اسلام زیب وزینت اختیار کرنے کے قطعاً خلاف نہیں
ہے اسلام خوبصورتی، صفائی ستھرائی،پاکیزگی ، طہارت ونفاست کو ناصرف پسند کرتا ہے بلکہ ان کی طرف رغبت بھی دلاتا ہے البتہ زیب وزینت اختیار کرنے میں اسلام نے کچھ حدود متعین کی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ زیب وزینت اختیار کرنے میں کوئی ایسی وضع قطع اختیار نہ کی جائے جو کسی غیر مسلم قوم کا شعار ہو جیسے ہندو عورتوں کی طرح ماتھے پر بندیا لگانا یا سوگ کے موقع پر سفید لباس زیب تن کرنا وغیرہ۔
2۔ زیب وزینت کے معاملے میں کسی غیر مسلم کو اپنا آئیڈیل نہ بنایا جائے کیونکہ رسول اکرمﷺ نے کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔
3۔ زیب وزینت اختیار کرنے میں جن اعمال سے منع کر دیا گیا ہے اسے بغیر کسی بحث ومباحثے کے چھوڑ دیا جائے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : گودنے والی اور خوبصورتی کے لیے ابرؤوں کے بال اتارنے والی، دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو ایک عورت نے کہا کہ آپ ان عورتوں پر لعنت کیوں کرتے ہیں؟ تو آپ نےفرمایا کہ میں ان عورتوں پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ ﷺ  اور اللہ کی کتاب نے لعنت کی ہو ۔ (بخاری)
4۔ زیب وزینت اختیار کرنے کے لیے جو سامان استعمال کیا جائے اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہ ہو جو شرعاً حرام ہو۔
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والی عورتوں کو حجاب وپردہ کا حکم دیا اور اسے مؤمنہ عورت کا شعار قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے چنانچہ جب کوئی عورت اپنے پردہ سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لیے موقع تلاش کرتاہے۔ (ترمذی)
عورت کا لفظی معنیٰ تو چھپی ہوئی چیز ہے اور پردے میں ہی عورت کی عزت،عظمت، زینت، وقار اور پہچان رکھی گئی ہے ہر زمانے میں شیطان اور اس کے آلۂ کاروں کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح باحیا وباپردہ مسلمان عورت کے جسم سے حیا وعصمت اور پردہ کی چادر کو اتار کھینچیں۔
اور آج وہ اپنی اس گھٹیا حرکت میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوگئے ہیں آج ہمارے معاشرے میں حیا وعصمت کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ آزادیٔ نسواں کے نام پر حیا وعصمت سے آزاد،فحاشی وعریانیت پھیلانے کی تحریک کے اثرات کے زیر اثر ہماری مسلمان خواتین بھی شرم وحیا سے عاری، مغربی اور ہندوانہ تہذیب ورسومات کو اپنانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ آج سے چند سال پہلے تک جو لباس وکردار بدچلن عورتوں کے سمجھے جاتے تھے وہ ہماری نوجوان نسل آزادی اور فیشن کے نام پر اپنانے لگی ہے۔ اور کسی حد تک اسے معاشرے نے قبولیت بھی دے دی ہے۔ ہم اسلامی اقدار کو کہیں بہت پیچھے دھکیل رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔ آجکل کی مسلمان عورت کو اپنے آپ سے چند سوال کرنے کی ضرورت ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
سوال 1 : کیا وہ مغرب کی اندھی تقلید کرنے کو تیار ہے لیکن قرآن وسنت کی تقلید کو دقیانوسی خیالات تصور کرتی ہے؟
سوال 2: اگر صرف دل کا پردہ قابل قبول ہے تو آپ ﷺ کی ازواج سے بڑھ کر پاکدامن، با حیا، روشن خیال اور اتباع کرنے والا کوئی نہیں جن کی نظروں میں بھی حیا تھی اور دل میں بھی لیکن ان کے سرہمیشہ اوڑھنیوں اور جسم ہمیشہ پردہ سے ڈھکے رہتے تھے۔ ان کو بھی اللہ نے قرآن میں پردہ کا حکم دیا اور ہمیں بھی ۔ کیا ہم ان سے زیادہ پاکباز خود کو تصور کرتے ہیں کہ ہمیں پردے کی ضرورت نہیں۔ ذرا سوچیے؟
سوال3 : ہمیں اللہ کا غلام بننا پسند ہے یا اپنے نفس کی خواہشات کا غلام بننا؟
سوال 4: یہ جسم جسے ہم سنوارنے میں لگے رہتے ہیں آخر اس کا انجام کیا ہے ؟ کیا اس نے مٹی میں مل کر خاک نہیں ہو جانا یہ خوبصورتی خاک آلود نہیں ہوجائے گی؟
سوال 5: کیا ہماری خوبصورتی اتنی گئی گزری ہے کہ اس کا اظہار ہر (ایرے غیرے یا راہ چلتے) کے سامنے کیا جائے بجائے یہ کہ خوبصورتی اور زینت کا اظہار صرف اپنے شوہروں کے سامنے ہو؟
اصل خوبصورتی تو کردار کی خوبصورتی ہے۔ پردہ عورت کو قید نہیں کرتا بلکہ جس طرح ہمارے معاشرے میں بے راہ روی، عریانیت وفحاشی عام ہوگئی ہے ، نیتوں کے فطور کے ساتھ ساتھ نظروں میں بھی بے حیائی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ پردہ ایک پاکدامن اور باپردہ عورت کو بُری نظروں اور بُرے ارادوں سے تحفظ فراہم کرتاہے۔ عورت کو اللہ نے قیمتی اور معزز ذات بنایا ہے اس کی خوبصورتی پر راہ چلتے انسان کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ لوگوں کی نظروں کو تسکین پہنچانے کا سامان بنائی گئی ہے۔ ہم اپنےقیمتی زیور اشیاء کو تو بہت احتیاط سے بند کرکے رکھتے ہیں تاکہ کوئی انہیں چُرا نہ لے جائے لیکن سب سے قیمتی چیز یعنی عورت کو بغیر کسی حفاظت کے گھر سے باہر نکالتے ہیں۔ آجکل کی عورت خود کو رسوا کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور اپنی قدر ومنزلت کھو چکی ہے ۔ اس قدرومنزلت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خود کو show piece بنانے کے بجائے اللہ کی دی گئی خوبصورتی کو حفاظت کے ساتھ پردے میں رکھا جائے۔ عورت ایک قیمتی متاع ہے اسے بھر پور حفاظت میں رکھنا ضروری ہے تاکہ کوئی چور اسے چُرا نہ لے جائے۔
معاشرے میں پھیلتی ہوئی اغوا کی وارداتوں کی روک تھام بھی پردہ سے ہوسکتی ہے کیونکہ پردہ نہ ہو تو انسان کے خدوخال نظر آتے ہیں جب چہرہ ہی نہ دکھے گا تو ہم ایسے گندے خیال رکھنے والے لوگوں کے آلۂ کار نہ بن سکیں گے۔ اسلام عورت کو تحفظ فراہم کرتاہے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم اپنی بہتری کو جلد جان لیں ورنہ معاشرے کے بڑھتے بگاڑ اور خراب ماحول کے ہم خود بھی ذمہ دار ہوں گےاور آنے والے سالوں میں ہماری نسلوں کو ایک محفوظ اور پاک معاشرہ وماحول مہیا نہ کر سکیں گے۔

عورت کا لباس :

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لباس پہننے کا حکم دیا ہے :

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ

’’اے آدم کی اولا! بلاشبہ ہم نے اتارا تم پر لباس جو چھپاتا ہے تمہارے ستر کو اور زینت بنادیا اور تقوی کا لباس وہ سب سے بہتر ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف : 26)
رسول اللہ ﷺ نے بھی لباس پہننے کا حکم دیا ہے ارشاد نبوی ﷺ ہے :

كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، غَيْرَ مَخِيلَةٍ، وَلَا سَرَفٍ

’’کھاؤ، پیو، پہنو اور خیرات کرو لیکن اسراف اور بڑائی کے بغیر۔‘‘ ( مسند احمد )
مسلمان عورتوں پر لازم ہے کہ اتنا لمبا لباس استعمال کریں جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور اوڑھنی ایسی ہو کہ سر،گردن اور سینہ کو چھپا دے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: ” يَرْحَمُ اللَّهُ نِسَاءَ المُهَاجِرَاتِ الأُوَلَ، لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ}[النور: 31] شَقَّقْنَ مُرُوطَهُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِهَا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ  اللہ تعالیٰ انصار کی عورتوں پر حم فرمائے جب آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ (النور:31) نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی موٹی چادریں پھاڑ کران سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
مسلمان عورت کا پورابدن پردہ ہے ایک مسلمان عورت کا لباس کامل ہونا ضروری ہے جو نامحرم مردوں سے اس کے جسم کو مکمل پردے میں چھپا کر رکھے اور وہ محرم رشتوں کے سامنے بھی جسم کے ان حصوں کو ظاہر کر سکتی ہے جن کے ظاہر ہونےکا عمومی رواج پایا جاتاہے جیسے چہرہ، دونوں ہتھیلیاں اور پاؤں۔

خواتین کے لباس کے چند شرعی اصول :

1 عورت کا لباس جو وہ اپنی زیب وآرائش کے لیے استعمال کرے وہ پورے جسم کو ڈھاپنے والا ہو۔
2 لباس اس طرح ساتر ہو کہ جسم نظر نہ آئے اور نہ اتنا باریک کہ عورت کی جلد کا رنگ ظاہر ہو یعنی جسم چھلکے۔
3لباس اتنا چست اور تنگ نہ ہو کہ اس سے عورت کے اعضاء کی ساخت نمایاں ہو رہی ہو۔
4مردوں کی مشابہت لباس زیب تن نہ کیا جائے۔
5 ایسا لباس بھی زیب تن نہ کیا جائے جو مشرکوں سے مشابہ ہو۔
6نام ونمود اور شہرت کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔
7لباس میں ایسی زیب وزینت نہ ہو کہ نامحرم اس کی طرف متوجہ ہوں ۔
8چادر یا برقعہ ایسا ہو جو سر سے پاؤں تک جسم کو ڈھانپ لے ، چہرہ بھی نظر نہ آئے۔
9 چادر یا برقعہ جاذب نظر نہ ہو جیسے کڑھائی یا رنگوں کا کام نہ کیا گیا ہو اتنا خوب صورت اور نفیس نہ ہو کہ مردوں کی توجہ حاصل کرے ورنہ پردے کی افادیت ختم ہوجاتی ہے ۔
0 حجاب ایسے باریک اور شفاف کپڑے کا نہ ہو جس سے جسم چھلکے گویا چادر یا برقعہ کا کپڑا سادہ اور موٹا ہو ۔
K حجاب ڈھیلا ڈھالا ہو ۔
تمام مذکورہ بالا باتوں کا خیال رکھ کر ہم مثالی مسلمان عورتیں بن سکتیںہیں۔ ان پر عمل کرکے ہم دین و دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی کامیابی وفلاح حاصل کرسکتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے