Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں۔ قسط 19

Written by ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل 19 Nov,2017
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

اکتیسواں اصول : 
وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)
’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو۔‘‘
یہ قرآنی وایمانی اصول ہے جس کالوگوں کی اجتماعی ومعاشرتی زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے‘ بلکہ تمام معاشرتی تعلقات کی بنیاد یہی قرآنی قاعدہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بیان کررہا ہے:
وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)
’’اور تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیا کرو۔‘‘
اس اصول کو سمجھنے کے لیے یہ چیز مدد دیتی ہے کہ ہم آیت کا سبب ِنزول بیان کردیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’صحیح البخاری‘‘ میں سیدنا عبداللہ بن عباس wکے حوالے سے روایت کیا ہے کہ: ’’جب کوئی آدمی مر جاتاتو مرنے والے کے وارث اُس کی بیوی کے زیادہ حق دار ہوتے‘ اگر اُن میں سے کوئی چاہتا تواِس عورت سے شادی کر لیتا‘ اوراگر چاہتے تو اِس عورت کی شادی کسی اورمرد سے کر دیتے‘ اور اگر چاہتے تواِس عورت کی شادی ہی نہ کرتے۔ اِس عورت کے اپنے خاندان سے زیادہ یہ سسرالی خاندان کے لوگ اِس عورت کے زیادہ حقدار ہوتے۔ اس رواج کے حوالے سے یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ ڪ(صحیح البخاری:۴۳۰۳)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کے ضمن میں یہ مستحکم قرآنی اصول بیان ہوا ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یٰٓـــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَــکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآئَ کَرْہًا وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَـآ اٰتَـیْتُمُوْہُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّـاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَــیِّنَۃٍ وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَـعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء:19)
’’اے ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو۔ انہیں اس لیے روک نہ رکھو کہ جو کچھ تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اِن کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔ گو تم انہیں ناپسند کرو‘ لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔‘‘
اس آیت میں شوہروں کوحکم دیا گیا ہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے رہیں‘ اور اچھے طریقے سے رہنے کا معنیٰ یہ ہے کہ عورت کا مہر‘ نان نفقہ‘ اور حقوق کی تقسیم پوری پوری کریں‘ اس سے تکلیف دہ بات نہ کریں‘ اس سے منہ موڑ کر دوسری کی طرف متوجہ نہ ہو جائیں‘ اور بغیر کسی گناہ یا وجہ کے اسے قہر آلود نگاہوں سے نہ دیکھیں۔جس نے بھی اس عظیم قرآنی اصول:
وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)
’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو‘‘ پر غور وفکر کیا ‘اسے یقین ہو جائے گا کہ قرآن حکیم واقعی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے‘ اور اس کی درجِ ذیل وجوہات ہیں:
پہلی وجہ :
زیر ِنظر اصول‘ اگرچہ اس کے کلمات بہت تھوڑے ہیں‘ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ دو ہی لفظ ہیں‘ لیکن یہ اصول بہت عظیم معانی اور مفاہیم پر مشتمل ہے‘ جن کی شرح کی جائے تو بات لمبی ہو جائے گی۔ یہاں پر تو ہم بس روشنی ڈال رہے اور اشارے کر رہے ہیں۔دوسری وجہ: یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حسن سلوک کو عرفِ عام سے جوڑ دیا ہے اور کسی معین چیز کے ساتھ اِس کو خاص نہیں کیا ہے‘ کیونکہ یہ بات بہت واضح ہے کہ مختلف علاقوں میں عرف مختلف ہوتا ہے ‘ اور اس لیے بھی معین ومحدود نہیں کیا کہ شوہروں کی مالی ومعاشرتی حیثیت مختلف ہوتی ہے۔ اختلاف کی اور بھی بہت ساری صورتیں ہوا کرتی ہیں‘ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے۔
یہ قرآنی اصول:وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)
’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو‘‘ اپنے مفہوم میں بہت عظیم معانی لیے ہوئے ہے‘ اسی لیے دنیا میں اپنے وقت کے عظیم اجتماع میں جب رسول اللہﷺ نے عرفات کے میدان میں لوگوں سے خطاب فرمایا تو اِن حقوق کو ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔

ایک مؤمن جب اس قاعدے کی بکثرت خلاف ورزی اور اس کے حدود سے متعلق لاپرواہی ہوتے دیکھتا ہے تو ُسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ بعض مرد وں کو صرف اپنے حقوق سے متعلق آیات یاد ہیںاور انہی کو دہراتے رہتے ہیں‘ اور جن نصوص (قرآنی آیات یا حدیث نبویہ) میں بیویوں کے حقوق کا بیان ہے اُن کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ایسے حقوق تلف کرنے والوں کے لیے تباہی ہے۔
دوسری طرف بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہے اور جس حد تک ہو سکتا ہو اس کے حقوق کو ادا کرتی رہے۔ ایسا نہ ہو کہ چونکہ اس کا خاوند اس کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہ ہے ‘لہٰذا وہ بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگے۔ بیوی کی ذمہ داری ہے کہ صبر کرے اور اجر کی طلبگار رہے۔
اِس امت کے سلف صالحین اِن عظیم نصوص کے مفہوم کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے اور اس قرآنی اصول کو بھی اچھی طرح جانتے تھے:
{وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ}
’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو۔‘‘ اُمت ِ اسلامیہ کے عظیم عالم اور مفسر قرآن سیدنا عبد اللہ بن عباسi فرمایا کرتے تھے: ’’میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کے لیے خوبصورت بن کر رہوں‘ جیسا کہ مجھے پسند ہے کہ وہ میرے لیے خوبصورت بن کر رہے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ}
’’اور اچھائی کے ساتھ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں‘‘۔ اور مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں اپنی بیوی سے اپنے پورے حق وصول کروں (اور خود اُس کی حق تلفی کروں) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ(البقرۃ:228)
اور مردوں کا عورتوں پر ایک اضافی درجہ ہے۔‘‘
جناب یحییٰ بن عبدالرحمن الحنظلیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے فرزند محمد بن الحنفیۃ رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا‘ آپ خوبصورت چوغے میں باہر تشریف لائے اور آپ کی داڑھی میں خوشبو چمک رہی تھی۔ میں نے دریافت کیا: یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ چوغہ مجھے میری بیوی نے پہنایا ہے اور مجھے خوشبو بھی لگائی ہے‘ جیسے ہم پسند کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے تیار ہو کر رہیں ‘انہیں بھی پسند ہے کہ ہم ان کے لیے بن سنور کر رہیں۔‘‘اسلام کی نگاہ میںمیاں بیوی کے تعلقات کس قدر گہرے ہوتے ہیں‘ اسے اس قرآنی اصول نے مختصراً بیان کردیا ہے:
وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ
’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیا کرو۔‘‘ یہ تعلق معروف (نیکی اوربھلائی) کی بنیاد پر قائم ہے یعنی دونوں میں سے کسی سے جو کمی کوتاہی ہو جاتی ہے ‘اس پر صبر کی بنیاد پر قائم ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ تعلقات آگے نہ بڑھ سکتے ہوں تو معروف کے ساتھ جدائی کا حکم ہے۔
یہی طریقہ دونوں میاں بیوی کے عزت واحترام کا ضامن ہے۔ اس سارے عائلی نظام کی وجہ سے مؤمن کواللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناچاہیے کہ اس نے ہدایت عطا فرمائی اور ایسی شریعت کے ساتھ اس کا تعلق ہے جو ہر اعتبار سے کامل ومکمل ہے۔ اور مؤمن ایسے گندے لکھاریوں اورخبیث نعروں کو شدید غیظ وغضب سے دیکھتا ہے جوایک طرف عورت کو‘ دوسری طرف مرد کو بھڑکا رہے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے اسے فریق ثانی کی کوئی بات نا پسند ہو تو وہ شرعی پابندیوں سے آزاد ہو جائے‘ اور یہاں یا وہاں حرام تعلق قائم کر لے۔
(جاری ہے)

Read 724 times Last modified on 19 Nov,2017
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in نومبر2017
 ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل

ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل

Latest from ڈاکٹرعمر بن عبد اللہ المقبل

  • قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط 16
  • قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں۔ قسط ۱۸
  • قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں -10

Related items

  • قرآن کریم میں یہود کی بری خصلتوں کا تذکرہ  
    in جون ، جولائی 2021
  • رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہودیوں کے معاندانہ رویوں کے اسباب
    in جون ، جولائی 2021
  • روزے کے احکام ومسائل
    in اپریل 2021
  • مقامِ صحابہ بزبانِ کلام اللہ تعالیٰ
    in اکتوبر نومبر 2020
  • معاشرتی مسائل اور قر آن و سنت کی تعلیمات
    in دسمبر 2019
More in this category: « بات بدلی ساکھ بدلی بیان کردہ مسئلہ کے عدم فہم پر دوبارہ سوال کرنا »
back to top

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2017