس امت میں تفرقہ بازی رونما ہونے کی خبر دی ، عہدِ نبوت سے جس قدر دور ہوتے جائیں گے گروہ بندیاں اور

اختلافات بڑھتے جائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

بیشک تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا۔ (احمد)
نبی ﷺ نے فرقہ آرائی سے خبردار فرمایا تا کہ مشیئتِ الہی میں جس کیلئے سلامتی لکھی ہوئی ہے وہ فرقہ واریت سے بچ جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’اپنے آپ کو فرقوں میں بٹنے سے بچاؤ۔‘‘(ترمذی)
اللہ تعالی نے بھی اپنے بندوں کو گروہ بندی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]
نیز اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا دیا کہ اس کا راستہ ایک ہی ہے، لہذا جو بھی کتاب و سنت سے متصادم راستہ ہو گا وہ شیطان کا راستہ ہے، جو کہ مخلوق کو رحمن سے دور کرتا ہے، اللہ تعالی نے اقامت ِ دین اور گروہ بندی سے دوری کی تاکیدی نصیحت تمام اقوامِ عالم کو اسی طرح فرمائی جیسے انبیائے کرام کو فرمائی، فرمانِ باری تعالی ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي
أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جسے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیجا ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں گروہ بندیاں مت کرنا۔[الشورى: 13]
اللہ تعالی نے گروہ بندی اور تفرقہ پردازوں کی مذمت فرمائی :

وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

اور بیشک جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی بد بختی میں پڑ گئے۔[البقرة: 176]
تفرقہ پردازوں کی کیفیت بیان کرنے کیلئے فرمایا:

 كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ [المؤمنون: 53]

 جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر اترا رہا ہے ۔
گروہ بندی کیلئے تگ و دو منافقوں کی صفات میں سے ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ [التوبہ: 107]

اور کچھ لوگوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کیلئے ، کفر کیلئے اور مومنوں میں پھوٹ ڈالنے کیلئے۔
اور مزید یہ بھی فرمایا کہ منافقین اسی پر پروان چڑھتے ہیں:

تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [الحشر: 14]

تم انہیں متحد سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل جدا جدا ہیں۔
فرقہ واریت جاہلوں کی خصوصی صفات میں سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
جو شخص بھی اطاعت سے رو گردانی کرے اور اجتماعیت سے نکل جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔(مسلم)
اللہ تعالی نے فرقہ آرائی میں ملوث لوگوں سے مشابہت اور ان کی ڈگر پر چلنے سے منع فرمایا اور کہا:

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ  [آل عمران: 105]

اور ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے نشانیاں آنے کے بعد بھی اختلاف کیا اور بٹ گئے۔
اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو گروہ بندیاں کرنے والوں سے لا تعلق قرار دیا اور فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ [الأنعام: 159]

بیشک جن لوگوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ بندیوں میں بٹ گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فرقہ واریت میں ملوث لوگ رسول اللہ ﷺ کے مخالف اور مومنوں کے ساتھ تصادم رکھتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

 جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ  کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ رہنے کے اعتباربہت ہی بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]
سب سے بڑا اختلاف رب العالمین کی وحدانیت سے انحراف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ

اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقیناً ظالموں سے ہو جائیں گے۔ [يونس: 106]
بالکل اسی طرح بدعات ایجاد کرنا خیر المرسلین ﷺ کی اتباع سے دوری ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔(متفق علیہ )
حکمرانوں اور حکومتی قائدین کے خلاف بغاوت، ملکی قیادت سے قیادت چھیننے کیلئے اختلاف بہت بڑی خرابی کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا، اور جو شخص اجتماعیت کو چھوڑنے کی حالت میں مرے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(احمد)
تمام معاشروں میں اہل علم افراد ہی قابل اتباع ہوتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں الفت ڈالنے اور ان میں باہمی اتحاد قائم کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد ہوتی ہے، اگر وہی آپس میں چپقلش رکھیں تو یہ ان کی باتوں کو مسترد کرنے کا باعث بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ  نے سیدنا معاذ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: آسانی کرنا تنگی میں مت ڈالنا، خوشخبریاں سنانا، متنفر مت کرنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اختلاف مت کرنا۔ (متفق علیہ)
اسی طرح حق بات میں اختلاف سے منع کرتے ہوئے فرمایا:قرآن مجید کی اس وقت تک تلاوت کرو جب تک تمہارے دل مانوس رہیں اور جب [قراءت میں اختلاف کی وجہ سے ] اختلاف ہونے لگے تو اٹھ جاؤ۔ (متفق علیہ )
نماز کیلئے الگ الگ دھڑے بنانا اور اکٹھے با جماعت نماز ادا نہ کرنا  شیطان کے غلبہ پانے کی صورت ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
کسی بھی بستی یا بادیہ میں تین افراد نماز با جماعت کا اہتمام نہ کریں تو شیطان ان پر غالب ہے، اپنے آپ کو اجتماعیت سے جوڑے رکھو؛ کیونکہ بھیڑیا دور نکلنے والی بکری کو کھا جاتا ہے۔ (ابو داود)
بلکہ نبی اکرمﷺ نے بکھر کر نماز کے انتظار کو بھی اچھا نہیں سمجھا، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ [نماز پڑھانے کیلئے]داخل ہوئے تو ہمیں ٹولیوں کی شکل میں [نماز کا انتظار کرتے ہوئے]دیکھ کر فرمایا: کیا ہے کہ میں تمہیں ٹولیوں میں دیکھ رہا ہوں!؟۔‘‘ (مسلم)
نبی معظم ﷺ نے صف بندی کرتے ہوئے نمازیوں کو اختلاف سے روکا اور اختلاف کرنے والوں کو چہروں میں بگاڑ اور دلوں میں نفرت پیدا ہونے کی وعید سنائی؛ کیونکہ ظاہری طور پر بگاڑ کا پیدا ہونا اندرونی بگاڑ کا باعث ہے، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
تم ضرور صفیں سیدھی کرو گے یا اللہ تعالی تمہارے چہروں میں بگاڑ پیدا کر دے گا۔ (مسلم)
نماز میں امام کی مخالفت بھی اختلاف کے ان مظاہر سے  ہے جن سے اسلام نے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک امام اقتدا کیلئے مقرر کیا گیا ہے؛ لہذا امام کی مخالفت مت کرو۔ (بخاری)
اسلام نے جس طرح دینی امور میں اختلاف سے روکا ہے اسی طرح دنیاوی امور میں بھی اختلافات سے روکا ہے؛ چنانچہ کھانے کیلئے اکٹھے ہونے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور الگ الگ کھانے سے برکت ختم ہو جاتی ہے، جیسے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ: ہم کھاتے تو ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: (لگتا ہے تم کھانا اکٹھے نہیں کھاتے) انہوں نے کہا: “بالکل ایسے ہی ہے” تو آپ ﷺ نے فرمایا: کھانے کیلئے اکٹھے بیٹھو اور اس پر بسم اللہ پڑھو، تمہارے لیے اس میں برکت ڈال دی جائے گی۔ (ابو داود)
دورانِ سفر رفقائے سفر سے بکھر جانے کو شیطانی راستہ قرار دیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا:
ان گھاٹیوں اور وادیوں میں تمہارا بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے۔ (ابو داود)
معاشرے کے افراد کی باہمی قطع تعلقی اور بے رخی سے منع فرمایا اور بتلایا کہ:
جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کے دن کھولے جاتے ہیں، تو ہر اس شخص کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا، سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی کے ساتھ چپقلش ہو، تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے: ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو، ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو۔ (مسلم)
نبی کریمﷺ نے تعصب اور جاہلانہ نعروں سے بھی منع فرمایا: ایک انصاری شخص نے آواز لگائی: “اے انصاریو!” تو دوسرے نے صدا لگا دی: “اے مہاجرو!” تو اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: جاہلانہ نعرے کیوں لگا رہے ہو؛ انہیں ترک کر دو یہ بد بو دار ہیں۔(متفق علیہ )
اللہ تعالی کو اپنے بندوں کے درمیان اختلاف پسند نہیں ہے ، لہذا لوگوں میں اختلافات غیر اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں، شرعی اصولوں نے یہ واضح طور پر کسی بھی ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا ہے جو گروہ بندی اور اختلاف کا باعث بنے، بلکہ ادیانِ سماویہ میں ممنوعہ چیزوں کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے، چنانچہ ہر اس چیز کو منع کر دیا گیا جو مسلمانوں میں اختلافات کا باعث بنے، مثلاً: بد ظنی، حسد، جاسوسی، چغلی، سود، کسی کی بیع پر بیع کرنا، کسی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجنا، عیب جوئی کرنا، ملاوٹ کرنا وغیرہ، نیز اللہ تعالی نے باہمی اتحاد قائم کرنے اور اختلافات سے بچانے کیلئے اچھی سے اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیا  اور بری گفتگو سے روکا، فرمان باری تعالی ہے:

وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ [الإسراء: 53]

اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہی بات کیا کریں جو بہترین ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈلواتا ہے۔
اختلاف کا سب سے بڑا موجب شرک ہے، شرک اختلاف پرور اور معبودانِ باطلہ  میں اضافے کا موجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا [الروم: 31، 32]

 اور مشرکوں کی طرح مت ہو جاناجنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور دھڑوں میں بٹ گئے۔
کتاب و سنت سے مکمل رو گردانی یا کچھ حصے کو مان لینا اور باقی مسترد کر دینا تنازعات اور تصادم کا راستہ ہے

وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ [المائدة: 14]

جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض اور عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی۔
متَشابہ نصوص کی ٹوہ لگانا گمراہی اور سب کیلئے آزمائش ہے:

فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ

جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متَشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے۔ [آل عمران: 7]
شبہات اور شہوات کے دروازے میں قدم رکھنے کی وجہ سے کئی اقوام تباہ ہو گئیں اور نسلوں میں اختلافات ڈال دئے۔
شیطانی راستوں پر چلنے کا نتیجہ اختلاف ہی ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ

اور مختلف راستوں پر مت چلو یہ تمہیں اللہ کے راستے سے دور لے جائیں گے۔[الأنعام: 153]
کوئی بھی قوم سرکشی کرے تو وہ گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ [آل عمران: 19]

جن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے علم آ جانے کے بعد ہی اختلاف کیا صرف آپس میں سرکشی کی وجہ سے۔
جس اختلاف کی بنیاد بھی ہوس پرستی، تعصب، سرکشی اور تقلید، حمیت، گروہی تعصب ہو تو وہ فرقہ آرائی کا راستہ ہے اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “فرقہ آرائی اور اختلاف عام طور پر بد ظنی اور ہوس پرستی سے جنم لیتے ہیں”
حصولِ دنیا کیلئے بڑھ چڑھ کر دوڑ دھوپ کرنا عداوت اور بغض کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں غربت کا اندیشہ نہیں ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں دنیا ایسے ہی فراوانی کے ساتھ دے دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں کو دی گئی، پھر تم بھی انہیں کی طرح بڑھ چڑھ کر دنیا کیلئے آگے بڑھو گے، اور یہی دنیا تمہیں بھی تباہ کر دے گی جیسے سابقہ اقوام کو دنیا نے تباہ کیا۔(متفق علیہ)
جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو شیطان ان پر غالب آ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
اپنے آپ کو ملت سے پیوستہ رکھو، اور الگ ہونے سے بچاؤ؛ کیونکہ شیطان  تنہا کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ دو افراد سے دور رہتا ہے۔ ( ترمذی)
ابلیس کا چہیتا چیلا بھی وہی ہے جو امت میں سب سے زیادہ تفریق پیدا کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اور اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے، ان میں سے شیطان کا قریبی وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ پرور ہو، ان چیلوں میں سے ایک آ کر کہتا ہے: “میں نے یہ کیا ، میں نے وہ کیا” تو ابلیس اسے کہتا ہے: توں نے کچھ نہیں کیا! پھر ایک اور آ کر کہتا ہے: “میں نے اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑا جب تک میاں بیوی میں تفریق نہیں ڈال دی” آپ نے فرمایا: ابلیس اس کے قریب ہو کر کہتا ہے: “توں سب سے اچھا ہے”۔(مسلم)
دینی امور میں اختلاف، ہوس پرستی اور گمراہ نظریات  اللہ کے راستے اور دینِ الہی سے روکتے ہیں، اسی کی وجہ سے انبیائے کرام کے راستے اور منہج سے انحراف پیدا ہوتا ہے؛ کیونکہ سب انبیائے کرام نے دینِ الہی کے قیام اور حق بات پر باہمی اتحاد کا حکم دیا نیز تفرقہ سے روکا، اور جب اختلاف پیدا ہو جائےتو متخاصم لوگوں کا دین خطرے میں پڑ جاتاہے، انہیں کتاب و سنت سے تعلیمات لینے کی برکت سے محروم کر دیا جاتا ہے، ان پر ہوس غالب آ جاتی ہے، علم و ہدایت کا تسلط ختم ہو جاتا ہے، گروہ بندی سے دلوں میں کدورت اور رابطہِ اخوت  منقطع ہو جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: تم اختلاف میں مت پڑو وگرنہ تمہارے دل گدلے ہو جائیں گے۔ ( مسلم)
گروہ بندی دشمنی اور بغض کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [آل عمران: 103]

اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔
کوئی بھی قوم بٹ جائے تو کمزور اور ناتواں بن جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

تنازعات میں مت پڑو وگرنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔[الأنفال: 46]
اور اگر کسی قوم میں گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ اللہ تعالی کے ان سے ناراض ہونے کی علامت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ [الأنعام: 65]

آپ کہہ دیں کہ وہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے  یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے ۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: “یعنی: تمہیں خواہشات اور اختلافات کا مزہ چکھا دے”
اختلافات کی فوری سزا دشمنوں کے مسلط ہونے کی صورت میں ملتی ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی کو وعدہ دیا ہوا ہے کہ ان کے اپنے نفسوں کے علاوہ بیرونی کوئی دشمن مسلط نہیں کیا جائے گا جو انہیں تہس نہس کر دے، چاہے ساری دھرتی کے دشمن ان کے خلاف متحد ہو جائیں، یہاں تک یہ خود ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگے گیں اور ایک دوسرے کو قیدی بنانے لگے گیں۔ (مسلم)
تنازعات، اختلافات اور تفرقہ بازی سے حق تباہ ہوتا ہے، دینی اقدار منہدم ہوتی ہیںاور یہ مشرکین کی مشابہت بھی ہے، یہ گمراہی پھیلنے اور جہالت پر مبنی باتیں پھیلنے کا ذریعہ ہیں، ان میں ملوث ہو کر دینی احکام پر عمل، دین کی تعلیم اور دعوت شدید متاثر ہوتی ہیں، بلکہ دینی شعائر معطل ہو جاتے ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دیگر نیک سرگرمیاں معدوم ہو جاتی ہیں، اختلافات کے باعث نعمتیں زائل ہوتی ہیں، نبی کریمﷺ کو لیلۃ القدر دکھائی گئی تو آپ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتلانے کیلئے نکلے، [باہر] دو آدمی جھگڑ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں لیلۃ القدر کے بارے میں بتلانے کیلئے نکلا تھا، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے تو اس کی تعیین اٹھا لی گئی۔ (بخاری)
اگر گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ بڑے سنگین جرائم کا پیشہ خیمہ ہو سکتی ہے، جن کی وجہ سے قتل و غارت اور خون بہہ سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا

اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو ان رسولوں کے بعد لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرتے جبکہ ان کے پاس واضح احکام بھی آ چکے تھے لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔
[البقرة: 253]
اختلافات کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:اختلافات مت کرو؛ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلافات کئے تو تباہ ہو گئے۔ (بخاری)
آخرت میں اختلافات کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

اس دن جب کہ کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ہو رہے ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا ؟ سو جو تم کفر کرتے رہے اس کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو ۔[آل عمران: 106]
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: “اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و فرقہ واریت والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے” اللہ تعالی کا ہاتھ ملت اور اجتماعیت کے ساتھ  ہوتا ہے، اور جو کوئی ملت سے بیزار ہو کر تنہا ہو گا اسے جہنم میں بھی تنہا ہی ڈالا جائے گا۔
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!گروہ بندی  ذلت اورخفت ہے، تنازعات بدی اوربلاہیں، اختلافات کمزوری اور دیوانگی ہیں، انتشار دین و دنیا دونوں کیلئے تباہی ہے، اس کی وجہ سے دشمن خوش ہوتا ہے اور امت کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، علم کی نشر و اشاعت  بند ہوتی ہے، سینے میں کینہ اور دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے، معیشت کمزور اور وقت رائیگاں ہو جاتا ہے، انسان کو نیک کاموں سے موڑ دیتی ہے ۔
عقلمند انسان اختلافات سے رو گردانی کر کے کتاب و سنت پر کار بند رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اپنی بھی اصلاح کرتا ہے، یہی نبی کریمﷺ کی امت کو انتشار اور اختلاف سے خلاصی کیلئے نصیحت  ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

 اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔ [النساء: 59]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!جو شخص بھی کتاب و سنت اور آثار صحابہ کا جس قدر تابعدار ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ کامل ہو گا، وہ شخص اتحاد، ہدایت، اللہ کی رسی کو تھامنے والا اور فرقہ واریت ، اختلافات سمیت فتنوں سے بھی اتنا ہی دور ہوگا۔
اسلام کے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو یک زبان بنا دے، ان کے دلوں  میں الفت ڈال دے، ناراض لوگوں کی آپس میں صلح کروا دے، مخلوق کیلئے بہتری دین اور حق بات پر متحد ہونے کی صورت میں ہی حاصل ہو گی، اللہ تعالی نے تمام مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

 بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔[الحجرات: 10]
اور اسی طرح نبی آخر الزماںﷺ کے ہاں مومنوں کی (باہمی محبت، شفقت اور پیار ) مثال ایک جسم جیسی ہے، ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو اس کا سارا جسم بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں رہتا ہے۔ (مسلم)
ایک اور جگہ فرمایا: ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کیلئے دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے۔ (متفق علیہ )
باہمی اتحاد و اتفاق اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں ، جو کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو خاص فضل و کرم کے ساتھ عنایت فرماتا ہے:

وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [الأنفال: 63]

ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے ۔
مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کیلئے اپنا سینہ صاف رکھے، دوسروں سے محبت کرے اور ان کی خیر خواہی چاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے