برما (میانمار) کے مغربی صوبہ رخائن کاتاریخی نام اراکان ہےتھا جہاں عمر بن عبد العزیز کے دور میں اسلام کی کرنیں جلوہ گر ہوئیں یہاںایک آزاد مسلم ریاست بھی قائم ہوئی جس کا اپنا سکہ تھا اس پر کلمہ طیبہ کندہ تھا اراکان کا صوبہ جغرافیائی و تاریخی لحاظ سے برما سے جدا علاقہ فطری طور پر بنگلہ دیش سے متصل ہے 1778ءمیں برما نے اس پر قبضہ کرلیابعدازاں1824ءسے لے کر 1947ءتک برطانیہ کےزیرتسلط رہا۔اراکان کا قدیم نام روہنگیا تھا اسی لیے یہاں کے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں۔تقسیم ہند کے دوران اراکان کے مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں مشرقی پاکستان میں شامل کیا جائے لیکن فتنوں کی ماں برطانوی حکومت نے پنجاب کی طرح اراکان کے علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرایاایک حصہ چٹاگانگ کو بنگال کا حصہ بنادیا اور دوسرے حصےراخائن کو برما کے تسلط میں دے دیا ۔ اراکان
راخائن میں تیل گیس سمیت قیمتی خزائن موجود ہیں برمی حکومت کے ذہن پر خوف سوار ہے کہ کہیں کشمیر کی طرح راخائن میں آزادی کی لہر نمودار ہو جائے تو برمی حکومت ان قیمتی خزائن سے محروم نہ ہوجائے اس لیے برما کی بدھ مت حکومت روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کرتی آرہی ہے ۔عالم اسلام کے کے مسلمان عیدا لاضحی1438ھ کے موقع پرقربانی کے جانور ذبح کر رہے تھے جبکہ میانمار کے بدھ پرست روہنگیا کے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے سوشل میڈیا پر انسان کے جسموں کے تکے دور دور تک پھیلے نظر آتےلاشوں کی بے حرمتی میں غزوہ احد کی تاریخ دہرائی گئ بلکہ ایک قدم بڑھ کرانہوں نے لاشوں کو آگ لگادی خود تماشا دیکھتے رہے اور سیٹیاں بجاتے رہےایک اور تصویر میں مسلما ن کے جسم میں درجن بھر چھرے پیوست کیے کہیں مسلمانوں کی گردن کو ڈرل کر رہے ہیں دوسرے مقام پر مسلم کی لاش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر سڑک پر گھسیٹا جارہاہے برمی بدھوں نے مسلمانوں کی بستیوںکو آگ لگادی چار لاکھ سے زائد مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ،تاحال سلسلہ جاری ہے ترکی کے کہنے پر بنگلہ دیش نے مخصوص علاقہ میں پناہ دی ہے جبکہ بھارت سرحد پر پہرہ لگادیا کہم کوئی دراندازی نہ کرسکے اسرائیل نے فلسطین سے مسلمانوں کو بےدخل کیاوہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہو گئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کوآباد کیابوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی یہی تاریخ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں سے دوہرائی جارہی ہے جن کامقصد وہی ہے کہ مسلمانوں کو بے دخل کر کے وہاں بدھوں کو آباد کیا جائے۔
یہود ،ہنود،مجوس اورنصاریٰ مسلمانوں کا بے دریغ خون بہارہے تھے البتہ بدھ مت غیر جانبدار پالیسی پر گامزن تھے ۔پاکستان وچند دیگر ممالک نے امریکہ کے دوغلے پن سے مجبور ہو کرچین کی طرف جھکاؤکیا تو طاغوتی قوتوں کی سازش تنازعہ کھڑا کردیا تاکہ بدھ پرستوں اورمسلمانوں میں نفرت کی خلیج حائل ہو جائےاس وقت کرہ ارض کے تمام مذاہب مسلمانوں کے خلاف سر گرم عمل ہیں۔ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے ہے کہ کہیں مسلمانوں کا آپس میں اتحادنہیں وہ مذہبی نسل ،لسانی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ داخلی اختلاف کو پس پشت ڈال کر برما کے مسلمانوں کا ساتھ دیں اور دنیا بھر کے روہنگیا مسلمانوں کو واپس لاکر اراکان میں آباد کریں اور مشرقی ۔۔۔۔ کی طرح اراکان کو خود مختار کی حیثیت دلوائیں لیکن اس حسرت کو کون پایۂ تکمیل تک پہنچائے کرہ ارض پر تقریبا ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان آباد ہیں وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے دعا تو کرسکتےہیں لیکن دوانہیں کرسکتے کیونکہ وہ پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر دوسرے ملک میں جانہیں سکتے ۔دنیا میں 57اسلامی ممالک ہیں وہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کی وجہ سے عدم مدافعت کی پالیسی پر گامزن ہیں اسلیے وہ مظلوموں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ سے اپیل کرسکتے ہیں براہ راست عملی کاروائی نہیں کرسکتے جبکہ او آئی سی(O.I.C)بھی اقوام متحدہ کے تابع ادارہ ہے.

اقوم متحدہ اپنے طورپر مالی تعاون تو کرسکتی ہے اس کی امن فوج اس وقت تک حرکت نہیں کرسکتی جب تک پانچ ویٹوپاور ممالک منظوری نہ دیں افسوس کن امر ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل نے اپیل کی ہےکہ اگر اقوام عالم نے مالی تعاون نہ کیا تو روہنگیا کےمہاجر بھوک اور بیماری سے مر جائیں گے اور یہ تاریخ کا المناک سانحہ ہوگا۔
مسلم دنیا کے کسی ملک میںخدانخواستہ عیسائی دہشت گردی کا نشانہ بن جائے یا تو ہین رسالت کے مقدمہ میں صرف گرفتار ہوجائے تو امریکہ و یورپ کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک ایک کے بدلےمیں سینکڑوں کو موت کے گھاٹ نہ اتار دے اور توہین رسالت ﷺ کے مرتکب کو آزاد نہ کرالے۔ اگر مسلم دنیا کا کوئی ملک حقیقی معنوں میں آزاد ہوتا تو وہ محمد بن قاسم کی طرح کسی جرنیل کو بھیج کرروہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انتقام لیتا فلسطین ،افغانستان ا ورعراق میں کسی کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی شام میں بشار کے خلاف جمہوری جدوجہد کرنے والوں پر کسی کوکیمیائیبمباری کرنےکی ہمت نہ ہوتی کشمیر کے سات لاکھ بھارتی فوج کو بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی سکت نہ ہوتی ۔
مسلم دنیا خلافت کے سائبان سے نکل کر چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکے ہے اگر کوئی ریاست معاشی طور پر خود کفیل ہے تو دفاعی طور پر کمزور ہے ،اگر دفاعی طور پرمضبوط ہے تو وہ معاشی طور پر عالمی ساہوکاروںکی غلام ہیں۔امت مسلمہ کے عالمی مسائل کے حل کے لیےخود مختارمسلم ریاست کا قیام ضروری ہے جواللہ تعالی کے ضابطوں کی توپابند ہو لیکن طاغوت کے خود ساختہ ضابطوں کی گرفت سے آزادہو اللہ تعالی کی نصرت سے یہ شرف افغانستان اور شام کی دھرتی کو حاصل ہوگا۔(ان شاءاللہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے