امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں ایک شبہ اور اس کی حقیقت

دوسروں کی گمراہی کا ہم پر کوئی گناہ نہ ہونا

بعض لوگوں کے نزدیک نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہم پر اس لیے واجب نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے نفس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ دوسروں کی گمراہی ہمارے لیے نقصان دہ نہیں یہ لوگ اپنے موقف کی تائید میں اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں ۔

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ  (المائدہ : 105)

’’اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ‘‘

شبہ کی حقیقت :

ہم بتوفیق الٰہی سے اس شبہ کی حقیقت سے نقاب کشائی درج ذیل دوجوانب سے کریں گے۔
1 پیش کردہ آیت کریمہ کی روشنی میں
2 دیگر نصوص کی روشنی میں
1 پیش کردہ آیت کریمہ کی روشنی میں :
اگر اس شبہ کو پیش کرنے والے اس آیت کریمہ پر غوروفکر وتدبر کرتے تو ہرگز ایسی بات نہ کرتے یا کہتے ۔ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی گمراہی سے گناہ نہ پہنچنے کی شرط یہ رکھی ہے کہ انسان خود ہدایت یافتہ ہو ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ
’’جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو وہ شخص جو گمراہ ہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔‘‘
اور جیسا کہ معلوم ہے کہ انسان اس وقت تک ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کئے گئےواجبات پوری طرح ادا نہ کرے اورانہی عائد کردہ واجبات میں یہ واجب بھی شامل ہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے لہٰذا جو اس واجب کو ادا نہیں کرتا وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا کیونکہ شرط کی عدم موجودگی مشروط کے وجود کو ختم کر دیتی ہے ۔ اسی بات کو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور بہت سے مفسرین رحمہم اللہ نے واضح کیا ہے ، مثال کے طور پر امام جریر الطبری رحمہ اللہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا

إِذَا أَمَرْتُمْ وَنَهَيْتُمْ (تفسير الطبري)

’’ تم ہدایت اسی وقت پاؤ گے جب (نیکی کا) حکم دو گے اور برائی سے روکو گے۔
اسی طرح امام الطبری رحمہ اللہ سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

إِذَا أَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَيْتَ عَنِ الْمُنْكَرِ، لَا يَضُرُّكَ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتَ (تفسير الطبري)

’’جب تو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اس وقت تو ہدایت یافتہ ہو گا اور گمراہوں کی گمراہی تجھے نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔‘‘
امام ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں یوں تحریر فرماتے ہیں :

وَمِنْ الِاهْتِدَاءِ اتِّبَاعُ أَمْرِ اللَّهِ فِي أَنْفُسِنَا وَفِي غَيْرِنَا فَلَا دَلَالَةَ فِيهَا إذًا عَلَى سُقُوطِ فَرْضِ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ (احکام القرآن 2/486)

’’ہدایت یافتہ ہونے کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے نفس اور دوسروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام کی تابعداری کریں اسی لیے اس آیت میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے ساقط ہونے پر کوئی دلالت(کرنے والی بات) نہیں۔‘‘
اسی بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والاهتداء إنما يتم بأداء الواجب، فإذا قام المسلم بما يجب عليه من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر كما قام بغيره من الواجبات لم يضره ضلال الضلال (الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر من الدين ص17)
’’ اور ہدایت تو واجب ادا کرنے سے ہی مکمل ہوتی ہے پس اگر مسلمان (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) کے فریضہ کو اسی طرح ادا کرے جس طرح کہ وہ دیگر واجبات کو ادا کرتاہے تو (ایسی صورت میں) اسے گمراہ لوگوں کی گمراہی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‘‘

2دیگر نصوص کی روشنی میں :

قرآن وسنت میں متعدد آیا ت اور احادیث اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ دیگر واجبات کے ساتھ صالحین پر دوسرے لوگوں کے سلسلے میں یہ فرض بھی عائد ہوتاہے کہ وہ انہیں اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو قریب ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو پھر دعائیں مانگیں اور ان کی دعائیں قبول نہ کی جائیں گی ان ہی نصوص میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ  (سورۃ الأنعام : 68۔69)

’’اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیںاور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کر دینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں ۔‘‘
مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے آیات میں میخ نکالنے والوں کے متعلق فرمایا کہ متقی لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انہیں اس کام کو ترک کرنے کی یقین دہانی کروائیں۔

قاضی بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’اور متقی لوگوں پر قبیح اقوال وافعال والے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے پر کوئی محاسبہ نہیں مگر یہ کہ وہ انہیں یاد دہانی کروائیں اور انہیں آیات قرآنی میں میں میخ نکالنے اور دوسری قبیح باتوں سے منع کریں اور ( ان لوگوں کی باتوں سے ) اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں اور جب ان شریر لوگوں کو یاد دہائی کرانا متقی لوگوں پر واجب ہے تو اس واجب کے ترک کرنے والے کو ہدایت یافتہ کیسے تصور کیا جائے گا ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے ہی فرمان سے ان لوگوں کی غلطی کو واضح کیا جنہوں نے اس آیت سے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے ساقط ہونے پر دلیل پکڑی۔
چنانچہ امام ابو داؤد سیدنا قیس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَقْرَئُونَ هَذِهِ الْآيَةَ وَتَضَعُونَهَا عَلَی غَيْرِ مَوَاضِعِهَا عَلَيْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا يَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ قَالَ عَنْ خَالِدٍ وَإِنَّا سَمِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَی يَدَيْهِ أَوْشَکَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابٍ (سنن ابی داؤدکتاب الملاحم باب الامر والنہی رقم الحدیث : 4338)

اے لوگو! تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے ہو (عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ )  اور اس کو بےمحل جگہ پر رکھتے ہو (اس کا غلط مطلب اخذ کرتے ہو اور جہاں اس کا استعمال نہیں ہے وہاں بھی چسپاں کرتے ہو) خالد کہتے ہیں کہ ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ بیشک جو لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اس کے ہاتھ کو نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلاکر ڈالے گا۔
لوگوں کو نیکی کا حکم نہ دینااور برائیوں سے منع نہ کرنانہ صرف عذاب الٰہی کو دعوت دیتا ہے بلکہ اس عذاب کے ٹلنے کے لیے بھی جو دعائیں کی جائیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول بھی نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے اور ان کا حق کما حقہ ادا کرنے کی توفیق فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے