انسان اُنس سے ہے اس لیے لوگ درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہیں اور کرنی چاہیئے۔ دینِ اسلام انسانی فطرت کا ترجمان ہے اس نے کسی سے جائز محبت کرنے سے منع نہیں کیا۔ مطالبہ یہ ہے کہ کسی کی محبّت میں حد سے نہیں بڑھنا۔ محبت میں جو درجہ بندی کی گئی ہے، اس کا ہر صورت خیال رکھنا ہے اور دنیا وما فیھا سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کرنی ہے بلکہ تمام محبتیں اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہونی چاہئیں۔

﴿ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۰۰ ﴾ (التوبہ: 24)

’’فرمادیںاگرتمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں، وہ تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو۔اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں توانتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اس مقام پر سرورِ دو عالم e کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ واشگاف الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ اے مسلمانو! اگر تمہارے والدین، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، تمہارے رشتے دار،جو مال تم کماتے ہو، تجارت جس کے نقصان سے ڈرتے ہو اور تمہارے مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں اگر اللہ ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر اللہ کے حکم کا انتظار کرو۔ اللہ کے ہاں ایسے مسلمان نافرمان ہیں جنکی وہ رہنمائی نہیں کرتا ۔
مفسرین نے یہاں حکم سے مراد اللہ کا عذاب لیا ہے یعنی پھر تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں دنیا کی آٹھ بڑی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں پر انسان کی زندگی کا انحصار اور دارومدار ہے ان میں سے کوئی ایک چیز انسان کے پاس نہ ہو توزندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ یاد رہے کہ والدین سلسلۂ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہیں، بیویاں تخلیق انسانی کا وسیلہ ہیں،بیٹے، بھائی اور رشتہ دار درجہ بدرجہ انسان کے لیے معاون اور اس کی قوت کا باعث ہیں، مال  اور کاروبار زندگی کے لیے  استحکام کا ذریعہ ہے۔ مکان صرف سر چھپانے کی جگہ ہی نہیں بلکہ  انسان کی حقیقی دنیا ہی اس کا مکان ہوا کرتا ہے ۔ باقی جہان چلنے ، پھرنے اٹھنے بیٹھنے اور کاروبار کے لیے ہے۔ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی رہائش گاہ بہتر سے بہتر اور آرام دہ ہو۔ گھر کی محبت انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے یہاں تک کہ پرندے اپنے گھونسلوں اور کیڑے مکوڑے اپنی بلوں سے پیار کرتے ہیں اور رات کے وقت اپنے ٹھکانوں کی طرف پلٹتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں چاہت اور محبّت کا تقاضا کرتی ہیں لیکن حکم ہے کہ ان سب سے زیادہ ’’اللہ‘‘ کی محبّت ہونی چاہیے۔ نبی اکرم e کو جو مقام اور احترام حاصل ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کے کرم کا صلہ ہے۔ اس لیے آپ نے محبّت کا مرکز اور معیار اپنی ذات نہیں بلکہ ’’اللہ‘‘ کی محبّت کو ٹھہرایا۔
عَنْ أَبِی ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِی اللهِ، وَالْبُغْضُ فِی اللهِ (سنن ابی داود: باب مجانبۃ اھل الاھواء)
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے کسی سے ناراض ہونا سب سے افضل عمل ہے۔‘‘

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّكَ، وَالعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی وَأَهْلِی، وَمِنَ المَاءِ البَارِدِ  قَالَ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ إِذَا ذَكَرَ دَاوُدَ یُحَدِّثُ عَنْهُ قَالَ كَانَ أَعْبَدَ البَشَرِ (سنن الترمذی: ابواب الدعوات)

سیدناابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: داودعلیہ السلام کی دعاؤں میں ایک دعا یہ تھی : ’’اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں اور اس کی محبت کا بھی تجھ سے سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتاہے، اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جس سے مجھے تیری محبت حاصل ہو جائے۔ اے اللہ ! میرے لیے اپنی محبت کو میری جان، میرے اہلِ خانہ اور ٹھنڈے پانی کی رغبت سے زیادہ کر دے۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’داؤد علیہ السلام تمام لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے۔ ‘‘

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یَقُولُ:  قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: المُتَحَابُّونَ فِی جَلَالِی لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ یَغْبِطُهُمُ النَّبِیُّونَ وَالشُّهَدَاءُ(سنن الترمذی: باب ما جاء فی الحب فی الله)

سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’میرے جلال کی خاطر آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے نوری منبر ہوں گے، جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔‘‘

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ۔۔ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ۔۔(رواہ البخاری: باب الصدقۃ بالیمین)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوںکو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہیں ہو گی۔ ان میں دو آدمی وہ ہونگے  جو آپس میں اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر ایک دوسرے سے ملتے اور الگ ہوتے ہیں۔
قرآن مجید کے ارشاد اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ سچی اور حقیقی محبّت کا معیار اور مدار ’’اللہ‘‘ کی محبت ہے۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو دوسروں بالخصوص اپنے معبودوں اور بزرگوں سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہیے۔

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلهِ وَلَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْیَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِیْعًا وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ﴾ (البقرۃ: 165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے کرنی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ وہ بات دیکھ لیتے جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ تمام قوت اللہ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے پہلی آیت میں اپنی ربوبیت کے آٹھ ایسے دلائل دیئے ہیں۔ جن سے دیہاتی ہو یا شہری، جاہل ہو یا تعلیم یافتہ، عام عقل والا ہو یا انتہائی دانشور، سیاست دان ہو یا سائنس دان۔ سب ان سے اپنی اپنی لیاقت اورصلاحیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہمہ گیر دلائل ہیں جن سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے اوروہ ان سے استفادہ کرتاہے ۔ ان آیات میں یہ بھی بتلایاگیا ہے کہ آفاق کے تمام عناصر ایک ہی ہستی کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں ۔ جب تمام آفاقی عناصر کی تخلیق اورانہیں مسخر اور مقید رکھنے میں زندہ اورمردہ باطل خدائوں،نیک اور بُرے حکمرانوں اور سائنس دانوںکا عمل دخل نہیں اور پورے کا پورا نظا م ایک ہی ہستی کے زیرِ اقتدار ہے تو پھر اسی مالک کو الٰہ ماننا اور اسی سے محبت کا رشتہ جوڑنا چاہیے جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے ۔لیکن مشرک حقیقی عقل سے عاری ہوتا ہے بے شک وہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو۔ وہ کائنات کے خالق ومالک سے محبت اور تعلق قائم کرنے کی بجائے اپنے رب سے بڑھ کر دوسروں سے محبت اور تعلق رکھتا ہے، حالانکہ سب سے زیادہ  حقیقی اوردائمی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیے۔باقی تمام محبتیں اسی محبت کے تابع ہوناضروری ہیں۔ لیکن مشرک ایسی محبت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ’’اللہ‘‘ کی ذات اور اس کی محبت کے مقابلے میں دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے برعکس موحّد کادل اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس طرح لبریز ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں دنیا کی کسی چیز کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اولاد اورجان سے بڑھ کر اپنے رب کی محبت کو عزیز سمجھتا ہے۔ اس کی ہر سوچ اورکام کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی محبت اوراس کا حکم ہی کار فرما ہوتاہے۔ رسولِ محترم e اسی بات کی راہنمائی اور اس کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔
یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان اور ہر جاندار میں پایا جاتاہے۔ تاہم محبت کرنے کے کچھ اسباب اوروجوہات ہواکرتی ہیں۔ جن کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرو ۔
اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کے رسول محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ eکے ساتھ ساری مخلوق سے بڑھ کر محبت ہونی چاہیے تب جا کر آدمی کا ایمان مکمل ہوتا ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ ثَلٰثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ بِھِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَان مَنْ کَانَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَمَنْ اَحَبَّ عَبْدًا لَّا یُحِبُّہُ اِلَّا  لِلہِ وَمَنْ یَّکْرَہُ اَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ اَنْ اَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُّلْقٰی فِی النَّارِ (رواہ البخاری: باب حلاوۃ الایمان)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کا فرمان ذکر کرتے ہیں جس شخص میں یہ تین خوبیاں موجو د ہوں اس نے ایمان کی لذت کو پالیا ( ۱)جس کے لیے اللہ اور اس کا رسول e ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو جائیں۔ (۲) جس نے صرف اللہ ہی کے لیے کسی سے محبت کی۔ (۳) جو کفر میں پلٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ اپنے آپ کو آگ میں ڈالاجانا ناپسند کرتا ہے جس سے اللہ نے اس کوبچا لیا ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ (رواہ البخاری:  باب حب الرسول من الإیمان)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اس کے والدین، اُسکی اولا د اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔ ‘‘

عَنْ عَبْدَ اللهِ بْنَ هِشَامٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ﷺ وَهُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ یَا رَسُولَ اللهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِی فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ لاَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ فَإِنَّهُ الآنَ وَاللهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ الآنَ یَا عُمَرُ (رواہ البخاری: باب کیف کانت یمین النبی ﷺ)

سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ نے عمر بن خطاب ؄ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا سیدناعمر ؄ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ آپ مجھے میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک تم مجھے اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ سمجھو گے، حضرت عمر ؄ نے عرض کیا اب اللہ کی قسم آپ مجھ کو میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے عمر اب تیرا ایمان مکمل ہو گیا۔‘‘
نبیﷺ کے فرمان کی لطافت اور ذہانت پر غور فرمائیں۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ سے زیادہ یا اس کی محبّت جیسی محبّت کرو۔ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ میرے ساتھ اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کریہاں تک کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبّت کرو۔ بالفاظِ دیگر خالق سے زیادہ نہیں بلکہ پوری مخلوق سے بڑھ کرمیرے ساتھ محبت کرو۔ لیکن لوگوں نے بالخصوص مذہب کے دعوے داروں کی غالب اکثریت نے انبیاء اور بزرگوں کی محبّت میں اس حد تک غلو کیا کہ انبیاء کرام کو خدا کا درجہ دیا اور بزرگوں کو انبیاء کے برابر کر دیا۔

﴿ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَا  اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰهًا وَّاحِدًا لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ﴾ (التوبہ: 31)

’’ انہوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں اورمسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنالیا ہے، حالانکہ انہیں حکم تھا کہ صرف ایک الٰہ کی عبادت کریں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اس سے پاک ہے جنہیں وہ شریک بناتے ہیں۔ ‘‘
یہودیوں نے جہالت اور عقیدت کی بناء پر یہ عقیدہ بنایا کہ عزیر علیہ السلام ’’اللہ‘‘ کے بیٹے ہیں جس کے مفسرین نے دو سبب بیان کیے ہیں ایک یہ کہ جب موسیٰ uکی موت کے بعد یہودیوں پر بخت نصر نے حملہ کیا اوراس نے تورات کوکلی طور پر ختم کرنے کا حکم دیا۔جس سے ایک وقت آیا کہ تورات دنیا میں ناپیدہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے دین موسوی کی تجدید کے لیے حضرت عزیر علیہ السلام کو مبعوث فرمایاجنھوں نے وحی الہی کی روشنی میں تورات کو دوبارہ لکھوایا ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام سو سال تک فوت رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیںپھر زندہ فرمایا جب وہ اٹھے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا گیا۔ لیکن کھانا جو حضرت عزیر کے ساتھ تھا وہ اتنی مدّت گزرنے کے باوجود اسی طرح ترو تازہ رہا۔ اس کی تفصیل سورۃ البقرۃ: آیت ۲۶۰ میں بیان ہوئی ہے۔ اس معجزہ کی بنا ء پر یہودیوں نے عقیدت میں آ کرحضرت عزیرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا، ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور حضرت مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیا جس کی تردید سورۃ المائدۃ کی آیت ۷۵ میں کی گئی ہے۔

﴿ مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ ﴾ (المائدة:75)

’’مسیح ابن مریم ایک رسول ہے ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہے دونوں کھاناکھایاکرتے تھے دیکھیں ہم ان کے لیے کس طرح کھول کر آیات بیان کرتے ہیں ،پھروہ کیسے بہکے جاتے ہیں۔ ‘‘
یا د رہے! جب انسان گمراہی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو اس کی گمراہی کی کوئی انتہا نہیں رہتی، یہی کیفیت یہود و نصاریٰ کی تھی اور ہے۔ انھوں نے اپنے انبیاء، علماء ، درویشوں اور بزرگوں کو رب کا درجہ دے دیا تھا بالخصوص عیسائیوں نے مسیح ابن مریم uکو خدائی مقام پر پہنچا یا حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ خالص ایک اللہ کی عبادت کریں جسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،جو اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا ہے اور ہر قسم کی شراکت سے مبرا اور پاک ہے۔
عدی بن حاتم طائی مسلمان ہوئے تو اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے عرض کی: اللہ کے رسول! اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ عیسائیوں نے اپنے علماء اور صلحاء کو اپنا رب بنا لیا ہے ہم نے تو کبھی انھیں رب نہیں بنایا؟ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :

أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ وَلَکِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوہُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوہُ

 ’’بلاشبہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب انکے علما اور پیر کسی چیز کو ان کے لیے حلال کہتے تو وہ اس کو حلال گردانتے اور جب وہ کسی چیز کو حرام کرتے تو وہ اس کو حرام سمجھتے تھے ۔‘‘(رواہ الترمذی:  باب من سورۃ التوبۃ)

عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ  وَرَسُوْلُہٗ (رواہ البخاری: کتاب احادیث الانبیاء)

سیدناعمررضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میری تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کرنا‘ جس طرح عیسائیوں نے عیسٰی بن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا۔میں  ’’اللہ‘‘ کا بندہ ہوں لہٰذا تم مجھے اللہ کا بندہ اوراس کا رسول کہو۔ ‘‘

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِیسَةً رَأَیْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِیهَا تَصَاوِیرُ، فَذَكَرَتَا للنَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِیهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیهِ تِیكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللهِ یَوْمَ القِیَامَةِ (رواہ البخاری: باب ھجرۃ الحبشۃ)

سیدہ عائشہ r بیان کرتی ہیںکہ ام سلمہ r اورام حبیبہ r نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا اوراس میں موجود تصاویر کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ان لوگوں میںسے جب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر پرعبادت گاہ تعمیر کرتے اور پھراس میں تصویریں بنا دیتے تھے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ قیامت کے دن بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘

﴿یٰاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ اَلْقٰىهَا اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَهٗ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا﴾ (النساء:171)

’’اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے ذمہ سچی بات کے سواکچھ نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ بن مریم اس کے سواکچھ نہیں کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، جو اس نے مریم کو القا کیا اور ا للہ کی طرف سے ایک روح ہیں پس اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو کہ الٰہ تین ہیں ، اس سے باز آجائو یہ تمہارے لیے بہترہے اللہ ہی معبودبر حق ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے اور اللہ ہی کارساز ہے ۔‘‘
یہاں عیسائیوں کو دین میں ’’غلو‘‘ کرنے سے روکا گیا ہے جو اراہی کا اصل سبب ہے۔ غلو کا معنیٰ ہے محبت یا تعصب میں آکر افراط و تفریط کرنا۔ یہودیوں نے عیسیٰ uکے بارے میں تعصب کیا اور وہ اس میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ uاور ان کی پاکباز والدہ پر الزامات لگائے۔ جناب عیسیٰ u اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کا انکار کیا حالانکہ عیسیٰ uنے بار ہا دفعہ فرمایاتھا کہ میں کوئی الگ شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ تورات کی تعلیمات کی تکمیل کے لیے آیا ہوں لیکن غلو کا ستیاناس ہو جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے ہر سچائی کو ٹھکرایا۔ ان کے برعکس عیسائیوں نے دوسری انتہا کو اختیار کرتے ہوئے سیدناعیسیٰ uکو خدا کا بیٹا اورمریم کو خدا کی بیوی قرار دیا اور گمراہ ہوئے۔ عیسائیوں کو اس سے روکا اور ٹوکا جا رہا ہے کہ تمھیں عیسیٰu کے بارے میں غلو نہیں کرنا چاہیے ان کی حیثیت تو یہ تھی کہ وہ مریم کے بیٹے اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، خداکی خدائی میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدہ کے حوالے سے ہر شخص کے باطل نظریہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی ادنیٰ ہو یا اعلیٰ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ اور اس کی صفات کی حامل نہیں ہو سکتی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقُطْ لِی حَصًى فَلَقَطْتُ لَهُ سَبْعَ حَصَیَاتٍ هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ فَجَعَلَ یَنْفُضُهُنَّ فِی كَفِّهِ وَیَقُولُ أَمْثَالَ هَؤُلَاءِ فَارْمُوا ثُمَّ قَالَ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِیَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّینِ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّینِ (سنن ابن ماجہ: باب قدر حصی الرمی)(حسن)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے جمرئہ عقبہ کی صبح کے وقت فرمایا، آپ اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، میں نے آپ کو سات کنکریاں دیں۔ آپ نے انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلا تے ہوئے فرمایا: ان جیسی کنکریاں مارو، پھر فرمایا: ’’لوگو ! دین میں غلو سے بچو کیو نکہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلا ک ہوئے۔‘‘

عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَتَیْتُ الْحِیرَةَ فَرَأَیْتُهُمْ یَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَقُلْتُ رَسُولُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ یُسْجَدَ لَهُ، قَالَ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ فَقُلْتُ إِنِّی أَتَیْتُ الْحِیرَةَ فَرَأَیْتُهُمْ یَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَأَنْتَ یَا رَسُولَ اللهِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَكَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِی أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ:فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللهُ لَهُمْ عَلَیْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ (سنن ابی داؤد: باب فی حق الزوج علی المرأۃ)

سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا وہاں  دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا: اللہ کے رسول ﷺ زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے۔ جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں حیرہ شہر گیا اور وہاں کے لوگوں کو اپنے سردار کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ نے فرمایا: بتاؤ کہ تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ایسا نہ کرو اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے  شوہروں کا حق مقرر کیا ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ ﷺ مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ ﷺ أَجَعَلْتَنِی وَاللهَ عَدْلًا بَلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ (مسند احمد: مسند ابن عباس) (صحیح)

سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا: وہ ہوگا جو اللہ اور آپ چاہیں گے۔ آپ نے فرمایا: تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا ہے؟ بس اتنا کہو ’’وہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ چاہے گا۔‘‘
سیدہ ربیع رضی اللہ عنہ بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں میری رخصتی ہوئی تو نبی کریم میرے ہاں تشریف لائے اور تمہاری طرح میرے بستر پر تشریف فرما ہوئے۔ ہماری بچیوں نے دف بجانا شروع کی اور جو میرے باپ دادا بدر میں شہید ہوئے تھے ان کے اوصاف بیان کرنا شروع کیے۔ اس دوران ایک لڑکی نے کہا ’’ہم میں اللہ کا نبی ہے جو کل کی باتیں جانتا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بات نہ کہو۔ وہی بات کہو جو تم پہلے کہہ رہی ہو۔ (رَوَاهُ الْبُخَارِیُّ: کتاب المغازی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے