سوال :کیا نافرمان اولاد کو وراثت سے(عاق) محروم کرنا درست ہے ؟

جواب : انسان اس دنیا میں نہ اپنی مرضی سے آیا ہے نہ موت اس کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی جب چاہیں جہاں چاہیںجس گھر میں چاہیں اس کی پیدائش کا بندوبست فرماتے ہیں اور جب چاہتا ہےموت سے ہمکنارکردیتا ہے کس کو کس کا وارث بنائیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں بندے کے اختیارمیں نہیں ورنہ غریب کا کوئی وارث نہ ہوتا اب جو مرنے کے بعد مال رہ جاتا ہے اسے میراث یا ترکہ کہا جاتا ہے ۔میراث یا ترکہ میں اللہ تعالی نے تمام وارثوں کاحق مقرر فرمایا ہے اپنی مرضی سے کم یا زیادہ کرنے کی گنجائش نہیں۔رسول اللہﷺ نےفرمایاـ’’لا وصیت لوارث‘‘ (وارث کے لیے کوئی وصیت نہیںہے) اب انہیں وارثوں میں کچھ صفات کی بناء پر وراثت سے محروم ہوتے ہیں۔ان صفات میں سرفہرست اختلاف دین کا ہونا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :
لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم (صحیح البخاری کتاب الفرائض)
’’نہ مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے نہ کافر مسلمان کا‘‘۔
اگر اولاد مسلمان ہو ماں باپ کافر توکافر والدین مسلمان اولاد کے وارث نہیں بن سکتے۔
دوسرا یہ کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں بن سکتا جیسا کہ سیدنا عبدا للہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لا یرث القاتل شیاء (سنن ابی داؤد ،کتاب الدیات)

’’قاتل کسی بھی چیز کا وارث نہیں بنے گا‘‘ ۔
اسی طرح غلامی میں انسان وراثت سے محروم ہوتا ہے۔اسکے علاوہ کوئی بھی وجہ تلاش کرکے اولاد کو وراثت سے محروم کرنا درست نہیںہے ہوسکتا ہے کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ اولاد نا فرمان ہو تو نافرمان اولاد انسان کے لیے امتحان ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ کا ارشادہے :

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ

’’اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے ۔‘‘ (الانفال28)
اسکا علاج اللہ تعالی کی حدود کو پامال کرنا نہیں ہے اس کو وراثت سے محروم کرنا اسکے ساتھ ظلم ہے ،انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کے فیصلے پر رضامند ہو جائے ۔جس گھر میں اللہ نے آپ کی پیدائش کا بندوبست کیا جس کو آپکی اولاد بنایا یہ اسی کی تقدیر ہے۔اس میں انسان کابالکل اختیار نہیں ہے مطلب جو اللہ کی طرف سے تقدیر ہے اس سے راضی ہونا چاہیے اور فقر کی ڈر سے اولاد کو قتل نہیں کرنا جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ (الانعام 151)

’’اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا (النساء:11)

’’تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔‘‘
آدمی کو نہیں معلوم کہ اسکے لیے کیا درست ہے ،کیاغلط ہےاللہ تعالی کی تقدیر پر راضی ہونا چاہیےان ساری باتوں سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ عاق کرنا شرعادرست نہیں(واللہ اعلم بالصواب)

سوال:وظائف بالخصوص درود شریف کی تعداد مقرر کرنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جواب :کوئی بھی معاملہ جس کا تعلق عبادات سے ہو یا عادات سے ہو اس میں میانہ روی لازمی ہے بالخصوص عبادت کہ جس میں دعابھی بالاولی آجاتی ہے اس لیے ضروری ہے انسان بدعت سے محتاط رہے۔عبادات ساری کی ساری توقیفی ہیں یعنی کوئی بھی عبادت بغیر دلیل کے بدعت کے زمرے میں شامل ہوجاتی ہے ،اب وظائف کے تعداد کے بارے میں جوغلو(یعنی حد سے تجاوز کرنا )کہا جاتا ہے کہ صبـح سے لے کر شام تک اللہ ھو اللہ ھو کا ورد کریںیا دوسرا تو یہ درست نہیں لیکن بدعت کے ڈر سے ذکرسے کنارہ کشی اختیا ر کرنا بھی درست نہیں ہے لیکن بعض اذکا ر عدد کے مطابق کرنے چاہیے جن کی تعداد صحیح احادیث سے ثابت ہے جیساکہ اللہ رسول ﷺ کا فرما ن ہے ۔

من صلی علی حین یصبح عشراوحین یمسی عشرا ادرکتہ شفاعتی یوم القیامۃ(صحیح ترغیب وترھیب)

’’جس نے مجھ پر صبح و شام دس دس مرتبہ درود شریف پڑھاقیامت کے دن اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔‘‘
اور بعض جگہ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

جیسا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :

اکثر الصلاۃ علی یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ فمن صلی علی صلاۃ صلی اللہ علیہ عشرا (صحیح الجامع الصغیر للابانی)

’’جمعہ والے دن جمعہ والی رات مجھ پر کثرت سے درود پڑھو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نا ز ل فرمائے گا۔‘‘
لہذا اس سے یہ معلوم ہو اکہ جوجو اذکاراحادیث سے ثابت ہیںان کو پڑھنا لازم ہے اور جن احادیث میں وظائف (اذکار ) کی تعداد کو متعین کیا گیا ہو تو انھیںانہیں اعداد میں بجا لانا چاہیےاور ہمیشہ اللہ تعالی کوکثرت سے یاد کرنا چاہیے،اللہ تعالی کا فرمان ہے :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا (الاحزاب:41۔42)

’’مسلمانوں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔‘‘
مزید ارشاد فرمایا:

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ

’’ تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو ۔‘‘
اور کثرت سے درود شریف اور باقی وظائف کا ورد کرنا چاہیے (واللہ اعلم بالصواب)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے