عصر حاضر میں جرائم نے ایک عالمگیر وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دنیا کا کوئی خطّہ محفوظ و مصون نہیں ۔ تمام ممالک ان کی لپیٹ میں ہیں چاہےوہ ترقی یافتہ ہوں یا پسماندہ ۔ ان کا دائرہ معاشرہ کے تمام طبقات تک پھیلا ہوا ہے۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجئے، وہ ، چوری، اغوا،قتل،ڈکیتی، اسمگلنگ، زنا بالجبر،جنسی تشدد، لوٹ کھسوٹ، بچوں کی خرید و فروخت ، رحم مادر میں بچیوں کا قتل، جبری مزدوری، شراب نوشی ، رشوت اور منشیات کا استعمال الغرض مختلف جرائم کے واقعات اور ان کی رپورٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔
جرائم کے خاتمے کی تدابیر ڈھونڈنے میں دانشورانِ ملک وملت اور ارباب حل و عقد سرگرم ہیں لیکن جرائم اور واردات کم یا ختم ہونے کے بجائے بڑھتےجارہے ہیں ، یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اسلام کے قوانین جرائم کے خاتمےمیں کس حد تک ممد ومعاون ہیں۔اہل علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان قوانین کی معنویت کو آشکارا کریں اور ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کودور کریں۔
اسلام کے تعزیری قوانین کے مطالعہ و جائزہ کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ قوانین آزمودہ ہیں۔ جس زمانہ میں یہ قوانین نافذ کئے گئے اس زمانے میں سرزمین عرب فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ لوٹ مار، چوری ڈکیتی، قتل و غارت گری ،عصمت دری، شراب نوشی اور دیگر معاشرتی برائیاں، جن کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں، عام تھیں، ان قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں یہ برائیاں تقریباً ختم ہوگئیں اور پورے خطے میں امن وامان کا دور دورہ ہوگیا۔
شریعت اسلامیہ میں جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں ہیں:
1۔حد 2۔قصاص 3۔تعزیر
حد کی جمع حدود ہے۔جس کا لغوی معنی منع ، روکنا اورخط کھینچنا کے ہیں ،آخر الذکر سے متعلق امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب ’’المفردات‘‘ میں لکھاہے:

الحد الحاجز بين الشيئين الذى يمنع اختلاط احدهما بالآخر، يقال حددت كذا جعلت له حدا يميز و حدالدار ما تتميز به عين غيرها(المفردات في غريب القرآن:109)

’’حدوہ ہے جو دو چیزوں کے درمیان حد فاصل قائم کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ملنے سے روکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے یہ حد لگا دی یعنی خط کھینچ دیا تاکہ تمیز ہو سکے اور گھر کی حد جو اسے دوسرے گھر سے علیحدہ کرتی ہے وہ اس کا خط ہوتا ہے۔‘‘

حد کی اصطلاحی تعریف

کسی جرم کی وہ سزا جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں مقرر کر دی گئی ہو، اس میں کمی و بیشی کا اختیار پیغمبر ﷺ کو تھا، نہ حاکم وقت یا قاضی وقت کو ہے،حدیث میں جہاں بھی لفظ حد استعمال ہوا، اکثر و بیشتر کسی جرم کی سزا کے لئے ہی استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

ادْفَعُوا الْحُدُودَ مَا وَجَدْتُمْ لَهُ مَدْفَعًا (سنن ابن ماجہ : 2545 (ضعیف)

’’تم جرم کی سزا کو ختم کر دیا کرو، اگر اس کے ختم کرنے کی کوئی صورت نظر آئے۔‘‘
عُقُوبَة مقدرَة وَجَبت على الْجَانِي (المعجم الوسیط:160 مادۃ ’حد‘)
’’شرعی اصطلاح میں مجرم کے لئے وہ مقرر کردہ سزا جو اس کے لئے واجب ہے۔‘‘
قرآن و سنت میں جن جرائم کی سزائیں متعین کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
1۔ زنا کرنا 2۔ جھوٹی تہمت لگانا
3۔ چوری کرنا 4۔ شراب پینا
5۔ ڈاکہ ڈالنا 6۔ مرتد ہونا
قتل نفس کو اس لئے حدوداللہ میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ وہ بندے کا بندے پر حق ہے اور اس کے لئے قرآن و سنت میں قصاص و دیت کا پورا قانون موجود ہے۔
تعزیر کی لغوی تعریف
لغوی معنی: تعزیر، عزّر، يعزّر، تعزيراً سے ماخوذ ہے، جس کا معنی روکنا، منع کرنا
النصرة مع التعظيم
اور تعظیم کے ساتھ مدد کرنا۔ (المفردات، ص:333)
قرآن مجید میں بھی اس سے مراد مدد کے ہےجیسا کہ فرمان الٰہی ہے: وَعَزَّرْتُمُوهُمْ (المائدہ: 12)
’’ اور ان کی مدد کرو گے۔‘‘
اصطلاحی مفہوم
امام راغب اصفہانی تعزیر کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

والتعزير ضرب دون الحد فان ذلك تاديب والتاديب نصرة معه (المفردات، ص:333)

’’تعزیر کا معنی وہ سزا ہے جو حد سے کم تر ہوتی ہے اور یہ دراصل تادیب ہوتی ہے اور تادیب در حقیقت کسی کی برائی سے روکنے میں مدد ہوتی ہے۔‘‘
صاحب فقہ السنۃ رقمطراز ہیں :

التاديب على ذنب اى انه عقوبة تاديبه يفرض الحاكم على جناية او معصية لم يعين الشرع لها عقوبة (فقہ النسۃ: ج 2،ص 497 )

’’حاکم وقت کسی جرم یا گناہ پر ایسی سزا نافذ کرے جو شریعت نے مقرر نہیں کی۔‘‘
مذکورہ بالاسطور سے معلوم ہوا کہ تعزیرایسے جرائم کی سزا کو کہتےجوقرآن و سنت میں متعین نہ ہو اس صورت میں مجرم پر حد یا قصاص تو جاری نہیں کیا جائے گا لیکن اسے آزاد بھی نہیں چھوڑاجائےگا بلکہ اس کے جرم کے مطابق اسے کوئی دوسری سزا دی جاتی ہے۔یہ سزا جسمانی بھی ہوسکتی ہے مالی بھی۔ قید و بند کی بھی ہوسکتی ہے اور شہریا ملک بدری کی بھی۔
رسول اکرم ﷺنے تعزیر کی سزا دس کوڑے رکھی ہے۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شراب کے بارے میں چالیس کوڑوں کی حد کو اَسی (80) کوڑوں میں تبدیل کیا۔
اسلامی سزاؤں کی حکمت وفلسفہ
اسلامی حدود و تعزیرات کابنیادی فلسفہ یہ ہے کہ معاشرے کے اندر امن اور استحکام پیدا ہو۔اس کی عملی مثال ہم قرون اولیٰ سے پیش نہیں کرتے بلکہ آج کی دنیا میں سعودی عرب کا معاشرہ اس کی بہترین مثال ہے، آج سعودیہ میں جرائم کا تناسب ساری دنیا سے کم کیوں ہے؟
اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کہلانے والے، سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تسلیم کروانے والے کیا یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کے ممالک میں جرائم کا تناسب سعودیہ سے کم ہے؟
سعودی عرب کے رہنے والے آسمانوں سے نہیں اترے اور نہ وہ فرشتے ہیں اگر آج وہاں جرائم کی تعداد کم ہے، معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ ہے، گاڑیاں بغیر لاک کے کھڑی رہتی ہیں، نماز کے اوقات میں دوکاندار کھلی دکانیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ڈکیتیاں اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں قرآن و سنت کے مطابق حدود و تعزیرات کا نظام نافذ ہے اس کی برکتیں معاشرے میں دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں۔
اسلامی حدود و تعزیرات کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ سزائیں باعث عبرت ہوتی ہیں، اسی لئے قرآن و سنت میں انہیں سرعام نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ نور میں ہے:

وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

اور اس (جرم زنا) کی سزا کا مشاہدہ مومنین کی ایک جماعت ضرور کرے۔ (النور:2)
رسول اکرم ﷺاور خلفائے راشدین کے دور میں جتنی بھی سزائیں دی گئیں وہ سب سرعام مسجد نبوی کے سامنے دی گئیں۔ سیدناماعز بن مالک اسلمی اور غامدیہ کو مسجد نبوی کے سامنےرجم کیا گیا اورمخزومیہ کا ہاتھ مسجد نبوی کے سامنے کاٹا گیا، اس پر کسی نے چوں و چرا نہ کی لیکن حیرت و افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے نام نہاد دانشور اور بعض جدید تعلیم یافتہ اور مغرب زدہ لوگ یہ کہتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے کہ “سرعام سزا دینا انسانیت کی توہین ہے۔” تو کیا نعوذباللہ من ذلک، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انسان نہ تھے؟
سعودی عرب میں قرآن و سنت کے احکام کے عین مطابق آج بھی سزائیں بیت اللہ کے سامنے، مسجد نبوی کے سامنے اور ہر شہر میں جامع مسجد کے سامنے نافذ کی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ مجرموں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ انسانی فطرت میں بعض اوقات جرم بڑھ رہا ہوتا ہے لیکن انسان نے اس پر عمل نہیں کیا ہوتا۔ سزا کے مشاہدے سے ایسے مجرم ضمیر خود بخود اپنی اصلاح کرتے ہیں اور جرم سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ہیں۔
اسلامی حدود و تعزیرات کی سب سے بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ جس آدمی کو اس جہاں میں اسلامی شریعت کے مطابق سزا مل جائے تو آخرت میں اللہ کی طرف سے اسے کوئی سزا نہیں دی جاتی گویا وہ آدمی پاک و صاف ہو کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے۔
اللہ نے انسان کی تخلیق کی اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصلاح کیسے اور کتنی سزا سے ہو سکتی ہے، لہذا اسلامی حدود و تعزیرات کا نظام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، ایک شادی شدہ مرد و عورت کے لئے جب رجم کی سزا متعین ہوئی تو یہ ان کے ساتھ زیادتی نہ تھی بلکہ تجربے اور مشاہدے میں یہی آتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھتا ہے تو غیرت کے مارے دونوں کو قتل کرنے کے درپے ہوتا ہے اور یہی سزا جب اسلام سناتا ہے تو یہ ظالمانہ نہیں اور نہ صرف فطرت کے عین مطابق ہے بلکہ اپنے اندر بہت سی سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کی اصلاح کی بھی ضامن ہے۔
اللہ تعالیٰ آیتِ قصاص کے آخر میں فرمایا ہے:

وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَوٰۃٌ یَاْ أُولِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ179)

’’اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل و خرد رکھنے والو۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے۔‘‘
اسلامی تعزیرات کی حکمت پریہ ایک معنی خیز آیت ہے۔ قصاص میں قاتل کو بھی قتل کردینے سے بظاہر ایک اور جان کا ضیاع ہوتاہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ اس میں حیات ہے۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام قرطبی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ آیت بلاغت اور ایجاز کا نمونہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قصاص کو نافذ کیا جائے گا تو جو شخص کسی کو قتل کرنے کا خواہاں ہوگا وہ اس خوف سے رک جائے گا کہ بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ اس طرح دونوں زندہ بچ جائیں گے۔ عربوں میں جب کوئی شخص کسی کو قتل کردیتاتھا تو دونوں کے قبیلے غیظ و غضب سے بپھر جاتے تھے اور ان میں باہم جنگ ہونے لگتی تھی۔ اس طرح بہت بڑی تعداد کے قتال کی نوبت آجاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب قصاص کو مشروع کیا تو تمام لوگ قانع ہوگئے اورانھوں نے باہم لڑائی جھگڑا بند کردیا۔ اس طرح انھیں زندگی مل گئی۔‘‘( القرطبی، الجامع لاحکام القرآن2/256)
اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے ہر دور میں ان کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوتے رہے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی اگر دنیا کے مختلف ممالک میں رونما ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت پورے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جن ممالک میں یہ سزائیں نافذ ہیں ان کے مقابلہ میں جن ممالک میں نافذ نہیں ہیں ان میں جرائم کا تناسب کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔
عقل پرست لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام کی سزائیں وحشیانہ اور ظالمانہ ہیں، غیر فطری اور غیر انسانی ہیں جبکہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی قانون سزاؤں سے مستثنیٰ نہیں، وہ ممالک جو کسی مذہب کو نہیں مانتے، دہریت و الحاد ان کا ایمان ہے، وہ بھی اپنے ملکی قانون میں سزاؤں کا ایک نظام رکھتے ہیں اور وہ معمولی جرائم پر اس قسم کی سزائیں بھی دیتے ہیں جن کا تصور بھی قرآن و سنت میں نہیں کیا جا سکتا۔
ذرائع کے مطابق چین میں چار انجنئیرز کو گولیوں سے اڑا دیا گیا، ان کا جرم یہ تھا کہ جس ڈیم کی تعمیر پر ان کی ڈیوٹی تھی وہ گر گیا۔ اس طرح دنیا کے ہر ملک کے قانون میں سزاؤں کا ایک نظام ہے جو انسان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام میں جرم کم ہوتا ہے سزا زیادہ ہوتی ہے یا سزا کم ہوتی ہے اور جرم بڑا ہوتا ہے لیکن اس نظام کا مقصود بھی فرد اور معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام نے حدود تعزیرات کا جو نظام دیا ہے اس سے ہی جرائم کا استحصال ہوسکتاہے۔
اللہ ہی نے انسان کی تخلیق کی اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے، یہ بات معروف ہے کہ جو انجنئیر جس مشینری کا مُوجد ہوتا ہے وہ اس کی سب سے بہترین اصلاح کر سکتا ہے۔ امریکی معاشرے کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہاں لوگ زیور تعلیم سے آراستہ ہیں۔
مقام افسوس یہ ہے کہ ان مہذب لوگوں نے جرائم کی تعریف بدل ڈالی ہے۔ ان کے ہاں زنا صرف وہ ہوتا ہے جو کسی کے ساتھ زبردستی کیا جائے، اگر باہمی رضامندی سے بدکاری کی جائے تو یہ زنا کی تعریف میں نہیں آتی اور مستوجب سزا نہیں بلکہ ایسے مادر پدر آزاد معاشروں میں اگر ماں باپ اپنے بچوں کو منع کرنے کی کوشش کریں تو وہ قابل گردن زنی قرار پائیں۔
بہرحال یہ بات واضح ہے کہ دنیا کا کوئی قانون سزا کے نظام سے مستثنیٰ نہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ سزا سے اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ جیسے اہم مقاصد حاصل ہوتے ہیں، اس لئے اسلام نے جو سزائیں مقرر کی ہیں، وہ نہ صرف اصلاح نفس و معاشرہ کے لئے کام آتی ہیں بلکہ یہ ایسا نظام ہے جو باعث برکت و رحمت ہے۔ جو لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کا محافظ بھی ہے اور دنیا میں باعث امن اور آخرت کے لئے فوز و فلاح کا ضامن بھی ہے۔

خلاصۂ بحث :

عبد القادر عودۃ اسلامی حدود وتعزیرات کا راز اپنے لفظوں میں اس طرح بیان فرماتے ہیں :
ولعل السر في نجاح الشريعة أن عقوباتها وضعت على أساس طبيعة الإنسان, ففي طبيعة الإنسان أن يخشى ويرجو ۔۔۔ وقد

استغلت الشريعة طبيعة الإنسان فوضعت على أساسها عقوبات الجرائم عامة وعقوبات جرائم الحدود والقصاص خاصة (التشريح الجنائى الاسلامى ج 2، ص 713،714)

’’یقینا شریعت کی کامیابی کا راز اس کی سزاؤں میں ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، شریعت نے انسانی فطرت کا محاصرہ کیا ہے ….اور فطرت انسانی کی اساس کی بنیاد پر عام جرائم کی سزائیں متعین کی ہیں جبکہ حدود اور قصاص کے لئے خاص سزائیں مقرر کی ہیں۔‘‘
اسلام کے تعزیری قوانین کی حکمت و معنویت سے جو حضرات ناواقف ہیں وہ ان پر مختلف پہلوؤں سے اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں وحشیانہ ، بہیمانہ اور سفّاکانہ ہیں بلکہ آج جو مسلمان ترقی پسند کہلاتے ہیں اور جنہوں نے اسلام کی تعلیم براہ راست نہیں بلکہ مغربی اہل قلم کے توسط سے کی ہے، وہ بھی محض غلط فہمی کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی پوری تعلیم میں کوئی ایک بات بھی ایسی موجودنہیں جسے قدامت یا تاریک خیالی کا مظہر قرار دیاجاسکے۔
اسلامی سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے حقیقت میں مجرم سے اظہارہمدردی تو کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ پورے معاشرے کے حقوق نظر انداز کررہے ہوتے ہیں، وہ مجرم پر شفقت تو کرتے ہیں لیکن جرم سے متاثر شخص کو بھول جاتے ہیں، وہ سزا کو دیکھتے ہیں لیکن مجرمانہ گھٹیا حرکت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔حدود کو شریعت کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ دل کی بھڑاس نکالی جائے ، انتقام لیا جائے، اور مجرموں کو اذیت دی جائے، بلکہ حدود کے مقاصد اور اہداف بہت عظیم ہیں، ان مقاصد میں یہ شامل ہے کہ پورے معاشرے کیلئے بڑے اہداف حاصل کیے جائیں اور وہ ہیں: دین، جان، عقل، مال اور عزت آبرو کی حفاظت۔ حجۃ الاسلام ابو حامد محمدغزالی مقاصد شریعت کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَهَذِهِ الْأُصُولُ الْخَمْسَةُ حِفْظُهَا وَاقِعٌ فِي رُتْبَةِ الضَّرُورَاتِ، فَهِيَ أَقْوَى الْمَرَاتِبِ فِي الْمَصَالِحِ وَمِثَالُهُ: قَضَاءُ الشَّرْعِ بِقَتْلِ الْكَافِرِ الْمُضِلِّ وَعُقُوبَةِ الْمُبْتَدِعِ الدَّاعِي إلَى بِدْعَتِهِ فَإِنَّ هَذَا يُفَوِّتُ عَلَى الْخَلْقِ دِينَهُمْ، وَقَضَاؤُهُ بِإِيجَابِ الْقِصَاصِ أَدَبُهُ حِفْظُ النُّفُوسِ، وَإِيجَابُ حَدِّ الشُّرْبِ إذْ بِهِ حِفْظُ الْعُقُولِ الَّتِي هِيَ مِلَاكُ التَّكْلِيفِ وَإِيجَابُ حَدِّ الزِّنَا إذْ بِهِ حِفْظُ النَّسْلِ وَالْأَنْسَابِ، وَإِيجَابُ زَجْرِ الْغُصَّابِ وَالسُّرَّاقِ إذْ بِهِ يَحْصُلُ حِفْظُ الْأَمْوَالِ الَّتِي هِيَ مَعَاشُ الْخَلْقِ وَهُمْ مُضْطَرُّونَ إلَيْهَا وَتَحْرِيمُ تَفْوِيتِ هَذِهِ الْأُصُولِ الْخَمْسَةِ وَالزَّجْرِ عَنْهَا يَسْتَحِيلُ أَنْ لَا تَشْتَمِلَ عَلَيْهِ مِلَّةٌ مِنْ الْمِلَلِ وَشَرِيعَةٌ مِنْ الشَّرَائِعِ الَّتِي أُرِيد بِهَا إصْلَاحُ الْخَلْقِ (المستصفی ص: 174)

’’ان پانچوں اصولوں کی حفاظت ضروریات’’انتہائی ناگزیر چیزوں‘‘ کے درجے میں ہے، اس لیے کہ یہ انسانی مصالح کااعلیٰ ترین درجہ ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ شریعت نے اس منکر دین کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے جو دوسروں کو گمراہ کرنے کے درپے ہواور اس بدعتی کو بھی جو دوسروں کو اپنے خود ساختہ عقیدہ کی طرف دعوت دے۔ اسی طرح شریعت مطہرہ نے قصاص کو واجب کیا ہےتاکہ انسانی جانیں محفوظ رہیں۔ شراب نوشی پر سرزنش رکھی تاکہ عقلیں محفوظ رہیں، جن کی وجہ سے انسانوں کو احکام کامکلّف کیا گیا ہے۔ زنا پر حد واجب کی تاکہ نسل اور نسب محفوظ رہیں۔ چوروں اور لٹیروں کی سرزنش کا حکم دیا ہے، تاکہ اموال محفوظ رہیں، جو انسانوں کی معیشت کا ذریعہ ہیں اور جن کے وہ محتاج ہیں۔ ان پانچوں بنیادی اصولوں کی پامالی کی ممانعت اور اس پر تنبیہ و سرزنش دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔
درج بالا گزارشات کو مرتب کرنے کے لیے جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں :
1۔حجۃ اللہ البالغۃ لشاہ ولی اللہ (مترجم)
2۔فقہ السنۃ لسید سابق (مترجم)
3۔المستصفی لابی حامد الغزالی
4۔التشريح الجنائى الاسلامى لعبد القادر العودۃ
5۔المفردات لإمام راغب الاصفہانی
6۔الحدود والتعزيرات عند ابن القيم لأبی زید بکر بن عبد اللہ (المتوفی 1429ھ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے