افسوس صد افسوس’’الحاد‘‘ ، ’’دہریت‘‘اور لادینیت نے دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص تیزی سےاپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔ یہ عصر حاضر کا فوری توجہ طلب اور فوری حل طلب مسئلہ ہے۔ مولانا سید ابو الحسن علی الندوی اس بارے میں لکھتے ہیں :
’’ آج رسول اللہ کے سرمائے پر ڈاکہ ڈالا جارہاہے آپ کے قلعے میں شگاف پیدا کیے جارہے ہیں آپ کے دارالسلطنت پر حملہ کیا جارہاہے اگر آج امام ابو حنیفہ، امام شافعی،امام مالک،امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہوتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ شاید وہ فقہ کی تدوین بھی تھوڑی دیر کے لیے روک دیتے اور اس مسئلے ’’الحاد‘‘ کی طرف توجہ کرتے۔ ‘‘ ( بحوالہ ’پاجا سراغ زندگی‘ ص:48 طبع نشریات اسلام)
آج یہ ’’الحاد‘‘ سیکولرازم،لبرل ازم،فیشن ازم،ماڈرن ازم اورجدیدیت کے نام سے مسلم معاشروں میں جگہ پکڑتا دکھائی دیتاہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس الحاد اور بے دینی اور سیکولرازم کے حامیوں کواس کے نقصان کا اندازہ اور احساس تک نہیں ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
سیکولرازم لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ ’’بے دینی‘‘ یا “لادینیت” ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے وحی الٰہی کی روشنی میں اپنی امت کو قیامت تک برپا ہونے والے فتنوں سے آگاہ کردیا تھا تاکہ امت محمدیہ گمراہی سے بچے۔آج الحاد ، بے دینی، سیکولرازم کے نام سے جو فتنے سراٹھائے ہوئے ہیں غالباً انہی کے حوالے سے ارشاد نبوی ﷺ ہے :

دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا (صحيح البخاري7086، صحيح مسلم:1847، سنن ابن ماجه:3979)

’’ایک زمانے میں امت پر ایسا وقت آئے گا کہ جس میں شرپسندوں کے ٹولے جو جہنم کے دروازے میں کھڑے ہوں گے،انسانوں کو اورخاص کر مسلمانوں کو اس کی طرف بلائیں گے جو ان کی بات مان لے گا وہ اسے اس جہنم میں جھونک دیں گے۔‘‘
سیکولرازم کا مقصد حقوق انسانی،آزادی،تحقیق،قانون اور تعلیم کے نام پر زندگی کے تمام شعبوں سے دین کے عمل دخل کو ختم کرنا ہے کیونکہ سیکولروں کے خیال میں دین فطرت کے خلاف ہے لہٰذا کسی دین کی پیروی کرنا درست نہیں ہے۔ (العیاذ باللہ)
ترقی اور جدیدیت کے نام پر کھیلے جانے والے اس گھناؤنے کھیل کا’’ہدف‘‘ عقائد وایمانیات کا شکار کرنا ہے۔ اس کھیل کا پہلا مرحلہ پرانی روایات کا خاتمہ ، دوسرا مرحلہ مذہبی واخلاقی اقدار پر حملہ کرکے ان کا خاتمہ کرنا اور تیسرامرحلہ جارحانہ رویے کے ذریعے کسی معاشرہ یا مذہب پر اپنی’’گرفت‘‘ مضبوط کرنا ہے۔
طارق جان کے الفاظ میں ’’ سیکولرازم اپنے قبول کرنے والوں سے جو قیمت مانگتا ہے وہ بھی بے حد گراں ہے۔ یہ انسان کو روحانیت سے محروم کرکے اسے محض ایک مادی انسان بنادیتا ہے۔ ‘‘ (بحوالہ: سیکولر ازم :مباحث اور مغالطے)
سیکولر،لبر ل اور متجدد کا نعرہ ہے کہ اسلامی تعلیمات عصرِ حاضر میں قابل عمل نہیں ہیں بلکہ فرسودہ ہیں۔ قرآن وحدیث کی کوئی حقیقت نہیں یہ تو انسان کے مرتب کردہ ہیں(العیاذ باللہ)
ملائکہ،جن ،انبیاء،جنت، دوزخ،حوروقصور،آخرت یہ سب افسانے ہیں، یعنی ایمان بالغیب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کے خیال میں:
ایہہ جہان مٹہا ،تے اگلا کیں نے ڈٹہا
’’یعنی اس دنیا کی زندگی کے مزے اٹھاؤ،اگلا جہان کس نے دیکھا ہے‘‘۔
یہ اسلامی حدود وتعزیرات کو ظالمانہ قرار دیتے ہیں۔ان کی نظر میں عالمی قانون شریعت اسلامیہ سے زیادہ نفع بخش ہے ۔(العیاذ باللہ)۔ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ حلال وحرام کی تمیز ختم کردی جائے۔مسلمان معاشروں سے اخلاقی قدروں کا خاتمہ کردیا جائے، تعلیمی نصاب سے دینی واسلامی ابواب کا خاتمہ کرکے جنسیت،مادیت پرستی،عشق بازی،حیا سوزی، فیشن پرستی اور بداخلاقی کو فروغ دیاجائے۔ مغربی وغیر اسلامی فکری یلغار کو ثقافت کے تبادلے کا نام دے کر اسلامی معاشروں میں رائج کیا جائے،مسلمانوں کو دہشت گرد اور بے رحم ثابت کیا جائے تاکہ لوگ مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کرنے لگیں ۔ حلال وحرام کی تمیز باقی نہ رہے۔اور تو اور یہ سیکولر!قوم لوط کے اس عمل”لواطت”(ہم جنس پرستی) تک کو جائز قرار دے رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نےقوم لوط پر ایک نہیں کئی عذاب نازل کئے۔
طارق جان کے خیال میں:
ایک سیکولر ہو یا کوئی سیاستدان ،دونوں سمجھتے ہیں
کہ دینی روایت کا دور گزر چکا ہے،گویا اب رسم جہاں اور ہے، دستور زماں اور”۔(بحوالہ “سیکولرازم :مباحث اور مغالطے” ص21)
سیکولرازم مذاہب کو غیر اہم قراردیتاہے جبکہ اسلام نے ایک مذہب کے ماننے والوں کو(خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں) ایک ملت قرار دیا ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی قوم کی بنیاد مذہب کو قرار دیتے ہوئے کہا :
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ،محفل انجم بھی نہیں
ہمارے اسلامی معاشرہ پر اس روشن خیالی اور سیکولرازم کے اثرات بد دن بدن بڑھتے جارہے ہیں روشن خیالی کے نام پر جسم کے مختلف حصوں پر ٹیٹو کے نشان بنوانا اوران کی نمائش کےلیے ان حصوں کو عریاں رکھنا، ناک اور کان عجیب وغریب انداز میں چھدوانافیشن بن گیا ہے۔ عورتیں لباس پہننے کے باوجود عریان دکھائی دیتی ہیں۔ فیشن کے نام پر لباس مختصر سے مختصر ہوتا جارہا ہے۔ قمیض کی آستینیں غائب ہوچکی ہیں۔ ٹراؤزر اور پاجامے اس قدر چست کہ جسم کی ساخت کو نمایاں کرنے والے، جدیدیت کی گرویدہ عورتوں کی قمیض کی لمبائی اس قدر کم ہوچکی کہ گھٹنے قمیض سے باہر ، بوتیکوں پر کم عمربچیوں، نوجوان لڑکیوں حتی کہ عمررسیدہ عورتوں کےلئےبھی عریانیت کا اشتہاردکہائی دینے والے لباسوں کی بھرمار۔ الغرض عورت کی آزادی کے نام پر عورت کی مارکیٹ سازی مقصود ہے۔ عورت کو سرمایہ کاری اور سرمایہ میں اضافہ کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔
عورتوں کا تو ذکرکیا ۔۔۔ مرد عورتوں پر بھی بازی لے گئے۔ عورتوں کی طرح چست لباس،کانوں میں بالی، ہونٹوں پرلالی، عورت کا دوپٹہ جو رسی بن کر گلے میں لٹکتا تھا، وہ ان کے لیے پھندا بن گیا سو وہ اب مردوں کے کندھوں پر لہراتاہے۔
دف اب پرانی ہوگئی ۔ جدید دور میں نیاساز اور نئے ہنگامہ خیز راگ آگئے ہیں۔پورے خاندان کا اکٹھے بیٹھ کر بے ہودہ فلمیں اور ڈرامے دیکھنا روشن خیالی ہے۔ معصوم بچے کلمہ طیبہ اور دیگر اذکارکے ورد کی بجائے فلمی گانوں پرتھرکتے ہیں تو ماڈرن والدین نہ صرف گھر آنے والے مہمانوں کواس رقص کا نظارہ کرواتے ہیں بلکہ وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے “لائکس” کی شکل میں داد وصول کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔آج یہودوہنود ونصاری کے رسوم ورواج اپنانابلکہ اپنی خوشی کا اظہار انہی کے انداز میں کرنا جدیدیت ہے۔ جو پیدائش اور شادی کی سالگرہ نہ منائے وہ دقیانوس اورسالگرہ بغیر کیک کاٹے تو بے مزہ رہتی ہے ۔اب صرف ’’لبرل ‘‘نہیں بلکہ ’’دیسی لبرل‘‘بھی میدان میں آگئے ہیں۔یہ نام نہاد روشن خیال 12 ربیع الاول کو جشن آمد رسول کے موقع پر 63 پونڈوزنی کیک کاٹتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنا اپنا حصہ ڈال کر ثواب دارین کے حق دار ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرتے ہیں کیونکہ عام لوگوں کی سالگرہ منانا ’’فرض عین‘‘ہے تو’’محبوب‘‘پیغمبر کی سالگرہ نہ منانا تو یقینا ’’گناہ کبیرہ‘‘ کے زمرے میں آئے گا۔(العیاذ باللہ)
کسی کی آنکھ میں سمایا ہے شعار اغیار
ہوگئی کسی کی نگہ طرزِ سلف سے بےزار
قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں
یہ سیکولر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والوں کو مولوی اور ملّانی کہتے ہیں۔ ان روشن خیالوں کا “روشن خیال “ہے کہ یہ مولوی اور ملانیاں وہی 1437 سال پرانے اور فرسودہ خیالات،فرسودہ فیشن اپنائے ہوئے ہیں ۔وہی داڑھی، برقع،ٹخنوں تک شلوار،منہ میں مسواک، سر پر رومال، دوپٹے ، ٹوپی۔۔۔اُف کس قدر’’ڈھیٹ‘‘ بلکہ ’’گنوار‘‘ ہیں (العیاذ باللہ) کنویں کے مینڈک۔ کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ یہ’’گنوارپن‘‘ چھوڑ کر’’انٹلیکچول‘‘ بنیں۔
جن مسلم معاشروں نے سیکولرازم کو قبول کر لیا ہے وہ حرکت پزیری سے محروم ہوچکے ہیں۔ موجودہ دور کے مسلمان سیاسی قوت سے تو محروم ہیں ہی ، اب کفر والحاد کے بھی عادی ہوگئے ہیں۔ وہ “آدھے تیتر،آدھے بٹیر” بن گئے ہیں ۔ “کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا” کے مصداق وہ سکون واطمینان کی دولت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں۔
طارق جان اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے ایمان کے مرکزی ستون ٹوٹ کر ہم پر گرنے والے ہیں۔لگتاہےقوم فالج کا شکار ہواچاہتی ہےکیونکہ لادینی فکروعمل نے اس کا ابتدائی تحرک اور جوش نچوڑ ڈالا ہے‘‘۔(بحوالہ “سیکولرازم:مباحث اور مغالطے”ص 9)
علامہ اقبال اپنی مشہور نظم ’’جواب شکوہ‘‘ میں رقمطراز ہیں :
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، اور پِسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
مختصر یہ کہ الحاد اوربے دینی کے خوگر سیکولرازم کو جدت پسندی اور ترقی پسندی کا نام دے کر اسے “انسان دوست” اور “ماحول دوست” ظاہر کیا جارہا ہے حالانکہ یہ وہ زہر قاتل ہے جسے شیرے میں لپیٹ کر یا کُونِین کو چینی میں لپیٹ کر بچوں کی طرح ’’بہلانے‘‘ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سیکولروں کی طرف سے جو فتنے اور فساد برپا کیے جارہے ہیں وہ “دہشت گردی” اور’’تخریب کاری‘‘ کا ایک فیشن ایبل یا جدید انداز ہے۔ مسلمانو!اس زہر قاتل، فتنے،دہشت گری اور تخریب کاری کو روکنے کے لیےفوری اور ٹھوس اقدامات اٹھاؤ،اسلام کی طرف لوٹو۔اسلام کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرو،ورنہ اللہ نہ کرے
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے