شرعی ذمہ داریاں:
1- فرائض و واجبات کی ادائیگی:
بوڑھا ہونے کا یہ معنی نہیں کہ اس سے فرائض و واجبات (مثلا :نماز ،روزہ ،زکاۃ، حج وغیرہ) ساقط ہوگئے بلکہ بڑھاپے میں فرائض کی ادائیگی جوانی میں ادائیگی سے زیادہ اہمیت اختیار کرلیتی ہے کیونکہ بوڑھا انسان جوان کی بہ نسبت موت سے زیادہ قریب ہوتا ہے اسے فرائض کی زیادہ فکر ہونی چاہیئے ،البتہ بوڑھے حضرات کے لئے فرائض کے حوالے سے چند رخصتیں دی گئی ہیں جن کا ذکرآگے ہوگا،ان شاء اللہ العزیز۔
2- امر بالمعروف ونہی عن المنکر:
اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری نہایت اہم شرعی فریضہ ہے اور یہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو اسے سر انجام دینے کی طاقت رکھتا ہو اس میں جوان اور بوڑھے کی قید نہیں لیکن تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہے کہ اس سلسلے میں جوان کی بنسبت بوڑھے شخص کی بات زیادہ حکیمانہ اور مؤثر ہوتی ہے اور انہیں انکی بزرگی کے باعث زیادہ مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا لہٰذا اس بابت انکی ذمہ داری بھی زیادہ ہے ،اس بارے میں ”معاشرتی ذمہ داریوں“ کے ذیل میں تحریر کیا جاچکا ہے۔
3-عیال داروں کی کفالت کرنا اگر کفالت کرسکتے ہوں۔
یہ نہایت ہی مبارک اور فطری ذمہ داری ہے،اس میں نسل انسانیت کی بقاء ہے ،انسان ہونے کے ناطے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نسل انسانی کی حفاظت، افزائش ، نشوونما اور بہتری میں اپنا کردار ادا کرے ،اور اس ذمہ داری کی فرضیت کسی دلیل کی محتاج نہیں، دین اسلام چونکہ ”دین فطرت“ہے لہذا اس میں ہر انسان کو مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ اپنےعیال داروں(مثلاً: والدین،بہن بھائی،بیوی بچے،غلام لونڈی اور خادمین وغیرہ)کی اپنی طاقت و بساط کے مطابق کفالت کرے، اس ذمہ داری کا آغازبلوغت سے ہوتاہے،ہر وہ شخص جو شرعاً ۛعاقل و بالغ ہےاس پر واجب ہےکہ اپنے عیال داروں کی کفالت کرے( اگر وہ ہوں)اور اگر اسکے لئے اسے کوئی پیشہ اختیار کرنا پڑے تو قاعدہ ”مَا لا يَتِمُّ الْوَاجِبُ إلاَّ بِهِ فَھُوَ الْوَاجِب“ کے تحت یہ بھی واجب ہے۔
”عیال داروں کی کفالت“ کی فرضیت اگر چہ بدیہی ہے اسکے باوجود اسکی عمومی فرضیت کو صراحتاً بیان کیا گیااورچند خاص صورتوں(مثلاً طلاق اور خاوندکی وفات کی صورت میں بیوی بچوں کی کفالت کون کرے گا) کو بھی تفصیلاً بیان کیا گیانیز اسکے فضائل اور اہمیت کوبھی بکثرت بیان کیا گیاہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِآبَائِكُمْ إِنَّ اللهَ يُوصِيكُمْ بِالْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ماؤں کے متعلق تاکید کرتا ہے،اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ماؤں کے متعلق تاکید کرتا ہے،اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے باپوں کے متعلق تاکید کرتا ہے،اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے قرابت داروں کے متعلق تاکید کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ:3661،الصحیحۃ:1666)
٭نیز جب عیال دار زیادہ ہوں اور مختلف رشتے ہوں اور ان سب کی اجتماعی کفالت ممکن نہ ہو تو کون سارشتہ کفالت کا زیادہ حقدار ہے ،اسکے متعلق حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ،جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ :
(قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي أُمًّا وَأَبًا وَأَخًا وَأُخْتًا وَعَمًّا وَعَمَّةً وَخَالًا وَخَالَةً فَأَيُّهُمْ أَوْلَى إِلَيَّ بِصِلَتِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا وَابْدَأ بِمَنْ تَعُولُ أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ)
ایک شخص نے پوچھا:اللہ کے رسول ﷺ میری ماں ہے،باپ ہے،بھائی ہے،بہن ہے،چچاہے،پھوپھی ہے،ماموں ہے،اور خالہ ہے،ان میں کون میری صلہ رحمی(حسن سلوک، کفالت)کا زیادہ مستحق ہے؟رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:خرچ کرنے والا ہاتھ ہی اوپر ہے،اور اپنے عیال داروں سے شروع کر،تیری ماں،پھر تیرا باپ ،پھر تیری بہن، پھر تیرا بھائی،پھر جو تیرا (ان سب کے بعد) قریبی ہو۔(شعب الایمان للبیہقی:7459،صحیح الجامع:8067)
٭اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ بہن بھائی عیال داروں میں شامل ہیں،نیز بیوی بچے بھی عیال داروں میں شامل ہیں ،جیسا کہ سیدنا ابو ہریرۃ سے کسی شخص نے پوچھا کہ:میری کفالت میں کون لوگ آتے ہیں؟تو انہوں نے کہا:
تَقُولُ المَرْأَةُ: إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِي، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِي، وَيَقُولُ العَبْدُ: أَطْعِمْنِي وَاسْتَعْمِلْنِي، وَيَقُولُ الِابْنُ: أَطْعِمْنِي، إِلَى مَنْ تَدَعُنِي
تیری بیوی تیرےعیال داروں میں ہے،(اگر تو نے اسکی کفالت نہ کی تو)وہ کہے گی کہ میری کفالت کر یا مجھے طلاق دے،تیری اولاد تیرےعیال داروں میں ہے، (اگر تو نے انکی کفالت نہ کی تو)وہ کہےگی:میری کفالت کر،مجھے کس کے حوالے کرتا ہے؟اور تیرا غلام تیرے عیال داروں میں ہے،(اگر تو نے اسکی کفالت نہ کی تو) وہ کہے گا:مجھے کھلا یا مجھے فروخت کردے۔(صحیح بخاری:5040،مسند احمد:10830،عربی الفاظ صحیح بخاری کے ہیں جبکہ ترجمہ مسند احمد کی روایت کے مطابق ہے)
٭عیال داروں کی کفالت کرنا صرف ایک فریضہ نہیں بلکہ نہایت افضل صدقہ بھی ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دِينَارٌ أنْفَقْتَهُ في سَبيلِ اللهِ وَدِينار أنْفَقْتَهُ في رَقَبَةٍ وَدِينارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ وَدِينَارٌ أنْفَقْتَهُ عَلَى أهْلِكَ أعْظَمُهَا أجْراً الَّذِي أنْفَقْتَهُ عَلَى أهْلِكَ
ایک وہ دینار جو تو اللہ کی راہ(جہاد )میں خرچ کرے ، ایک وہ دینار جو تو گردن(غلام،لونڈی)آزاد کروانے میں خرچ کرے، ایک وہ دینار جو تو کسی مسکین پر صدقہ کرے،اور ایک وہ دینار ہے جو تو اپنے گھروالوں پر خرچ کرے ،ان میں بڑا اجر اس دینار کا ہے جو تو اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے۔(صحیح مسلم:995)
اس حدیث میں عیال داروں کی کفالت کو سب سے افضل” اِنفاق“یعنی ”خرچ کرنا“ قرار دیاگیا ہے،یہ انسانی ذمہ داری ہونے کے ساتھ چونکہ شرعی فریضہ بھی ہے لہذا اگراسکی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت بھی شامل حال ہو تو یہ اجر و ثواب کا باعث بھی ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِى بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِى فِى امْرَأَتِكَ
تو جو بھی خرچ کرے اس سے تیری مراد اللہ کی رضا کا حصول ہو تو تجھے اس پر اجر ضرور دیا جائے گا حتی کہ جو تو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے اسکا بھی۔(صحیح مسلم:1628)
فائدہ:نہایت غور طلب ہے کہ کفیل اپنے زیر کفالت افراد پر جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اسکے لئے ”صدقہ“بن جاتا ہے،حالانکہ ہر فرد اپنا نصیب کھارہا ہے،نہ کہ اپنے کفیل کا نصیب،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفیل کو ذریعہ بنادیا،وہ محنت کرتا ہے،ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتا ہے،کماکر خرچ کرتا ہے تابعی کبیرابو قلابہ نے کہا:
وَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ صِغَارٍ يُعِفُّهُمْ أَوْ يَنْفَعُهُمُ اللهُ بِهِ وَيُغْنِيهِمْ
اس سے زیادہ اجر کس شخص کا ہوسکتا ہے جو اپنے زیر کفالت بچوں پر خرچ کرے،اسطرح انہیں برائی سے بچالے،یا اللہ اسکے ذریعے انہیں نفع دےاور انہیں محتاج ہونے سے بچالے۔(صحیح مسلم:994)
رسول اللہ ﷺ سے ام المومنین ام سلمہ نے پوچھا کہ :اگر میں اپنے بچوں پر خرچ کروں تو کیا مجھے اسکا اجر ملے گا کیونکہ میں انہیں بے یارومددگار چھوڑ نہیں سکتی آخر کار وہ میرے ہی بچے ہیں ؟تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نَعَمْ لَكِ أجْرُ مَا أنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ
ہاں،تو ان پر جو خرچ کرے گی تجھے اس پر اجر دیا جائے گا۔(صحیح بخاری:5369)
٭یاد رہے کہ عیال داروں کی کفالت کرنا ایسا حق ہے جسکی بابت بروز قیامت حساب دینا ہوگا،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
والرَّجُلُ رَاعٍ في أهْلِهِ وَمَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالمَرْأةُ رَاعِيَةٌ في بيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا
مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے،اور اس سے اسکے زیر سرپرستی افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا،اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے اسکے زیر سرپرست افراد کے متعلق پوچھا جائے گا۔(صحیح بخاری:893)
٭کچھ لوگ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے سے کتراتے ہیںجبکہ اپنی ذات پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں،انہیں اللہ کے رسول ﷺکی یہ حدیث ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے،ارشاد فرمایا:
(كَفَى بِالمَرْءِ إثْمَاً أنْ يحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ )
کسی بھی شخص کے گناہ گار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان افراد سے ہاتھ روک لے (نان نفقہ نہ دے)جن کے رزق کا وہ اختیار رکھتا ہے۔(صحیح مسلم:996)
٭ایسے ہی بہت سے لوگ اپنے عیال داروں کی پرواہ نہیں کرتے کام کرنے کے قابل ہونے کے باوجود محنت کرنے سے گھبراتے ہیں، ان کے گھر میں بیوی بچے مناسب خوراک و لباس کو ترس جاتے ہیں،احساس محرومی انہیں ہر جانب سے گھیر لیتا ہے،اس طرح کے بچے کسی نہ کسی طرح بڑے توہوجاتے ہیں لیکن انکا کیریئر تباہ ہوجاتا ہے،اخلاق و مزاج بگڑ جاتا ہے،کردار بھی محفوظ نہیں رہتا،یہ اپنے والد کا نام روشن کرنے اور انکے لئے دعائیں کرنے کے بجائے انہیں ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے،چونکہ اس خرابی کا بنیادی سبب انکا کفیل ہوتا ہے، لہذا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كفى بالمرء إثمًا أن يضيع من يقوت
کسی بھی شخص کے گناہ گار ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان افراد کو ضائع کردے(نان نفقہ نہ دے)جن کی کفالت اسکے ذمے ہے۔(سنن ابی داؤد:1694،صحیح الجامع:4481)
4-انہیں تعلیم دینا،انکی تربیت کرنا:
٭دور حاضر میں والدین اور خاندان کے بزرگ افراد جس نہج پر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور انکی تادیب کا اہتمام کرتے ہیں وہ نہایت ہی افسوسناک ہے،بچوں کو تفریحاًگالیاں ،گانے اور ڈانس سکھادیا جاتا ہے،بلکہ اب تو بصد افسوس گانا اور رقص عصری تعلیمی نصاب کا حصہ بن چکے ہیں،نیز انہیں پلیئرز اور ایکٹرز اور کارٹونز اور موویز کے متعلق بہت کچھ بتایا جاتا ہے اور انہیں ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہےلیکن مسلمان ہونے کے ناطے انہیں مسلم ہیروز اور انکے کارناموں اور کردار و عمل کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا جاتا،اگر چہ یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اگلی پیڑی کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچائیں،لیکن دور حاضر کے والدین کے پاس اسکے لئے فرصت نہیں لہذا اب ان سے زیادہ یہ دادا ، دادی،اور نانا، نانی کی ذمہ داری بنتی ہے،جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
اے ایمان والو !اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جسکا ایندھن انسان اور پتھر بنیں گے،جس پر مسلط فرشتے نہایت مضبوط اور سخت ہیں ،جو اللہ کے حکم کی ذرا بھی نافرمانی نہیں کرتے،اور انہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل کرتے ہیں۔(سورۃ التحریم:06)
عصری تعلیم کا تعلق دنیا سے ہے، یہ دنیا فانی کا فائدہ سکھاتی ہےلیکن” دین ،اللہ تعالی کی پسند و ناپسنداور اُخروی وابدی حیات“ کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی،جبکہ وہ علم جو دنیا و آخرت دونوں کی خیر و بھلائی سکھاتا ہے وہ دین و شریعت کا علم ہے ،یہی وہ علم ہے جو جہنم کی آگ اور اسکے شدید و غلیظ پہریداروں کے عذاب سے بچنے کا طریقہ سکھاتا ہے ،لہذا عصری تعلیم کو ضرورت کی حد تک رکھنا چاہیئے جبکہ دینی تعلیم کو ”مقصد “ مان کر حاصل کرنا چاہیےہے۔
٭سب سے پہلے عقیدہ توحید کی تعلیم ہے،کیونکہ پیدائش کے وقت تو ہر بچہ” فطری عقیدہ توحید“ پر ہوتا ہے لیکن جب دنیا اور اہل دنیا کے حالات اس پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں تو ضرورت پڑتی ہے کہ اسکے فطری عقیدہ توحید کو متاثر ہونے سے بچایا جائے اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ اسکا مربّی و معلّم اسے عقیدہ توحید کی تعلیم دے،تاکہ بچپن سےیہ عقیدہ اسکے دل و دماغ میں راسخ ہوجائے اور وہ تاحیات اس پر قائم رہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ
پس اس بات کو جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔(سورۃ محمد:19)
سیدنا لقمان جنہیں اللہ تعالیٰ نے ”حکیم“ قرار دیا، اور جنہیں علم و حکمت سے نوازا اورقرآن مجید کی ایک سورت کو انکے نام سے موسوم کیا، جب انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تو سب سے پہلے یہ کہا:
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔(سورۃ لقمان:13)
٭یاد رہے کہ بنیادی عقائد(توحید ورسالت وغیرہ) و ارکان اسلام و ایمان کی تعلیم وتربیت فرض ہےاور اسکا سب سے بہتر موقع بچپنا ہے کیونکہ بچپن میں ذہن نشین کی گئی بات تاحیات یاد رہتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے تعلیم و تعلّم کی اہمیت وفرضیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(سنن ابن ماجہ:224،صحیح الجامع:3913)
اس سے مراد بنیادی عقائد،ارکان اسلام ،ارکان ایمان، طہارت ،حلال و حرام کا بنیادی علم ہے،جیسا کہ اس حدیث کی شرح میں درج ذیل ائمہ و علماء کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے:
علامہ محمد بن عبد الہادي السندي (المتوفیٰ : 1138هھـ)نے کہا:
وَقَالَ الْبَيْضَاوِيّ الْمُرَاد مِنْ الْعِلْم مَا لَا مَنْدُوحَة لِلْعَبْدِ مِنْهُ كَمَعْرِفَةِ الصَّانِع وَالْعِلْم بِوَحْدَانِيِّتِهِ وَنُبُوَّة رَسُوله صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَيْفِيَّة الصَّلَاة فَإِنَّ تَعَلُّمه فَرْض عَيْن وَقَالَ الثَّوْرِيُّ هُوَ الَّذِي لَا يُعْذَر الْعَبْد فِي الْجَهْل بِهِ
علامہ بیضاوی نے کہا کہ اس سے مراد وہ علم ہے جسکے بغیر گزارہ نہ ہو،مثلاً:خالق کی معرفت،اور اسکی توحید کا علم ،اور اسکے رسول ﷺ کی نبوت کا علم اور نماز کا طریقہ،یہ علم حاصل کرنافرض عین ہے۔اور امام ثوری نے کہا:اس سے وہ علم مراد ہے جس سے جاہل رہنے کا عذر قبول نہ کیا جائے گا ۔(حاشیہ سنن ابن ماجہ)
علامہ حسین بن محمود الشیرازیی المظہری (المتوفیٰ727ھ) نے کہا:
واعلم: أن المراد بالعلم الذي هو فريضة على كل مسلم: العلم الذي طلبه فرض عين لا فرض كفاية، وذلك مختلف باختلاف الأشخاص.فالفقير الذي ليس عليه إلا الصلاة والصوم من الأركان يجب عليه معرفة صحة الاعتقاد من كون الله تعالى واحدًا لا شريك له، وهو حي قديم أزلي أبدي، وغير ذلك مما ذكر تعلمه من العقائد في كتب الاعتقادات، ويجب عليه تعلم ما تصح به الصلاة والصوم وما يفسدهما، ويجب عليه معرفة الحلال والحرام، والخبيث والطاهر، والوضوء والغسل.وأما الغني الذي تجب عليه الزكاة والحج؛ فيجب عليه تعلم ما يجب على الفقير من العلم مع زيادة تعلم علم الزكاة والحج، ويجب على التاجر تعلم علم ما تصح به العقود، وما يفسدها، وكذلك من يعمل عملًا يجب عليه تعلم علم ذلك العمل.وأما تحصيل العلم بحيث يصير الرجل مجتهدًا في بلد ومفتيًا، فهذا فرض كفاية لا فرض عين، وإذا صار رجلٌ مجتهدًا في بلد أو في ناحية سقط الفرض عمن كان قريبًا بمكان ذلك الرجل المجتهد بحيث تبلغ فتواه إليه، وإن لم يكن بكل ناحية مفتي عصى أهل تلك الناحية، حتى يصير واحد منهم مفتيًا.
وہ علم جس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ،تواس فرض سے مراد فرض عین ہے نہ کہ فرض کفایہ،اور یہ مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف قسم کا ہے ،لہذا جو شخص ٖغریب ہو جس پر نماز اور روزے کے سواکوئی اور رکن فرض نہ ہو اس پر صحیح عقیدے کا علم حاصل کرنا فرض ہے، مثلاً:یہ کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اسکا کوئی شریک نہیں،وہ ہمیشہ سے زندہ ہے،اور ہمیشہ زندہ رہے گا،وغیرہ عقائد جنکا علم عقائد کی کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے،نیز اس پر اس علم کا حاصل کرنا بھی فرض ہے جسکے ذریعے وہ نماز ،روزے کے صحیح وفاسد ہونے کو جان سکے،نیز اس پر حلال،حرام اور پاکی ، ناپاکی،اور وضو و غسل کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے۔
جبکہ جو شخص مالدار ہو،جس پر زکاۃ اور حج فرض ہو تو اس پر وہ علم تو فرض ہے ہی جسکا حاصل کرناغریب پر فرض ہے،اسکے علاوہ اس پر زکاۃ اور حج کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے،اور جو تاجر ہو اس پرفرض ہے اس علم کا حاصل کرنا جسکے ذریعے وہ تجارتی لین دین کے معاملات کے صحیح یا فاسد ہونے کو جان سکے،ایسے ہی ہر عمل کرنے والے پر اس عمل کے متعلق علم حاصل کرنا فرض ہے۔
جبکہ وہ علم جسے حاصل کرنے کے بعد کوئی شخص اپنے شہر میں مجتہد یا مفتی بن جاتا ہے تو یہ علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے،جب کوئی شخص کسی شہر یا محلےمیں مجتہد بن جائے تو اس مجتہد کے قریب کے علاقے والوں پر سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے،جبکہ اسکا فتوی ان تک پہنچتا ہو،اور اگر وہاں کسی بھی علاقے میںکوئی بھی مفتی نہ ہو تو وہ سب ہی نافرمان شمار ہوں گے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایک مفتی بن جائے۔ (المفاتيح في شرح المصابيح:1/318)
ابو سلیمان الخطابی(المتوفیٰ388ھ) نے کہا:
سئل الفضيل بن عياض عن قوله صلى الله عليه وسلم طلب العلم فريضة على كل مسلم، فقال كل عمل كان علیك فرضاً فطلب علمه عليك فرض وما لم يكن العمل به عليك فرضاً فليس طلب علمه عليك بواجب
قاضی فضیل بن عیاض سے نبی کریم ﷺ کی اس حدیث کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:جو عمل تجھ پر فرض ہے اسکا علم حاصل کرنا بھی تجھ پر فرض ہے اور جو عمل تجھ پر فرض نہیں اسکا علم حاصل کرنا بھی تجھ پر فرض نہیں۔(معالم السنن:4/186)
٭خود رسول اللہ ﷺ بھی بچوں کو بنیادی عقائد کی تعلیم دیا کرتے تھے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن عباس ؆کو جب وہ بچے تھے شریعت کی پابندی،استمداد،اور تقدیر سے متعلق بنیادی عقائد کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
يَا غُلاَمُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ
اے بچے میں تجھے چند باتیں سکھاتا ہوں،اللہ کی حفاظت کر(یعنی اسکے احکامات کی)وہ تیری حفاظت کرے گا،اللہ کی حفاظت کر تو اسے اپنی مدد میں اپنے سامنےپائے گا،اور جب بھی تجھے مدد مانگنی پڑے تو صرف اللہ سے مدد مانگ،اور یقین رکھ کہ اگر سب لوگ تجھے نفع پہنچانے پر اتفاق کرلیں تو وہ تجھے اتنا ہی نفع پہنچا سکیں گے جتنا اللہ نے تیرے لئے لکھ رکھا ہے اس سے زیادہ نہیں،اور اگر وہ سب تجھے نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلیں تو وہ صرف اتنا ہی نقصان پہنچا سکیں گے جتنا اللہ نے تیرے لئے لکھ رکھا ہے،اس سے زیادہ نہیں،تقدیر لکھنےوالے قلم اٹھالئے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔ (سنن ترمذی:2516،الصحیحۃ:2382)
٭لقمان حکیم نے اپنے بچے کوبنیادی عقائد کی تعلیم دیتے ہوئے کہا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نقل فرمایا:
وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 15يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ 16
اگر والدین تجھے مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے تو انکی اطاعت نہ کرنا البتہ دنیاوی امور میں دستور کے مطابق انکا ساتھ دینا،اور ان لوگوں کی راہ پر گامزن رہنا جو میری جانب رجوع کرتے ہیں،تم سب کو میری جانب ہی لوٹ آنا ہے،پھر میں تمہیں وہ سب بتاؤں گا جو تم کرتے رہے،اے میرے بیٹے،اگر رائی کے دانے برابر کوئی شے کسی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں بھی ہو تو اللہ اسے لے آئے گا کیونکہ اللہ باریک بین اور باخبر ہے۔(سورۃ لقمان:15-16)
٭اس کے بعد فرائض و واجبات کی تعلیم ہے،اور ان میں سب سے مقدم ”الصلاۃ“یعنی نماز ہے،والدین ، صاحب خانہ،اور گھر کے بزرگ افراد سبھی کا فرض ہے کہ وہ اپنے گھر کے تمام افراد جو سات سال کے ہوچکے ہوں انہیں نماز پڑھنے اور نماز کی پابندی کرنےکا حکم دیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا
اور اپنے اہل خانہ کو نماز کا حکم دے اور اس کی پابندی رکھ۔ (سورۃ طہ:132)
چنانچہ آپ ﷺ اپنے گھر والوں” ازواج و اولاد “کو نماز کا حکم دیتے اور تمام اہل ایمان والدین و اجداد سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ , وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ
اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں اس پر (نماز نہ پڑھنے پر)مارو جب وہ دس سال کے ہوں۔ (سنن ابی داؤد:495،صحیح الجامع:5868)
یعنی سات سال کا ہونے تک نمازکی فرضیت اسکی ادائیگی کا طریقہ ،دعائیں،آداب وغیرہ کی تعلیم دینی ہے، پھرسات سال کا ہوجانے پر باقاعدہ نماز پڑھوانی ہے، اسکے لئے ترغیبات و ترہیبات سے کام لینا ہے،پھر جب بچہ دس سال کا ہوجائے تو نماز نہ پڑھنے پر سزا دینی ہے۔ (تنبیہ) نماز میں چونکہ” قراءت قرآن“ فرض ہے لہٰذاقاعدہ ”ما لا یتم الواجب الا بہ فھو واجب“کے بمصداق قرآن پاک کی کچھ سورتیں زبانی یاد کروانا بھی فرض ہے،اسکا بہترین طریقہ ناظرہ قرآن کی تعلیم ہے، ایسے ہی نماز کے لئے طہارت بھی شرط وجوب ہے لہٰذا اسی قاعدے کے تحت طہارت کی تعلیم بھی فرض ہے۔
نیزبچے جب دس سال کے ہوجائیں توانہیں شرم و حیاء اور عفت و پا ک د امنی کی تعلیم و تربیت دینی ہے،اوراس عمر کے بچے اور بچی کابستر دیگر بچوں سے الگ کردینا ہے،جیسا کہ اسی حدیث کے آخر میں فرمایا:
وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ
اور انکے بستر ایک دوسرے سے الگ کردو۔(سنن ابی داؤد:495،صحیح الجامع:5868)
لقمان حکیم نے اپنے بچے کوبنیادی عبادات کی تعلیم دیتے ہوئے کہا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نقل فرمایا:
يَابُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
اے میرے بچے،نماز کی پابندی کرنا اور اچھائی کاحکم دینااور برائی سے روکنا،اور تمہیں جو ایذا پہنچے اسے برداشت کرنا،کیونکہ یہ مضبوط کاموں میں سے ہے۔ (سورۃ لقمان:17)
(جاری ہے)