Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

اصحاب تدریس وشارحین حدیث

Written by ایڈیٹر 26 Mar,2017
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

6۔حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی a
حضرت میاں صاحب السید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں جن علمائے کرام نے درس وتدریس میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں ان میں استادپنجاب شیخ الحدیث حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی(1334ھ) بھی شامل ہیں۔
حضرت حافظ صاحب اپنے دور کے نامور اساتذہ کرام سے علوم عالیہ وآلیہ میں اکتساب فیض کیا آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد الحق بن فضل اللہ بنارسی رحمہ اللہ (م 1278ھ) اور عارف باللہ السید عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ (م 1298ھ) بھی شامل ہیں۔
حضرت میاں صاحب سے علوم اسلامیہ کی تکمیل کے بعد حافظ عبد المنان امرتسر تشریف لائے اور حضرت مولانا سید عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ کی خدمت میں دو سال رہ کر کافی فیض اٹھایا مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی (م 1341ھ) لکھتے ہیں کہ
ثم سار إلى أمرتسر ولازم الشيخ الكبير عبد الله الغزنوي سنتين كاملتين، واستفاض منه فيوضاً كثيرة(نزھۃ الخواطر 8/321)
’’اس کے بعد امرتسر تشریف لے گئے اور پورے دو سال تک حضرت عبد اللہ غزنوی کی خدمت میں رہے اور کافی فیض اٹھایا۔ ‘‘
1292ھ میں وزیر آباد تشریف لائے اور دار الحدیث کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی اور اپنی زندگی قرآن وحدیث کی تدریس میں بسر کر دی آپ نے اپنی زندگی میں 40 مرتبہ سے زیادہ کتب ستہ کا درس دیا۔
مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (م1329ھ) فرماتے ہیں
لا أعلم أحداً في تلامذة السيد نذير حسين المحدث أكثر تلامذة منه، قد ملأ بنجاب بتلامذته (نزھۃ الخواطر 8/321)
’’میں نے سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں میں کسی کے شاگرد ان سے زیادہ نہیں دیکھے آپ نے پنجاب کو تلامذہ سے بھر دیا۔ ‘‘
مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ( م 1956ء) لکھتے ہیں کہ
(حضرت حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ) حضرت شیخ الکل میاں صاحب السید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے لائق شاگردوں میں سے ہیں جنہوں نے علم حدیث کی اشاعت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی آپ بلا تردد پنجاب کے اُستاد حدیث ہیں کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہیں جس میں آپ کے شاگرد نہ ہوں ۔ (تاریخ اہلحدیث ، ص : 428)
مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی ( م 1966ء) فرماتے ہیں کہ
حافظ عبد المنان حضرت میاں صاحب علیہ الرحمہ کے شاگرد تھے فن حدیث میں تمام معاصر پر فائز تھے۔ (ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص: 187)
تلامذہ :
حافظ عبد المنان کے تلامذہ کاشمار ممکن نہیں مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا عبد الحمید سوہدروی(والد محترم مولانا عبد المجید سوہدروی) مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا ابو القاسم سیف بنارسی،مولانا فقیر اللہ مدراسی،پروفیسر حکیم عبد الرحمان شاہ پوری، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا عبد القادر لکھوی،مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی، مولانا محمد اسمعیل سلفی، مولوی فضل الٰہی مجاہد وزیر آبادی، مولوی ابو البشیر مراد علی کٹھوروی سوہدروی رحمہم اللہ اجمعین۔(ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص : 187)
وفات :
حضرت حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی نے 67 سال کی عمر میں بروز منگل 16 رمضان المبارک 1334ھ مطابق 18 جولائی 1916ء بعد نماز عصر انتقال کیا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
آپ کی نماز جنازہ سمدھی مولانا ابو عبد اللہ عبید اللہ غلام حسن سیالکوٹی نے پڑھائی اور قبرستان پرانی چونگی اسلام آباد موڑ وزیر آباد میں دفن ہوئے۔ (تاریخ اہلحدیث ، ص:430)
شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری نے آپ کی وفات پر فرمایا :
’’آج اس زمانہ کا امام بخاری فوت ہوگیا ہے۔‘‘ ( أیضاً ، ص:430)
7۔مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری a
نامور محدث وجید عالم دین اور عالی شان مدرس جن کی ذات پر علم کو فخر اور عمل کو ناز تھا تدریس جس کے دم سے زندہ تھی۔ اساتذہ ان پر اس قدر نازاں کہ حضرت شیخ الکل میاں صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے۔
میرے درس میں دو عبد اللہ آئے ہیں
ایک عبد اللہ غزنوی دوسرے عبد اللہ غازی پوری
برصغیر کے نامور مصنفین اور اساطین فن نے حضرت حافظ عبد اللہ محدث غازی پورکے تبحر علمی ، ذوق مطالعہ ، وسعت معلومات اور علوم عالیہ وآلیہ میں مہارت تامہ کا اعتراف کیا ہے اور اس کے علاوہ ان کی تدریسی خدمات میں صف اول کے مدرسین میں سرفہرست رکھا ہے۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی فرماتے ہیں کہ
حافظ عبد اللہ غازی پوری سربرآور وہ فقیہہ تھے اور اس قدر تبحر علمی کے باوجود درس وتدریس میں اس قدر مشغول ہونے کے باوصف وہ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے۔ (نزھۃ الخواطر 8/287)
علامہ سید سلیمان ندوی(م 1373ھ) فرماتے ہیں :
’’درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی) ایک نامور حافظ عبد اللہ غازی پوری نے درس وتدریس کے ذریعہ خدمت کی اور کہا جاسکتاہے کہ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ اور شاگردوں کا مجمع ان کے سوا کسی اور کوان کے شاگردوں میں نہیں ملا۔ ( تراجم علمائے ہند (مقدمہ) ص : 37)
تلامذہ :
حافظ عبد اللہ غازی پوری کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا محمد سعید محدث بنارسی، مولانا شاہ معین الحق پہلواروی، مولانا عبد الرحمان محدث مبارک پوری، مولانا عبد السلام مبارک پوری، مولانا ابو بکر محمد شیث جون پوری، مولانا عبد الرحمان وفا، مولانا عبد المنان ، مولانا سید محمدداؤد غزنوی رحمہم اللہ اجمعین ۔ ( تراجم علمائے حدیث ہند ص : 423۔424)
حافظ عبد اللہ غازی پوری نے مدرسہ احمدیہ آرہ( مدراس) سے علیحدگی اختیار کرکے دہلی میں سکونت پذیر ہوئے اور مسجد حوض والی میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا تو شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی(گوجرانوالہ) آپ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔
تصانیف :
حافظ عبد اللہ غازی پوری صاحب تصنیف بھی تھے مختلف موضوعات پر ان کی 13 کتابیں ہیں حدیث میں مقدمہ صحیح مسلم کی شرح بنام ’’البحر المواج فی شرح لمسلم بن حجاج(عربی) لکھی جس میں مشکل الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے راویوں کے سلسلہ میں امام مسلم کے خیالات کی پوری پوری وضاحت کی گئی ہے ۔ ( جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات ، ص : 54۔ سیرت البخاری، ص:414 طبع دوم 1367 الہ آباد) 
وفات : 
حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری 21 صفر 1337ھ مطابق 26 نومبر 1918ء بمقام لکھنو وفات پائی۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
حافظ صاحب کی وفات پر علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے رسالہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ دسمبر 1918ء میں لکھا کہ
’’مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری اتباع سنت، طہارت وتقویٰ ، زہد وورع،تبحر علم، وسعت نظر اور کتاب وسنت کی تفسیر وتعبیر میں یگانہ عہد تھے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہوں نے علم دینیہ خصوصاً کتاب مجید اور حدیث شریف کے درس وتدریس میں گزارا اور سینکڑوں طلباء ان کے فیض تربیت سے علماء بن کر نکلے۔ ( یادرفتگان ، ص: 40)
شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے حافظ صاحب کی وفات پر اپنے اخبار اہلحدیث امرتسر میں لکھا۔
آہ! عبد اللہ میری آنکھوں نے تیرے جیسا کامل عالم نہیں دیکھا ۔ سننے میں تو بہت آئے ۔ آہ! شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔(تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:463)
8۔مولانا عبد الوہاب محدث صدری دہلوی a
حضرت شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ ہیں جو علمائے ذی وقار صاحب تدریس ہوئے ہیں۔ ان میں مولانا عبد الوہاب محدث صدری دہلوی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔
مولانا عبد الوہاب محدث دہلوی بلند پایہ مدرس،مجاہد،عالم فاضل، متبع سنت، شب بیدار،بزرگ تھے آپ نے اپنے زمانہ کے نامور علمائے کرام سے علوم دینیہ میں استفادہ کیا۔ عارف باللہ مولانا سید عبد اللہ غزنوی(م 1298ھ) حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی( م 1311ھ) سے بھی مستفیض ہوئے اور 20 سال کی عمر میں جملہ علوم عالیہ وآلیہ سے فراغت پائی۔
فراغت کے بعد 1300ھ میں جامع مسجد کلاں صدر بازار دہلی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور 1325 یعنی 25سال تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد اپنا علیحدہ مدرسہ صدر بازار دہلی میں بنام ’’دار الکتاب والسنہ‘‘ قائم کیا۔ اور اس میں آپ نے 26 سال تک درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا آپ کی تدریسی عمر پچاس سال تک محیط ہے اس مدت میں سینکڑوں علماء آپ سے مستفیض ہوئے آپ کے مشہور ومعروف تلامذہ یہ ہیں ۔
علامہ عبد العزیز میمن راجکوٹی، مولانا محمد بن یوسف سورتی، مولانا محمد بن ابراہیم جونا گڑھی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی ، مولانا عبد الجلیل سامرودی، مولانا عبد اللہ اوڈ، مولانا عبد الستار صدری دہلوی(صاحبزادہ)۔ (شیخ عبد اللہ غزنوی ، ص : 151)
تصانیف :
مولانا عبد الوہاب منصف بھی تھے کئی ایک کتابیں لکھیں حدیث میں مشکوۃ المصابیح کا عربی میں حاشیہ لکھا جو مطبع فاروقی دہلی نے شائع کیا۔
وفات : 
مولانا عبد الوہاب نے 8 رجب 1351 ھ بمقام دہلی رحلت فرمائی اور اپنے استاد محترم شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون ۔ ( ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص: 213)
9۔مولانا محمد عبد الرحمان محدث مبارک پوریa
مولانا محمد عبد الرحمان محدث مبارک پوری بلند پایہ محدث، فقیہ،مجتہد،عربی واردو کے نامور مصنف اور شارح حدیث تھے آپ اپنے علمی تحبر، وسعت معلومات اور ذوق مطالعہ کی بدولت پورے عالم اسلام میں معروف ومشہور تھے ان کی ذات بابرکات ہمارے تعارف کی محتاج نہیں ان کے اساتذہ میں حضرت مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ) شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی( م 1320ھ) اور علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی( م 1327ھ) جیسے اساطین فن شامل ہیں۔
فراغت کے بعد مولانا عبد الرحمان مبارک پوری نے مختلف دینی مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں ان کے تلامذہ میں نامور علمائے حدیث شامل ہیں۔ مثلاً :
مولانا عبد السلام مبارک پوری صاحب سیرۃ البخاری ، مولانا ابو الحسن عبید اللہ رحمانی مبارک پوری صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، علامہ ڈاکٹر محمد بن عبد القادر تقی الدین الہلالی المراکشی، استاد ادب ندوۃ العلماء ، مولانا عبد الجبار کھنڈیالوی سابق شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ اوکاڑہ ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنو، مولانا امین احسن اصلاحی صاحب تفسیر تدبرقرآن رحمہم اللہ اجمعین۔( تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ، ص: 144)
علم وفضل :
اللہ تعالیٰ نے مولانا عبد الرحمان مبارک پوری کو علم وعمل سے نوازا تھا، حدت ذہن،ذکاوت طبع، ذوق مطالعہ، وسعت معلومات کے اوصاف وکمالات نے آپ کو جامع شخصیت بنا دیا تھا۔ فن حدیث میں آپ کا رتبہ معمولی نہ تھا حدیث میں تبحر اور امامت کا درجہ رکھتے تھے۔ روایت کے ساتھ درایت کے مالک اور جملہ علوم عالیہ وآلیہ میں یگانہ روزگار تھے قوت حافظہ خداداد تھی۔ بینائی سے محروم ہوجانے کے باوجود درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھا کرتے تھے اور ہر قسم کے فتاوی لکھوایا کرتے تھے۔ مولانا اپنی تصانیف میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔ خاص طور پر احناف کے بارے میں نہایت شدید رویہ رکھتے تھے اور بڑی شد ومد سے ان کا ردّ کرتے تھے مگر یہ معاملہ صرف تصانیف تک محدود تھا جو سراسر علمی وتحقیقی تھا۔
مولانا مبارک پوری براہ راست عامل بالحدیث تھے صفات باری تعالیٰ کے سلسلہ میں ما ورد بہ الکتاب والسنہ پر ایمان رکھتے تھے۔( تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ، ص: 145۔146)
تصانیف :
مولانا عبد الرحمان مبارک پوری بلند پایہ مصنف تھے ان کی کتابیں اہل علم میں بہت مقبول ہیں عربی اور اردو میں تقریباً مختلف موضوعات پر لکھا : حدیث اور نصرت حدیث میں ان کی درج ذیل کتابیں ہیں ۔
تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع الترمذی ( عربی)
اس شرح میں جامع ترمذی کے رایوں کا ترجمہ، احادیث کی تخریج ، تصحیح وتحسین میں امام ترمذی کا تساہل، احادیث کی توضیح اور اختلاف مذاہب کی وضاحت کی گئی ہے یہ شرح چار مجلدات میں ہے ۔ ( مجموعی صفحات 1626۔ طبع دہلی 1346ھ)
مقدمہ تحفۃ الاحوذی (عربی)
یہ مقدمہ دو باب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے پہلے باب میں 41 فصلیں ہیں جن میں عام فنون حدیث ، کتب حدیث ، ائمہ حدیث کے متعلق نہایت کارآمد فوائد جمع کر دیئے گئے ہیں ۔ دوسرا باب 17 فصلوں پر مشتمل ہے جس میں خاص جامع ترمذی اور امام ترمذی کے متعلق مفید مباحث مذکور ہیں۔ (صفحات344 طبع دہلی)
ابکار المنن فی تنقید آثار السنن (عربی)
مولوی ظہیر احسن شوقی نیموی (حنفی) نے نصرۃ تقلید میں حافظ ابن حجر(م 852ھ)کی تصنیف ’’بلوغ المرام فی ادلۃ الاحکام ‘‘ کے نہج پر ایک کتاب’’آثار السنن‘‘ لکھی جس میں اپنے شعار تقلید کی حدیثیں چن چن کر بغیر تمیز غث وثمین بھر دیں۔ مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں ’’ابکار المنن فی تنقید آثار السنن‘‘ لکھی جس میں شوق صاحب کی تمام کاوشوں کی قلعی کھول کر رکھی دی۔ ( صفحات : 264 طبع 1334 کلکتہ ) (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:402)
اعلام اہل الزمن من تبصرہ آثار السنن (اُردو)
یہ رسالہ مولوی شوق نیموی صاحب کی کتاب ’’آثارالسنن‘‘ کے جواب میں ہے اس میں مولانا مبارک پوری نے آثار السنن کے صرف ان احادیث کی غلیطوں کی نشاندہی کی ہے جسے شوق صاحب نے قصداً کیا ہے۔ ( صفحات 13 مطبع سعید المطابع بنارس)
وفات :
مولانا عبد الرحمان محدث مبارک پوری نے 16 شوال 1353ھ مطابق 22 جنوری 1935ء کو مبارک پور میں انتقال کیا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون
صاحب تراجم علمائے حدیث ہند جنازہ کی کیفیت درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ
جنازہ میں زائرین کا ہجوم علاقہ بھر میں اپنی نظیر تھا بلا تفریق مشرب تمام فرق اسلامیہ شامل تھے قصبہ مٹو سے مبارک پور چوتھاریلوے اسٹیشن ہے زائرین سے بھری ہوئی ٹرین آئی اور راہ میں کسی اسٹیشن پر نہ رکی کہ مبادا زائرین نمازہ جنازہ سے محروم رہ جائیں ۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص : 406)
10۔مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی a
حضرت میاں صاحب السید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ ان کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نے 20 اساتذہ کرام سے جملہ علوم عالیہ وآلیہ میں اکتساب فیض کیا۔ تفصیل درج ذیل ہے۔
نمبر شمار
اساتذہ کرام
علوم وفنون
1
میاں پیر محمد
فارسی گلستان
2
سید محمد امین نصیر آبادی
صرف ونحو تابہ شرح جامی اور حفظ قرآن مجید
3
مولانا ہدایت اللہ جون پوری
شرح وقایہ اور آپ کے ایک شاگرد سے قطبی ومیر قطبی
4
مولوی زین العابدین جون پوری
تفسیر جلالین
5
مولانا لطف الرحمان بردوانی
مطول،میر زاہد وملا حسن
6
علامہ حسین بن محسن انصاری
صحیح بخاری،صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن نسائی
7
مولانا سلامت اللہ جراج پوری
صحیح بخاری، سنن ابن ماجہ ، شرح نخبۃ الفکر
8
مولانا احمد سندھی مہاجر مکی تلمیذ ملا عبد القیوم بڈہانوی خلف الصدق مولانا شاہ عبد الحی بڈیانوی داماد حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
صحیح بخاری ثلث اول ، اوائل صحیح مسلم
9
مولانا قاضی محمد ایوب بھوپالی تلمیذ ملا عبد القیوم بڈہانوی
سنن نسائی ، جامع ترمذی
10
مولانا منیر الدین تلمیذ مولوی محمد محسن کان پوری
میر زاہد، ملا جلال، مطول
11
مولوی محمد اسحاق منطقی رام پوری
قاضی مبارک
12
حافظ ڈپٹی نذیر احمد خان
سبعہ معلقہ، متنبی اور مقامات حریری
13
مولانا تلطف حسین بہاری
کتب فرائض
14
مولوی عبد الرشید رام پوری پروفیسر طبیہ کالج دہلی
حمد اللہ ، ہدایۃ آخرین، میر زاہد ورسالہ غلام یحییٰ
15
مولوی نظام الدین مدرس مدرسہ حسین بخش
صدرا،مسلم الثبوت، تصریح، شرح عقائد خیالی
16
شیخ الکل میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی
صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن اربعہ ( سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ (سند واجازہ حاصل کیا)
17
مولانا محمد بشیر سہوانی
میر زاہد ، امور عامہ ، شرح اشارات
18
شیخ محمد بن عبد اللطیف بن ابراہیم بن حسن نجدی محدث
کتب متداولہ احادیث کا سند واجازہ حاصل کیا
19
مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی صاحب ||’’عون المعبود شرح سنن ابی داؤد‘‘
حدیث میں سند واجازہ حاصل کیا
20
مولانا قاضی محمد بن عبد العزیز شہری
سند مسلسل بادلتہ حاصل ہوئی ۔
(تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:175 تا 177)
مولانا احمد اللہ نے سب سے زیادہ استفادہ مولانا محمد بشیر سہوانی سے کیا مولانا سہوانی نے فرضیۃ فاتحہ خلف امام پر مسجد حوض والی واقعہ نئی سڑک دہلی میں ایک مہینہ متواتر درساً فرمایا۔ آپ نے کتابی شکل میں بنام’’ البرہان العجاب فی فریضۃ ام الکتاب‘‘ چھپوا ئی۔
تکمیل کے بعد اپنی زندگی قرآن وحدیث کی تدریس میں وقف کر دی اور مدرسہ علی جان دہلی میں پورے 20 سال علوم عالیہ وآلیہ کی تدریس فرمائی 1339ھ میں دہلی کے اہل ثروت دو بھائیوں شیخ عبد الرحمان اور شیخ عطاء الرحمان رحمہما اللہ نے دار الحدیث رحمانیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی تو مولانا احمد اللہ

Read 1386 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in فروری 2017
ایڈیٹر

ایڈیٹر

Latest from ایڈیٹر

  • اکـ چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
  • روداد تحفظ شعائر اسلام سیمینار
  • تحفظ شعائر اسلام سیمینار مـنتخب تقاریر
  • خلفائے راشدین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
  • دفاعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین

Related items

  • قبلہ اول فلسطینیوں کی شہادتیں اور مسلم حکمران
    in جون ، جولائی 2021
  • میں اگر آج زد پر ہوں
    in جون ، جولائی 2021
  • پیغمبروں کی سرزمین  ارضِ فلسطین لہو لہو
    in جون ، جولائی 2021
  • سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری
    in نومبر 2019
  • جب نماز کا وقت آجائے تو پانی تلاش کرنا
    in اپریل 2019
More in this category: « امت محمدیہ” علی صاحبھا افضلُ الصلاۃ والسلام “کے بوڑھے
back to top

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2017