کتاب کا نام:بات پر بات
مولف کا نام:صاحبزادہ برق التوحیدی حفظہ اللہ تعالیٰ
مضمون:مولاناعبداللہ دانش(امریکہ)کی تالیف جدید ”بات سے بات“میں مودودیت نوازی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ۔
ناشر:بیت التوحید،دارالسلام(ٹوبہ ٹیگ سنگھ)پاکستان۔
صفحات کی تعداد:176
قیمت:400
کتاب کا تعارف و تبصرہ:
٭کتاب ہذا میں فاضل مؤلف نے عبداللہ دانش صاحب کی کتاب ”بات سے بات“کے بہت سے قابل گرفت مواقف کا انتہائی ناقدانہ اور تحقیقانہ تعاقب و تجزیہ کیا ہے،مثلاً: دانش صاحب نے اپنی کتاب میں جماعت اسلامی کے بانی ومقتدیٰ اعظم سید ابوالاعلیٰ مودودی کوعلوم اسلامیہ آلیہ و عالیہ میں ”امام“کے منصب جلیل پر فائز کرنے کی کوشش کی ہے،اور انہیں امام عربی لغت و تفسیر،امام حدیث روایتاًودرایتاً،اور عظیم مفکر اسلام باور کرانے کی بھرپور سعی کی ہے،اس سلسلے میں انہوں نے اپنی تالیف میں دلائل کے طور پر بہت سی مثالیں بھی پیش کی ہیں،حتی کہ مودودی صاحب کی متفق علیھا لغزشوں کا بھی بے جا دفاع کیا ہے۔
مثلاً:صفحہ:31 ،پر مولانامودودی کے مناقب بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:
جو شخص اسقدر وسعت ظرف کا مالک ہو کہ اپنے ہم عصر دشنام طرازوں کےجواب میں ادنیٰ الفاظ بھی استعمال نہ کرے،وہ صحابہ کرام ؇ جیسی ہستیوں کے خلاف کیسے گستاخانہ لکھ سکتا ہے؟
صاحبزادہ برق توحیدی صاحب ”بات پر بات“ ص: 140پر اس کا نہایت خوبصورت جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
موصوف سے سوال کیا جانا چاہیے کہ مولانا مودودی کی ایسی تحریریں کوئی در بطنِ شاعر نہیںکہ ان کے صدور میں کوئی استحالہ ہو،ان کی تفسیر،خطبات اور خلافت و ملوکیت جیسی کتابیں اور دیگر تحریریں یا تفسیر مطبوع ہیں،لہذا صفائی کا یہ بھونڈا انداز اپنانے کے بجائے سوال تو یہ ہونا چاہیے :ایسا شخص حضرات صحابہ ؇ جیسی عظیم ہستیوں کے خلاف یہ گستاخانہ تحریر کیسے لکھ گیا اور ان کے قلم سے یہ ہرزہ سرائی کیسے سرزد ہوئی؟
٭موصوف دانش صاحب نے صرف بےجا مودودیت نوازی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ افسوس اس دفاع لاحاصل میں انہوں نے مدارس دینیہ ،اور انکے اساتذہ و طلباء کو بھی نہ بخشا،رقمطراز ہیں:
مدارس کے طلبا پر ترس آتا ہےکہ کس قدر تنگ نظری، خوف و ہراس ،کورانہ تقلید کا دور تھا،بچوں کی ذہنی نشوونما ویسے کھلی فضا میں نہیں کی جاتی جیسے سیکولر اسکولوں ، کالجوںاور یونیورسٹیوں میں کی جاتی ہے۔ (بات سے بات ،ص:12)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ہمارے بزرگ بھی(تفہیم القرآن پڑھنے سے)منع کرتے تھے،مگر جب ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنادماغ کھول کر پڑھا تو معلوم ہوا ہمارے بزرگ غلط اور وہ جھوٹ بولتے ہیں۔(بات سے بات،ص:31-32)
اس پر نقد و جرح کے مختلف انداز اپناتے ہوئے مولانا توحیدی صاحب رقمطراز ہیں:
اگر موصوف اہل حدیث مدارس میں پرورش پاکر ”یخرج المیت من الحی“کا مظہر بن گئے ہیں تو کم از کم انہیں ان مدارس کا اگر شکریہ ادا کرنے کی توفیق نہیں تو ان کے خلاف منفی تاثر دینے سے تو گریز کرنا چاہیے،کہ ماں کا حق تو والد سے بھی تین گنا زیادہ ہوتا ہے،موصوف آٹھ سال جماعت اسلامی کے فیلڈ ورکر رہ کر اتنا حق سمجھتے ہیں تو ان مدارس میں آٹھ سال تک فیڈر لینے کا کچھ حق نہیں۔(بات پر بات،ص:14)
مزید لکھتے ہیں:
ان الفاظ کو بار بار پڑھیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ الفاظ ایک ایسے شخص کے ہوں جس کا خود وجود ان الفاظ کی تردید ہے،کہ موصوف سے کوئی پوچھے اگر آپ کا یہ تاثر وتبصرہ صحیح ہے توپھر آنجناب کس صحرا کا خودرو پودہ ہیں،…. دینی مدارس کے متعلق اس تاثر کے پیچھے ان کے اندر کا چور بولتا ہے کہ یوں ثابت کیا جائے مولانا مودودی اگر کسی مدرسہ میں نہیں پڑھے تو اسی سبب وہ تنگ نظری سے محفوظ اور تحقیقات کا وسیع دائرہ رکھتے ہیں،مگر اس چور دروازہ سے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں دینی مدارس کا کچھ بگڑتا ہے کہ نہیں مولانا مودودی بہرحال سندفراغت نہیںپاسکتے۔(بات پر بات،ص:15-16)
دور حاضر میں اسلامی علوم ودرسگاہیں اور دینی طلباء کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والے بیمار قلوب واذہان کی کمی نہیں،لہذا ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خیر و برکت کے ان چشموں اور ان سے جاری فیضان کو پراگندہ کرنے کی سعی مذموم کرنے والوں کے پروپیگنڈے کا جواب دیا جائےنہ کہ انکی ہم نشینی اختیار کی جائے ،لیکن افسوس صد افسوس عبداللہ دانش صاحب کی اس بے بصیرتی اور غدر پر کہ محض تنظیمی تعصب اور اپنے ذاتی رجحانات کی بنیاد پر ثابت شدہ حقائق سے روگردانی کرگئے۔
اس تناظر میں محترم صاحبزادہ برق توحیدی کی ”بات پر بات“داد تحسین کی مستحق اور قابل ستائش ہے۔
جہاں تک مولانا مودودی صاحب کا تعلق ہے تو ”لکل عالم زلۃ“کے بمصداق ان سے بہت سی لغزشیں سرزد ہوئیں،جنکے خطرناک نتائج برآمد ہوئے،جنکا اندازہ زیر تبصرہ کتاب کے مطالعے سے ہوگا۔
٭نیز فاضل مؤلف نے بھی مولانا مودودی کی بعض صفات حمیدہ کو تسلیم کیا ہے،چنانچہ صفحہ:27پر لکھتے ہیں:
بلاشبہ مولانا مودودی نے اپنے طریقہ پر بڑی خدمت دین کی ہے۔
صفحہ 153 پر لکھتے ہیں:
بلاشبہ مولانا مودودی بڑے باصلاحیت شخص تھے اور انہوں نے اپنے ماحول میں حسب استطاعت بڑا کام کیا اور نام کمایا۔مگر یہ کہنا کہ وہ جامع الصفات بلکہ سب کچھ تھے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی ہمعصر ہمسر نہ تھا بلکہ کوئی پیش رو بھی نہ تھا قطعاً خلاف حقیقت ہے۔
نیز صفحہ 20 پر مودودی صاحب کی تحریری خدمات کے متعلق لکھتے ہیں:
ہمارے خیال میں مولانا مودودی کی بعض کتب مفید طلب ہیں مگر ان کی حیثیت مولانا مودودی کی مجموعی فکر و نظر کے تناظر میں محض دام ہم رنگ زمین سے زیادہ نہیں ،بنا بریں انکی مخصوص کتب تو بہر حال ایسی کتب کے زمرہ میں آتی ہیں،جن کے مطالعہ سے گریز ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کا ابطال و اعدام ضروری ہے۔
نیز صفحہ:124 پرمولانا مودودی سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئےرقمطراز ہیں:
ہمیں معلوم بلکہ تسلیم ہے کہ مولانا مودودی کا اس پہلو میں قابل قدر کام ہے،لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے،جسکے ساتھ تصویر کا دوسرا رخ سامنے رکھنا بھی ضروری ہے،تاکہ اس کارنامے کی حقیقت واضح ہوسکے،چنانچہ کون انکار کرسکتا ہے کہ جہاں مولانا مودودی نے کالجز اور اسکولوں کے طلباء یا پڑھے لکھے طبقہ کو دین سے متعارف کروایا یا اپنی شخصیت کے سحر سے متاثر کیا وہاں یہ بھی ہوا کہ وہ تمام حضرات مولانا مودودی کی کورانہ تقلید بلکہ متعصبانہ عقیدت اور متعصبانہ محبت میں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کا مصداق بن گئے،کہ وہ مولانا مرحوم کی تحریروں میں چھپے اعتزال و رفض سے مسموم ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
٭اسی طرح مولانا عبداللہ دانش صاحب نے امام ابوحنیفہ کےمناقب بیان کرتے ہوئے بعض مقامات پر حد اعتدل سے تجاوز کیا،مثلاً:عقیقہ کے متعلق امام صاحب کے موقف کہ” یہ بدعت ہے“کی تاویلات کرنے کی کوشش کی اور اس سعی لاحاصل میں انہوں نے بہت سی فاش غلطیاں بھی کیں،اور علمی خیانت کے بھی مرتکب ہوئے،حالانکہ امام صاحب کے دفاع میں فقط اتنا کہہ دینا کافی ہوتا کہ ان تک عقیقہ سے متعلق احادیث نہ پہنچ سکیں،چنانچہ اس موضوع پر بھی زیر تبصرہ کتاب میں توحیدی صاحب نے دانش صاحب کا خوب تعاقب کیا ہے۔
٭اسی طرح عبداللہ دانش صاحب نے ”بات سے بات“میں جماعت اسلامی کی پالیسیوں،سیاست وغیرہ کادفاع کیا ہے،فاضل مؤلف نے اس عنوان پر بھی انکی خوب خبر لی ہے،مثلاً:صفحہ78 -79پر انکے دفاع بے جا پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جماعت اسلامی کی سیاست اگرچہ اسکا اندرونی معاملہ ہے اس پر ہمیں تبصرہ کا کیا حق ہے؟تاہم اس دفاع پر موصوف سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں جماعتیں(نواز لیگ اور پی پی پی)لادینی ہیں تو یہ انکشاف آپ پر کب سے ہوا ہے؟جب جماعت اسلامی نواز لیگ یا پی پی پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو کی؟ اس وقت دین لوٹ آتا ہے اور وہ سیکولر سے دینی ہوجاتی ہیں،…..آپ کو جماعت اسلامی مختلف رنگ دھارکر رِنگ میںاترتی ملے گی،گویا وہ سیاسی ہودج میں بیٹھی ایسی دوشیزہ ہے جو ”لاترد ید لامس“کی مظہر ہے،ضرورت ہو تو وہ رات کو تحریک انصاف کے ساتھ کسی میرج ہال میں داخل ہو تو صبح حسب ضرورت پی پی پی کے ساتھ کسی کلب سے برآمد ہو،صوبہ سرحد میں وہ تحریک انصاف کی شریک اقتدار ہوگی تو اسی وقت لاہور میں نواز شریف کی حلیف اقتدار ہوگی۔
کتاب کی خصوصیات:
٭الغرض کتاب ہذا دراصل عبداللہ دانش صاحب کے زلات و اخطاء اور الزامات و افتراءات اور مودودیت و جماعت اسلامی کی مضطرب سیاست کے بے جا دفاعات کا کافی و وافی جواب اور مذکورہ عناوین میں حقائق کی آئینہ دار ہے،اگر چہ فاضل مؤلف کا انداز تقریباً پوری”بات پر بات“ میں دفاعی سے زیادہ جارحانہ رہا ہےمگر شاید یہ دانش صاحب کی ”بات سے بات“ کا فطری ردعمل ہے،جس میں دامن احتیاط کا بعض اوقات ہاتھ سےچھوٹ جانا عام سی بات ہے، جیسا کہ فاضل مؤلف نے امام ابوحنیفہ کے ضمن میں کیا۔
٭کتاب ہذا اگرچہ اپنی ضخامت کے لحاظ سے بڑی نہیں لیکن سیاسی حالات خصوصاً جماعت اسلامی کی سیاست کے تناظر میں اپنے موضوع اور مشمولات کے اعتبار سے نہایت مفید اور پڑھنے لائق ہے،البتہ اسکی قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔
٭تقریبا تمام عناوین کے انداز بیان میں روانی پائی جاتی ہے،بسا اوقات اشارات و کنایات سے بھی کام لیا ہے۔
٭حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
٭معیاری کاغذ و طباعت۔
٭خوبصورت ٹائٹل۔
 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے