مخلوق کے لیے نبوت و رسالت اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم احسان اور نعمت ِعظمیٰ ہے۔ مخلوق کے لیے یہ ایک ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنی کسی نعمت کا احسان نہیں جتایا لیکن نبوت و رسالت کا رب العزت نے خصوصی طو رپر ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ۔ (آل عمران۔164)
’’ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان ہی میں سے ایک ایسا رسول منتخب کیا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے۔ ان کا تذکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت (دانائی) کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْرٌ عَلِیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٍ۔ (التوبۃ 128)
’’یقینا تم میں ایک ایسا رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے۔ اس پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے۔ وہ تمہاری فلاح کا حریص ہے اور اہلِ ایمان کے لیے شفیق و رحیم ہے۔‘‘
تیسرے مقام پر عمومی طو رپر فرمایا: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ (الانبیاء۔ 107)
’’اے نبیﷺ! ہم نے آپ کو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
وہ بزمِ نبوت و رسالت جس میں سیدنا آدم علیہ السلام سے پہلے کوئی نبی نہیں اور اس بزم رسالت میں محمدﷺ کے بعد کوئی رسول نہیں۔اور نہ ہی اب اس بزم رسالت میں کسی کو بحیثیت نبی اور رسول شامل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اب اس بات کا امکان ہے۔
لیکن اگر کوئی نبوت و رسالت کا امکان پیدا کر کے خود کو اس بزمِ رسالت میں شمار کرنے کی جسارت کرتا ہے تو یاد رکھیے! کائنات میں اس سے بڑھ کر کوئی ملعون اور شیطان نہیں۔
اس سلسلے میں نبوت و رسالت کی چند عمومی خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں جنہیں بنظر غور دیکھئے اور لوحِ قلب پہ نقش کرنے کی کوشش کیجئے:
1-بزم انبیاء علیہم السلام میں سیدنا محمد بن عبداللہ (رسول ہاشمی) علیہ السلام کے علُو مرتبت میں کوئی سہیم و شریک نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تا قیامت اس کا کوئی امکان ہے۔
2-آپﷺ کی صدق دل سے گواہی اور اس بات کا حلفاً اقرار کہ آپﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔
3-آپﷺ کے بعد اب تا قیامت کسی شخص کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ نبوت و رسالت کا اہل ہو سکتا ہے۔
4-عقیدئہ ختم نبوت اور ختم الرسالت کی یہ بنیادی قرآنی دفعہ ہے۔جس کا انکار کفر ہے۔ جس کا ثبوت الم ٓ سے لے کر والناس کی سین تک تمام تر قرآن مجید ختم نبوت پر دلالت کرتا ہے۔
5۔اس بات کا اقرار اور قلبی یقین رکھنا، کہ آپﷺ کے بعد وحی کے نزول کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ جس طرح آپﷺ کے بعد کوئی نبوت کا اہل نہیں ہو سکتا اسی طرح آپﷺ کے بعد کوئی وحی کا بھی اہل نہیں ہو سکتا۔
6۔رسولِ اکرمﷺ کے بعداگر کوئی مدعی نبوت کاذبہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے تو اسے رحمانی وحی نہیں ،بلکہ شیطانی وحی ہی کہا جا سکتا ہے۔ شیطانی وحی والہام اور کشف کی حقیقت جاننے کے لیے دیکھئے۔
وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیَائِ ہِمْ۔
’’ اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں۔‘‘(سورئہ الانعام۔121)
لہٰذا مدعی نبوت کاذبہ مرزا غلام قادیانی اور اس جیسے دوسرے کذابوں کو جو وحی اور الہام ہوا کرتا تھا (جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں) وہ یقینا شیطانی الہام ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ حقیقی وحی کا سلسلہ تو رسولِ اکرمﷺ کے بعد قطعی طور پر ختم ہو چکا ہے۔
7۔اگر کوئی شخص محمدﷺ کا کلمہ پڑھ کر اقرار نبوت کر کے خود کو کلمہ گو برادری میں شامل کرنے پر بضد ہے تو اس شخص کا پس منظر (Background)دیکھنا پڑے گا کہ یہ کن معنوں میں کلمے کا اقرار کرتا ہے۔ کیونکہ دورِ رسالت مآبﷺ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو کلمے کے اقرار اور بظاہر صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے باوجود، انہیں جھوٹا اور منافق قرار دیا اور رب العزت نے خود ان کے منافق ہونے کی گواہی دی۔ تفصیلات جاننے کے لیے دیکھئے ۔ (سورئہ المنافقون)
8۔ اگر دورِ رسالتﷺ میں کلمۂ رسالت کے اقرارکے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے ایمان کو غیر معتبر قرار دیا ہے تو آج کے منکرینِ رسالت قادیانیوں اور دوسرے نام نہاد مسلمانوں کے ظاہری کلمے کو کیسے معتبر تصور کیا جا سکتا ہے۔
9۔نبوت و رسالت کے بارے میں یہ بھی نوٹ کر لیجئے گا۔ کہ سارے انبیاء علیہم السلام انسان تھے، وہ کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور بیوی بچوں والے تھے۔ سوائے چند ایک کے مثلاً یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے۔(سورئہ یوسف ۔ 109)
سورۃ الفرقان:20
سورۃ الکہف: 110
سورۃ ابراہیم: 11
سورۃ الرعد: 38
سورۃ بنی اسرائیل: 95
10۔یہ بات نوٹ کر لیجئے، کہ نبوت و رسالت عطائی اور وہبی ہوتی ہے آدمی اپنی محنت سے انجینئر و ڈاکٹر بن سکتا ہے، عالم و فاضل بن سکتا ہے شاعر و ادیب بن سکتا ہے صدرو وزیر اور سپہ سالار بن سکتا ہے یا بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن کبھی رسول اور نبی نہیں بن سکتا، اور نہ ہی بنایا جا سکتا ہے کیونکہ رسالت غور و فکر اور محنت سے نہیں ملتی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی دَین اور عطا ہے۔
وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُ (العمران 179🙂
اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اپنے رسولوں میں سے (خصوصی منصب کیلئے) منتخب کر لیتے ہیں کوئی انسان یا کوئی پیغمبر یا فرشتہ اللہ تعالیٰ پہ اعتراض ہر گز نہیں کر سکتا، کہ اسے اس منصب کے لیے منتخب کیوں نہیں کیا گیا۔
اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (الانعام: 124)
اللہ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ رسالت کا کام کس سے لے؟ اور کس طرح لے؟
اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ
اللہ تعالیٰ انسانوں اور فرشتوں میں سے رسالت (پیغام بری کیلئے) منتخب کرتے ہیں۔ (الحج: 75)
11۔انبیاء ورُسل علیہم السلام کو غیر معمولی روحانی قوتیں اور طاقتیں عطا کی جاتی ہیں، جو کہ کسی عام آدمی کے بس میں نہیں ہوتیں۔
12 ۔اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے تمام انبیاء رُسل علیہم السلام پر ایمان لانا لازمی ہے۔ نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا رَد اور قلع قمع بھی لازم ہے۔
مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا۔ (سورۃ الاحزاب 61)
(یہ نبوت کے جھوٹے دعویدار) مَلعون جہاں بھی مل جائیں انہیں پکڑ کر ان کا قیمہ قیمہ بنا ڈالو لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر فرض ہے، کہ وہ ایسے گستاخ مُدّعی نبوت لعنتیوں کا نوٹس لیں، ورنہ محبانِ رسول ﷺ قانون ہاتھ میں لینے کے لیے مجبور ہوںگے۔ جبکہ ممتاز حسین قادری شہید کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
13۔انبیاء ورسل علیہم السلام معصوم اور بے گناہ ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ مخلوق میں یہ شرف اور کسی کو حاصل نہیں ہے اور نہ ہی انبیاء کے علاوہ کسی کو معصوم قرار دیاجاسکتا ہے۔
14۔انبیاء ورسل ہدائت کے اعلیٰ ترین معیار پر قائم ہوتے ہیں۔ اور صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔
15۔انبیاء ورسل علیہم السلام کے بارے میں ایک اصولی اور بنیادی بات یہ ہے، کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشِ نفس سے نہیں بولتے تھے، بلکہ ان کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تابع تھی۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی
وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتے، یہ تو ایک وحی ہے، جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔(النجم4–3)
اسی لیے تو آپﷺ نے فرمایا تھا۔
لَایُوْمِنُ اَحَدُکُم حَتّٰی یَکْوْنَ ھَوَاہُ تَبعًا لما جِئْتُ بِہٖ
تم میں اس وقت تک وہ (کوئی شخص) مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کومیری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کر دے۔ (شرح السنہ )
16–اَشہَدُ اَنَّ مُحَمداًرَّسَولُ اللّٰہِ
’’میں گوہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘
اس گواہی کے تحت، آپﷺ کی بلا تردّد اطاعت اور سنتوں کی پیروی لازم ہے۔
17۔آپﷺ سے ایسی محبت رکھنا، کہ دنیا میں ایسی محبت اور کسی سے نہ ہو حتٰی کہ والدین، اولاد اور اپنی جان سے بھی بڑھ آپﷺ سے محبت ہو یہی تقاضائے محبت رسولﷺ اورتقاضائےایمان بھی ہے۔
18 ۔آپﷺ کی محبت میں دوسری تمام محبتوںا ور چاہتوں کی نفی کرتے ہوئے آپﷺ کی تعظیم و توقیر اور نصرت و دفاع کا جذبہ بھی رکھتا ہو۔
19۔آپﷺ کے حسن و جمال اور فضائل و کردار کو معاشرے میں اجاگر کر کے لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنا، کہ روئے زمین میں فقط آپﷺ کی بات ہی معتبر ہے۔ اور آپﷺ ہی مُطاعِ حقیقی ہیں جن کی اطاعت ہر لحاظ سے مقدم ہے۔
20۔ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ
کہ نبیﷺ مومنین کے لیے ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر زیادہ حق رکھتے ہیں۔ (الاحزاب 6) کے تحت آپﷺ کے اکرام کا خیال رکھا جائے، اور کلمہ گو برادری میں اکرامِ رسالت و نبوت کا احساس بیدار کیا جائے۔
21– لَا تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا
رسول اللہ کو اس طرح نہ پکارو (اس طرح آپﷺ کا اسم مبارک نہ لو)جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو (النور 63) کے تحت آپﷺ کے آداب کا خیال رکھا جائے۔
22۔آپﷺ کے ذکر کے بعد، آپﷺ کا نام لیتے ہوئے درود پڑھا جائے اذان کے بعد، مسجد میں داخل ہوتے ہوئے، مسجد سے باہر نکلتے ہوئے اور محافل قرأت میں آپﷺ پر صلوٰۃ و سلام (درودشریف) پڑھنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ یہ بھی آدابِ رسالتﷺ میں شامل ہے۔
23۔سیرت النبیﷺ سے آگاہی کے سلسلہ میں سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا جائے۔
24۔لوگوں میں آپﷺ کی حدیثوں اور سنتوں پر عمل کی ترجیح دی جائے۔ اور عوام میں حدیثوں اور سنتوں کی اہمیت کو واضح کیا جائے۔
25۔آپﷺ سے متعلقہ صحیح روایات کو رواج دیا جائے۔ اور موضوع و کمزور روایات کی نشاندہی کی جائے تا کہ لوگوں میں ریسرچ اور تحقیق کی جستجو پیدا ہوسکے۔
26۔آپﷺ کی روزنامہ سنتوں کو زندہ کیا جائے، اور ان سنتوں پر عمل یقینی بنایا جائے۔
27۔آپﷺ کی پیاری سنتوں کا احترام کیا جائے، اور سنتوں کے مذاق اور استہزا سے احتیاط کی جائے۔
28۔آپﷺ کی سنتوں کی برکات اور ان کے اثرات کو اُجاگر کیا جائے۔
29۔آپﷺ کی پیاری سنتوں کی نفی کرنے والوں کو ہمدردی و خیر خواہی سے سمجھایا جائے۔
30۔آپﷺ کی پیاری سنتوں سے بغض رکھنے والوں اور تنقید کرنے والوں سے بھی حتی الامکان شفقت و محبت کا برتائو اختیار کیا جائے۔
31۔آپﷺ کی آل، اولاد اور ازواج النبیﷺ کا بھی احترام سے تذکرہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ بھی اکرام رسالتﷺ کا تقاضا ہے۔
32۔آپﷺ کے اصحاب سے محبت و عقیدت کا اظہار بھی محبت ِرسولﷺ کا تقاضا ہے۔ اور صحابہ y کے مقام و مرتبے کا خیال رکھنا بھی اکرامِ رسالت ہے۔
33۔جو صحابہ کرام y سے بغض و عناد رکھتا ہے۔ اس سے بغض رکھنا بھی تقاضائے اکرامِ رسالتﷺ ہے۔
34۔علماء اسلام کی قدرو منزلت اور ان کی خدماتِ جلیلہ کا اعتراف بھی اکرامِ رسالت ہے کیونکہ علماء میراث ِنبوت کے وارث اور محافظ ہیں۔
خاندانی سطح پر کرنے کے کام
35 ۔آپ کی محبت پر مشتمل بچوں اور اہل خانہ کی تربیت کا اہتمام کرنا۔
36۔گھروں اور خاندانوں میں خوشی و غمی کے مواقع پر اتباع رسالتﷺ پر دروس کا بندوبست کرنا کہ خوشی کے موقع پر آپﷺ کا طریقِ کار کیا تھا؟ غمی کے موقع پر آپﷺ کا طرزِ عمل کیا تھا؟
ہم عموماً ان مواقع کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ یہی موقع ہوتا ہےکہ آپﷺ کی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت کو اجاگرکیا جائے۔
37۔بچوں کے لیے سیرت النبی ﷺکے خوبصورت عنوان پر خوبصورت انداز میں لٹریچر مہیا کیا جائے اور صبح و شام کے اذکار اور معمولاتِ نبوی ﷺ سے اہلِ خانہ کو آگاہ کیا جائے۔
38 ۔فیملی کی بنیاد پر کم از کم مہینے میں ایک بار سیرت کی مجلس کا اہتمام کیا جائے۔
39 ۔اگر گھر میں میاں و بیوی اسوۂ نبویﷺ کو اپنا لیں، تو وہ گھر یقینا جنت کی نظیر بن جائے گا اور دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کی برکات کا نزول ہونے لگے گا۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔
40۔گھروں میں روزمرہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ احادیث اور سنتوں پر عمل کو فروغ دیا جائے۔
41۔گھروں میں اجتماعی دعوت افطار پروگرام تشکیل دیئے جائیں۔ اور سنت نبوی کی روشنی میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو شیئر (Share)کیا جائے۔
تعلیمی اداروں میں کرنے کے کام !
42۔تعلیمی اداروں میں طلباوطالبات کی آگاہی کے لیے حقوقِ رسالتﷺ کے چیپٹرز (Chapters) کا ذکر کیا جائے۔
43۔ایسے لیکچرز کا انتخاب کیا جائے، جن میں سیرتِ طیبہ کا خصوصی انصرام ہو۔
44۔یونیورسٹیوں میں حیاتِ نبویﷺ پر مشتمل مختلف پہلوئوں کو تحقیقی سطح پر اجاگر کیا جائے۔ یعنی ڈاکٹریٹ (Ph.D)کروایا جائے۔
45۔عالمِ اسلام کی نمایاں یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالات پیش کئے جائیں۔
46۔یونیورسٹیوں اور مدارس میں سیرت شو کا اہتمام کیا جائے۔ ان نمائشوں (Shows) میں عہدِ نبویﷺ کے ماڈلز کا بھی انتظام کیا جائے اور ان میں ممکنہ دلچسپی کے پہلو اختیار کئے جائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء طالبات اس سے مستفید ہو سکیں۔
47۔اسکول و کالج اور یونیورسٹیز میں سیرت کے موضوع (Topic)کو خصوصی اہمیت دی جائے اور خصوصی لائبریریاں قائم کی جائیں۔
48۔طلباو طالبات میں سیرت کے موضوع پر ہر زبان میں مقالات لکھنے کا ذوق پیدا کیا جائے۔
49۔طلباو طالبات کے مابین تحریری و تقریری مقابلے کروائے جائیں، اور انہیں بیش قیمت انعامات سے نوازا جائے۔
50۔کالجوں،یونیورسٹیوںاورمدارس میں تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کر کے طلباء و اساتذہ کو حقوق رسالتﷺ اور سیرت طیبہ سے کما حقہ آگاہ کیا جائے۔
خطباء و آئمہ اور داعیانِ رسالتﷺ کے کرنے کے کام!
51۔رسول کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں دعوت و تبلیغ کا اسلوب اپنایا جائے اور بلا امتیاز ہر طبقہ میں دعوت پہنچائی جائے۔
52۔آپﷺ کے کردار و اخلاق کو قبل از نبوت اور بعد از نبوت لوگوں کے سامنے رکھا جائے۔
53۔سیرت النبی ﷺکے عمومی پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے۔
54۔نماز میں ان آیات کی خصوصاً تلاوت کی جائے۔ جن میں آپﷺ کے کسی پہلو کا ذکر ہے اور نماز کے بعد مختصراً اس کی تفسیر بھی بیان کی جائے۔
55۔مساجد و مدارس میں حفظِ قرآن کے ساتھ ساتھ حفظِ حدیث کا بھی اہتمام کیا جائے۔
56۔عام لوگوں کے دلوں میں جو اشکالات پائے جاتے ہیں۔ ان کی اچھے انداز میں اصلاح کی جائے، اور قرآن و سنت کی روشنی میں انھیں مطمئن کیا جائے۔
57۔شانِ رسالتﷺ کے خلاف لب کشائی کرنے والوں کے انجام سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔
58۔قرآن و سنت کی روشنی میں شانِ رسالتﷺ بیان کی جائے اور غلوسے اجتناب کیا جائے۔
ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی سطح پر کرنے کے کام
59۔خصائص نبویﷺ اور شمائلِ نبوتﷺ کو موقع کی مناسبت سے مثبت انداز میں میڈیا پر نشر کیا جائے ا ور غلو سے گریز کرتے ہوئے حقیقت پر مبنی بات کی جائے۔
60 ۔ ہر اس بات سے گریز اور احتیاط کی جائے، جس سے آپ ﷺیا آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی اہانت کا پہلو عیاں ہو۔
61۔مغربی میڈیا کا بھر پور جواب دینا ،جو کہ توہینِ رسالتﷺ کو وہ اپنا صحافتی حق سمجھتے ہیں جبکہ ہم تحفظ حقوق رسالتﷺ کو اپنی جان سے بھی عزیز تصور کرتے ہیں۔
62۔مغربی اعتدال پسند اور انصاف پسند طبقے کی آراء کا پرچار، جس کا وہ وقتاً فوقتاً آپﷺ کے بارے میں اظہار کرتے رہے ہیں۔
63۔میڈیا کی سطح پر ٹاک شو پروگرامز کا اہتمام کیا جائے۔
64۔اخبارات و رسائل میں مضامین لکھے جائیں، جس میں آپﷺ کی سیرت کے آفاقی پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے۔ اور سیرت کے موضوع پر مقالات اور کالم لکھے جائیں۔ جن سے مسئلہ ختمِ نبوت کی وضاحت ہو۔
65۔اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز اور لکھاریوں سے رابطہ کیا جائے اور انہیں اسوۂ حسنہﷺ پر لکھنے کی ترغیب دی جائے۔
66فیس بک /ٹویٹر اور یوٹیوب (الیکٹرانک میڈیا) کے تمام تر ذرائع کو متحرک کیا جائے، کہ جہاں بے حیائی کے فروغ میں کسی ضابطے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا وہاں سیرت النبیﷺ کے موضوعات کا انتخاب عمل میں لا کر کم از کم اپنی اسلام دوستی اور مسلمانی کا ہی ثبوت دیا جائے۔
67۔سافٹ ویئرز اور سی ڈیز تیار کرنے والی عالمی کمپنیوں سے اس سلسلہ میں کام لیا جا سکتا ہے۔
68۔سیرت النبیﷺ کے موضوعات پر مختلف زبانوں میں کتب شائع کی جائیں، اور انہیں بڑے بڑے بک سینٹر ز ،یونیورسٹیوں اور لائبریریوں میں بھیجا جائے۔
69۔سیرت النبیﷺ پر میگزین شائع کئے جائیں اور خصوصی نمبرزکی اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔
70۔مختلف اداروں اور تنظیموں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے، کہ وہ ایک خصوصی فنڈ کا اہتمام کر کے سیرت النبیﷺ پر کتب کی اشاعت و تقسیم کا بندوبست کریں۔
71۔دوسرے مذاہب اور غیر مسلموں سے مثبت انداز میں مکالمے کیے جائیں اور انہیں سیرت مصطفیٰﷺ سے آگاہی دی جائے۔
72۔عقیدۂ ختم نبوت، حقوقِ رسالت، فضائلِ رسالت اور خصائصِ نبوتﷺ کے موضوعات پر مشتمل ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے تیار کیے جائیں۔ جنہیں میسج کے ذریعہ فیس بک اور ٹویٹریر دیا جاسکے۔
73۔سیٹیلایٹ چینل، انٹر نیٹ، ریڈیو اور ٹی وی پر سیرت النبیﷺ پر مبنی پروگرام نشر کیے جائیں۔
74۔میڈیا کو اس طرف راغب کر کے اس مسئلہ کی اہمیت واضح کی جائے آخر وہ بھی تو اسی کلمہ گو برادری کا حصہ ہیں۔
75۔تعلیمی نصاب میں ختم ِ نبوت کے عنوان کو اُجاگر کیا جائے اور مسئلہ ختم نبوت کو زیرِبحث لایا جائے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی سیمینارز کا انعقاد کرکے طلباوطالبات اور اساتذہ میں دلچسپی کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
ۭ٭…٭…٭