دین اسلام کے امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں انسانوں کے ہر طبقے کے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کی گئی ہے،خواہ وہ بچے ہوں یا جوان،ادھیڑ عمر ہوں یا بوڑھے،مرد ہوں یا خواتین،مسلمان ہوں یا کافر،حتی کہ جو نہ مکمل مرد شمار کئے جاتے ہیں نہ ہی مکمل خاتون انکے متعلق بھی شریعت اسلامیہ میں واضح ہدایات موجود ہیں،نہ صرف یہ بلکہ دین اسلام میں انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے،کہ اسکی زندگی کا کونسا پہلو کس طرح ہونا ،وہ کس طرح اپنی زندگی کو اپنے آقا اور مالک کی پسند کے مطابق ڈھال سکتا ہے اسے کیا سوچنا چاہیے،کیا نہیں سوچنا چاہیے،کیا کرنا چاہیے،کیا نہیں کرنا چاہیے،کیا اپنانا ہے ،کیا چھوڑنا ہے،کس سے ملنا ہے ،کس سے نہیں ملنا،کیا بات کرنی ہے ،کیا نہیں کرنی،وغیرہ وغیرہ
الغرض،دین اسلام پوری انسانی زندگی کا احاطہ کیئے ہوئے ہے،اس نے انسان اور اسکی زندگی کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا،مگر اسکے متعلق ہدایات جاری کی ہیں،اسکے اچھے و برے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے،اسی بناء پر دین اسلام اپنے ہر ماننے والے سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (البقرۃ:208)
اے ایمان والو! دین اسلام میں مکمل طور پر داخل ہوجاؤ اور قطعاً شیطانی راہوں پر نہ چلو وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اور یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ دامن اسلام کو تاحیات تھامے رکھنا ہے،کبھی بھی،کسی بھی پہلو میں،کسی بھی موڑ پر اسکی ہدایات کو فراموش نہیں کرنا،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کاحق ہے اور تمہیں ہرگز ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔(آل عمران:102)
انسانی زندگی کا آغاز ماں کی کوکھ سے ہوتا ہے،پھر یہ دنیا میں آکر بچپن،لڑکپن،جوانی،ادھیڑ عمری کے مراحل طے کرتا ہوا بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے،اسکے بعد کوئی مرحلہ نہیں ،صرف موت ہے،اس لئے یہ زندگی کی سب سے اہم اسٹیج ہے،باقی مراحل جیسے بھی گزر جائیں،اگر آخری مرحلہ خوشگواراور دوسروں کے لئے قابل تقلید مثال ہو تو زندگی کا قرض ادا ہوجاتا ہے۔
اس لئے اس مرحلے کو پہنچ جانے والوں کو سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے،کہ:
٭ وہ اپنے پیچھے کیا چھوڑ کر جارہے ہیں؟
٭انکے بعد انکا تذکرہ کس طرح کیا جائے گا،اچھائی کے ساتھ یا برائی کے ساتھ؟
٭اپنے زندگی بھر کے تجربات اور ماحصل کو وہ دوسروں تک کس طرح منتقل کریں؟
٭اور کس طرح اپنے اس مرحلے کوپرسکون اور خوشگوار بنائیں؟
٭اب تک کی زندگی میں جو غلطیاں ہوگئیں انکی تلافی کس طرح کریں؟
٭زندگی بھر کیا کرتے رہے ،کیا کرنا چاہیے تھا؟
ڈھلتی عمر کے ساتھ اس طرح کے بہت سے سوالات جنم لینا شروع کردیتے ہیں ۔
انسانی دنیاوی زندگی کی حد:
انسانی دنیاوی زندگی کی کوئی حد متعین نہیں کی جاسکتی،ہر انسان ایک مخصوص عمرتک لازمی پہنچتا ہو ایسا قطعاًممکن نہیں،ہر عمر میں اموات کی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں،البتہ انسانی عمر کی اوسط اور انتہائی حد متعین کی جاسکتی ہے،انسان کے زمانہ ارتقاء میں قد و قامت کے ساتھ عمریں بھی سینکڑوں سال پر مشتمل ہوتی تھیں،لیکن وقت کا سفر انسانی عمر میں کمی کرتا رہا تاآنکہ دور حاضر میںانسانی
حیات کے ماہرین کے نزدیک انسان کی اوسط عمر
60تا70 سال ہے ،جبکہ انتہائی عمر 115 سال کے قریب ہے ،اسلامی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اوسط عمر 60 سال جبکہ انتہائی عمر 100 سال ہے ،چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين و أقلهم من يجوز ذلك
’’میری امت کی اوسط عمر 60تا70سال ہے اور کم ہی اس سے اوپر جاپاتے ہیں۔(ابن ماجہ:4236- الصحیحۃ:757)
جبکہ انتہائی عمر کے متعلق ایک حدیث میں اشارہ ملتا ہے ، اپنی آخری حیات میں ایک رات عشا کی نماز کے بعدنبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے پوچھا:
أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ؟ فَإِنَّ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ
تمہارا اس رات کے متعلق کیا گمان ہے؟یہ وہ رات ہے کہ اسکے 100سال بعد ان میں سے کوئی زندہ نہ رہے گا جو آج زمین پر زندہ ہیں۔(مسلم:2537)
ایک اور حدیث کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الْأَرْضِ عَيْنٌ تَطْرِفُ مِمَّنْ هُوَ حَيٌّ الْيَوْمَ
لوگوں پر ایک صدی نہ گزرے گی کہ زمین پر آج زندہ لوگوں میں سے کسی کی آنکھ جھپکتی ہو۔ (احمد:714۔ الصحیحۃ:2906)
جب 70 سے اوپر کم ہی لوگ جاپاتے ہیں تو 100 تک پہنچنے والے تو شاذ و نادر ہی ہونگے،اور 100 سے اوپر جانے والے توکسی گنتی میں نہیں آئیں گے۔
جبکہ اطباء کے نزدیک طبعی عمر کی انتہائی حد 120 سال ہے ،60 کی دہائی تک انسان وجود کامل حاصل کرلیتا ہے اس کے بعد اسکا انحطاط شروع ہوجاتا ہے ،زمانہ جاہلیت کےایک عمر رسیدہ ربیع بن ضبع الفزاری الذبیانی نامی عرب شاعر نے کہا:
إذَا بَلَغَ الفتَى ستينَ عَاما
فقد ذَهَبَ المَسَرَّةُ والفَتَاءُ
جب کوئی جوان 60 سال کی عمر کو پہنچ جائے تو خوشی اور جوانی دونوں ہی رخصت ہوجاتی ہیں۔(تفسیر ابن کثیر)
امام ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی (المتوفیٰ:597ھ) نے کہا:
واعلم أن الأسنان أربعة سن الصبي وسن الشباب وسن الكهولة وسن الشيخوخة فسن الصبي هو الذي يكون فيه البدن دائم النشوء والنمو وهو إلى خمس عشرة سنة وسن الشباب هو الذي يتكامل فيه النمو ويبتدئ عقيبه بالإنحطاط ومنتهاه في غالب الأحوال خمس وثلاثون سنة وقد يبلغ أربعين وبعضهم يسمى ما بين الثلاثين إلى الأربعين سن الوقوف كأن القوة وقفت فيه ثم من الأربعين يأخذ في النقص قال الشاعر:
كأن الفتى يرقى من العمر سلما
إلى أن يجوز الأربعين وينحط
وسن الكهول الذي قد تبين فيه الإنحطاط والنقصان مع بقاء من القوة ومنتهاه في أكثر الأحوال ستون سنة فمن بلغ الستين فقد انتهى وأثر فيه ضعف القوة وجاءته نذر الموت ودخل في سن المشايخ وفي ذلك الزمان يزيد انحطاط القوة ويقوى ظهور الضعف إلى آخر العمر
عن يحيى بن يمان قال سمعت سفيان الثوري يقول من بلغ سن النبي {صلى الله عليه وسلم} فليرتد لنفسه كفنا
جان لو کہ عمریں چار طرح کی ہیں،بچپنا،جوانی،ادھیڑ عمری اور بڑھاپا،(1)بچپنا اس وقت تک رہتا ہے جب تک جسم نشونما حاصل کرتا رہے،بڑھتا رہے،ایسا 15سال تک ہوتا ہے،
(2)جوانی کی عمر وہ ہے جب نشونما مکمل ہوجائے،اسکے فوراًبعد ہی (جسمانی)انحطاط شروع ہوجاتا ہے،اور عموماً35سال کی عمر تک جاری رہتا ہے،کبھی 40سال کی عمر تک بھی جاری رہتا ہے،بعض لوگ 35تا40 سال کی عمر کو ”سن وقوف“کہتے ہیں،گویا کہ اس دوران طاقت و قوت برقراررہتی ہے ،پھر 40کے بعد اس میں کمی ہونے لگتی ہے۔
شاعر نے کہا:
كأن الفتى يرقى من العمر سلما
إلى أن يجوز الأربعين وينحط
جوان عمر کی سیڑھی چڑھتا جاتا ہے ،چالیس زینے چڑھ جاتا ہے تو اسکا زوال شروع ہوجاتا ہے۔
(3)ادھیڑ عمری کی عمروہ ہے جس میں انحطاط شروع ہوتا ہے،جبکہ کچھ قوت بھی برقرار رہتی ہے،عموماً60 سال کی عمر تک یہ جاری رہتا ہے،
(4)پھر جو 60 سال کی عمر کو پہنچ جائے تو ادھیڑ عمری کا دور ختم ہوا ،پھر ضعف قوت اثر انداز ہونے لگتی ہے،موت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں،اور وہ بوڑھوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے،اس دور میںطاقت کا زوال بڑھ جاتا ہے ،اور اختتام عمر تک کمزوری شد ومد کے ساتھ ظاہر ہوتی رہتی ہے۔
سفیان الثوری نے کہا:جو نبی ﷺ کی عمر (63 سال) کو پہنچ جائے وہ اپنا کفن اوڑھ لے۔(کشف المشکل من حدیث الصحیحین،3/532)
امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی کو طویل کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد 115 برس تک ہے۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ نتائج انسانی طول عمری کے کئی عشروں پر محیط جائزے کے بعد اخذ کیے گئے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اکا دکا لوگ زیادہ لمبی عمر جی سکتے ہیں، لیکن 125 برس کی عمر کا صرف ایک انسان ڈھونڈنے کے لیے زمین جیسے دس ہزار سیارے چھاننا پڑیں گے۔
یاد رہے اگر کسی کو ہزاروں سال کی زندگی بھی دے دی جائے تو بھی اسے موت آکر رہے گی ،اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (البقرۃ:96)
’’ہر مشرک چاہتا ہے ،کاش اسے ہزار سالہ زندگی ملے،حالانکہ اگر اسے یہ عمردے دی جائے تو یہ اسے عذاب سے نہیں بچاسکتی،اور اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے۔‘‘
یعنی ہزار سال جینے کے بعد بھی اسے موت آئے گی پھر اسے جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔
نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أُرْسِلَ مَلَكُ المَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ، فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لاَ يُرِيدُ المَوْتَ، فَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ وَقَالَ: ارْجِعْ، فَقُلْ لَهُ: يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ بِهِ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ المَوْتُ،
”پہلے موت کا فرشتہ کھلے عام آتا تھا“،ایک بار اسے موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس بھیجا گیا ،جب وہ آیا تو انہوں نے اسے مارا جس سے اسکی آنکھ پھوٹ گئی ،وہ اپنے رب کے پاس جاکر کہنے لگا :تو نے مجھے اپنے ایسے بندے کے پا بھیج دیا جو مرنانہیں چاہتا،اللہ تعالی نے اسکی آنکھ درست کی اور فرمایا:موسی سے کہہ کہ:اپنا ہاتھ گائے کی پشت پر رکھے اسکے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں تو ہر بال کے بدلے ایک سال کی زندگی ملے گی؟
موسی علیہ السلام نے پوچھا:میرے آقاپھر کیا ہوگا؟
فرمایا:پھر موت ،تو انہوں نے کہا:میرے مالک پھر ابھی ہی صحیح۔ (بخاری:1339-ااحمد:10917-الصحیحۃ:3279)
ہمیشہ کی زندگی:
دنیا میں کوئی بھی انسان زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا،پوری انسانی تاریخ میں ایسی ایک بھی مثال نہیں پیش کی جاسکتی کہ کسی انسان کو دنیا میں ہمیشہ کی زندگی عطا کی گئی ہو،دعوے کی حد تک تو الیاس ؈و خضر ؈کا نام لیا جاتا ہے ،لیکن یہ صرف کھوکھلے دعوے ہیں دلیل صحیح سے ثابت نہیں،کیونکہ اگر وہ بشر تھے تو یہ دعویٰ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر:34 ،(یہ آیت آگے آرہی ہے)اور گذشتہ سطور میں بیان کردہ 100 سال والی حدیث کے بھی منافی ہے۔
اور اگر وہ انسان نہیں تھے تو انکی مثال ہی پیش نہیں کی جاسکتی۔
نیز بشر ہونے کے باوجود اگر وہ(مزعومہ استثنائی صورت کے مطابق) حیات ہوتے تو نبی کریم ﷺ کی حیات میں آپ سے ضرور ملاقات کرتے ،آپ پر ایمان لاتے،آپکے ساتھ ملکر کفار کے خلاف جنگ میں حصہ لیتےیا کم از کم آپکی وفات میں ہی شریک ہوتے ،مگر کسی بھی صحیح روایت سے ایسا ثابت نہیں،جبکہ الیاس ؈ کی توقبر بھی موجود ہے،اور ایک روایت جو حیات خضر ؈ کےسلسلے میں پیش کی جاتی ہے کہ آپکی وفات پر کسی اجنبی کی آواز آئی تھی ...الخ ،تواولاً ،وہ ضعیف ہے،ثانیاً،اس میں ابہام ہےکہ وہ کون تھا کیونکہ اسے کوئی دیکھ نہیں پایا،غالب گمان یہی ہے کہ وہ کوئی نیک اور مومن جن تھا کیونکہ جنات کو دیکھا بھی نہیں جاسکتا،نیز اس طرح حیات الیاس ؈کا اعتقاد ”عقیدہ ختم نبوت“ کے بھی منافی ہے۔ (تفصیل کےلئے ملاحظۃ ہو ،تفسیر اضواء البیان از امام شنقیطی تفسیر سورۃ الکھف آیت نمبر65)
البتہ آخرت میں سبھی انسانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی دی جائے گی،وہاں کوئی نہ مرے گا ،بلکہ موت کو موت دےدی جائے گی،جب جنتی جنتوں میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور جنہیں جہنم میں سزا دینے کے بعد نکالا جانا ہے انہیں بھی جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا،پھر موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لاکر برسرعام ذبح کردیا جائے گا ،یہ اعلان ہوگا کہ اب خلود ہے،ہمیشگی ہے ،اور موت نام کی کوئی شے موجود نہیں،البتہ اہل جنت کو حقیقی زندگی حاصل ہوگی جبکہ اہل جہنم کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَإِذَا أَدْخَلَ اللَّهُ أَهْلَ الجَنَّةِ الجَنَّةَ وَأَهْلَ النَّارِ النَّارَ، قَالَ: أُتِيَ بِالمَوْتِ مُلَبَّبًا، فَيُوقَفُ عَلَى السُّورِ الَّذِي بَيْنَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ الجَنَّةِ، فَيَطَّلِعُونَ خَائِفِينَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَطَّلِعُونَ مُسْتَبْشِرِينَ يَرْجُونَ الشَّفَاعَةَ، فَيُقَالُ لأَهْلِ الجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ هَؤُلاَءِ وَهَؤُلاَءِ: قَدْ عَرَفْنَاهُ، هُوَ الْمَوْتُ الَّذِي وُكِّلَ بِنَا، فَيُضْجَعُ فَيُذْبَحُ ذَبْحًا عَلَى السُّورِ الَّذِي بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ الجَنَّةِ خُلُودٌ لاَ مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ لاَ مَوْتَ
جب اللہ تعالی اہل جنت کو جنت اور اہل جہنم کو جہنم میں داخل کردے گا تو موت کو گردن پہنا کر لایا جائے گا،اسے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان والی دیوار پر کھڑا کیا جائے گا،پھر اہل جہنم کو آواز دی جائے گی تو وہ خوفزدہ ہوکر جھانکیں گے،اور اہل جنت کو آواز دی جائے گی تو وہ خوش ہوکر اور شفاعت کی امید کرتے ہوئے جھانکیں گے،ان سے پوچھا جائے گا:کیا تم اسے جانتے ہو؟وہ سبھی جواب دیں گے :ہاں یہ موت ہےجسے ہم پر مسلط کیا گیا،پھر اسے اسی دیوار پر لٹاکر ذبح کردیا جائے گا اور یہ اعلان کیا جائے گا کہ اب ہمیشگی ہے ،کبھی موت نہیں آئے گی۔(ترمذی:2557،صحیح الجامع:8025)
نیز فرمایا:
يُقَالُ لِأَهْلِ الجَنَّةِ: يَا أَهْلَ الجَنَّةِ خُلُودٌ لاَ مَوْتَ، وَلِأَهْلِ النَّارِ: يَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ لاَ مَوْتَ
اہل جنت سے کہا جائے گا :اے اہل جنت ہمیشگی ہے موت نہیں،اور اہل جہنم سے کہا جائے گا:ہمیشگی ہے موت نہیں۔ (بخاری:6545)
بڑھاپا قانون فطرت ہے:
اللہ تعالی نے اس کائنات کو بنایا ہی ایسا ہے کہ اسکی کسی شئ کو بقا اور دوام حاصل نہیں،حتی کہ ایک روز زمین و آسمان اور چاند سورج ستارے بھی فنا ہوجائیں گے،اسی طرح انسان کو بھی اس دنیاوی زندگی میں ہمیشگی حاصل نہیں، ایک دن اسے بھی رخصت ہوجانا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
آپ سے پہلے ہم نے کسی انسان کے لئے(دنیاوی زندگی میں) ہمیشگی نہیں رکھی،تو کیا اگر آپ موت سے ہمکنار ہوجائیں وہ (آپکے سوا باقی لوگ)ہمیشہ جیئیں گے؟ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے،اور(دنیا میں تو)ہم تمہیں خیر و شر کے ذریعےآزمارہے ہیں،اور تمہیں ہماری جانب لوٹ آنا ہے۔(الانبیاء:34-35)
ایسا نہیں ہوسکتاکہ جوان سدا جوان رہے،کبھی بوڑھا نہ ہو،یا بچہ کبھی جوان نہ ہو سدا بچہ ہی رہے،یا بوڑھا سدا بوڑھا ہی رہے کبھی موت سے ہمکنار نہ ہو، انسان کے سلسلے میں اللہ سبحانہ کی سنت یہ ہے کہ وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہے ،پہلے بچپنا پھر جوانی پھر بڑھاپا اسکے بعد زندگی کا کوئی مرحلہ نہیں صرف موت ہے، ان تمام مراحل سے گزارنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کے تغیرات پر غور و فکر کرے کہ وہ کون سی ہستی ہے جو پانی کے ایک بے جان قطرے کو جیتا جاگتا کمزور بچہ پھر طاقتور جوان اور پھر دوبارہ کمزور سا انسان بنادیتا ہے حتی کہ اسے موت سے ہمکنار کردیتا ہے،ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (غافر:67)
اللہ وہ ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا،پھر نطفے میں ڈھالا، پھر خون کے لوتھڑے میں،پھر وہ جیتا جاگتا بچہ بنادیتا ہے، تاآنکہ تم اپنی قوتوں کو پہنچ جاؤ،اور تم میں سے کچھ تو اس سے پہلے ہی فوت کردیئے جاتے ہیں،اور تاآنکہ تم طے شدہ وقت کو پہنچ جاؤ،اور تاکہ تم عقل سے کام لو۔
ان مراحل سے گزارنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ انسان اپنی عقل و فراست کو دنیا کی رنگینیوں اور آسائشوں تک محدود کرلے اور اپنے بنانے والے سے غافل ہوجائے ، چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ
جسے ہم زندگی عطا کرتے ہیں اسے ہم پیدائشی حالت (ضعف)کی طرف لوٹادیتے ہیں،کیا وہ عقل نہیں کرتے؟۔ (یس:68)
یعنی انسان کوپہلے پیدائشی ضعف پھر جوانی کی قوت پھربڑھتی عمر کے ضعف پر مبنی مختلف مراحلِ حیات پر غور و فکر کرکے اپنے خالق کو پہچاننے اور زندگی کے اصل مقصد کو جان کر اسکی تکمیل کی کوشش کرنی چاہیے۔
عمریں اور اجر و ثواب:
قدیم زمانے میں انسانی عمر سینکڑوں سال پر مشتمل ہوتی تھی ،لہذا انہیں زیادہ عمل کرنے کا موقع ملتا ،لیکن انکے اعمال کے اجر و ثواب بھی اسی قدر کم ہوتے جس قدر ان کی زندگیاں طویل ہوتی تھیں،تاہم امت محمدیہ ﷺ کی اوسط عمر 60 تا 70 سال کے درمیان ہے ،جبکہ انتہائی عمر 100 سال ہےجیسا کہ ابھی بیان ہوا،عمل کے لئے یہ زندگی اگر چہ مختصر ہے لیکن اللہ تعالی اس امت کے ہر نیک عمل کا اجر کم از کم دس گنا دیتا ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ارشاد فرمایا:
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
جو ایک نیکی کرے گا اسے اسکے برابر دس نیکیوں کا اجر ملے گا،اور جو گناہ کرے گا تو اسے اسی کے برابر گناہ ملے گااور ان پر ظلم نہیں کیاجائےگا۔(الانعام:160)
نیزعمل کے اجر میں اضافے کے لئے کچھ قرائن بھی ہیں ، مثلاً:اخلاص نیت،اتباع سنت،خشوع وخضوع ،مخصوص اوقات،مخصوص حالات، مخصوص مقامات وغیرہ بشرطیکہ صحت کے ساتھ ثابت ہوں توانکے ساتھ اجر و ثواب 700 گنا سے زیادہ تک بڑھادیا جاتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرۃ:261)
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں،انکی مثال اس بیج کے جیسی ہے جو سات بالیاں اگائے ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوں،اور اللہ جسکے لئے چایتا ہے اس سے بھی بڑھا دیتا ہے ،اللہ وسعت والا ،جاننے والا ہے۔
نیزنبی ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ، فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كَتَبَ اللهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، وَإِنْ عَمِلَهَا، كَتَبَهَا اللهُ عَشْرًا، إِلَى سَبْعِمِائَةٍ، إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، أَوْ: إِلَى مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يُضَاعِفَ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا، كَتَبَهَا اللهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً
اللہ نے نیکیاں اور گناہ کے سبھی کام لکھ رکھے ہیں،پس جو نیکی کا ارادہ کرلے اس پر عمل نہ کرے تو اللہ اسکا ایک مکمل اجر لکھ لیتا ہے، اور اگر اس ارادےپر عمل کرلے تو اللہ اسکے ”دس“ تا ”سات سو“ تا”اس سے بھی کئی گنا“تک جو اللہ بڑھاناچاہے اجر لکھ لیتا ہے،جبکہ جو گناہ کا ارادہ کرے پراس پر عمل نہ کرے اللہ اسکا بھی ایک اجر لکھ لیتا ہے،اور اگر وہ گناہ کرلے تو صرف ایک گناہ لکھتا ہے۔ (احمد:2828،صحیح الجامع:4306)
بعض اعمال کا اجر”ہزاروں گنا“ ملتا ہے ،جیسے مسجد نبوی میں نماز پڑھنااور بعض اعمال کا ”لاکھوں گنا“ ملتا ہے جیسے مسجد حرام میں نماز پڑھنا۔
ایک مومن مسلمان کی زندگی کےدین اسلام پر گزرتے ہوئے سال اسکے لئے رب تعالی کی مختلف نوازشات کا باعث بنتے جاتے ہیں ،اسکی بڑھتی عمر کے ساتھ اس پر احکام شرعیہ کی تعمیل میں تخفیف کی جاتی رہتی ہے،اس پر عائد ذمہ داریاں گھٹائی جاتی رہتی ہیں، اور اسکے شرعی و معاشرتی حقوق میں اضافہ کیا جاتا رہتا ہے،حتی کہ اسکا یہ بڑھاپابھی اسکے اجر میں اضافے اور درجات کی بلندی کا باعث بن جاتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ فَاِنَّہُ نُورُ الْمُسْلِمِ-وفی روایۃ-مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشِيبُ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ إلا كانت له نوراً يومَ القيامةِ-وفی روایۃ- إِلَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً , وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً-وفی روایۃ-وَرَفَعَهُ بِهَا دَرَجَةً
بڑھاپے کی سفیدی کو نوچو مت-ایک روایت میں ہےبڑھاپاروز قیامت مسلمان کا نور ہوگا-ایک روایت میں ہےجو اسلام پر بوڑھا ہوا اللہ اسکے لئے ایک اجر لکھتا ہےاور اسکا ایک گناہ مٹاتا ہے-ایک روایت میں ہےاور بڑھاپے کے باعث اسکا ایک درجہ بلند فرماتا ہے۔ (ابوداؤد:4202- احمد:6962- الصحیحۃ: 1243)
بڑھاپا حجت ہے:
اللہ سبحانہ و تعالی نے اس کائنات میں اپنی وحدانیت کے اسقدر مظاہر بکھیر دیئے ہیں جو سطحی عقل و شعور کے حامل انسان پر حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہیں اور اس کے لئے معمولی عقل و شعور پر مبنی ایک دن کی زندگی بھی بہت ہے، لیکن اللہ تعالی نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انبیا و رسل علیھم الصلاۃ و السلام،کتب و شرائع کا سلسلہ بھی جاری کیا اور سن بلوغت کو قیام حجت کا موقع قرار دیا،بلوغت کے بعد کی ساری زندگی اس حجت کے قیام کو کامل سے کامل تر بناتی رہتی ہے، گویا جس نے زندگی کی کئی بہاریں دیکھ لیں اور بڑھاپے میں قدم رکھ دیا اس کے پاس اللہ سبحانہ و تعالی کی وحدانیت و عبودیت کا انکار یا اس میں شک کی ذرہ برابر بھی گنجائش باقی نہ رہی،روز محشر یہ شخص کسی بھی طرح کا بہانہ نہ بنا سکے گا، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ، وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ (فاطر:37)
کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی کہ جس میں نصیحت پکڑنے والا خبردار ہوجاتا ہے،اور تمہارے پاس نذیر بھی آچکا۔
٭ایک قول کے مطابق اس آیت میںمذکور عمر سے مراد 60سالہ عمر ہے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ؆ اور سیدنا علی سےمنقول ہے۔(تفسیر ابن جریر الطبری)
نیز نبی ﷺ نے فرمایا:
أَعْذَرَ اللَّهُ إِلَى امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَهُ حَتَّى بَلَّغَهُ سِتِّينَ سَنَةً
اللہ تعالی نے جس شخص کو 60 سالہ عمر عطا کردی تو اس نے اس پر حجت قائم کردی۔(بخاری:6419)
اس حدیث کی شرح میں فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین نے کہا:
والمعنى أن الله عز وجل إذا عمر الإنسان حتى بلغ ستين سنة فقد أقام عليه الحجة ونفى عنه العذر، لأن ستين سنة يبقى الله الإنسان إليها، يعرف من آيات الله ما يعرف، ولاسيما إذا كان ناشئاً في بلد إسلامي، لا شك أن هذا يؤدي إلى قطع حجته إذا لاقي الله عز وجل، لأنه لا عذر له . فلو أنه مثلاً قصر في عمره إلى خمس عشرة أو إلى عشرين سنة، لكان قد يكون له عذر في أنه لم يتمهل ولم يتدبر الآيات، ولكنه إذا أبقاه إلى ستين سنة، فإنه لا عذر له، قد قامت عليه الحجة، مع أن الحجة تقوم على الإنسان من حين أن يبلغ، فإنه يدخل في التكليف ولا يعذر بالجهل .
یعنی اس عمر میں انسان اللہ کی بہت سی نشانیاں دیکھ چکا ہوتا ہے،خصوصاً جب وہ کسی اسلامی ملک میں رہا ہو،تو بلاشبہ جب وہ اللہ سے ملاقات کرے گا تو اسکے پاس کوئی عذر نہ ہوگا،مثلاً ،اگر اسے 15 یا 20 سال کی زندگی ملتی تو ممکن تھا کہ اسکے پاس کوئی عذر ہو کہ اسے مہلت نہ ملی یا وہ آیات الہیہ میں غور و فکر نہ کرسکا،لیکن جب اللہ نے اسے 60 سال تک جیتا رکھا تو اسکے پاس قطعاًکوئی عذر باقی نہ رہا،اس پر حجت قائم ہوگئی،جبکہ اصلِ حجت توبوقت بلوغت ہی قائم ہوجاتی ہے،وہ اسی عمر میں مکلف بن جاتا ہے اور اسکے پاس جہالت کا عذر باقی نہیں رہتا۔امام ابن حجر نے کہا:
أنه لم يبق له اعتذار كأن يقول: لو مدّ لي في الأجل لفعلت ما أمرت به، وإذا لم يكن له عذر في ترك الطاعة مع تمكنه منها بالعمر الذي حصل له فلا ينبغي له حينئذٍ إلا الاستغفار والطاعة والإقبال على الآخرة بالكلية
یعنی اب اسکے پاس کوئی عذر بچا نہیں،کہ وہ کہہ سکے :اگرمجھے مزید عمر دی جاتی تو میں عمل کرلیتا،اس عمر تک اطاعت کا مکمل اختیار رکھنے کے باوجود اب جبکہ اسکے پاس اطاعت کو ترک کردینے کا کوئی عذر نہیں بچا،تو اسکے لئے بہتر ہے کہ وہ مکمل طور پر استغفار،اطاعت اور آخرت کی جانب متوجہ ہوجائے۔(فتح الباری:11/240)
٭بعض مفسرین نے اس سے 40 سالہ عمر مراد لی ہے،امام ابن جریر نے اسے راجح قرار دیا ہے اور ابن عباس ؆سے ایک قول یہ بھی منقول ہے،نیز اہل مدینہ کا تعامل بھی یہ تھا کہ 40 سال کے ہوجانے کے بعد وہ خود کو عبادت کے لئے وقف کردیتے،جیسا کہ حسن ، کلبی، مسروق نے کہا۔اس آیت میں مذکور عمر سے اگر 40 سال بھی مراد لیئے جائیں تو بھی بڑھاپا 40 سال سے ہی شروع ہوتا ہے جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکر کر آئے ہیں۔
۔۔۔جاری ہے۔۔۔