کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔

مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے