سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری۔ قسط 9
بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدِّينُ النَّصِيحَةُ

9-58- حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِاللہِ يَقُولُ يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَامَ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللہِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمُ الْآنَ ثُمَّ قَالَ اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ .

ابوالنعمان، ابوعوانہ، زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ جس دن مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا، اس دن میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا (پہلے) وہ کھڑے ہو گئے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی، پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر) کہا، کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے خوف اور وقار اور آہستگی کو اپنے اوپر لازم رکھو، یہاں تک کہ امیر تمہاے پاس آجائے اس لئے کہ امیر تمہارے پاس ابھی آتا ہے، پھر کہا کہ تم لوگ اپنے امیر (متوفی) کے لئے (خدا سے) معافی مانگو، کیونکہ وہ (خود بھی اپنے مجرموں کے قصور) معاف کر دینے کو پسند کرتے تھے، پھر کہا کہ اما بعد! میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں، تو آپ نے مجھ سے مسلمان رہنے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے کی شرط لگائی، پس میں نے اسی پر آپ ﷺسے بیعت کی، قسم ہے اس مسجد کے پروردگار کی، بے شک میں تم لوگوں کا خیر خواہ ہوں اس کے بعد انہوں نے استغفار کیا اور (منبر سے) اتر آئے۔
Narrated Ziyad bin’Ilaqa: I heard Jarir bin ‘Abdullah (Praising Allah). On the day when Al-Mughira bin Shu’ba died, he (Jarir) got up (on the pulpit) and thanked and praised Allah and said, “Be afraid of Allah Alone Who has none along with Him to be worshipped.(You should) be calm and quiet till the (new) chief comes to you and he will come to you soon. Ask Allah’s forgiveness for your (late) chief because he himself loved to forgive others.” Jarir added, “Amma badu (now then), I went to the Prophet and said, ‘I give my pledge of allegiance to you for Islam.” The Prophet conditioned (my pledge) for me to be sincere and true to every Muslim so I gave my pledge to him for this. By the Lord of this mosque! I am sincere and true to you (Muslims). Then Jarir asked for Allah’s forgiveness and came down (from the pulpit).
معانی الکلمات :
الْوَقَارِ: سنجیدگی اور بردباری
السَّكِينَةِ: اطمینان
اسْتَعْفُوا من الاستعفاء ۔ اللہ تعالیٰ سے عفو ودرگزر طلب کرنا
أُبَايِعُكَ: میں بیعت کرتا ہوں
النُّصْحِ: نصیحت یعنی خیرخواہی
تراجم الرواۃ :
1۔ نام ونسب : محمد بن الفضل السدوسی البصری
کنیت : ابو النعمان
ولادت ووفات: ابو النعمان رحمہ اللہ کی ولادت 140 ہجری اور وفات ماہ صفر 224 ہجری میں ہوئی۔
محدثین کے ہاں رتبہ: امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ہاں ثقہ ثبت تھے مگر آخری عمر میں حافظہ کمزور ہوگیا تھا۔
اورامام الذہبی رحمہ اللہ کے ہاں الحافظ
امام بخاری رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے تھے۔
2۔ نام ونسب : الوضاح بن عبد اللہ الیشکری الواسطی البزار محدث البصرہ
کنیت : ابو عوانۃ
وفات : ابو عوانہ رحمہ اللہ کی وفات 175 ہجری میں ہوئی۔
محدثین کے ہاں رتبہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ابوعوانہ کے بارے فرماتے ہیں کہ ’ـھو صحیح الکتاب إذا حدث من حفظہ‘امام دارقطنی رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت تھے ۔
3۔ نام ونسب : زیاد بن علاقہ بن مالك الثعلبی الکوفی
کنیت : ابو مالک
محدثین کے ہاں رتبہ: امام نسائی رحمہ اللہ کے ہاں ’’ثقہ‘‘ تھے۔ اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ کے ہاں صدوق تھے ۔
وفات : ابو مالک رحمہ اللہ نے 225 ہجری میں وفات پائی۔
4۔ نام ونسب : جریر بن عبد اللہ بن جابر بن مالک البجلی القسری صحابی جلیل
کنیت : ابو عمرو
فضائل : سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی بہت خوبصورت اور حسین وجمیل شخصیت کے مالک تھے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جریر اس امت کے یوسف ہیں۔
سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

مَا رَآنِي رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إِلاَّ تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي، وَقَالَ: يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ مِنْ هَذَا البَابِ رَجُلٌ مِنْ خَيْرِ ذِي يَمَنٍ، عَلَى وَجْهِهِ مِسْحَةُ مَلَكٍ

’’ جب بھی رسول اللہ ﷺ مجھے دیکھتے تو میرے چہرے کی (خوبصورتی )سے مسکراتے مزید ایک دن فرمایا کہ ابھی اس دروازہ سے ایک شخصجویمن کا خوبصورت آدمی ہےداخل ہوگا اور اس کے چہرے پر فرشتے جیسا جمال نمودار ہوگا۔
مرویات : سیدناجریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے 101 احادیث مروی ہیں۔
وفات : سیدنا جریر بن عبد اللہ کی وفات 54 ہجری میں ہوئی۔
تشریح :
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر مقرر تھے۔ انھوں نے انتقال کے وقت سیدناجریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، اس لیے سیدنا جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اورلوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک بردباری اور اطمینان سے کام لیںکوئی شروفساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شروفساد ،لڑائی جھگڑا کوفہ والوں کی فطرت میں شامل تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیرمعاویہ نے سیدنامغیرہ کے بعد زیادکوکوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کاگورنر تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ سیدناجریر کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھاہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اوربھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور بغضنہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اورآج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیاہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ غفراللہ لہ آمین۔
صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’امام ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر اعتراضات کیےہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اورنہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی۔‘‘  (ایضاح البخاری، ص:۴۲۸)
امام قسطلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’إرشاد الساری شرح صحیح البخاری‘‘ میں فرماتے ہیں:
والنصیحۃ من نصحۃ العسل اذا صفیتہ او من النصح وھو الخیاطۃ بالنصیحۃ
یعنی لفظ نصیحت نصحہ العسل سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کرلیاگیا ہو یانصیحت سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑجوڑ کر ایک کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔
خیر خواہی کا فریضہ ہر مسلمان کو حسب استطاعت ادا کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ اور رسول مکرم ﷺ کی خیر خواہی بھی یہ ہے کہ زندگی بھر اُ ن کی تعظیم کی جائے ان کے احکامات پر عمل پیر ہوا جائے اور انہیں کی اطاعت اور فرمانبرداری بجا لائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر خواہی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے