تیسواں اصول :

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق3)

’’ جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہو گا۔‘‘
یہ قرآنی اصول ہونے کے ساتھ ساتھ ایمانی اصول بھی ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک اس کی جڑیں اہل ِ توحید کے دلوں میں گہری ہیں اور جب تک اس کائنات کا نظام چل رہا ہے یہ اسی طرح رہے گا۔
اس اصول کا معنیٰ ومفہوم بہت واضح ہے۔ اس اصول کی تفسیر یہ ہے کہ جو شخص دین و دنیا کے معاملات میں اپنے رب اور مولا پر بھروسہ کرے‘ اس طرح کہ جو چیز نفع دیتی ہے اس کو حاصل کرنے میں‘ یا جو چیز نقصان دیتی ہے اس کو دور کرنے میں اللہ ہی پر بھروسہ کرے اور اسے یہ بھی یقین ہوکہ ہر قسم کی آسانی بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ یعنی جن جن چیزوں کے معاملے میں اُس نے توکل کیا اس میں اللہ کافی رہے گا۔
قرآنی اصول:

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق3)

’’جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تواللہ اسے کافی ہوگا‘‘۔
یہ آیت سورۃ الطلاق میں احکامِ طلاق کے حوالے سے بیان ہوئی ہے کہ جس نے طلاق کے معاملے میں اللہ کے احکام کی پیروی کی‘ اس کو کتنی اچھائیاں ملتی ہیں۔ طلاق سے متعلقہ احکام کو ذکر کرنے کے بعد ان باتوں کو ذکر کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں اِحتیاط کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اورساتھ ہی ساتھ اطمینانِ خاطر بھی دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم
توجہ دلا نے والی بات دونوں میاں بیوی سے کہی گئی ہے کہ طلاق کے معاملے میں دونوں کے دل کسی طرح بھی اللہ کے احکام کو توڑنے کا نہ سوچیں جن کا تعلق عدت سے ہو، نان نفقہ سے ہو یا کسی اور معاملے سے ہو۔ کیونکہ عام طور پر طلاق کے موقع پر دل ایک دوسرے سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور معاملہ طے کرنے میں منصفانہ سوچ نہیں رکھتے اور حالت ِ غصہ میں عدل وانصاف سے ہٹ جاتے ہیں۔
رہی بات اطمینانِ خاطر کی تو جو آدمی بھی طلاق کے معاملے میں سچے دل کے ساتھ اللہ کے حکم کی پابندی کرے گا‘ خواہ اُس کے ساتھ کوئی دھوکہ کرے‘ یقینا اللہ اُس کے ساتھ ہے‘ اس کا مدد گار ہے‘ اُس کے حقوق کا محافظ ہے‘ اور جو کوئی اس کے خلاف سازش کر رہا ہو اس کی سازش کو ناکام بنانے والاہے۔واللّٰہ أعلم بمرادہ
اگرچہ یہ اصول طلاق کی آیات کے حوالے سے بیان ہوا ہے(جس کا ذکر گزر چکا ہے)لیکن اس کا مفہوم وسیع وعریض ہے‘ جس کواس ایک موضوع میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ توکل کے موضوع پر قرآن ِ کریم میں متعدد آیات ہیں‘ جن میں توکل کی فضیلت‘ اس کی تعریف اور بندے کی زندگی پر ا س کے اثر ات بیان ہوئے ہیں۔
ان باتوں کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے اس بات کی یاد دہانی کرانی ضروری ہے کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہﷺ کے دلائل سے واضح ہے کہ ظاہری اسباب کا اختیار کرنا توکل کی معراج ہے۔ اور یہ حقیقت بہت واضح ہے‘ لیکن اس بات کی طرف توجہ دلانا اس لیے ضروری ہے کہ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اسباب کو چھوڑ دیا جائے‘ جبکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سامنے سمندر آگیا‘ جب سیدہ مریم علیہا السلام کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی‘ اسی طرح اولیاء وصالحین کے بہت سارے واقعات ہیں۔ جب تم ان واقعات پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ انہیں بھی کم سے کم اسباب پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ سیدناموسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ پتھر کو چوٹ لگائیں‘ اور سیدہ مریم علیہا السلام کو حکم ہوا کہ کھجور کے تنے کو ہلائیں۔ زندگی کے ہرکام میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا ضروری ہےبالخصوص کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں آپ ﷺ کو اور دوسرے اہل ِ ایمان کو توکل کی ترغیب دی گئی ہے‘ جن کی تفصیل یوں ہے: جب مدد کی درخواست کرنی ہو‘ جب مشکل کا حل مطلوب ہو‘ جب دشمن غالب آرہا ہو اور اس کی طاقت کاخوف ہو‘ جب مخلوق منہ پھیر لے‘ جب وقت کم ہو اور کام زیادہ ہو‘ اور اسی طرح کے دوسرے مواقع۔
اے اللہ! ہم ہر قسم کی طاقت وقوت سے اظہارِ لاتعلقی کرتے ہیں اور صرف تیری طاقت وقوت کا سہارالیتے ہیںاور ہم اس بات سے بھی تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ذرا سی دیر کے لیے اپنی ذات پر توکل کر بیٹھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے