بوڑھوں کے لئے شرعی و معاشرتی رخصتیں:

دین اسلام کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں احکام شریعت پر عمل کرنے کے اعتبار سے عمل کرنے والوں کو انکی استطاعت کے مطابق تکلیف دی گئی ہے،اور ان پر اسی قدر مشقت ڈالی گئی ہے جسے وہ آسانی سے برداشت کرلیں،اور عمل کرنے کے دوران انہیں سختی اور بے جا مشقت نہ سہنی پڑے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ

اس نے دین کے سلسلے میں تم پر سختی نہیں کی۔ (الحج:78)
شریعت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلاۃ والسلام کا مقصد انسانوں پر سختی کرنا نہیں،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

مَا یُرِیدُ اللهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِنْ حَرَجٍ

اللہ تعالیٰ نے قصد نہیں کیا کہ وہ( دین کے سلسلے) میں تم پر سختی کرے۔(سورۃالمائدۃ:06)
بلکہ اللہ تعالیٰ اس دین کے ذریعے اپنے بندوں کے ساتھ آسانی اور نرمی کا ارادہ رکھتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:

یُرِیدُ اللهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

اللہ تعالیٰ تمہارے لئے (دین کے سلسلے میں)آسانی کرنا چاہتا ہے نہ کہ وہ تمہارے لئے سختی چاہتا ہے۔(سورۃ البقرۃ:185)
نیز نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الدِّینَ یُسْرٌ (صحیح بخاری:39)

بلاشبہ یہ دین آسان ہے۔
نیز فرمایا:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ , إِنَّكُمْ لَنْ تَفْعَلُوا , وَلَنْ تُطِیقُوا كُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِهِ , وَلَكِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا (سنن ابی داؤد:1098،ارواء الغلیل:616)

اے لوگو!تم ایسا ہرگز نہیں کرسکتے کہ ہر وہ کام جسکا تمہیں حکم دیا گیا تم اس پر عمل کرلو، البتہ تم اعتدال کی راہ اختیار کرو اور خوشخبری حاصل کرو۔
اور جو شخص دین اسلام پر عمل کرنے میں بے جا سختی اور تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس سے اسے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی بلکہ مشقت سہنے کے علاوہ اسے نبی كکریم ﷺ کی بیان کردہ ملامت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا نبی آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا:

هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ (صحیح مسلم ،کتاب العلم،باب ھلك المتنطعون)

’’تشدد اختیار کرنے والے ہلاک ہوگئے۔‘‘
نیز اس طرح ممکن بھی نہیں کہ کوئی شریعت کی سو فیصد اتباع کرے ،شرعی رخصتوں سے فائدہ نہ اٹھائے ،صرف عزیمتوں پر عمل کرتا رہے کیونکہ بہرحال انسان ہونے کے ناطے کہیں نہ کہیں کمزور پڑجائے گا ،اور شرعی رخصت کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے گا،نبی کریمﷺ نے فرمایا:

وَلَنْ یُشَادَّ الدِّینَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ

’’جو کوئی دین سے زور آزمائی کرے گا دین اسے پچھاڑدے گا۔‘‘(صحیح بخاری:39)
سابقہ شریعتوں (عیسوی و موسوی علیہما السلام)میں جن لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا انکی ہلاکت کو بیان کرتے ہوئے نبی معظمﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِتَشْدِیدِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ، وَسَتَجِدُونَ بَقَایَاهُمْ فِی الصَّوَامِعِ وَالدِّیَارَاتِ

’’اپنے اوپر سختینہ کرو کیونکہ تم سے پہلے جن لوگوں نے خود پر سختی کی وہ ہلاک ہوگئے اور انکے باقی ماندہ لوگ تم (راہبوں کی) کُٹیاؤں اور خانقاہوں میں پالو گے۔ ‘‘
(طبرانی اوسط:3078،الصحیحۃ:3124)
پادریوں،راہبوں اور راہبات نے کس طرح دین اور محبت کے نام پر اپنے اوپر تشدد کو لازم کیا اور ہر طرح کی آسائش کو خود پر حرام کرلیا ، ترک دنیا کرکےٹاٹ اور بوری کا لباس پہنا،گھٹیا خوراک کھائی،موسم کی سختی کو جھیلا،شادی نہ کی ،اور پھر جب وہ برداشت نہ کرسکے تو ان میں کس قدر بگاڑ آیا یہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے،اور آج بھی انکی باقیات کٹر یہودیوں اور عیسائیوں (صیہونیوں) کی شکل میں موجود ہیں۔
شریعت اسلام کی اس سہولت و سماحت کا تعلق مرد و عورت امیر و غریب،جوان و بوڑھوں ،مریض و صحیح،اور مقیم و مسافر،مجبورولاچار،سبھی سےہے،البتہ بعض احوال و ظروف میں رخصت پر عمل کرنا عزیمت پر عمل کرنے کی نسبت فرض ہوتا ہے جبکہ دیگر بعض میں عزیمت پر عمل کرنا فرض ہوجاتا ہے،ایسے ہی بسا اوقات رخصت کو اختیا ر کرنا افضل ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات رخصت پر عمل کرنا مباح ہوتا ہے،اس میں کچھ فضیلت نہیں ہوتی،اسکا انحصار حالت و کیفیات پر ہے۔
گذشتہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ بوڑھے اور بزرگ افراد پر کچھ معاشرتی و شرعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںیہ ذمہ داریاں ان حقوق کے مقابلے میں ہیں جو انہیں عطا کئے گئے اسی طرح ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے مقابلے میں انہیں بہت سی رخصتیں بھی دی گئی ہیں،یہ دو قسم کی ہیں ایک شرعی رخصتیں دوم معاشرتی رخصتیں،ذیل میں ہر ایک کی تفصیل درج ہے۔

شرعی رخصتیں:

بوڑھوں میںچونکہ جوانوں جیسی چستی و طاقت نہیں ہوتی اور جسمانی طور پر وہ کمزور ہوجاتے ہیں لہذا انہیں بدنی عبادات جو کہ فرض ہوں میں کچھ رعائتیں دی گئی ہیں۔
یہ تمام فرائض ایسی عبادات ہیں جن کی ادائیگی کے لئے جسم کو مشقت اٹھانی پڑتی ہے ،لہذا جو جسم اس مشقت کو اٹھانے کے قابل نہ ہوں مثلاً: کمزور و بوڑھا جسم توان کے لئے کچھ رعائتیں دی گئی ہیںالبتہ مالدار حضرات کے لئے خالصتاً مالی عبادات میں کوئی رعایت نہیں ،اگرچہ جسمانی طور پر وہ نحیف و عاجز ہوں، تفصیلات درج ذیل ہے:
فرائض و واجبات کی رخصتیں

نماز کی رخصتیں:

بوڑھے اور عمررسیدہ افراد عموماً جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں،اور انکے اعصاب کمزور پڑجاتے ہیں بسااوقات انکی تکلیف شدت اختیار کرجاتی ہے،جسکے باعث انہیںخاص طور پر نماز کے دوران قیام میں کھڑا رہنے، قیام سے رکوع میں جانے ،رکوع سے پھر قومہ میں آنے، پھر سجدے میں جانے اور اٹھنے ،بیٹھنے کے دوران جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہے،بعض اوقات موتیا کے آپریشن کے باعث ڈاکٹر انہیں سجدے کی کیفیت اختیار کرنےسے روک دیتے ہیں،بسا اوقات کمزوری یا بیماری کے غلبے یا دیگر عوارض کے باعث بہت سے واجبات نماز کی ادائیگی انکے لئے مشکل ہوجاتی ہے،تو دین اسلام کا کمالی و اعجازی پہلو اس قسم کی صورتحال سے تہی دامن نہیں بلکہ اس بارے میں واضح ہدایات فراہم کرتا ہے۔
امام ابن تیمیہ (المتوفیٰ:728ھ)رحمہ اللہ نے کہا:

وَالشَّرِیعَةُ طَافِحَةٌ بِأَنَّ الْأَفْعَالَ الْمَأْمُورَ بِهَا مَشْرُوطَةٌ بِالِاسْتِطَاعَةِ وَالْقُدْرَةِ كَمَا {قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ: صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ} .
وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّیَ إذَا عَجَزَ عَنْ بَعْضِ وَاجِبَاتِهَا: كَالْقِیَامِ أَوْ الْقِرَاءَةِ أَوْ الرُّكُوعِ أَوْ السُّجُودِ أَوْ سَتْرِ الْعَوْرَةِ أَوْ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ أَوْ غَیْرِ ذَلِكَ سَقَطَ عَنْهُ مَا عَجَزَ عَنْهُ. وَإِنَّمَا یَجِبُ عَلَیْهِ مَا إذَا أَرَادَ فِعْلَهُ إرَادَةً جَازِمَةً أَمْكَنَهُ فِعْلُهُ وَكَذَلِكَ الصِّیَامُ اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّهُ یَسْقُطُ بِالْعَجْزِ عَنْ مِثْلِ:الشَّیْخِ الْكَبِیرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِیرَةِ الَّذِینَ یَعْجِزُونَ عَنْهُ أَدَاءً وَقَضَاءً وَإِنَّمَا تَنَازَعُوا هَلْ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ الْفِدْیَةُ بِالْإِطْعَامِ؟ فَأَوْجَبَهَا الْجُمْهُورُ: كَأَبِی حَنِیفَةَ وَالشَّافِعِیِّ وَأَحْمَد وَلَمْ یُوجِبْهَا مَالِكٌ وَكَذَلِكَ الْحَجُّ: فَإِنَّهُمْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهُ لَا یَجِبُ عَلَى الْعَاجِزِ عَنْهُ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إلَیْهِ سَبِیلًا}

شریعت میں بے شمار دلائل ہیں کہ جن افعال کی ادائیگی کا حکم ہے وہ استطاعت و قدرت کے ساتھ مشروط ہیں، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے عمران بن حصین ؄سے کہا تھا کہ:کھڑے ہوکر نماز پڑھو ،اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر،پھر بھی طاقت نہ ہو تو پہلو پر لیٹ کر۔
مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ نماز پڑھنے والا جب بعض واجباتِ نماز کی ادائیگی سے عاجز ہو مثلاً:قیام ، قراءت، رکوع ،سجود،ستر عورۃ،استقبال قبلہ،وغیرہ تو وہ اس سے ساقط ہوجائیں گے،اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ بوڑھے مرد و عورت سے روزہ ساقط ہوجائے گا جب وہ اسے رکھنے اور قضاء دینے سے عاجز ہوں،ایسے ہی حج کے سلسلے میں بھی اتفاق ہے کہ وہ بھی عاجز پر فرض نہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:لوگوں پر اللہ کے لئے حج کرنا فرض ہے جو اسکی طاقت رکھتے ہوں۔(آل عمران:97)(مجموع الفتاوی:8/438)
٭سیدنا عمران بن حصین ؄جن کا اس حدیث میں ذکر ہوا انہیں” بواسیر“ کا عارضہ لاحق تھا،جسکی بناء پر انہیں نماز کے بعض ارکان کی ادائیگی میں دشواری ہوتی چنانچہ نبی کریم ﷺ نے انہیں بعض رعائتیں دیں۔
٭ایسے ہی نبی رحمتﷺ ایک مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے آپ نے دیکھا کہ وہ تکیےنما کسی چیز پر نماز پڑھ رہا ہے تو آپ نے اسے ہٹادیا ،پھر اس نے کو لکڑی کی بلی پکڑلی تاکہ اس پر نماز پڑھے تو آپ نے اسے بھی ہٹادیا اور فرمایا:

صَلِّ عَلَى الأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ ، وَإِلاَّ فَأَوْمِئْ إِیمَاءً ، وَاجْعَلْ سُجُودَكَ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِكَ

زمین پر نماز پڑھو اگر طاقت ہو ،وگرنہ اشارے سے نماز پڑھ لو ،اور سجدوں میں رکوع سے زیادہ جھکو۔(بیہقی صغری:590،الصحیحۃ:323)
(تنبیہ)نماز میں تکیے یا لاٹھی کا استعمال اسوقت منع ہے جب انہیں اٹھا کر ان پر سجدہ کیا جائے،اور خود نہ جھکا جائے،لیکن اگر تکیہ زمین پر پڑا ہو اور پھر اس پر سجدہ کیا جائےتو حرج نہیں جیسا کہ امام سفیان الثوری رحمہ اللہ (المتوفی:161ھ)نے کہا۔(ایضاً)
نیزسیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ یَسْجُدَ فَلْیَسْجُدْ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَلَا یَرْفَعْ إِلَى جَبْهَتِهِ شَیْئًا لِیَسْجُدَ عَلَیْهِ، وَلَكِنَّ رُكُوعَهُ وَسُجُودَهُ یُومِئُ بِرَأْسِهِ

تم میں سے جو (زمین پر)سجدہ کرسکتا ہے وہ سجدہ کرے،اور جو نہیں کرسکتاتو وہ اپنی پیشانی کی جانب کوئی شے اٹھائے نہیں،تاکہ اس پر سجدہ کرے،لیکن اپنے رکوع و سجود میں سر سےاشارہ کرے۔(طبرانی اوسط:7089، الصحیحۃ:323)
نیز حسن بصری رحمہ اللہ کی والدہ جناب خیرۃ جو کہ سیدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ لونڈی تھیں نے کہا:

رَأَیْتُ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَسْجُدُ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ مِنْ رَمَدٍ بِهَا

میں نےسیدہ ام سلمہ کو دباغت شدہ چمڑے کے تکیے پر سجدہ کرتے دیکھا ،انکی آنکھوں میں سوجن کی وجہ سے۔
(بیہقی کبری:3674،مسندشافعی:555،مصنف عبدالرزاق:4145)
نیزسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمابھی بوقت عذر تکیے و گدےپر سجدہ کرنے کی اجازت دیتے تھے۔(بیہقی کبری:3675)
٭اسی طرح حالت قیام میںیا ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال میں بیساکھی یا کسی ستون یا ہاتھوں کا سہارا لیا جائے تو اس میں بھی حرج نہیں،خود رسول اللہ ﷺ جب تکلیف میں ہوتے تو چار زانو ہوکر بیٹھتے پھر نماز پڑھتے،ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے کہا:

رَأَیْتُ اَلنَّبِیَّ – صلى الله علیه وسلم – یُصَلِّی مُتَرَبِّعًا

میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ نماز پڑھ رہے تھے چونپڑی مارکر۔(سنن نسائی:1661،اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا:تعلیق صحیح ابن خزیمہ:978)
نیز سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہانے کہا:

لَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ، اتَّخَذَ عَمُودًا فِي مُصَلَّاهُ يَعْتَمِدُ عَلَيْهِ

جب نبی معظم ﷺ عمررسیدہ اور وزنی ہوگئے تو آپ نے اپنی نماز کی جگہ ستون بنالیا جس پر آپ (حالت قیام میں)ٹیک لگالیتے۔(سنن ابی داؤد:949،الصحیحۃ:319)
٭ایسے ہی بہت سے بزرگ افراد ”سلسل البول“کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں،اور بہت سے”سلسل الریاح“کے مرض کا شکار ہوتے ہیں،انہیں پیشاپ کے ”قطرات“ اور”ریاح“ کو روکنے پر کنٹرول نہیں ہوتا یا ”ریاح“ کو روکنا انکے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، یہ چیزیں ناقض وضو ہیں وضو کو توڑ دیتی ہیں ،جبکہ وضو نماز کے لئے شرط ہے،تو انکے متعلق بھی شرعی رہنمائی موجود ہے،کہ یہ حضرات اپنا علاج کرواتے رہیں اور دوران علاج چند احتیاطی تدابیر اختیار کریں:
٭نماز کے وقت اچھی طرح فراغت حاصل کرلیں اوراستنجاء کرلیں ،کیونکہ پیشاپ کے بعد استنجاء کرنا فرض ہے۔
٭ہر نماز کے لئے نیا وضو کریں۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فاطمہ بنت ابی حبیش کو حکم دیا تھا جب انہوں نے استحاضہ کی شکایت کی۔
٭نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کریں ،اس سے پہلے وضو نہ کریں،الا یہ کہ پہلے سے کیا گیا وضو وقت شروع ہونے پر بر قرار ہو۔
٭وضو کرنے کے بعد ایک چلو پانی لیکر شرمگاہ والے حصے پر جو کپڑا ہوتا ہے اس پر چھڑک دیں،اس سے وہ حصہ تر ہوجائے گا۔
پھر اگر نماز میں قطرہ نکل بھی جائے تووضو ٹوٹنے کا وسوسہ نہیں ہوگا بلکہ ذہن اس تری کی جانب منتقل ہوجائے گا جو پانی چھڑکنے سے حاصل ہوئی۔
٭بعض روایات میںایک صحابی کے متعلق آیا ہے کہ جب وہ بوڑھے ہوگئے تو انہیں سلسل البول کا عارضہ لاحق ہوا وہ حتی الامکان اسکا علاج کرواتے،لیکن جب مرض بڑھ جاتا تو اسی یعنی سلسل البول کی حالت میں نماز پڑھ لیتے۔واللہ اعلم(بیہقی کبری:1669-سنن دارقطنی:776-مصنف عبدالرزاق:582-المعرفۃ للبیہقی:580،مصنف ابن ابی شیبہ:2107-الاوسط لابن المنذر:58-3073)
٭نیزبہت سے بزرگ افراد ”نسیان“کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں،انکی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے ،وہ زیادہ دیر تک کچھ یاد نہیں رکھ پاتے،بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے یا نہیں،یا کتنی رکعات پڑھی ہیں، کتنے سجدے کئے ہیں،وضو کیا تھا یا نہیں وغیرہ اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جو اس نوع کے مریضوں کو درپیش ہوتے ہیں،یعنی وہ کوئی بھی بات صحیح طور پر یاد نہیں رکھ پاتے،تو شریعت میں انکے لئے یہ رخصت ہے کہ وہ جسقدر یاد رکھ پائیں اسی قدر کے مکلف ہیں اور جو کچھ وہ بھول جاتے ہیں یاد کرنے کے باوجود یاد نہیں کرپاتے تو وہ اسکے مکلف نہیں، اگر اسکی وجہ سے انکی نماز رہ جائے تو وہ معاف ہے ان شاء اللہ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ (الاعراف:42)

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ، ہم کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے،تو یہ لوگ ہی جنتی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
نیز فرمایا:

وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَلَدَیْنَا كِتَابٌ یَنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ (سورۃالمومنون :60-62)

’’جو لوگ عمل کرتے ہیں جو وہ کرتے ہیں،اور انکے دل بھی ڈرتے رہتے ہیں،کہ انہیں اپنےرب کے پاس لوٹ جانا ہے،یہی لوگ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ جاتے ہیں ،اور ان میں وہ سبقت کرتے ہیں،اور ہم بھی کسی کو اسکی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے،اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق بیان کرتی ہے،اور ان پر (اجر کے سلسلے میں)کمی نہ کی جائے گی۔‘‘
نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأَ، وَالنِّسْیَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَیْهِ

اللہ تعالی نے میری امت سے خطا،بھول،اور زبردستی کو معاف کردیا ہے۔(سنن ابن ماجہ:2043،ارواء الغلیل:82)
یعنی جو کام بھول چوک سے غلط ہوجائے اس پر گناہ نہیں البتہ اسکا حکم باقی رہے گا،مثلاً:نماز فرض ہوگی لیکن اگر بھول سے رہ جائے تو اس پر گناہ نہ ہوگا ،البتہ اگر بھول سے ایسا کام ہوجائے جس سے کسی کا نقصان ہوجائے تو نقصان کی بھروائی واجب ہوگی،اگر چہ نقصان کرنے پر گناہ نہ ہوگا۔
امام ابن رجب الحنبلی (المتوفی:795)رحمہ اللہ نے کہا:

وَالْأَظْهَرُ – وَاللَّهُ أَعْلَمُ – أَنَّ النَّاسِیَ وَالْمُخْطِئَ إِنَّمَا عُفِیَ عَنْهُمَا بِمَعْنَى رُفِعَ الْإِثْمُ عَنْهُمَا، لِأَنَّ الْإِثْمَ مُرَتَّبٌ عَلَى الْمَقَاصِدِ وَالنِّیَّاتِ، وَالنَّاسِی وَالْمُخْطِئُ لَا قَصْدَ لَهُمَا، فَلَا إِثْمَ عَلَیْهِمَا، وَأَمَّا رَفْعُ الْأَحْكَامِ عَنْهُمَا فَلَیْسَ مُرَادًا مِنْ هَذِهِ النُّصُوصِ، فَیُحْتَاجُ فِی ثُبُوتِهَا وَنَفْیِهَا

إِلَى دَلِیلٍ آخَرَ.
راجح یہ ہے کہ بھول یا چوک کرنے والے سے درگزر کیا گیا ہے اس معنی میں کہ ان پر گناہ نہ ہوگا ،کیونکہ گناہ کا تعلق قصد و ارادے سے ہوتا ہے،اور بھول جانے یا چوک جانے والے کا قصد نہیں ہوتا،لہذا ان پر گناہ نہیں،جبکہ ان احادیث میں حکم کا ساقط ہوجانا مراد نہیں ہے،وہ ثابت رہے گا یا نہیں اسکے لئے دیگر دلائل دیکھیں جائیں گے۔(جامع العلوم والحکم-2/369)
علامہ اسماعیل بن محمد الانصاری(المتوفیٰ:1417ھ) رحمہ اللہ نے کہا:

رفع الإثم عن المخطىء والناسی والمستكره ، وأما الحكم فغیر مرفوع ، فلو أتلف شیئا خطأ ، أو ضاعت منه الودیعة نسیانا ضمن ، ویستثنى من الإكراه : الزنى والقتل فلا یباحان بالإكراه ، ویستثنى من النسیان : ما تعاطى الإنسان سببه ، فإنه یأثم بفعله لتقصیره .

’’بھول چوک جانے والے اور مجبور کردیئے جانے والےسے گناہ اٹھالیا گیا ہے ،جبکہ حکم نہیں اٹھایا گیا،لہذا اگر وہ غلطی سےکوئی شے ضائع کردے،یا اس سے کسی کی امانت بھول سے ضائع ہوجائے،تو وہ بھروائی کرے گا،اور اکراہ(زبردستی مجبور کردینے)سے زنا اور قتل مستثنی ہیں،یہ دونوں اکراہ سے جائز نہ ہوں گے،جبکہ نسیان(بھول جانے)سے وہ جھگڑا مستثنی ہے جسکا یہ سبب بن جائے،اس صورت میں یہ اپنے اس فعل پر گناہگار ہوگا کیونکہ اس نے تقصیر کی ہے۔(التحفۃ الربانیۃ ،ص:89)
علامہ سلیمان بن عبد القوی بن عبد الکریم الطوفی الصرصری، ابو الربیع، نجم الدین (المتوفی: 716 هـ)رحمہ اللہ نے کہا:

والأشبه العفو عن الإثم، فمن ثم قیل: الكلام فی الصلاة، والأكل فی الصوم والوطء فیه، وفی الحج ناسیا یبطلهن حكما، ولا إثم على الفاعل.

راجح یہ ہے کہ گناہ معاف کیا گیا ہے،لہذا کہا جاتا ہے کہ نماز میں بھول سے کلام کرلینا،یا روزے میں کھا پی لینایا جماع کرلینا،ایسے ہی حج میں تو انکاحکم یہ ہے کہ وہ باطل ہوجائیں گے لیکن ایسا کرنے والے پر گناہ نہ ہوگا۔ (التعیین فی شرح الاربعین:1/323)
سابق مفتی اعظم سعودیہ الشیخ بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:

س:أصیبت والدتی بمرض النسیان، وعالجناها ولم نخرج بنتیجة، فمضى علیها أربع سنوات، وهی بهذه الحالة، ولم تصم أیاما من رمضان، مرة تأكل فیه بسبب النسیان، رغم أن صحتها جیدة، ثم توفیت على إثر حادث، خرجت من البیت بغیر إذن منا، وتاهت، وبعد البحث عنها، وجدناها قد صدمها صاحب سیارة صغیر فی السن، وهرب، وتركها، وتوفیت، ماذا أفعل فی الأیام التی تركتها، ولم تصمها، وهل نتنازل عن دیتها للمتسبب، رغم أنه غنی، أم آخذ الدیة، وأتصدق بها على المستحقین؟
ج:إذا كان عقلها قد تغیر، وذاكرتها قد تغیرت، لا تضبط شیئا فقد اختل عقلها ولا علیها شیء ؛ إذا كان عقلها قد اختل، لم تعد تضبط الأمور، فلیس علیها شیء، ولیس علیكم الصیام عنها، أما الدیة فینبغی أن تأخذوا الدیة، وهی حلال لكم وإرث لكم فتأخذون الدیة، وتتصرفون فیها كسائر أموالكم، تأكلونها، أو تتصدقون بها، أو تفعلون بها أشیاء أخرى مما أباح الله.

سوال:ہماری والدہ کو بھولنے کا عارضہ لاحق ہوا،ہم نے علاج کروایا لیکن فائدہ نہ ہوا،اسی طرح چار سال گزرگئے، اس دوران وہ رمضان کے روزے بھی نہ رکھ پائیں،وہ روزے میں بھول کر کھا پی لیتیں،بیماری کے باوجود وہ صحتمند تھیں،پھر ایک حادثے میں انکا انتقال ہوگیا، وہ ہمیں بتائے بغیر گھر سے نکلیں،تو ایک کم عمر ڈرائیور نے انہیں ٹکر ماری،اور بھاگ گیا،جس سے وہ فوت ہوگئیں، میرا سوال ہے کہ جن دنوں کے انہوں نے روزے نہیں رکھے میں انکا کیا کروں،اور جو انکی موت کا سبب بنا کیا میںاس سے دیت لینے سے دستبردار ہوجاؤں باوجود کہ وہ مالدار ہے،یا میں دیت لے سکتا ہوں، اور اسے مساکین پر صدقہ کردوں؟
جواب:جب انکی عقل اور یادداشت برقرار نہ رہی،وہ کسی بھی بات کو یاد نہیں رکھ پاتی تھیں،تو انکی عقل مختل ہوگئی ،چنانچہ انکے ذمے کوئی فرض نہ رہا،کیونکہ وہ کسی بھی شے کو یاد نہیں رکھ پاتی تھیں،چنانچہ آپ کے ذمے بھی انکی جانب سے قضا نہیں،جبکہ آپ کو دیت لینی چاہیئے ،وہ آپ کے لئے حلال ہے،آپکی میراث ہے،آپ دیت لے کر اسے اپنے دیگر اموال کی طرح خرچ کرسکتے ہیں،اسے کھا سکتے ہیں،اسے صدقہ کرسکتے ہیں،اور دیگر کام کرسکتے ہیں جو اللہ نے جائز کئے ہوں۔(مجموع فتاوی بن باز،22/356-رقم:223)
البتہ ایسے افراد کو بکثرت یہ دعا کرتے رہنا چاہیئے:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ (البقرة:285)

’’اے ہمارے پروردگار،اگر ہم بھول جائیں یا غلط کر بیٹھیں تو ہماری پکڑ نہ کیجیو،نہ ہی ہم پر اتنا بوجھ لادیو جتنا تو نے ہم سے پہلے والوں پر لادا،نہ ہی ہم سے اسقدر بوجھ اٹھوائیو جسکے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو،ہمیں معاف فرما،ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما،تو ہی ہمارا کارساز ہے،پس کافروں پر ہماری مدد فرما۔‘‘
البتہ ایسے افراد کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں،مثلاً:
ظمسجد کے قریب رہائش اختیار کریں۔
ظنماز باجماعت کا اہتمام کریں۔
ظکسی کا تعاون حاصل کرلیں جو انکو یاددہانی کرواتا رہے۔واللہ اعلم
٭نیز بہت سے بزرگ حضرات کی بینائی انتہائی کمزور ہوجاتی ہے،ایسی ہی انکی سماعت بھی کمزور ہوجاتی ہے،اور مسجد تک کا راستہ خطرات سے خالی نہیں ہوتا،نیز انہیں لانے لیجانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا،تو ایسے افراد کے لئے بہتر ہے کہ وہ جہاں ہوں وہیں نماز ادا کرلیں، مسجد میں جماعت میں شریک نہ ہوں،کیونکہ راستہ انکے لئے سازگار نہیں،اور لانے لیجانے والا بھی کوئی نہیں،جیسا کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدناعتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا:

وَأَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا تَكُونُ الظُّلْمَةُ وَالسَّیْلُ، وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِیرُ البَصَرِ، فَصَلِّ یَا رَسُولَ اللَّهِ فِی بَیْتِی مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلَّى، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّیَ؟ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ مِنَ البَیْتِ، فَصَلَّى فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:اللہ کے رسول اندھیرا ہوتا ہے،سیلاب کا پانی بھی،اور میری نگاہ کمزور ہے،پس آپ میرے گھر میں نماز پڑھ لیجیے تاکہ میں اس جگہ کو مصلیٰ بنالوں ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ انکے گھر آئے اور پوچھا: کونسی جگہ تمہیں پسند ہے میں نماز پڑھ لوں؟انہوں نے ایک جگہ اشارہ کیا،تو وہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی۔(صحیح بخاری:667)
(تنبیہ)البتہ نماز جمعہ کے لیے بہتر ہے کہ کسی طرح مسجد پہنچنے کا اہتمام کیا جائے۔واللہ اعلم
٭نیز بڑھاپے میں بیماریاں حاوی ہوجاتی ہیں،موسم کی تبدیلی یا شدت ناقابل برداشت ہوتی ہے،اوپر سے اعصابی کمزوری بھی ہوتی ہے،لہذا اس حالت میں بھی مسجد میںجماعت سےپیچھے رہنا جائز ہے اگرچہ مسجد قریب ہی ہو، خود رسول اللہ ﷺ بیمار تھے تو مسجد میں جماعت کے لئے حاضر نہ ہوسکے،البتہ گھر میں ہی جماعت کا اہتمام کرلیا،جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا:

صَلَّى رَسُولُ اللهِ صلى الله علیه وسلم فِی بَیْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ، فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِیَامًا، فَأَشَارَ إِلَیْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا؛ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا

رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوئے تو گھر میں نماز پڑھی،آپ بیٹھ گئے ،پیچھے لوگ کھڑے رہے،تو آپ نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا،پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اسکی اقتداء کی جائے ،سو جب وہ رکوع میں چلا جائے پھر تم رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھالے پھر تم سر اٹھاؤ،اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔(صحیح بخاری:688)
ابراہیم النخعی(المتوفی:95ھ) رحمہ اللہ نے کہا:

مَا كَانُوا یُرَخِّصُونَ فِی تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ، إِلاَّ لِخَائِفٍ ، أَوْ مَرِیضٍ

صحابہ کرام خائف اور مریض کے سوا کسی کو جماعت ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ:3523)
(تنبیہ)واضح رہے یہ سب رخصتیں ہیں ان افراد کے لئے جو عام حالت اختیار کرکے نماز ادا نہیں کرسکتے۔

روزے کی رخصتیں:

بوڑھے کمزورافراد جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یا انہیں برداشت سے زیادہ مشقت سہنی پڑتی ہے تو انکے لئے رخصت ہے کہ وہ روزے کے بجائے فدیہ ادا کردیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

پس تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر میں ہو،وہ دوسرے دنوں میں(رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی) گنتی پوری کرلے،اور جو لوگ اسکی طاقت رکھتے ہیں(مشقت کے ساتھ)انکے ذمے فدیہ ہے،ایک مسکین کا کھانا،پس جو زیادہ دے تو وہ اسکے لئے بہتر ہے،اور تم روزہ رکھو یہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے اگر تمہیں یقین ہو۔(سورۃ البقرۃ:184)
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا:

لَیْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّیْخُ الْكَبِیرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِیرَةُ لَا یَسْتَطِیعونَ أَنْ یَصُومَا فَیُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ یَوْمٍ مِسْكِینًا.

یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ بوڑھے مرد و عورت کے بارے میں ہے،جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلادیں۔(صحیح بخاری:4505)
نیز کہا:

رُخِّصَ لِلشَّیْخِ اَلْكَبِیرِ أَنْ یُفْطِرَ, وَیُطْعِمَ عَنْ كُلِّ یَوْمٍ مِسْكِینًا, وَلَا قَضَاءَ عَلَیْهِ (وهذا إسناد صحیح)

بوڑھے آدمی کو رعایت دی گئی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلادے،اور اس پر قضاء بھی نہیں۔(سنن دارقطنی:2380)
نیز حسن بصری اور ابراہیم النخعی رحمہما اللہ نے کہا:

إِذَا خَافَتَا عَلَى أَنْفُسِهِمَا أَوْ وَلَدِهِمَا تُفْطِرَانِ ثُمَّ تَقْضِیَانِ، وَأَمَّا الشَّیْخُ الكَبِیرُ إِذَا لَمْ یُطِقِ الصِّیَامَ فَقَدْ أَطْعَمَ أَنَسٌ بَعْدَ مَا كَبِرَ عَامًا أَوْ عَامَیْنِ، كُلَّ یَوْمٍ مِسْكِینًا، خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأَفْطَرَ

دودھ پلانے والی یا حاملہ خاتون کو اگر اپنے متعلق یا بچے کے متعلق کوئی اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑدیں ،بعد میں قضا دیں،جبکہ بوڑھا آدمی اگر روزے کی طاقت نہ رکھے تو انس بن مالک نے بوڑھے ہونے پر ایک سال یا دو سال تک ہر دن کے بدلے مسکین کو کھانا کھلایا(یعنی فدیہ دیا)روٹی یا گوشت اور روزہ چھوڑدیا۔(صحیح بخاری)
٭اور اگر فدیہ ادا کرنے کی بھی طاقت نہیں تو اس پر فدیہ بھی واجب نہیںلیکن بہتر ہوگا کہ کوئی مسلمان اسکی جانب سے فدیہ نکال دے،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے انہوں نے کہا:

عَنْ عَائِشَةَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی المَسْجِدِ، قَالَ: احْتَرَقْتُ، قَالَ:مِمَّ ذَاكَ، قَالَ: وَقَعْتُ بِامْرَأَتِی فِی رَمَضَانَ، قَالَ لَهُ: تَصَدَّقْ ،قَالَ: مَا عِنْدِی شَیْءٌ، فَجَلَسَ، وَأَتَاهُ إِنْسَانٌ یَسُوقُ حِمَارًا وَمَعَهُ طَعَامٌ – قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا أَدْرِی مَا هُوَ – إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَیْنَ المُحْتَرِقُ؟ فَقَالَ: هَا أَنَا ذَا، قَالَ: خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنِّی، مَا لِأَهْلِی طَعَامٌ؟ قَالَ: فَكُلُوهُ۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: الحَدِیثُ الأَوَّلُ أَبْیَنُ، قَوْلُهُ: أَطْعِمْ أَهْلَكَ۔

ایک شخص مسجد میں نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ:میں جل گیا۔آپ نے پوچھا :وہ کیسے؟اس نے کہا:میںرمضان میں اپنی بیوی پر واقع ہوگیا(صحبت کرلی)۔آپ نے اس سے کہا:صدقہ دو۔اس نے کہا:میرے پاس کچھ نہیں۔پھر وہ بیٹھ گیا،اور ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس گدھے پر اناج لے کر آیا،آپ نے پوچھا:وہ آدمی کہاں ہے ؟اس نے کہا:میں یہیں ہوں، آپ نے فرمایا:یہ لو اسے صدقہ کردو۔اس نے کہا:اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر،جبکہ میرے گھر والوں کے لئے کھانے کو کچھ نہیں؟آپ نے فرمایا:پھر یہ تم ہی کھالو۔ایک روایت میں ہے-:یہ اپنے گھر والوں کو کھلادو۔(صحیح بخاری:6822)
البتہ اگر بوڑھا شخص روزہ رکھنے کی بلا مشقت طاقت رکھتا ہے تو اس پر روزہ رکھنا فرض ہے ۔

حج وعمرہ کی رخصتیں:

٭جس بوڑھے کمزور پرحج فرض ہو چکا ہو (یعنی مالی اعتبار سے)لیکن سفر وغیرہ کی طاقت نہ ہوتووہ کسی کو اپنا نائب بنادے،اپنی جگہ اسے حج پر روانہ کردے،جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ:

جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ عَامَ حَجَّةِ الوَدَاعِ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِیضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِی الحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِی شَیْخًا كَبِیرًا لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَسْتَوِیَ عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ یَقْضِی عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔

خثعم قبیلے کی ایک خاتون نے حجۃ الوداع کے موقع پرکہا:اللہ کے رسول فریضہ حج نے میرے والد کو پالیا،جو بوڑھا ہے،سواری پر نہیں بیٹھ سکتا،کیا میں اسکی طرف سے حج کرلوں؟آپ نے فرمایا:ہاں۔(صحیح بخاری:1854)
سیدنا ابورزین العقیلی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:

یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَبِی شَیْخٌ كَبِیرٌ لَا یَسْتَطِیعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ قَالَ: ” حُجَّ عَنْ أَبِیكَ وَاعْتَمِر

اللہ کے رسول میرے والد بوڑھے ہیں،حج و عمرہ اور سفر کی طاقت نہیں رکھتے؟آپ نے فرمایا:اپنے والد کی طرف سے حج و عمرہ ادا کرلو۔(سنن ترمذی:930،صحیح ابی داؤد:1588)
٭اگر حج کے لئے نکلا نہ ہو مگر نکلنا چاہتا ہولیکن بیماری وغیرہ کا اندیشہ ہو،تو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد نکل جائے ،جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے کہا کہ:

دَخَلَ النَّبِىُّ -صلى الله علیه وسلم- عَلَى ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أُرِیدُ الْحَجَّ وَأَنَا شَاكِیَةٌ. فَقَالَ النَّبِىُّ -صلى الله علیه وسلم- حُجِّى وَاشْتَرِطِى أَنَّ مَحِلِّى حَیْثُ حَبَسْتَنِى (صحیح مسلم،کتاب الحج،بَابُ جَوَازِ اشْتِرَاطِ الْمُحْرِمِ التَّحَلُّلَ بِعُذْرِ الْمَرَضِ وَنَحْوِهِ)

نبی کریمﷺ ضباعہ بنت زبیررضی اللہ عنہما(آپکی چچا زاد ہمشیرہ)کے پاس آئے تو انہوں نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ میں حج کے لئے جانا چاہتی ہوں لیکن بیمار ہوں؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا:حج کرلو اور (احرام باندھتے وقت)شرط لگالو کہ:میں اس جگہ حلال ہوجاؤں گی(احرام کھول دوں گی) جہاں تو مجھے روک لے۔
(وضاحت)یعنی جہاں بیماری کی وجہ سے حج کی ادائیگی دشوار ہوگئی وہیں حج روک دوں گی۔
٭اگر حج کے لئے نکل چکا ہو اور احرام باندھتے وقت ایسی شرط بھی نہیں لگائی لیکن وہاں پہنچ کر بیمار ہوجائے،یا ادائیگی کے دوران بیمار ہوجائے تو وہ بھی حلال ہوجائے،جیسا کہ عکرمہ رحمہ اللہ نے کہا کہ :عبداللہ بن رافع مولی ام سلمہ رحمہما اللہ نے کہا کہ:میں نے حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ سے محرم(جس نے احرام باندھا ہو) کے (کسی عذر کے باعث) روک دیئے جانے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كُسِرَ أَوْ مَرِضَ أَوْ عَرَجَ، فَقَدْ حَلَّ، وَعَلَیْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ. قَالَ عِكْرِمَةُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا هُرَیْرَةَ فَقَالَا: صَدَقَ.

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جسکی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ بیمار ہوجائے یا لنگڑا ہوجائے وہ حلال ہوجائے اور اس پر آئندہ سال حج ہوگا۔عکرمہ نے کہا کہ:میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابو ہریرہ سے بیان کی تو ان دونوں نے کہا کہ:حجاج بن عمرو نے سچ کہا۔رحمہم اللہ(سنن ابی داؤد:1864،صحیح ابن ماجہ:2498)
٭اگر طواف میں رمل (تیز چلنا)ایسے ہی صفا و مروہ کے درمیان سعی(دوڑنے) کی طاقت نہ ہو تو چل لے،جیسا کہ کثیر بن جہمان تابعی رحمہ اللہ نے کہا کہ:

رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا یَمْشِی فِی الْمَسْعَى بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَتَمْشِی مِنَ الصَّفَا إِلَى الْمَرْوَةِ؟ فَقَالَ: إِنْ سَعَیْتُ فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْعَى، وَإِنْ أَمْشِی فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْشِی، وَأَنَا شَیْخٌ كَبِیرٌ

میں نے سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما کودیکھا کہ وہ صفاو مروہ کی سعی میں چل رہے ہیں ،میں نے کہا:ابو عبدالرحمن آپ چل رہے ہیں؟انہوں نے کہا:اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر میں چل رہا ہوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور میں بوڑھا ہوں۔(سنن ترمذی:864،صحیح ابی داؤد:1662)
٭اور اگر چلنے کی بھی طاقت نہ ہو تو سوار ہوجائے،جیسا کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہانےکہا کہ:

شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنِّی أَشْتَكِی فَقَالَ:طُوفِی مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ قَالَتْ: فَطُفْتُ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَئِذٍ یُصَلِّی إِلَى جَنْبِ الْبَیْتِ، وَهُوَ یَقْرَأُ بِالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ

میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے بیمار ہونے کا بتایا تو آپ نے فرمایا:سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے رہ کرطواف کرلو۔ام سلمہ نےکہا کہ:چنانچہ میں نے طواف کیا،جبکہ رسول اللہ ﷺ اس وقت بیت اللہ کے پہلو میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ سورۃ الطور کی تلاوت کررہے تھے۔(صحیح بخاری:464)
٭کمزور مرد و خواتین مزدلفہ سے منی کے لئے رات میں ہی روانہ ہوسکتے ہیں تاکہ رش اور دھکم پیل سے بچ جائیں،جیسا کہ سالم رحمہ اللہ نے کہا:

وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا یُقَدِّمُ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، فَیَقِفُونَ عِنْدَ المَشْعَرِ الحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِلَیْلٍ فَیَذْكُرُونَ اللَّهَ مَا بَدَا لَهُمْ، ثُمَّ یَرْجِعُونَ قَبْلَ أَنْ یَقِفَ الإِمَامُ وَقَبْلَ أَنْ یَدْفَعَ، فَمِنْهُمْ مَنْ یَقْدَمُ مِنًى لِصَلاَةِ الفَجْرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَقْدَمُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَدِمُوا رَمَوْا الجَمْرَةَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا یَقُولُ: أَرْخَصَ فِی أُولَئِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمااپنے کمزور اہل خانہ کو رات میں ہی روانہ کردیا کرتے تھے،پس وہ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس کچھ رات وقوف کرتے،اللہ کا ذکر کرتے،پھر امام کے (مزدلفہ میں)وقوف کرنے اور (منی کے لئے) روانہ ہوجانے سے پہلے ہی (منی) لوٹ آتے ،ان میں سے کچھ نماز فجر سے پہلے منی پہنچتے اور کچھ نماز فجر کے بعد،جب وہ پہنچ جاتے تو رمی بھی کرلیتے،اور سیدناابن عمر کہا کرتے تھے کہ :ان لوگوں کے لئے رسول اللہ ﷺ نے رعایت دی ہے۔(صحیح بخاری:1676)
٭یہ چند رخصتیں ہیں جو بطور مثال کے پیش کی ہیں انکے علاوہ بھی کئی رخصتیں ہیں جن کا تعلق کمزوروں اور بیماروں سے ہے۔

زکاۃ

زکاۃ مالی عبادت ہے ،صرف صاحب نصاب مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا،اس میں کسی طرح کی بدنی مشقت نہیں ،لہذا اس میں کوئی رعایت نہیں۔واللہ اعلم

جھاد فی سبیل اللہ کی رخصتیں:

٭کمزور بوڑھوں پر جہاد فرض نہیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِینَ لَا یَجِدُونَ مَا یُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِینَ مِنْ سَبِیلٍ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ

کمزوروں ، بیماروں اور ناداروں پر (جہاد و قتال سے پیچھے رہنے میں)حرج نہیں جب وہ اللہ اور اسکے رسول کے خیر خواہ ہوں، نیکوکاروں پر کوئی حرج نہیں،اور اللہ بخشنے والا ، مہربان ہے۔(سورۃ التوبۃ:91)
٭لیکن اگر وہ امیر ہیں یا امیر کی جانب سے مقرر ہیں تو ان پر امیر کی اطاعت فرض ہے۔
٭لیکن جو بوڑھے حضرات امیر یا مامور نہ ہوں تو وہ جہاد میںفضیلت و شہادت کے حصول کی خاطر حصہ لے سکتے ہیں جبکہ جہاد کمزور کرنے کا باعث نہ بنیں،بے شمار ایسے صحابہ کرام تھے جو عمر رسیدگی کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ میں حاضر ہو کر داد شجاعت دیا کرتے تھے۔
٭یا اپنی جانب سے کسی کو تیار کرکے جہاد میں کھڑا کرسکتے ہیں،(خواہ جہاد فرض عین ہو یا فرض کفایہ )جیسا کہ یعلی بن منیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

آذَنَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- بِالْغَزْوِ وَأَنَا شَیْخٌ كَبِیرٌ لَیْسَ لِى خَادِمٌ فَالْتَمَسْتُ أَجِیرًا یَكْفِینِى وَأُجْرِى لَهُ سَهْمَهُ فَوَجَدْتُ رَجُلاً فَلَمَّا دَنَا الرَّحِیلُ أَتَانِى فَقَالَ : مَا أَدْرِى مَا السُّهْمَانُ وَمَا یَبْلُغُ سَهْمِى فَسَمِّ لِى شَیْئًا كَانَ السَّهْمُ أَوْ لَمْ یَكُنْ. فَسَمَّیْتُ لَهُ ثَلاَثَةَ دَنَانِیرَ فَلَمَّا حَضَرَتْ غَنِیمَتُهُ أَرَدْتُ أَنْ أُجْرِىَ لَهُ سَهْمَهُ فَذَكَرْتُ الدَّنَانِیرَ فَجِئْتُ النَّبِىَّ -صلى الله علیه وسلم- فَذَكَرْتُ لَهُ أَمْرَهُ فَقَالَ : مَا أَجِدُ لَهُ فِى غَزْوَتِهِ هَذِهِ فِى الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ إِلاَّ دَنَانِیرَهُ الَّتِى سَمَّى

’’رسول اللہ ﷺ نے جنگ پر جانے کا حکم جاری کیا،میں بوڑھا تھا،میرے پاس کوئی خادم بھی نہ تھا (جسے اپنی جگہ بھیج دیتا) چنانچہ میں نے کسی اجرتی کو ڈھونڈھاجو میری جگہ پر کرے،اورمیں اسے اسکا سہم(غنیمت کا حصہ)دے دوں،پس مجھے ایک آدمی مل گیا،جب روانگی کا وقت ہوا تو وہ مجھ سے کہنے لگا:مجھے نہیں پتہ کہ غنیمت میں کیا ہوگا اور مجھے کیا ملے گا،لہذا آپ میرا حصہ مقرر کردیں،خواہ غنیمت کا مال آئے یا نہ آئے۔میں نے اسکے لئے تین دینار مقرر کردیئے،پھر جب مال غنیمت آیا تو میں نے اسے اسکا غنیمت کا حصہ دینا چاہا ،لیکن مجھے دینار یاد آگئے ،لہذا میں نےرسول اللہ ﷺ سے اسکا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:اسکی اس لڑائی کے عوض اسکے لئے دنیا و آخرت میں تمہارے مقرر کردہ دیناروں کے سوا کچھ نہیں۔(سنن ابی داؤد:2527،الصحیحۃ:2233)
٭جہاد کے تعلق سے کفار کے بوڑھوں کے لئے بھی بعض رعایتیں ہیں،انکا قتل بالاتفاق ناجائز ہے،ا لَّا یہ کہ وہ کفار کے لشکر کی کسی طرح کی معاونت کررہے ہوں،خواہ صرف زبانی معاونت ہی کیوں نہ ہو۔
مذکورہ سطور میں بیان کردہ رخصتوں کا تعلق فرضی عبادات سے تھا،نیز یہی رخصتیں اسی نوع کے نوافل کے لئے بھی ہیں۔
….جاری ہے….

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے