اسلام دین اعتدال ہے جس میں افراط و تفریط کی کوئی گنجائش نہیںہے اور یہ اعتدال دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے یعنی حیات انسانی کا کوئی بھی پہلو افراط و تفریط سے تعبیر نہیں ہونا چاہیے ۔ اعتدال در اصل ا فراط وتفریط اورتشدد وانتہا پسندی کی دونوں مذموم انتہاؤں کے درمیان ایک مامو ن و محفوظ شاہراہ کا نام ہے۔ اسلام کا راستہ اعتدال کا راستہ ہے اوراسی کا نام صراط مستقیم ہے ، یہ ان گروہوں کی راہ سے الگ راہ ہے جن پر غضب الٰہی نازل ہوا یا جوحق پانے کے باوجود گم راہ ہوگئے ۔
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو جن بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ان میں ایک وصف ِ خاص اور ایک طرّئہ امتیاز یہ ہے کہ اس کا ہر حکم معتدل اور متوسط اور افراط وتفریط سے پاک ہے۔ قرآن مجیدارشاد میں ہے:اور ہم نے تم کو امت وسط بنایا ۔(البقرۃ: 142)
وسط اور اعتدال دونوں کا مفہوم تقریباً ایک ہی ہے، ائمہ لغت نے وسط کے معنی لکھے ہیں الخیار والاعتدال من کل شيء ’’ ہر چیز کا بہترین اور درمیانی حصہ وسط ہے‘‘ بعض اہل لغت نے وسط کی تعریف کی ہے: الخیاروا لا علی من کل شيء ہر چیز کا بہترین اور اعلی پہلووسط کہلاتاہے۔ لغت کی تصریحات کے مطابق اعتدال اور توسط کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کے دو متضاد و بالمقابل پہلوئوں کے درمیان کا حصہ اس طرح اختیار کیا جائے کہ ان دونوں پہلوئوں میں سے ایک دوسرے پر غالب نہ آئے اور کسی بھی مرحلے میں افراط یا تفریط کا احساس نہ ہو۔ اس کے بالمقابل انتہا پسندی یا غلو کے مفہوم کا تعین بھی بہت ضروری ہے ۔
کسی بھی مسئلے میں اپنی ذاتی فکر کوحتمی، حرفِ آخرقرار دینا،اسی کو حق سمجھنا،اس کو منوانے کےلیےتشدد کرنا،اور کفر کے فتوے لگانا،کسی دوسرے کی رائے کو قبول نہ کرنا انتہا پسندی کہلاتا ہے۔البتہ حق کو سمجھنا اور اس کی اتباع کرنا انتہا پسندی نہیں۔ واضح رہے کہ حق پر مطلوبہ سختی کرنا انتہا پسندی اورفرقہ واریت نہیں ہے۔بچے جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز کے معاملے میں سختی کرنے کا حکم ہےتو اصل بات یہ ہے کہ باطل پرسختی نہیں ہونی چاہیے لہذا اصل بات سے ہٹنا ہی فرقہ واریت ہے جبکہ اصل قرآن وسنت اورمنہج سلف ہے۔
یادرہے کہ انتہا پسندی کا تعین اس بات بھی موقوف ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ عدل واعتدال کیا ہے؟ جس کی وضاحت ابتدائی سطور میں کی جا چکی ہے اس کے مطابق معاشرے میں عدل واعتدال کوقائم کرنا دین کا بنیادی مقصد ہے، اسی کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور قرآن میں عدل وانصاف کا حکم موجود ہےگویا کہ عدل واعتدال کتاب وسنت میں ہی ہےاور اس کو قائم کرنا انتہاپسندی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ نرمی اختیار کرو اور غلو سے بچو‘‘۔دوسری حدیث میں ارشاد ہے:

اَللهُمَّ ارْفُقْ بِمَنْ رَفَقَ بِأُمَّتِي، وَشُقَّ عَلَى مَنْ يَشُقُّ عَلَيْهَا (مسند احمد: 26237)

الٰہی! اس شخص پر رحم کرجو میری اُمت پر رحم کرے اور اس شخص پر سختی کر جو اس پر سختی کرے۔
اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :

إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَة (صحيح بخارى: 39)

’’بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا اور اس کی سختی نہ چل سکے گی ۔پس اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتیں اور خوش ہو جائیں اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں عبادت سے مدد حاصل کریں‘‘۔
مذکورہ بالا نصوص سے توپتہ چلتا ہے کہ اسلام کا پیغام نرمی اور اعتدال کا ہے،نہ کہ تشدد اور فرقہ واریت کا۔انتہا پسندی اورفرقہ واریت چاہے سیکولرازم کی طرف سے ہو یاداعیانِ مذہب کی طرف سے دونوں کا راستہ روکنا ضروری ہے، کیونکہ فرقہ واریت ایک غلط رویّہ ہے نہ کہ مطلوبِِ شریعت ۔یعنی اعتدال کے مقابل جس رویے پر ہم بات کرنا چاہتے ہیں وہ غلو اور انتہاپسندی ہے جس کی دین میں سختی کے ساتھ ممانعت ہے اور جس کے مظاہر صرف فتنہ اور فساد فی الارض کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں ۔مقاصد شریعت میں سے ایک بنیادی اوراہم مقصد بندوں کو تکالیف سے بچانا ہے ، اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے: ان الدین یسر (بخاری) ایک موقع پر فرمایا :

ان اللہ لم یبعثنی معنتا ولا متعننا ولکن یبعثنی معلما میسراً (صحیح مسلم)

’’اللہ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے معلم اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ (الحج :78)

’’اوراس نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ‘‘
دوسری جگہ فرمایا :

يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا ‘‘۔ (البقرۃ:185)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام کے تمام احکام اورشریعت کے تمام مسائل اس حکمت الٰہی کا مظہرہیں ۔ قرآن میں انتہا پسندی کے لئے جولفظ استعمال کیا گیاہے وہ’’ غلو‘‘ ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ غلو کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : کسی کی تعریف ومذمت میں حدود کوپامال کر تے ہوئے مبالغہ آمیزی سے کام لینا غلو کہلاتا ہے۔ (اقتضاء الصراط : ۱؍۲۸۹) اور شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں :

المبالغۃ فی الشی والتشدید فیہ بتجاوزالجد

یعنی حدو د کو پامال کرکے مبالغہ وتشد د سے کام لینا ۔ (فتح الباری : ۱۳؍۲۷۸)
غلو وانتہا پسندی کی مختلف صورتیں ہیں لیکن یہ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ انتہا پسندی کی ہر صورت کی مخالفت اور مذمت کرتا ہے ، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

ایاکم والغلو فی الدین فانہ اھلك من کان قبلكم الغلوفی الدین (ابن ماجہ باب قدر حصی الرمی)

’’ دین کےباب میں غلوسے بچو تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت کا سبب یہی غلو تھا ‘‘۔
تشدد وانتہا پسندی کے انجام بد سے باخبر کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺنے ایک موقع پر فرمایا :

ھلك المتنطعون….(صحيح مسلم )

’’تشدد وغلو کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ ‘‘امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جوبال کی کھال نکالتے ہیں ، شدت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں اوراپنے قول وعمل میں حدو د سے تجاوز کرتے ہیں۔انتہا پسندی کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک اعتقادی اور دوسرا عملی۔
اعتقادی انتہا پسندی کے مظاہر میں سر فہرست محبت رسول میں حد اعتدال سے تجاوز کرنا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو زندہ تصور کرنا ، حاضر وناظر سمجھنا اورعالم الغیب سمجھنا حالانکہ متعددآیات واحادیث میں ان باطل تصورات واعتقادات کی صریح تردید موجود ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّکَ مَیِّتُ وَاِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ

’’تمہیں بھی مرنا ہے اوران کوبھی مرنا ہے‘‘ (زمر30)
علم غیب کے سلسلہ میں فرمایا :’’ یہ علم غیب کی خبر یں ہیں جوہم تمہاری طر ف وحی کررہے ہیں ، اس سے پہلےنہ تم ان کوجانتےتھے اورنہ تمہاری قوم‘‘ (ہود49)
سورہ اعراف میں ارشاد باری ہے : ’’ اے نبی! ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اورنقصان کا اختیار نہیں رکھتا ، اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ، اوراگر مجھے غیب کا علم ہوتا تومیں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔‘‘ ( اعراف188)
لیکن ہم ان دو پہلوؤں کے اعتبار سے نہیں بلکہ انتہا پسندی کے دو رخ جن پر ہم تفصیل سے بات کریں گے ان میں سے ایک پہلو کا تعلق علمائے دین سے ہے اور دوسرا پہلو عوام سے ہے لیکن اس سے قبل عوام اور علماء کے علم حاصل کرنے میں فرق جان لیا جائے کہ دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے اس امر کو اس طرح سمجھ لیا جائے کہ کچھ مسائل ایسے ہیں جو ہر فرد کے لیے لازم ہے کہ انہیں سمجھے اور اس پر عمل کرے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش بھی کرے مثال کے طور پر بنیادی عقیدہ توحید کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ (محمد:19)

اس آیت میں فاعلم کا مخاطب ہر انسان ہے اور اسی طرح عبادات ، معاملات اور اخلاقیات میں بنیادی امور کا علم ہر مسلمان کے لیے لازم ہے عبادات میں اس قاعدہ کا علم سب کو ہونا چاہیے کہ عبادت صرف وہی ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہو کسی انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں یا انسانی عقل کی بنیاد پر کوئی قول یا فعل عبادت نہیں بن سکتا خواہ وہ کتنا ہی محترم و مکرم کیوں نہ ہو اور یہ کہ صرف عبادت کیفیت و مقدارو تعداد بھی وحی کی روشنی میں ہی کی جائے اگر عبادت میں اس بنیادی قاعدے کا علم نہ ہو تو افراط و تفریط کا شکار ہونا بہت آسان ہو جاتا ہے جیسا کہ اذان سے قبل اور بعد میں الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کے کلمات کا پڑھا جانا ہے جبکہ ان کلمات کا اس موقع پر پڑھا جانا مصادر شریعت ثابت نہیں ہے ۔
معاشرے میں انتہا پسندی کے عمومی اسباب:
انحراف وبگاڑ کبھی اچانک رونما نہیں ہوتا بلکہ دھیرے دھیرے اوربتدریج آتا ہے اور اس کے در آنے کے پیچھے بھی کچھ اسباب وعلل ہوتے ہیں۔اسی طرح دین کے باب میں غلو وانتہا پسندی کے بھی کچھ اسباب ہیں ، ان میں دینی ونظریاتی بھی ہیں ،سیاسی وسماجی بھی جبکہ بعض نفسیاتی ہیں۔
ذیل میں ان اسباب کا اجمالی ذکر کیا جاتا ہے ۔
جہالت وحقیقت دین سے عدم واقفیت: مقاصد شریعت سے ناواقفیت،حدود شریعت سے دوری اور مسائل شریعت کو صحیح طور سے سمجھنے میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ مثال کے طور پرقرآن وسنت میں وعدہ ووعید اورثواب وعذاب دونوں طرح کی نصوص وارد ہیں ۔ وعدہ پر مشتمل آیات کا تقاضا ہے کہ ان کوپڑھ کر دلوں میں اللہ کی رحمت سے امیداور اپنے گناہوں کی مغفرت کا جذبہ بیدار ہو اوروعید پرمشتمل آیات کفار ومشرکین اور مرتکبین معاصی کوعذاب الٰہی سے ڈر نے کا موجب ہوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں کوتاہی کی وجہ سے انتہا پسندی نے جنم لیا اورنتیجہ یہ ہوا کہ کسی نے ہر گناہ کے مرتکب کو کافر اور دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرادیا تودوسری طرف یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ایمان لانے کے بعد ارتکاب معصیت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اورتعظیم وتوقیر رسول میں اس قدر غلو کیا کہ خالص تصور توحید نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گیا ۔
خواہش نفس کی پیروی: جس سے قرآن پاک نے بار بار روکا ہے : ارشاد ہے :

لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيْلِ۔(مائدۃ77)

یعنی دین کے معاملہ میں ناحق غلو نہ کرو اوران لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جوتم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اوربہتوں کوگمراہ کیا اور ’’ سواء السبیل ‘ ‘ سے بھٹک گئے ۔
رد عمل: عصر حاضر میں عالمی سطح پر سیاسی حالات نے جو رخ اختیار کیا کہ مسلمان رد عمل کا شکارہوئے ، ایک طرف شعائر دین کی بے حرمتی اورمسلمانان عالم کے ساتھ ظلم وزیادتی ، غیر اسلامی افکار ونظریات اور منکرات کا بڑھتا ہوا طوفان ، ذرائع ابلاغ سے بے حیائیوں کا پرچار ، جذبات کوبھڑکانے والا عریاں ادب ، فحش لٹریچر اورننگی تصویریں ، عورتوں کا بے لباسی میں دعوت نظارہ دینا ان ساری چیزوں نے دین دار مسلمان کوبالخصوص نوجوانوں کو رد عمل پر آمادہ کیا اور اس ردعمل کے مظاہر قطعا غیر اسلامی اور جارحیت پر مبنی تھے ۔ واضح رہے کہ رد عمل کے لیے اسلام نے شروط و ضوابط مقرر کیے ہوئے ہیں ان کی عدم پابندی سے کبھی اچھے اورخوشگوار نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔

عوام میں انتہا پسندی کے اسباب:

 عوام نے بنیادی عقیدہ پر توجہ دینے کے بجائے ان علمی مسائل میں دخل اندازی کرنا شروع کر دی جنہیں صرف علمائے کرام کی مجالس تک محدود رہنا چاہیے تھا۔ عوام کی کم علمی اور لاعلمی نے مسلمان معاشرہ میں جس طرح باہمی منافرت پیدا کرنا شروع کر دی اس کا سدباب بسااوقات بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔
عوام نے عملی طور پر درپیش آنے والے مسائل کے بارے میں علمائے کرام سے دریافت کرنے کے بجائے فرضی مسائل کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیے جس سے عمل کے مظاہر کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور کلامی اور منطقی بحوث نے عوام الناس کو بری طرح اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے
عوام نے فرضی مسائل کی طرح لا یعنی مسائل پر بھی ضرورت سے زائد توجہ دینا شروع کر دی جبکہ حدیث میں ہے کہ مِنْ حُسْنِ

إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (سنن ابن ماجہ:3976)

’’کسی شخص کے حسن اسلام کی دلیل یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور کو نظر انداز کردے‘‘۔اب جن مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت تھی ان پر توجہ نہ دی گئی جس کی وجہ سے جہالت اور لا علمی میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مذہبی جماعتوں کی باہمی منافست و تنازعات سے علمائے کرام کا مقام و مرتبہ کم ہوتا گیا جس کی وجہ سے عوام میں ’’ اہل علم‘‘ اور ’’ اہل ذکر‘‘ کی علمی ہیبت کی وہ کیفیت باقی نہ رہی جو ہونی چاہیے تھی ہر مسلک میں داخلی طور پر بھی اور دیگر مسالک کے علمائے کرام کی تضحیک و استھزاء ایک معمول بنتا جا رہا ہے اور پھر عمل اور ردعمل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔
عوام کا میڈیا سے متاثر ہونا ایک طبعی اور فطری امر ہےاور میڈیا کا دیندار طبقہ اور مدارس کے حوالے سے جو موقف ہے وہ سب کے سامنے ہے لہذا میڈیا کے اس غیر فطری اور غیر شرعی رویوں نے بھی عوام کو اعتدال پرستی پر نہیں رہنے دیا ۔
عوام کی انتہا پسندیت میں ایک اہم سبب غیر فطری اور غیر شرعی سیاسی گروہ بندیاں ہیں جس کے بعد مسلمان (جن کی محبت اور نفرت کی بنیاد کلمہ الاخلاص ہونا چاہیے تھا) کی محبت اور نفرت اس کی سیاسی وابستگی بنتی گئی ، حق و باطل کے مابین خط تمییز سیاسی وابستگی قرار پائی یعنی راہ اعتدال سے انحراف کے بعد شیطانی شکنجوں میں گرفتاری آسان سے آسان تر ہوتی گئی ۔
دین اسلام میں دلیل کا مفہوم ، مقام و مرتبہ اور اہمیت کا عوام الناس کے لیے غیر واضح ہونا بھی ان کا جادہ حق اور راہ اعتدال سے ہٹنے کا ایک سبب بنا ۔ لا علمی کی وجہ سے دلیل کا مفہوم بدل گیا اورجسے کتاب و سنت اور فہم صحابہ کرام اور اجتہاد علمائے کرام کے ساتھ مختص ہونا چاہیے تھا وہ صرف اور صرف اقوال علمائے کرام تک محدود رہ گئی اور اس پر مستزاد یہ ہوا کہ قول بھی صرف ان علماء کا جو اپنے مسلک کے یا اپنے من پسند ہوں گو کہ یہ رویہ علمائے کرام میں بھی موجود ہےمگر عوام الناس کی اکثریت بھی اس کج روی کی شکار ہے۔
اسلام میں مسجد معاشرتی مرکز کی حیثیت کی حامل ہے قرون اولی میں مسلمانوں کا مسجد کے ساتھ تعلق بہت زیادہ مضبوط تھا جس کی وجہ سے وہ کم از کم علم و عمل کے سلسلے سے وابستہ رہتے تھے وطن عزیز میں مسجد کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اسے صرف نماز کی ادائیگی کا مرکز بنا دیا گیا اور باقی اعمال خیر سے اسے محروم کر دیا گیا جیسا کہ درس و تدریس اور علمی دروس وغیرہ اور مزید یہ الم ہوا کہ امام مسجد کے لیے علم دین سے قطع نظر صرف قاری قرآن کو بنیاد بنا دیا گیا جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسجد کی مسلمان معاشرے میں مرکزیت ختم ہو گئی۔ اور عوام کے لیے علم دین حاصل کرنے کا سب سے آسان ترین اور براہ راست ذریعہ بند ہو گیا ۔
یہ چند بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے عوام میں اعتدال پسند رویہ ختم ہو گیا اور انتہا پسندیت در آئی جس کا تعلق ان کی زندگی کے دینی اور دنیاوی پہلو سے تھا او ر افراط و تفریط پر مبنی اس رویے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قوت برداشت ختم ہو گئی اور ذہنی تناؤ و فرسٹریشن میں شدید اضافہ ہو گیا ۔
علمائے دین میں انتہا پسندیت و غلو کے ممکنہ اسباب:
علماء کرام کا افراط و تفریط میں مبتلا ہونا عوام کا انتہا پسندیت میں مبتلاہونے سے کہیں زیادہ نقصان دہ اثرات کا حامل ثابت ہوا ۔اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن اسباب کی بناء پر عوام میں افراط وتفریط کے رویے در آئے ان میں سے کچھ اسباب یہاں بھی کارفرما ہیں لیکن مجموعی طور پر اسباب درج ذیل ہیں ۔
عصر حاضر میں علماء کرام کا انتہا پسندیت اور غلو میں مبتلا ہونے کی سب سے بڑی وجہ فقہ الواقع کا علم نہ ہونا ہے۔ اگر کتاب و سنت کی تعلیمات تاقیامت باعث ہدایت ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تو اس کی تعلیمات و ارشادات زمانی و مکانی قیود سے ماوراء ہیں یعنی ان پر عمل ہر زمانے اور ہر جگہ ممکن ہے لیکن علماء کرام نصوصِ کتاب وسنت کو بسا اوقات اپنی لاعلمی و کم علمی کی وجہ سے وہ نصوص کو فقہ الواقع کے اعتبار سے منطبق کرنے میں جزوی یا کلی طور پر ناکام رہتے ہیں جس کی وجہ سے راہ اعتدال پر قائم رہنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور اس میں دعوت دین کے حوالے سے اختیار کردہ حکمت عملی و اسالیب میں موقع وضرورت کی بنیاد پر تبدیلی کی مثال واضح ہے ۔ اس میں کہا جا سکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعوت کا آغاز اگر بتوں کو منھدم کر کے کیا تھا تو رسول اللہ ﷺنے دعوت کا اختتام بتوں کو منھدم کر کے کیا یہ دعوتی اسالیب فقہ الواقع کی بہترین مثال ہیں جس سے عصر حاضر کے علماء کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے۔
علماء کرام کا مذہبی و سیاسی جماعتی قیود کا پابند ہو نا بھی انہیں راہ اعتدال پر رہنے سے روکتا ہے کیونکہ بسااوقات جماعتی پالیسیاں اس راہ میں حائل ہو جاتی ہیں ۔
علماء کرام میں شخصیت پرستی کا عنصر در آنا ایک حیران کن امر ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا گوکہ شاگردانہ عقیدت کا وجود تو ابتداء سے ہی ہے اور تاریخ مسلمانان عالم کےادوار اس رویے پر شاہد ہیں یہ فقہی مذاہب ابتداء میں شاگردانہ نسبت کی بنیاد پر وجود میں آئے تھے اورجیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مخالفت میں جو علماء کرام تھے وہ سب اسی حوالے سےتاریخ کے صفحات میں محفوظ کیے گئے ہیں اور عصر حاضر میں بھی یہی امر بعض علماء میں بہت زیادہ در آیا ہے جس کا نقصان خود علماء کو بھی اٹھانا پڑا کہ کسی شخصیت کی رائے کا دفاع کرنے پر اسلام کے واضح اور متعین کردہ اصول و ضوابط کی پابندی بہت مشکل ہو جاتی ہے اور مستزاد یہ ہوا کہ اس کے اثرات عوام تک بھی پہنچے نتیجتاً عوام بھی انہی علماء کی تقلید میں شخصیت پرستی کے زہر میں گرفتار ہوتے گئے اور اس کے پس منظر میں سبب یہی کارفرما تھا کہ ہمارے استاد سے غلطی نہیں ہو سکتی ۔
بعض علماء کی طرف سے بے جا اور بلا ضرورت فتوی بازی نے بھی علماء کرام کی صف کو نقصان پہنچایا اور یہ فتوی بازی محض فقہی مسائل پر مبنی نہ تھی بلکہ فقہی مسائل سے متجاوز ہو کر عقائد کی حد تک پہنچ گئی جس کے بعد مخالف مسلک کے علماء بالعموم شرک، بدعت، فاسق، فاجر، گستاخ، کافر جیسے فتاوی کا نشانہ بنے اور بالخصوص اپنے ہم مسلک علماء بھی ایسی شدت پسندی کا ہدف بن گئے واضح رہے کہ یہ فتاوی درست ہیں یا غلط اس امر سے قطع نظر بات کی جا رہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا سردست اس امر کی ضرورت ہے جو بلا محابا اور انتہائی جارحیت پر مبنی لب و لہجہ کی بنیاد پر فتوی بازی کی جائے اور یہ بھی نہ سوچا جائے کہ ان کے فتاوی کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ الغرض غلو پر مبنی ان فتاوی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا خود دیندار طبقہ دو حصوں میں منقسم ہو گیا ایک طبقہ ان فتاوی کے دفاع میں سرگرم عمل ہو گیا اور دوسرا طبقہ ان فتاوی کے رد میں شدت پسندی اختیار کرتا چلا گیا نتیجہ علماء کی صف میں اعتدال پرستی کما حقہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
فتوی بازی میں جارحیت اور شدت پسندی کے مظہر پر مبنی کلمات اور اسالیب استعمال کرنا اور ایسی تعبیر استعمال کرنا جو ایک اور شدت پسندی کو جنم دے رہی ہو اور سوء اتفاق سے یہ طرز عمل آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے ۔
علماء کا سوشل میڈیا کو ایسے استعمال کرنا جیسا کہ وہ دوران تدریس طرزِ تکلم اختیار کرتے ہیں یا عام مذہبی اجتماعات میں جوش و جذبات سے بھرپور انداز اختیار کیا جاتا ہے واضح رہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کرنے کے اپنے آداب ہیں جن کا ملحوظ خاطر رکھنا از حد ضروری ہے ۔
علماء کرام کا انتہا پسندی میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تنگ نظری اور اپنے مسلک کی حمیت کے نام پر تعصب اور دیگر مسالک کے علماء پر باطل ہونے کے فتاوی سے جوابی طور پر بھی یہی عمل اختیار کیا گیا جس کی ایک واضح مثال گذشتہ مہینوں میں سید مودودی رحمہ اللہ کے حوالے سے جاری بحوث کا ایک سلسلہ لا متناہی تھا جس میں کچھ افراد انہیں منکر حدیث اور گمراہ تک گردان رہے تھے اور ان کی تمام حسنات کو رد کیا جا رہا تھا تو احباب جماعت اسلامی سید مودود ی کی شخصیت میں غلو آمیز رویے کو اختیار کرنا شروع ہو گئے اور اس کی ایک واضح مثال ملک غلام علی نامی ایک جماعتی مؤلف کی ہے جس نے سید مودود ی کے دفاع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن زنی شروع کر دی تھی ۔
کبار مشائخ کا طرز عمل شخصیات پر حکم لگانے کے حوالے سے بہت محتاط ہوتا ہے کہ وہ نتائج و عواقب کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں لہذا ’’ رد بقدر غلطی‘‘ کا منھج اختیار کرتے تھے اور ہیں لیکن بعض جارح پسند افراد نے غلطی کی نوعیت کو دیکھے بغیر بلا محابا اور بلا ضرورت اسلام سے خارج کرنا شروع کر دیا اور حکم لگاتے لگاتے خود فتنہ تکفیر میں گرفتار ہوتے گئےاور یہ عمل بھی راہ اعتدال اور امت وسط کے منھج سے انحراف ہی تھا اور اس کا سب سےبرا اثر عوام پر مرتب ہوا کہ وہ بھی اسی طرز عمل کے عامل ہوتے گئے ۔
علماء کرام کا عصری سیاسی اسالیب کو اختیار کرنا جس میں مکر وفریب، مخالف کو دشنام طرازی اور الزام تراشی کا اسلوب بد اختیار کرنا تھا جس سے ا ن کے مقام و مرتبہ کو شدید نقصان پہنچا اور اس کی ایک واضح مثال موجودہ ملکی سیاست میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین اخلاقیات کی ہر حد سے تجاوز کر جانا یہاں تک ذاتیات اور گھریلو خواتین پر انتہائی واہیات تبصرے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں ۔سوء اتفاق سے علماء کرام میں سے کچھ ناعاقبت اندیش افراد اس غیر اخلاقی و غیر شرعی جنگ میں کود پڑے معاشرے میں موجود کسی موضوع سے متاثر ہونا اور محدود انداز اپنے دینی مقام و مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مہذب ردعمل دینے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن عصری سیاسی کارکنان کا انداز اختیار کرنا اس میں اعتدال پرستی پر قائم رہنا ناممکن العمل ہے ۔
علماء کرام کا وجود مسعود علم کی اساس پر ہے جدید ایجادات نے علوم اسلامیہ سے استفادہ کو سہل ترین بنا دیا ہے یہ واضح رہے کہ علوم اسلامیہ کی تحصیل کی بات نہیں کی جا رہی کہ تحصیل علوم اسلامیہ اپنے روایتی خدوخال کی بنیاد پر ہی درست ہے لیکن جدید ایجادات نے علماء کرام کو مصادر و مراجع سے عملی طور پر دور کر دیا ہے جس کا نقصان یہ ہوا کہ کتب سے تعلق ٹوٹتا جا رہا ہے اور جدید ایجادات بطور مصادر علمیہ ممد و معاون ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کتب سے تعلق منقطع کر دینا ایک ضرر رساں پہلو ہے کیونکہ مطالعہ کتب انسان کی فکر و نظر میں وسعت کا سبب بنتا ہے جبکہ کتب بینی میں مطلوبہ موضوع کی تلاش کے ساتھ ساتھ دیگر مفید نکات بھی نظر کے سامنے آتے رہتے ہیں جبکہ جدید ایجادات میں تلاش کی صورت میں صرف مطلوبہ معلومات ہی سامنے آتی ہیں اور مطلوبہ معلومات کے متعلقات سامنے ہی نہیں آتے جس کی وجہ سے کسی بھی موضوع کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا ۔
مطالعہ کتب کے پس منظر میں علماء کرام کا غلو و انتہا پسندی میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صرف اپنے موقف کی تائید کی کتب پڑھی جائیں اور اگر مخالفین کی کتب پڑھی بھی جائیں تو اس میں خامیاں تلاش کرنے اور اس پر رد کرنے کے لیے جبکہ یہ طرز عمل کسی بھی صورت میں عالم دین کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دلیل کےساتھ ہوتا ہے لیکن وہ مطالعہ محدود بنیادوں پر کرتا ہے تو اس بنیاد پراسے اپنا آپ ہی درست نظر آتا ہے اور باقی سب خطا کار اور غلط نظر آتے ہیں۔
الغرض معاشرے کے یہ دونوں عناصر شعوری اور لاشعوری طورپر انتہا پسندیت کی زد میں ہیں۔ دیندار طبقہ کا انتہا پسندی کے عفریت کے چنگل میں پھنسنا تو الگ رہا معاشرے میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو مذہب اسلام کے نام پر معاشرے میں انتہا پسندانہ افکار کو پھیلا رہے ہیں جس میں سرفہرست لبرل فاشسٹ ہیں جنہیں ہر داڑھی، ٹوپی اور کُرتے والا انتہا پسند یا دہشت گرد نظر آتا ہے۔ اور ہمارا میڈیا بھی نامعلوم ایجنڈے کے تحت دنیا کو یہی باور کروانے میں مصروف عمل ہے کہ مذہب اسلام کے ساتھ وابستگی ہی انتہا پسندیت اور دہشت گردی کو جنم دیتی ہے جبکہ حق تو یہ ہے کہ انتہا پسندی میں مذہب کے حقیقی وارثین تو بہت کم ہیں لیکن اس کے نام پر مذموم کردار ادا کرنے والے بہت ہیں جیسا کہ وطن عزیز میں مختلف ٹی وی چینلز میں سارا سال فحاشی پھیلانے والے کردار رمضان میں اسلام کے نام پر غیر اسلامی فکر کو پھیلانے میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ بول چینل میں تو باقاعدہ میزبان دشنام طرازی کروانے میں مصروف عمل تھے اور اسے دین کی نشر و اشاعت کا نام دے رہے تھے ۔ الامان والحفیظ
یہ بات واضح کر دی جائے کہ انتہا پسندی کو مذہب کے ساتھ جوڑنا ایک مخصوص مذمومانہ اہداف کی تکمیل کا حصہ ہے وگرنہ ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت سے بے شمار افراد کو شکوہ ہے کہ اس کے کارکنان ذرا سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر مغلظات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ۔
یہاں بسااوقات انتہا پسندی کو بنیاد پرستی سے جوڑ دیا جاتا ہے جبکہ اس کا مطلب کسی بھی نظرئیے یا عقیدے کی اصل بنیادوں یا نظریات پر قائم رہنا ہے۔ اب یہ جہاں تنگ نظری اور نظریات کی سطحی اورغلط تشریحات جنم دینے لگے تو دیگر عقائد و نظریات اور ان کے حامل افراد بنیاد پرستی کی اس لپیٹ میں آنے لگتے ہیں۔ عموماً مذہبی بنیاد پرستی سے وابستہ رجعتی نظریات ذہنی و تمدنی پسماندگی، غربت، جہالت اور سماجی بوسیدگی میں پرورش پاتے ہیں۔ لیکن اس کے پر تشدد ہونے میں انسان کے اس ردعمل کا بھی ہاتھ ہوتا ہے جس کا اظہار وہ معاشرے کے ظالم، استبدادی نظام سے نفرت کے طور پر کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ انتہا پسندی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے، اور اس کی تمام تعلیمات میں یہ وصفِ خاص ممتاز طور پر نظر آتاہے۔ لہذا اسلام اس کی تائید نہیں کرتا ، اس انتہا پسندی کے جس پہلو سے دہشت گردی جنم لیتی ہے، اور جہاں پہنچ کر عدل وانصاف کے تمام تقاضے رخصت ہوجاتے ہیں، صرف ایک جنون باقی رہ جاتاہے، قابل مذمت ہیں۔ آج جہاں کہیں بھی دہشت گردی نظر آرہی ہے، وہ اسی جنون کے مختلف مظاہر ہیں۔ اسلام کو وہ انتہا پسندی بھی مطلوب نہیں جو کسی فرد یا قوم کو انتہائی بزدل بنادیتی ہے اور اس میں اتنی صلاحیت یا اتنا حوصلہ اور سکت بھی باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنا حق لے سکے یا اپنا دفاع کرسکے۔ اسلام کی اعتدال پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی جان ومال، اور دین ووطن کے دفاع اور تحفظ کے لیے سینہ سپر رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی فرد یا قوم سے کسی دوسرے فرد یا قوم کو بلا قصور کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
ملک کے معروف ماہر تعلیم اور مذہبی ا سکالر ڈاکٹر عبد الرحمن المدنی مدیر جامعہ رحمانیہ لاہور اپنے ایک خطاب میں اس

حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ :

’’اسلام دین برحق ہےاور حق کو دنیا میں نافذ العمل بنانا دین اسلام کا سب سے بڑا مشن اور مقصد ہے ۔جبکہ موجودہ حالات میں سیکولرازم دین اسلام کی حقیقی ہیئت اور شکل کو مسخ کرنے کے درپے ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ علم اور دلیل کی بات کرتا ہے ،جبکہ مذہب جذبات اور عقیدت کی بات کرتاہے ۔1857ء تک تمام دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور فکری اساس متحد تھی،کسی مسلک کی تفریق نہ تھی۔ 1857ء کے بعد برطانوی سامراج نے مسلمانوں میں اتحاد کو ختم کرنے کے لیے شیعہ سنّی کی تفریق پیدا کی جس کی وجہ سے مسلمان اُمت وقت گزرنے کے ساتھ باہم دست و گریباں ہونے کی وجہ سے تشدد اور انتہاپسندی کی نذر ہوگئی۔اُنھوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے دو واضح بلاک بن چکے ہیں :سنّی ،شیعہ۔پہلا بلاک فقہ جعفری کا ہےجس کے مطابق ایران کا آئین اور دستوربنایا گیا ہے۔ جبکہ دوسرا بلاک سنّی ہے جس کوآگے تین گروپوں میں تقسیم کیاگیاہے:اہلحدیث، دیوبندی،بریلوی…. طالبان کے دور میں فقہ حنفی کو افغانستان کا آئین اوردستوربنانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں باقی مسالک اور قرآن وسنت سے براہِ راست استدلال کے امکانات مخدوش ہوگئے۔کسی بھی معاملے کو اکثر یت اور غالب ہونے کی وجہ سے قبول کیا جائے یا دلیل کی بنیاد پر…؟ آیتِ مبارکہ :

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ (ص:24)

کے مطابق سیدنا داؤد علیہ السلام کے پاس ایک کیس لایا گیا کہ ایک آدمی کی99 بھیڑیں تھیں، دوسرے کی ایک ہی بھیڑ تھی۔ 99والے نے ایک بھیڑ لینے کا کیس سیدنا داؤد علیہ السلام کے سامنے دائر کیا تو آپ نے علم وحکمت کے ساتھ فیصلہ فرمایا، نہ کہ اکثریت کو بنیاد بنا کر۔اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت حق اور دلیل کو دیکھا جاتا ہے، نہ کہ محض اکثریت اورغلبے کو۔اُنہوں نے مزید فرمایا کہ’دانش گاہیںاور عدالتیں‘ایسی جگہیں ہیں جہاں صرف اور صرف دلیل کا زور چلتا ہے۔ تعلیمی اور قانونی اداروں میں ذاتی پسند و نا پسند،گروہ بندی اور حزبیت کی بجائے دلائل کی حکومت ہوتی ہے اور ہونی چاہیے،ان سے بلند ہونے والی طاقتور آواز سے معاشرے اور اقوام کا رخ بدل جاتا ہے۔اور تعلیم ہی انسانی فکر کی تشکیل کرتی ہے۔اسی لیے ہم نے ان میدانوں میں سے اللّٰہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیےاس میدانِ کا ر کو منتخب کیا ہے۔ ‘‘
یہاں اس امر کابھی خیال رکھا جائے کہ اعتدال پرستی کو اختیار کرتے کرتے ہم مداہنت کا شکار نہ ہوجائیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ فریق مخالف سے بات سنیں اور سنائیں، وہ مانے یا نہ مانے یہ اس کی مرضی ہے۔ ہمارے ذمہ کوشش ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ابو طالب کو دعوتِ اسلام دی لیکن اس نے آپ کی دعوت کو نہیں مانا کیونکہ توفیق دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ (سورة القصص: 56)

’’ آپ جسے چاہیں، اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللّٰہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے‘‘۔
انتہاپسندی ہر پہلو اور سمت سے قابل اصلاح ہے، اسلام کے نام پر ہونے والی انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ لبرل اور سیکولر طبقے بھی انتہاپسندانہ رویے اختیار کرچکے ہیں، جس کی مثال فیس بک اور سوشل میڈیا پر آئے روز اسلام اور شعائر اسلام کے خلاف آنے والے اعتراضات ہیں۔ ان کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے اور ہر لحاظ سے معاشرہ کو اعتدال کا علم بردار ہونا چاہیے۔

انتہا پسندی کے نقصانات:

انتہاپسندی کے ضرر رساں پہلوؤں پر اگر بات کی جائے تو اس وقت معاشرے میں جو صورت حال ہمارے سامنے ہے اس کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے :
ملکی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں ’’صادق وامین‘‘ کا خاتمہ، علم کےنام پر بددیانتی کارائج کیا جانا، معاشرے میں جا بجا شکوک وشبہات اور ابہامات کا فروغ، تعمیری ومثبت سوچ کا فقدان، قتل و غارتگری ، اسلامی تعلیمات پر عملی عدم اعتماد، مالی ،جانی اور دیگرنہ ختم ہونے والے نقصانات کا اک طویل سلسلہ یعنی انتہا پسندی کے بے شمار انفرادی واجتماعی نقصانات ہیں ، مگر یہاں بعض اہم نقصانات کے ذکر پر اکتفا کیا جارہا ہے ۔
بدعات کا ارتکاب : رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ (صحیح بخاری:2697)

اس حدیث میں دین کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے اوروہ یہ کہ ہر وہ کام جسے نیکی اورقربِ الٰہی کا ذریعہ سمجھ کر انجام دیا جائے حالانکہ اس پر کتاب وسنت کی کوئی دلیل نہ ہو۔ ایسے تمام کام بدعت شمار ہوں گے ۔
عمل سے دوری: انتہا پسندی کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے ، غلو کی راہ پر چلنا اوراسے عادت بنا لینا آسان نہیں ہوتا ، اکتاہٹ انسانی فطرت کا خاصہ ہے نیز انسان کی قوت کار بھی محدود ہوتی ہے ، اگروہ سختی پر کچھ دن صبر کربھی لے تو جلدہی اس کی ہمت جواب دے دیتی ہے اورآخر کار آزادی وبے عملی کی راہ اختیار کرلیتا ہے اس لئے دین کی تعلیم یہ ہے کہ :

عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لاَ يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا

تم اسی کے اوراتنے کے ہی مکلف ہو جتنا تمہارے بس میں ہے ، اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا مگر تم اکتا جاؤ گے ۔ (صحیح بخاری:43)
دین سے نفرت: کوئی بھی مذہب اپنے افکار ونظریات اور اصول وعقائد سے زیادہ اپنے ماننے والوں کے کردار سے جانا جاتا ہے ۔ مذاہب جہاں اپنے حاملین کے بلند کردار سے پھیلتے ہیں وہیں ان کے غلط رویے اور شدت پسندی کی وجہ سے بدنام بھی ہوتے ہیں اوردوسروں کے لئے باعث نفرت بن جاتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺنے امت کو ہدایت کی کہ وہ لوگوں کودین سے متنفر کرنے کا سبب نہ بنیںیہ اصول بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے ۔
حقوق تلفی : بنیادی انسانی حقوق کا خیال نہ رکھنا بھی انتہا پسندی کا ایک مظہر ہے حتی کہ عبادات کی ادائیگی میں بھی جسم کے حقوق کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنی ساری توجہ کسی ایک عبادت پر مرکوز کردے تو دیگر عبادات اورحقوق لازماً متاثر ہوں گے ۔ اس لئے بندۂ مؤمن پر ضروری ہے کہ عبادات کی انجام دہی میں اعتدال وتوازن سے کام لے تاکہ دوسرے حقوق متاثر نہ ہوں ۔
افتراق وانتشار : شدت پسندی کا سب سے بڑا نقصان تفرقہ بازی بھی ہے ، صد ر اول میں تاریخ اسلام میں جوفرقے وجود میں آئے ان میں بیشتر اس غلو وشدت پسندی کا نتیجہ تھے ۔ عصر حاضر میں انتہا پسندی دو حیثیتوں سے افتراق امت کا سبب بنی ہوئی ہے ۔ ایک منہج اعتدال سے دوری کی حیثیت سے ۔ امت کا بڑا طبقہ ، دانستہ یا غیر دانستہ ۔ اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے اعتدال سے دورہورہا ہے جس کے نتیجہ میں فکرونظر ، سلوک رویہ ، دین ودنیا غرض ہرشعبۂ ہائے زندگی میں بے اعتدالی نے راہ پالی ہے ۔دوسرے اس انتہا پسندی کے نتیجہ میں اسلامی غیر ت وحمیت کی بجائے جماعتی ، تحریکی اورمسلکی تعصب دن بدن شدت اختیار کرتا جارہا ہے اورحال یہ ہوگیا ہے کہ اسلام اب فرقوں ، جماعتوں اور مسلکوں کے ذریعہ جانا جانےلگا ہے ۔وإلی اللہ المشتکی
غیر اسلامی اصولوں کی ایجاد:غلووانتہا پسندی سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے ایسے اصول وقواعدوضع کئے گئے ہیں جودین میں تحریف کا سبب بنے جس کی ایک واضح مثال گروزنی میں صوفیاء کانفرنس تھی جس میں خود ساختہ قواعد و ضوابط کے تحت امت اسلامیہ کے ایک بڑے حصے کو دین اسلام سے ہی خارج کر دیا گیا ۔
تصوف کے مظاہر: انتہا پسندی کا نقصان تصوف کے مظاہر میں دن بدن غیر اسلامی حرکات و شعائر کا اضافہ ہے گو کہ تصوف اپنی اصل میں ہی اسلام سے بہت بعید ہے یہ اسلام کے بالمقابل ایک متوازی نظام ہے جس میں اسلامی اصطلاحات کو جزوی طور پر اور جن اسلامی اصطلاحات کو من و عن ااستعمال نہیں کرنا تھا ان کے متبادل یونانی فلسفہ اور ہندووانہ افکار سے کلمات مستعار لے لیے گئے ۔ نتیجہ وطن عزیز میں آئے دن تصوف کے نام پر کچھ بدبخت شرکیہ اور کفریہ افعال کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ خواتین کی عصمت دری ایک عام فعل ہے لہذا جب تک ایسا کوئی بدبخت پکڑا نہ جائے وہ نعوذ باللہ ’’ اللہ کا ولی ‘‘ بنا رہتا ہے اور جب پکڑا جاتا ہے تو وہ جعلی عامل بن جاتا ہے اس کے باوجود جہالت کی وجہ سے اس کا سدباب مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

سدباب :

ہمیں اسلام کی تمام تعلیمات میں اسی حسن اعتدال کی جھلک ملتی ہے، یہاں تک کہ انتہا پسندی کے باب میں بھی اسلام اسی جادہ اعتدال پر گامزن نظر آتاہے، آج دنیا انتہا پسندی اور اس کے پہلو سے جنم لینے والی دہشت گردی سے پریشان ہے بلا شبہ بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، اورا ن کی املاک تباہ کرنا انتہا پسندی ہے، لیکن ظلم برداشت کرنا اور حق تلفیوں پر خاموش رہنا بھی انتہا پسندی ہے۔اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
جہاں تک فتنہ وفساد اور قتل ناحق کا معاملہ ہے اسلام سے زیادہ کسی بھی مذہب نے اس کی مذمت نہیں کی۔ وہ سراپا امن مذہب ہے اور ہر طرف امن وسلامتی دیکھنا چاہتا ہے۔ جہاں تک افہام وتفہیم کا تعلق ہے اسلام سے زیادہ افہام وتفہیم کا قائل بھی کوئی دوسرا مذہب نہیں ہے، نہ اس میں جبر واکراہ ہے نہ ظلم وزیادتی ہے، نہ حق تلفی اور ناانصافی ہے، بلکہ ہر معاملے میں اس کا رویہّ مصالحت آمیز اور روادارانہ ہے ۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت بہت ہوچکی ہے ۔
انتہا پسندی کی اصل کتاب وسنت سے انحراف ہے لہٰذا جب تک امت کتاب وسنت کو مضبوطی سے نہیں پکڑے گی اس میںاضافہ ہی ممکن ہے اسی امر کی رسول اللہﷺنے اپنے آخری خطبے میں تاکید کی تھی :

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ (موطا امام مالك)

’’میں تمہارے اندر دو امر چھوڑے جارہاہوں جب تک انہیں تھامے رکھوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ایک اللہ کی کتاب(قرآن) دوسرا نبی کی سنت(حدیث)‘‘۔
اسوۂ صحابہ: صحابہ کرام اس دین کے اولین شارح ہیں ان کی عدالت وصداقت رشدو ہدایت، فہم وبصیرت اوردرایت وروایت کوقرآن مجید کی سند حاصل ہے ۔ دین کا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کے سلسلہ میں فیض یافتگان نبوت سے روشنی حاصل نہ کی جاسکتی ہو ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں: وہ کون سی بھلائی ہے جس کی طرف اصحابِ رسول لپکے نہ ہوں اوردانشمندی کی وہ کونسی راہ ہے جس پر ان کے قدم نہ پڑے ہوں ۔ اللہ کی قسم! وہ پانی کے صاف وشفاف چشمہ سے سیرا ب ہوئے تھے ، اسلام کی بنیادوں کوانہوںنے ایسا استوار کیا تھا کہ کسی کے لئے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے ۔(اعلام الموقعین : ۱؍۱۵) لہٰذا ضروری ہے کہ دینی اور دنیوی دونوں امور میں ان کے طریقہ کی پیروی کی جائے صحابہ کرام سے ہمارا رشتہ جتنا کمزور ہوگا ، انتہا پسندی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
فکر اعتدال کی اشاعت: دین کے مزاج کوعام کیا جائے یہ مزاج جس قدر عام ہوگا تشدد میں کمی واقع ہوگی ، ہر چیز کے دو کنارے ہوتے ہیں، اگر ایک کنارے کوپکڑا جائے گا تو دوسرا لازماً متاثر ہوگا اس لئے درمیانی اوربیچ کے حصہ کوپکڑنا چاہئے تا کہ دونوں سروں میں توازن قائم رہ سکے ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے :اسلام ، مسلک اعتدال کی پیروی پر زور دیتا ہے جوافراط وتفریط کی درمیانی راہ ہے ، دین و د نیا کی ساری مصلحتیں اعتدال وتوازن پر موقوف ہیں کہ یہی عدل وانصاف کی شاہراہ ہے ۔‘‘ (اغاثۃ اللھفان :1/131)
جہالت کا خاتمہ: جہالت انتہا پسندی ہی نہیں بلکہ تمام انحرافات کی جڑہے اسی لئے اسلام نے حصول علم کو فرض قرار دیا ہے ۔ ’’طلب العلم فریضۃ ‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اگر انسان سب کچھ جان لے مگر اسے معرفت رب حاصل نہ ہو تو گویا وہ بے علم جاہل ہے ۔ (اغاثۃ اللھفان :68) جب انسان کسی چیزکی حقیقت تک پہنچتا ہے توپھر صحیح معرفت ہوتی ہے۔حقیقت تک پہنچنے کے لیے علم اور دلائل کی ضرورت ہوتی ہےاور سب سے بڑی دلیل قرآن وسنت ہے، لہٰذا ہم انتہا پسندی کےتمام پہلوؤں کوختم کر سکتے ہیں ،جب ہمارے پاس قرآن وسنت کاحقیقی علم ہوگا ۔
مختلف مکاتب فکر کی ممتاز شخصیات کا احترام کیا جائے، ان کے موقف کی ممکنہ غلطی کی بنا پر اُن کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے۔پھر معاشرے میں پائے جانے والے موقف دو طرح کے ہیں، ایک تو علمی طور پر کتابوں میں موجودہے، دوسرا وہ جو بعض عوامی خطباء کی زبانوں پر ہے،ان دونوں میں بھی بہت سا فرق ہے۔ ہر مکتبِ فکر کے علما کو اپنے خطباء اور عوام کی اصلاح کا فریضہ انجام دینا چاہیے مثلاً جملہ بریلوی علما ومفتیان اس بات پر متفق ہیں کہ عورتیں مزاروں پر نہیں جاسکتی تو صرف اسی بات پربریلوی عوام کو عمل کرالینے سے کتنے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح باہمی اختلافات کے خاتمے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مختلف الخیال اہل علم کو باہمی تبادلہ خیال کا موقع دیا جائے، ایک دوسرے کے دلائل تحمل وبرداشت سے پیش کیے جائیں، اس سے بھی اختلافات میں بہت سی کمی آسکتی ہے۔
نص صریح کی موجودگی میں اجتہاد استدلالی قوت نہیں بلکہ استبدالِ دین ہے،نص (قرآن وسنت )کی موجودگی میں جو مکالمہ کرتا ہے دراصل اس کا ایمان قابل مکالمہ ہے، اس لیے ہمیشہ حق کے ساتھ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے جستجو ہونی چاہیے اورپھر انسان اگراکیلا بھی ہو لیکن اللّٰہ کی تائید اور مدداس کے ساتھ ہو،تو وہ اکیلا بھی جماعت ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ۔

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِلهِ حَنِيْفًا(النحل:120)

’’بے شک ابراہیم اکیلے ہی امت تھے‘‘ ۔ یعنی جتنا کام پوری اُمت مل کر کرتی ہے اتنا کام اکیلےسیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کردیا۔ لہذا اس کے خاتمے کے لیےمسلک کی نہیں بلکہ اللّٰہ اور رسول کی نمائندگی کرنی چاہیے۔مسائل میں اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اختلافات کا اصل علاج دلیل سے ہونا چاہیے اور دلیل میں تعصّب نہیں ہونا چاہیے اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہےجب کہ ہمارا مزاج تحقیق پسندانہ ہو اور تحقیق ہی کو فروغ دے۔
عصر حاضر میں دینی جامعات اور جدید علوم کی جامعات کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ چند ایک اقدامات کریں: جامعات کو چاہیے کہ وہ جہاد کا صحیح اسلامی تصور واضح کریں کیونکہ دنیا کے سامنے جہاد کا صرف ایک منفی پہلو ہی رکھا جارہا ہے،جبکہ جہاد کے دونوں پہلو ؤں کو عامۃ الناس اور نوجوان نسل میں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔مسلم ،غیر مسلم کی جان ومال اور عزت کی حفاظت کے متعلق اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔دین نے تو ایک ہی تصور دیا تھا:

هُوَ سَمّٰكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا (الحج:78)

اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے بھی تمہارا نام’ مسلم ‘ رکھا تھا ،اوراِس میں بھی۔ میڈیا میں جب دین کی اقدار کا مذاق اُڑایا جائے اوروہ چیزیں پیش کی جائیں جو دین کی جڑ کاٹنے والی ہیں تو اس سے نوجوان نسل میں انتہا پسندی کی صورت میں لازمی رد عمل پیدا ہوگا، اس طرح جب غیر اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں، این جی اوز اور بہت سارے عناصر مل کر ہمارے نصابات میں تبدیلیاں کر رہے ہیں ،یہ سب چیزیں رد عمل پیدا کر رہی ہیں، لہٰذا ایسے عناصر کو روکا جائے۔ ایسے حالات میں دینی اور دنیاوی جامعات کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے کہ وہ مکمل ہوم ورک اورتیاری کے ساتھ میڈیا کے نمائندوں؍اینکرزکو اکٹھاکرکے اُن کو دین کےصحیح تصورات اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں۔کچھ اساتذہ، علمااور طلبا کا انتخاب کرکے اُنہیں ان موضوعات کےلیے تیار کیا جائے جو معاشرے کی ضرورت ہیں اورلوگ سننا چاہتے ہیں مثلاً دین کا صحیح وجامع تصور، انتہا پسندی وفرقہ واریت کے اسباب، نقصانات اور خاتمے کی تجاویز، مسلم وغیر مسلم کے جان ومال اورعزت کے تحفظ کے حوالے سے

اسلامی تعلیمات۔

انسان میں انتہاپسندی وتشدد لا علمی اور جہالت کی وجہ سے آتی ہے۔اگر انسان کے پاس علم اور دلائل موجود ہوں تو وہ باوقار طریقے سےصرفِ نظر کرتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے والد کو نرمی سے دعوت دی تو باپ غصّے میں رجم کرنے اورگھر چھوڑنے کی دھمکی دینے لگا۔تشدد اور جہالت کا خاتمہ علم اور دلائل ہی سے ممکن ہے،جبکہ دین اسلام علم اور دلائل ہی کا نام ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ (علق:1)

’’پڑھو اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔‘‘ انتہاپسندی،تشدداورغلو ان سب کا اللّٰہ تعالیٰ نے رد کرتے ہوئے فرمایا:

قُلْ يَاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ (المائدۃ:77)

’’کہو ، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور نہ اُن لوگوں کے تخیلات کی پیروی کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اورسَواء السبیل سے بھٹک گئے‘‘۔
انتہا پسندی اورفرقہ واریت کا اصل توڑ نرم گوئی اور نرم مزاجی ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نےسیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا: ﴿

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى (طہ:44)

’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا (صحیح البخاری:6103)

’’جو اپنےبھائی کوکافر کہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہوجاتا ہے‘‘۔امام بخاری باب من کفّرَ أخاه بغیر تاویله کاعنوان قائم کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اس آدمی کے لیے ہے جس نےمسلمان کو حقیقی کافر کہا ، اور اللّٰہ کا منکر بنادیا۔
تقریر، تحریر، تدریس وغیرہ میں ایسی سرگرمیوں سے گریز کیا جائے جس میں عدم برداشت کا پہلو ہو۔
واعظین وخطبا ءحضرات کا میرٹ طےکیا جائےیعنی تخصص فی الخطابہ کورس کا آغاز ہو ، خطبا ءسلیکشن کمیٹی بنائی جائے۔
حکومت اور علماء کے تعاون سے بورڈ تشکیل دیا جائے جو اس انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے کردار ادا کرے ۔
سوشل میڈیا میں کردار ادا کر نےکے لیے اساتذہ، مبلغین اور طلبا کی ٹیم تیار کی جائے۔
اختلافات کے دائروں میں فرق واضح طور پر سمجھا اور سمجھایا جائے۔
اختلاف کی صورت میں دوسرے کے حقوق کو تلف نہ کیا جائے۔
اختلافی مسائل چھیڑنے سے حتی الامکان باز رہا جائے ۔
باہمی مکالمے کے لیے ماہر علماء کی زیر نگرانی ٹیمیں بنائی جائیں۔
انفرادی عصبیت کی بجائے ملی و اسلامی مفادات کو ملحوظ رکھا جائے۔
بین المسالک حقوق کا تعین مشاورت سے طے کرکے مساویانہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیز مواد کو روکا جائے اور مثبت مواد عام کیا جائے۔
یہ اور اس طرح کی اوربھی تدابیر اختیار کرکے انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کوکم کیا جاسکتا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تشدد وانتہا پسندی سے محفوظ رکھے، راہ اعتدال پر چلنے کی توفیق دے ، اس سلسلہ کے ہر سبب سے بچنے اوراس کے تدارک کی ہر ممکن تدبیراختیار کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے ۔ آمین
اس مضمون کی تیاری میں ماہنامہ محدث لاہور، محدث فورم، واٹس اپ گروپ مجلس التحقیق الاسلامی، مجموعہ علماء اھل الحدیث میں علماء کرام کے مابین ہونے والی بحوث کے قیم نکات بھی شامل ہیں اس کے علاوہ الغزو الفکری پر لکھی ہوئی چند کتب سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے