اٹھائیسواں اصول:

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ(الاعراف:۸۵)

’’اورلوگوں کو اُن کی چیزیں کم کرکے مت دو۔‘‘
اس قرآنی اصول کاتعلق لوگوں کے حالات کے ساتھ ہے‘معاملات کے باب میں ہے‘ نیز اس اصول کاتعلق لوگوں کے مقام یا اُن کے کاموںکی درجہ بندی کے ساتھ ہے جن کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔
قرآنِ حکیم میں یہ اصول تین دفعہ بیان ہوا ہے اور ہربارسیدنا شعیب علیہ وعلیٰ نبینا الصلاۃ والسلام کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جن باتوں کی سیدنا شعیب uنے اپنی قوم کو نصیحت کی تھی اُن میں سے ایک مسئلہ ماپ تول میں کمی کرنے کا تھا‘ اس لیے کہ یہ بیماری اس قوم میں بہت عام تھی اور وہ بری طرح اِس کا شکار تھے۔
جب تم اِس اصول پر غور کرو گے:

وَلَا تَـبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ(الاعراف:۸۵)’

’اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے مت دو‘‘تو تمہیں معلوم ہو گا کہ پہلے ماپ تول میں کمی سے منع کیا گیا اور پھر یہ عمومی حکم آیا۔ گویا عموم کے بعد خصوص بیان ہوا ہے‘ تاکہ یہ حکم ہر قسم کی کمی کو شامل ہو جائے اور کوئی چھوٹا بڑا جزوباقی رہ نہ جائے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ اس اصول کا مفہوم دور تک جاتا ہے اور بالخصوص جو حکم اس میں داخل ہوتا ہے وہ ہے مالی حقوق میں کمی کرنے کا معاملہ‘ چنانچہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے‘ تاکہ ہر ظاہری ومعنوی حق کو شامل ہوجائے جو کسی بھی انسان کے لیے ثابت ہوتا ہو۔ ظاہری حقوق بہت زیادہ ہیں‘ ان میں سے کچھ کی تفصیل گزر چکی ہے۔ انسان کے لیے ثابت شدہ حق میں شامل ہے: گھر، زمین، کتاب اور تعلیمی اَسناد وغیرہ۔ البتہ معنوی حقوق بہت ہی زیادہ ہیں جن کو شمارکرنا بھی مشکل ہے‘ لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ قرآنی اصول جس طرح معاملات کے حوالے سے ایک اصول ہے اسی طرح یہ اپنے عموم وشمول کے اعتبار سے دوسروں کے ساتھ انصاف کرنے میں بھی ایک اصول ہے۔
انصاف کے اصول اپنانے اور لوگوں کے حقوق میں کمی نہ کرنے (کی ہدایات) سے قرآن حکیم بھرا ہوا ہے۔ مثلاًاللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کر لو :

وَلاَ یَجْرِمَنَّـکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّـقْوٰی (المائدۃ:۸)

’’کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم عدل سے منحرف ہوجاؤ۔ عدل کیا کرو یہی پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
ذرا سوچو! تمہارا رب تمہیں حکم دے رہا ہے کہ اپنے دشمن کے ساتھ انصاف کرو اور تمہاری دشمنی تمہیں اُس کی حق تلفی پر نہ اُکسائے۔ پھر تم یہ کیسے گمان کر سکتے ہو کہ جو دین تمہیں دشمن کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دے ‘کیا وہ تمہیں اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم نہیں دے گا ؟
ادھر مسلمانوں کے حالات دیکھنے سے سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں کس قدر کوتاہی کرتے ہیں‘ یا سرے سے انکارکردیاجاتا ہے او ر اس
طرح انصاف کا قتل ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں
کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے دور دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے حالات کا ذرا جائزہ لیں تو بڑے ہی تکلیف دہ واقعات سامنے آ تے ہیںــ۔ کوئی آدمی اپنے کسی دوست سے یا کسی دوسرے مہربان سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اِدھر ناراضگی ہوئی اُ دھرا س نے اُ سے زمین پر دے مارا اور اُس کی ساری خوبیوں اوراحسانات کو بھول گیا۔ جب اُس کے بارے میں گفتگو ہو تو ایسی بات کرتا ہے جو شدید ترین دشمن کے بارے میں بھی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے برے اخلاق سے محفوظ رکھے۔
اور کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوتا ہے جب ہم علماء یا واعظین کی غلطی کے بارے میںگفتگو کرتے ہیں‘ جن کے بارے میں ہم سب کو علم بھی ہے کہ یہ حضرات بھلائی کے طلبگار ہیں اور حق تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ایک دو بار ان سے کسی وجہ سے غلطی ہو گئی تو کچھ لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ اس عالم کی ساری محنت‘ کوشش‘ مشکلات پر صبر‘ جہاد اور اسلام ومسلمانوں کی خدمات سب کچھ بھلادیتے ہیں بلکہ اُسے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عالم کے خلاف زبان کھولنے والایاتنقید کرنے والاصبر نہیں کر سکا‘ حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عالم اُس غلطی میں معذور ہو۔ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ وہ عالم غلطی کرنے میں معذورنہیں تھا (اس نے جان بوجھ کر غلطی کی ہے) ‘پھر بھی بات کرنےکا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے اور نہ ہی قرآن ہمیں اس طرح کی تر بیت دیتا ہے۔ جس اصولِ قرآن پر ہم گفتگو کر رہے ہیں وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ بات انصاف کے ساتھ کی جائے اور لوگوں کے حقوق میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے۔
ایک اور مثال کو بھی سامنے رکھیں جو تقریباً روزانہ پیش آتی رہتی ہے اور اس میں بھی انصاف نہیں ہوتا۔ جب کچھ کالم نگار یا تبصرہ نگار سرکاری ادارے یا کسی وزارت کے ذمہ دار افسر کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اُس میں بے انصافی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور اُس ادارے کی اچھائیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لکھنے والا یا گفتگو کرنے والا اپنے خاص نفسیاتی ماحول میں بات کرتا ہے۔ و ہ بس غلطیوں کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے اور اُس ادا رے یا متعلقہ افسر کی خوبیوں یا خدمات کو بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔
قرآنِ حکیم اپنے ماننے والوں کی اس طرح تربیت نہیں کرتا‘ بلکہ قرآنِ حکیم کا اصولِ تربیت تو وہی ہے جو زیر مطالعہ اصو ل میں بیان ہوا ہے:

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ (الاعراف:۸۵)’

’اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے مت دو۔‘‘
بسا اوقات یہ کمی کتابوں یامقالات پر رائے دینے میں بھی آجاتی ہے‘ جس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ شاید اس کمی کا سبب یہ ہو کہ ناقد نے کتا ب کو پڑھا ہی اس لیے ہو کہ وہ صرف غلطیاں اور کمزوریاں پکڑنا چاہتا ہو اور انصاف کے ساتھ اس پر تبصرہ دینا نہ چاہتا ہو‘ اور جب نیت صرف غلطیوں کونمایاں کرنے کی ہو تو غلطیاں ہی زیادہ نظر آتی ہیں اور اچھی باتیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ واللّٰہُ المُستعان! (جاری ہے )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے