قرآن کریم وہ معجزہ خالدہ جو نبی اُمّیﷺ پر نازل کرکے رب رحیم نے بڑے بڑے علماء، بُلغاء،فصحاء کو حیرت زدہ کردیا۔
قرآن مجید : الفاظ کا وہ مجموعہ جو خوبصورتی اور خوب سیرتی میں ایک دوسرے پر یوں سبقت لے جائیں کہ پڑھنے والے کے تخیل پر لطف وعمل ایک ساتھ دستک دیں۔ وہ شفا کہ سب شفاؤں پر بھاری… وہ ادب کہ ہزاروں ادیب عاجز آگئے۔ عاجز کیوں نہ آتے؟ مصنف تھا ہی اتنا ارفع…ورب کریم واقعی حکیم ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب کا چرچا تھا تو روح اللہ کے ہاتھ سے شفا دے کر اپنے حکم سے معجزہ بناتا ہے، جادو کا عروج تھا تو موسیٰ علیہ السلام کو س جادوں پر بھاری کرکے اپنی حکمت کا ثبوت پیش کیا ہے ہر نبی کو وقت اور ضرورت کے پیش نظر معجزہ عطا ہوا۔
ہاں ! وہ اپنی روایت قائم رکھنے والوں میں سے ہے، اس دور میں جب زبان دانی کا فن اپنے بام عروج پر تھا… عرب اپنے قصیدہ،خطبہ،رسائل، محاورات میں ایسی فصیح وبلیغ زبان استعمال کرتے کہ عمدگی کا کامل نمونہ نظر آتا .. اپنے سوا سب کو ’’عجمی‘‘ خیال کرنے والوں کےدور میں رب حکیم نے قرآن کریم کو کامل معجزہ بنا کر بھیجا، معجزہ بھی ایسا کہ وہ پکار اُٹھیں۔ ما ھذا قول البشر
ہاں! یہی الفاظ ادا ہوئے تھے ایک عظیم عربی ادیب کی زبان سے اور باقی سب کا دل تو گواہیاں دیتا تھا کہ ابو جہل، ابو سفیان تک میرے نبی ﷺ کی میٹھی زبان سے رات کے اندھیرے میں چھپ چھپ کر لطف اندوزہوتے تھے اور پکار اٹھتے تھے۔ ما ھذا قول البشر
ہاں ! یہ وہ کلام تھا مصنف نے تحریر کیا تو تحریر معجزہ ٹھہری پھر وہ رب چیلنج کرتا ہے

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا (الاسراء:88)

کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔
فرمان ربانی ہے :

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ  قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ(ھود:13)

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو ۔
ارشاد گرامی ہے:

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ  وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (البقرۃ:23)

ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو ۔
فرمان باری تعالی ہے:

فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ

اچھا اگر یہ سچے ہیں تو بھلا اس جیسی ایک (ہی) بات یہ (بھی) تو لے آئیں ۔ (الطور:34)
ان چاروں مقامات پر مخاطب صرف کفار ہی تھے کہ جاؤ اپنے سب حمایتوں،ادباء،شعراء،بُلغاء،فصحاء کو بلا لو…اگر سچے ہو تو اس کی مثل کوئی قرآن لے آؤ… چلو قرآن نہ سہی 10 سورتیں ہی سہی… 10سورتیں بھی نہیں تو ایک سورت ہی سہی اگر ایک سورت بھی نہیں تو ایک آیت ہی بنا لاؤ؟؟ پھر ساتھ ہی فرمادیا’’پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کرسکو گے تو اس آگ سے بچ جاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘
ہاں!پورا یقین ہے میرے مالک کو تم ایسا کبھی نہ کر سکو گے… اور یہ یقین پورا ہو کر رہا… قرآن بصورت معجزہ قیامت تک کے لیےہےقرآن میرے رب کی وحدانیت ، نبی کریم ﷺ کی نبوت پر واضح دلیل بن کر آیا۔ قرآن کریم کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتوں کا واضح ثبوت ملا۔
1۔ اللہ رب العالمین کی ہستی اور اس کی حیثیت کا ثبوت
2۔ قرآن مجید کے رب تعالیٰ کی طرف سے ہونےکا ثبوت
3۔ نبی کریم ﷺ کے برحق رسول ہونے کا ثبوت
پھر آیئے! قرآن کے چند اعجازی پہلوؤں کا جائزہ شعور کی آنکھ سے لیں۔
قرآن مجید کے چند اعجازی پہلو:
امتیاز اکبر :
بڑے سے بڑے، اعلی سے اعلیٰ،جدید سے جدید دور میں بھی یہ کتاب رہنمائی کرنے سے کبھی عاجز نہ آئی یہ اس کا سب سے بڑا امتیازی اور اعجازی پہلو ٹھہرتاہے۔
لازوال معجزہ :
پچھلے انبیاء کے سب معجزے عارضی تھے قرآن ایک زندہ جاویداور دائمی معجزہ بن کر لازوال ہوگیا۔
دلیل سے عاجز :
عرب کے فصیح وبلیغ زمانہ سے آج کے ترقی یافتہ دور تک سبھی کے سبھی اس کلام پر دلیل سے عاجز آئے بدلتے ادوار کے ساتھ نہ ان میں تبدیلی آئی اور نہ کوئی لغت دان اس پر دلیل دینے کی ہمت وجرأت کرسکا۔
امتی کی زبان سے ادائیگی :
قربان جاؤں محمد عربی ﷺ پر اور ان کے اُمّی ہونے پر ان کی زبان مبارک سے ایسا خوبصورت کلام ادا کروانے رب پر اور رب کی اس تحریر پر ، اَن پڑھ نبی ﷺ کہ جس کا ارشاد رب کے سوا کوئی نہ تھا اس زبان سے ایسا کلام عربوں کے لیے باعث استعجاب تھا۔
سادہ اور عام فہم :
میں حیرت زدہ ہوں ، میں آج تک کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جو سب کے لیے یکساں ہو ایک انجینئر ڈاکٹر کی کتاب کب بھلا پڑھتا ہے ، سائنس والے آرٹس کی کتابوں پر طبع آزمائی کرتے ہیں ، کمال کا فن بس قرآن میں ہی ملتاہے۔
تضاد اور تصادم سے مبرأ:
قرآن مجید کے بنائےقوانین واحکام،انفرادی واجتماعی سب کے سب قابل عمل اور عمل میں لائے جاچکے ہیں کہیں تضادوتصادم نہیں کوئی تضاد اور تصادم نہ کوئی آیت اور نہ ہی کوئی حکم ایک دوسرے کی ضد ہے۔
جامعیت :
یہ کتاب ہدایت کے ساتھ ساتھ اسلام اور زندگی گزارنے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیےہوئے ہے۔
طاقت کے مطابق بوجھ:
روزہ ،حج وغیرہ جیسے فرائض ہر مکلف پر لازم اور ضروری ٹھہرائے گئے مگر کچھ لوگ اس سے مستثنیٰ بھی ہیں اور اس طرح کی مثالیں قرآن میں موجود ہیں جن کا اجمالاً ذکر ذیلی آیت میں ملاحظہ فرمائیں۔

لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا(البقرۃ:206)

موضوع ’’انسان کی ہدایت ‘‘:
قرآن مجید کا ہر ہر لفظ انسان کی ہدایت کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے چاہے وہ الفاظ پہلی قوموں کے لیے استعمال کیے گئے ہوں یا مخاطب امت محمدیہ ﷺ ہو … مقصد ’’ھدایت انسان‘‘ کے سوا کچھ نہیں قرآن اپنے موضوع سے کبھی نہیں ہٹتا۔
بے کار بحث سے اجتناب:
سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے وہاں پھل کا نام نہیںبتایا، آدم وحوا نے درخت کا پھل کھایا کس درخت کا پھل کھایا؟ کون سا پھل تھا؟ اس بات میں نہ ہدایت چھپی تھی نہ قرآن نے اسے بیان کیا کہ وہ بے کار بحثوں سے اجتناب کرنے والی کتاب ہے یونہی اصحاب کہف کا واقعہ ۔ 3تعداد میں تھے چوتھا کتا تھا، کچھ نے کہا 5 تعداد میں تھے چھٹا ان کا کتا ، کچھ نے کہا 7 تعداد میں تھے آٹھواں ان کا کتا۔ جب بحث شروع ہوئی تو قرآن پکار اُٹھا ’’تمہیں اس بحث سے کیا فائدہ؟‘‘
انبیاء علیہم السلام کی معصومیت :
قرآن مجید آج بھی تمام انبیاء کی معصومیت کو بیان کرتا ہے جبکہ بائبل وغیرہ سبھی کتابوں میں تبدیل شدہ حالت میں انبیاء پر فحش الزامات لگائے گئے۔
محافظ خود اللہ :
ارفع و اعلی مصنف نے اپنی اعلی تحریر کی حفاظت اسی طرح کی جس طرح اس کا حق تھا آج تک زیر سے زبر تک ایک دوسرے کی جگہ نہ لے سکیں۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(الحجر:9)

شائستہ اور مہذب:
زبان شائستہ اور الفاظ مہذب قرآن کریم فحش گوئی سے اجتناب کرنے والی کتاب ہے۔
اعلیٰ اسلوب :
قرآن کا اسلوب فصیح وبلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر بات کو کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے۔
پہلی قوموں کی تصدیق :
جب محمد عربی ﷺ کی زبان سے پہلی قوموں کے واقعات واحکامات وخصائص بیان ہوئے تو اتنا واضح اور سچا نمونہ دیکھ کر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ عاد وثمود کا تذکرہ۔۔ پھر بنی اسرائیل مصر میں کیسے آئے؟ یہ بات سورت یوسف میں من وعن بیان ہوئی تو عرب کے کفار حیرت زدہ رہ گئے کہ محمد تو قریش کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے پھر وہ قرآن کی زبان میں بنی اسرائیل کا کیسے بتا سکتے ہیں۔
پیشین گوئیاں :
اس سچی کتاب کی بے شمار پیشین گوئیاں اور ان کا پورا ہونا اس کے برحق ہونے پر دلیل ہے اُس دور میں جب روم اور فارس کی لڑائی ہوئی رب نے کہا ’’روم غالب آئے گا یہ قرآن کی پیشین گوئی تھی جو بالکل پوری ہوئی۔
بلاغت کا مرتبہ :
بلیغ سے مراد ’’پہنچنا‘‘ گہرائی کا پایا جانا ہے ، بلاغت کا دور وہی پایا جاتا ہے جو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ان عربوں کے پاس تھا اس کے بعد آج تک وہ دور نہ آسکا اور قرآن مجید بلاغت کے اس مرتبہ پر فائز تھا جو انسان کی پہنچ سے بالا تھا یہی معجزہ عرب کے فصیح وبلیغ لوگوں کو عاجز کیے رکھتا تھا۔
ایک ہی بات انداز الگ :
قرآن مجید مختلف جگہوں پر ایک ہی بات بیان کرتا ہے لیکن ہر جگہ انداز اتنا منفرد اورنرالہ کہ ہر بار ایک ہی بات لیکن انداز مالکل منفرد۔ قرآن مجید باکمال تصنیف اور اس کے باکمال مصنف کے مصنف اعلیٰ ہونے پر واضح دلیل ثبت کرتاہے۔
آخر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے