سوال : ناخن بڑھانے کا شرعی حکم کیا ہے اور زیادہ سے زیادہ کتنی مدت تک چھوڑے جاسکتے ہیں؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے انسان کو حیوان سے کئی اعتبار سے برتری دی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے حواس خمسہ اور عقل سے نوازا ہے اور ہاتھ کی نعمت عطا فرمائی ہے جس سے انسان اپنی صفائی کا اہتمام کرتا ہے ناپسند چیزوں کو اپنے بدن سے زائل کرتا ہے۔ ناخن بڑھانے کا آج کل جو فیشن رائج ہے یہ ایک غیر فطری ہونے کے ساتھ غیر شرعی بھی ہے
ایک مسلمان کیلئے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(سنن أبی داؤد ، کتاب اللباس باب في لبس الشهرة ، الحدیث:4031)

’’ جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
ناخن بڑھانا خلاف سنت ہے فرمان نبوی ﷺ ہے :

الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ (صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، الحدیث : 5891)

’’فطری اعمال پانچ ہیں : ختنہ کرنا ، زیر ناف بالوں کیلئے استرا استعمال کرنا، مونچھیں کتروانا، ناخن کاٹنااوربغلوں کے بال نوچنا ۔‘‘
اور کسی صورت یہ جائز نہیں کہ انہیں چالیس دن سے زیادہ چھوڑا جائے کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے کہ

وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (صحیح مسلم ، کتاب الطہارۃ ، باب خصال الفطرة ، الحدیث : 258)

’’ مونچھیں کتروانے، ناخن تراشنے،بغلوں کے بال نوچنے اور زیر ناف (بالوں)کی صفائی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے یہ مقرر فرمایا تھا کہ ہم انہیں چالیس رات سے زیادہ نہ چھوڑیں۔‘‘
نیز ان کے لمبا کرنے اور بڑھانے میں بعض حیوانات کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے بلکہ کافروں کے ساتھ بھی۔
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ ناخن بڑھاناخلاف فطرت وخلاف شرع عمل ہے اور ناخن کو چالیس دن سے زیادہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب
سوال : انسان کے جسم پر زائدبال کا ازالہ کرنا یا تراشنا شرعیت کی رو سے کیسا ہے ؟
جواب : شرعی اعتبار سے جسم پر جو بال ہیں وہ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کے تراشنے ،کاٹنے یا زائل کرنے کا شرعیت نے حکم دیا ہے ۔
جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ(صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، الحدیث : 5891)

’’فطری اعمال پانچ ہیں : ختنہ کرنا ، زیر ناف بالوں کیلئے استرا استعمال کرنا، مونچھیں کتروانا، ناخن کاٹنااوربغلوں کے بال نوچنا ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرنا اور مونچھ کے بال چھوٹے کرنا فطری وشرعی عمل ہے اور ان کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیسدن ہیں جیسا کہ پہلے سوال میں ذکر کیا گیا ہے ۔
بالوں کی دوسری قسم جن کے کاٹنے یا تراشنے سے شریعت نے منع کیا جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
(صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، الحدیث : 5892)

’’مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیںکترواؤ۔‘‘
یعنی داڑھی کے بال صاف کرنا شرعاً منع ہے۔
بالوں کی تیسری قسم وہ ہے جس سے شریعت خاموش ہے جیسا کہ ہاتھ،پاؤںیا سینہ وغیرہ کے بال۔ ان کو تراشنا ممنوع ہے اور یہ تغیر خلق اللہ کے زمرہ میں آتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شیطان کہتا ہے ۔

وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ ( النساء : 119)

’’ اور میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کریں گے۔‘‘
تراشنا یا کاٹنا اس لیے بھی ممنوع ہے کہ تراشنے یا کاٹنے سےبال زیادہ مضبوط ہوکر نکلتے ہیں جو کہ زیادہ بدنما ہوجاتے ہیں لیکن اگر یہ بال بہت زیادہ ہیں جس سے تکلیف ہوتی ہے تو شیخ صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ کم کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر ایک حد تک ہو بالکل صاف کرنےکو انہوں نے ناجائز قرار دیا ہے ۔اگر بال نارمل ہوں تو ان کو ختم کرناناجائز ہے تو معلوم ہوا کہ نارمل بالوں کو تراشنا ناجائز اور ممکن ہے کہ یہ بھی تغیر خلق اللہ کے زمرہ میں آجائیںلہٰذا افضل فعل یہی ہے کہ اس سے بھی بچا جائےاور اگربال انسان کے غیر محل جگہ پر ہوں تو اس صورت میں ان بالوں کو زائل کیا جاسکتاہے مثلاً کسی مرد کی ناک پر بال اُگ آئے ہوں یا کسی عورت کی داڑھی کے بال نکل آئے ہوں تو ان بالوں کو زائل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے