اس شخص کا بیان جو کوئی بات سنے اور اس کو نہ سمجھ نہ سکے پھر اسکے بارے میںدوبارہ پوچھے یہاں تک سمجھ لے

14-103- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ أَوَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى(فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا) قَالَتْ فَقَالَ إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَهْلِكْ .

سعید بن ابی مریم، نافع ابن عمر، ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی زوجہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جببھی ایسی بات کو سنتیں جس کو نہسمجھ نہ پاتیںتو پھر دوبارہ اس میں تفتیش کرتیں، تاکہ اس کو سمجھ لیں۔چنانچہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺنے فرمایا (قیامت میں) جس کا حساب لیا گیا اس پر (ضرور) عذاب کیا جائے گا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (یہ سن کر) میں نے کہا کہ اللہ پاک تو یہ فرماتا ہے کہ پس عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا (معلوم ہوا کہ حساب کے بعد عذاب کچھ ضروری نہیں) آپ نے فرمایا یہ حساب جس کا ذکر اس آیت میں ہے درحقیقت حساب نہیں بلکہ صرف پیش کردینا ہے لیکن جس شخص سے حساب میں جانچ کی گئی وہ یقینا ہلاک ہوگا۔
Ibn Abu Mulaika: Whenever Aisha (the wife of the Prophet) heard anything which she did not understand, she used to ask again till she understood it completely. Aisha said:Once the Prophet said “Whoever will be called to account (about his deeds on the Day of Resurrection) will surely be punished. I said Doesn’t Allah say: He surely will receive an easy reckoning. The Prophet replied “This means only the presentation of the accounts but whoever will be argued about his account, will certainly be ruined.

وروى بسندآخر حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ قَالَتْ قُلْتُ أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى ( فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا) قَالَ ذَلِكِ الْعَرْضُ
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَتَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمٍ وَأَيُّوبُ وَصَالِحُ بْنُ رُسْتُمٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (وله متابعة رقمه:6536)

شرح الکلمات :
رَاجَعَتْ : مراجع یعنی دوبارہ سوال کرتی
حُوسِبَ : سوال وجواب کے ساتھ حساب لیاگیا
يَسِيرًا : آسان حساب
الْعَرْضُ : صرف حساب کے لیے بلایاگیا بغیر سوال وجواب
نُوقِشَ : سوال وجواب کیے گئے۔
يَهْلِكْ : ہلاک ہوجائے گا۔
تراجم الرواۃ :
1۔نام ونسب :سعید بن الحکم بن محمدبن سالم المعروف ابن ابی مریم الجمحی
کنیت:ابو محمد المصری
محدثین کے ہاں رتبہ :ابن ابی مریم امام نافع بن عمر الجمحی اور امام مالک اور امام اللیث رحمہم اللہ کےشاگرد تھے ۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت اور فقیہ تھے اورامام الذہبی رحمہ اللہ کےہاں الحافظ اورامام ابو حاتم رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
ولادت:امام ابن ابی مریم کی ولادت 144ھ میں ہوئی اور وفات ربیع الثانی 224ھ میں ہوئی۔
2۔ نام ونسب :نافع بن عمر بن عبد اللہ بن جمیل بن حذیم القرشی الجمحی المکی
محدثین کے ہاں رتبہ :نافع بن عمر کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثقہ ثبت ،صحیح الحدیث تھے۔
امام ابن معین اورامام النسائی رحمہم اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتےہیںکہ میں نے اپنے والد محترم سےان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا وہ ثقہ تھے ۔
وفات:169ھ کو مکہ المکرمہ میں وفات پائی۔
3۔نام ونسب :ابن ابی ملیکۃ کا اصل نام عبد اللہ بن عبید اللہ ابن ابی ملیکۃ زھیر بن عبد اللہ بن جدعان بن عمرو القرشی التیمی المکی القاضی
کنیت: ابو بکر بعض کہتے ہیں کہ ابو محمد تھی۔
محدثین کے ہاں رتبہ : ابن ابی ملیکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے مکہ المکرمہ کے قاضی تھے اور حرم مکی کے مؤذن تھے۔
تیس کے قریب صحابہ کرام سے ملاقات ثابت ہے اور ان میں سے بعض سے حدیث بھی روایت کرتے ہیں مثلاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہااور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر ، سیدنا عبد اللہ بن عباس ،سیدنا عبداللہ بن عمر،سیدنا عبداللہ بن عمرو اور ابی محذورہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ اور ابو حاتم رحمہ اللہ نے ثقہ کہاہے اور امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ فقیہ تھے ۔
ولادت : ابن ابی ملکیہ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ولادت ہوئی اور 117ھ کو وفات پائی۔
4۔نام و نسب :
عائشہ بنت ابو بکر صدیق بن ابی قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن بن فہر بن مالک
کنیت:ام عبداللہ۔ لقب:حمیرا ،صدیقہ۔
ولادت: ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے یعنی9 شوال قبل ہجرت۔ہجرت سے 3برس پہلے 6سال کی عمر میں یعنی ربیع الاول 11ھ میں بیوہ ہوئیں۔
مناقب:صحیح بخاری میں سیدناابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مردوں میں سے تو بہت تکمیل کے درجے کو پہنچے مگر عورتوں میں صرف مریم دختر عمران، آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل پر پہنچی اور عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنت صدیق کی دیگر ازواج مطہرات پر فضیلت:
1نبی کریم ﷺ نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔
2میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
3اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
4نبی رحمت ﷺ کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
5میں اور نبی اکرم ﷺایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔
6میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔
7آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی، اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔
8نبی اکرم ﷺکی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی (جب رسول اللہ ﷺکا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔
9نبی کریم ﷺمیری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔
0نبی معظم ﷺمیرے حجرے میں مدفون ہوئے۔
وفات:رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان المبارک 58 ہجری میں وفات پائی۔
تشریح :
اس حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے شوق علم اور سمجھ داری کا ذکر ہے کہ جس مسئلہ میں انھیں الجھن ہوتی، اس کے بارے میں وہ رسول اللہ ﷺسے بے تکلف دوبارہ دریافت کرلیاکرتی تھیں۔ اللہ کے یہاں پیشی تو سب کی ہوگی، مگر حساب فہمی جس کی شروع ہوگئی وہ ضرور گرفت میں آجائے گی۔ حدیث سے ظاہر ہوا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توشاگرد استاد سے دوبارہ سہ بارہ پوچھ لے، مگرکٹ حجتی کے لیے باربار غلط سوالات کرنے سے ممانعت آئی ہےجیسا فرمان نبوی ﷺ ہے :

إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ (صحیح البخاری1477)

’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتابلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی ،لوگوں سے بہت مانگنا۔‘‘
فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے اس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے