شراب کی خاص اقسام :

بازار میں مختلف ناموں کی شرابیں دستیاب ہیں جنہیں ان میں پائی جانے والی الکحل کی مقدار کے مطابق کچھ خاص اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

جیسے برانڈی، وسکی، روم، لیکیر وغیرہا میں الکحل کی نسبت 40 فیصد سے 60 فیصد تک ہوتی ہے اور جن ، ہولاندی اور جنیفا میں یہ مقدار 33 فیصد سے 40 فیصد تک ہوتی ہے ۔ اس سے نیچے کچھ اور اصناف کی شرابیں ہیں جیسے بورت ، شری اور مادیرا میں الکحل کی مقدار 15فیصد سے 25 فیصد تک ہے ، ذیل میں ہلکے درجے کی شرابیں ہیں جیسے : کلاوت، ہوک، شمبائن، برجاندی جس میں الکحل کی مقدار 10 فیصد سے 16 فیصد تک پائی جاتی ہے اور بیرہ کی کچھ ہلکی شرابیں جن میں الکحل 2 فیصد سے 9 فیصد تک پایا جاتاہے جیسے : أیل، بورتر،استوت میونخ وغیرہ اور اسی طرح کچھ اور جو اسی آخری نسبت پر پائی جاتی ہیں جیسے : بوظہ، قصب المتخمر وغیرہما

شربت اور نبیذ کا نشہ آور ہونے سے پہلے استعمال کرنا :

شربت اور نبیذ کا نشہ آور ہونے سے پہلے استعمال کرنا جائز ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے امام ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتےہیں : مجھے پتہ چلا کہ نبی کریم روزے دار ہیں تو میں نے ان کے افطار کا انتظار کیا اور ان کیلئے نبیذ لیکر آیا جو میں نے کدو کے برتن میں بنائی تھی پھر جب ان کے پاس لیکر آیا تو وہ جوش ماررہی تھی تو آپ  نے فرمایا ’’اسے دیوار پر دے مارو، بے شک یہ اس کے پینے کی شے ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا ۔‘‘

اور امام احمدسیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عصیر(شربت) کی بابت روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’ اسے جوش مارنے سے پہلے پی لو ، ان سے پوچھا گیا یہ کتنے ایام میں جوش کی حالت میں آجاتی ہے تو آپ   نے فرمایا : تین دن میں ۔ اور امام مسلم وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم  کے لیے کشمش کا شربت تیار کرتے اور آپ  اسے آج ، کل اور پرسو کی شام تک پیتے پھر اس کے بعد خادم کو پینے یا پھینکنے کا حکم دیتے۔

امام ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خادم کے پینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اسے خراب ہونے سے پہلے استعمال کر لیتے یہ گمان کرتے ہوئے کہ تین دن سے زیادہ نہ ہوجائیں۔

امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ رسول اللہ کیلئے دن میں نبیذ تیار کرتی اور جب شام ہوتی تو آپ عشائیہ تناول فرماتے اور اسے نوش کرتے اور جب کچھ اس میں باقی رہ جاتی تو میں اسے پھینک دیتی یا پھر میں آپ کیلئے رات میں نبیذ تیار کرتی اور جب صبح ہوتی تو آپ ناشتہ کرتے اور اس میں اسے نوش فرماتے آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں برتنوں کو صبح وشام دھویا جاتا تھا۔ ‘‘

اور یہ حدیث عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی نفی نہیں کررہی کہ جس میں گزرا ہے کہ وہ ایک دن پیتے پھر دوسرے دن اور پھر تیسرے دن کی شام تک نوش کرتے کیونکہ تین دن زیادتی پر مشتمل ہیں نہ کی اس کی نفی ہو رہی ہو ۔اور تمام صحیح میں ہیں اور رسول اللہ کی سیرت مطہرہ میں یہ بات بڑی معروف ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں شراب کبھی نہیں پی بعثت سے قبل اور نہ ہی بعد میںہاں جہاں تک نبیذ کا تعلق ہے جسے آپ نے نوش فرمایا ہے تو وہ بعد میں نشہ میں مبتلا نہیں کرتی تھی جیسا کہ ان( سابقہ) احادیث میں واضح ہے ۔

جب شراب سرکہ میں تبدیل ہوجائے:

بدایۃ المجتہد میں کہاگیا ہے تمام علماء اس بات پرمتفق ہیں کہ شراب اگر بذات خود سرکہ میں تبدیل ہوجائے تو وہ جائز ہے لیکن اگر اسے قصداً جان بوجھ کر سرکہ میں تبدیل کیا جائے تو اس میں تین اقوال ہیں ۔

 ۱۔ تحریم            ۲۔ مکروہ             ۳۔ مباح

اور اس اختلاف کا سبب ایک حدیث پر قیاس کا مختلف فیہ ہونا ہے۔

اور یہ اختلاف اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں ہے جسے امام ابو داؤد رحمہ اللہ نےسیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ بے شک طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے اس شراب کا حکم دریافت کیا جو ورثہ میں یتیموں کے حصے آئی ہو؟ تو آپ  نے فرمایا ’’ اسے پھینک دو ‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کیا ہم اس کو سرکہ میں تبدیل نہ کر دیں تو آپ نے فرمایا’’ نہیں‘‘۔

تو اب جس نے اس منع سے سد الذریعہ مراد لی تو اس نے اس عمل کو مکروہ گردانا اور جس نے اس(نہی) انکار کو بغیر کسی علت کے تسلیم کیا تو اس نے اسے حرام جانا اور (تیسری جماعت) نے اس کی تحریم کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ کسی شے سے بابت نہی( انکار) اس کی اصل منع کردہ شے کی طرف نہیں لوٹتی اور اس طرح قیاس اس ( شراب ) کو سرکہ بنانے سے متعلق تحریم پرمعارض ہے اور شریعت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ احکام مختلف فیہ ہیں جو کہ اپنی ذات کی بناء پر مختلف فیہ ہیں اور جبکہ شراب کی ذات سرکہ کی ذات سے مختلف ہے۔ اور سرکہ اجماعاً حلال ہے ، پس جبکہ شراب سرکہ میں بدل جائے تو وہ حلال ہے ، چاہے وہ کسی بھی طریقے سے تبدیل ہوئی ہو۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے