دین اسلام باری تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے اس کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل افراد بارگاہ الٰہی میں خصوصی مقام ومرتبہ کے حامل ہیں۔ مدارس اسلامیہ معاشرے کی اصلاح میں مقدور بھر کوششوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ یقیناً ان مدارس کی بدولت ہی اسلامی اقدار تہذیب و ثقافت کے نمایاں خدو خال نظر آرہے ہیں۔ مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعہ ہیں ہر دور میں معاشرے کی اصلاح و بہبود کے لیے ان کی نمایاں حیثیت رہی ہے ۔مدارس اسلامیہ سے فراغت پانے والے علماءکرام عوام الناس کی رشد و ہدایت کے لیے لیل و نہار مصروف عملہیں اس کرہ ارض پر کئی ممتاز جامعات موجود ہیں جن میں سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جس کی شہرت دنیا کے اطراف واکناف پھیلی ہوئی ہے ۔
دینی مدارس تاریخ اسلام کے پہلے مدرسہ صفہ کی سدا بہار شاخیں ہیں جہاں تشنگان علم اپنے سینوں کو نور علم سے منور کرتے ہیں اور ان گئے گزرے حالات میں بھی اسلام کے یہ قلعے امت اسلامیہ کے سپوتوں کی تربیت منہج نبوت کے مطابق کرنے کے لیے دن رات مصروف عمل اور کوشاں ہیں اسی لیے اسلام دشمن عناصر ان مدارس کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں ان جامعات کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی مثال تو ان جاہلوں کی سی ہے جن کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے ارشاد باری ہے:

يُرِيدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ (الصف: 8)

یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اس کو مکمل کر کے رہے گا چاہے کافر نا خوش ہی کیوں نہ ہوں۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ:
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
اور علامہ اقبال رحمہ اللہ کے الفاظ میں:
نہیں اقبال نا امید اپنی اس کِشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
انہی جامعات میں سے ایک جامعہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی بھی ہے کہ جس سے جاری ہونے والے چشموں کا پھیلاؤ دنیا بھر کے اکثر ممالک تک جا چکا ہے اور اس مادر علمی سے اپنی پیاس بجھانے والے اب اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں میں مستقل چشموں کی صورت اختیار کرچکے ہیں اس پر ہم اللہ کے شکر گزار ہیں اور ساتھ ہی اس حدیث کے مطابق جس میں نبی آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ، لَمْ يَشْكُرِ اللهَ

جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔
اسی لیے ہم مشکور ہیں اس مادر علمی کے بانی و مؤسس محترم جناب پروفیسر محمد ظفراللہ رحمہ اللہ کے کہ جن کی سعی سے ان کا لگایا ہوا یہ پودا آج تناور درخت بن چکا ہے جس کی جڑ مضبوط اور شاخیں عالم میں پھیلی ہوئی ہیں اللہ ان کو جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ان کے علاوہ ان اساتذہ کہ جن کی رات دن کی محنتوں سے اس چمن میں بہار آئی اور ان محسنین کے بھی مشکور ہیں جن کے تعاون سے اس کا نظام چل رہا ہے۔
ہر سال کی طرح امسال بھی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے فارغ التحصیل علماء کرام کے اعزاز میں تقریباً 33سال سے ’’الحفل الختامی ‘‘ تقریب کا اہتمام کرتی آرہی ہے۔ اسی سلسلہ ذھبیہ کی ایک کڑی مورخہ 30 اپریل 2017ء بروز اتوارکو جامعہ میں منعقد ہونے والی عدیم النظر اور فقید المثال تقریب تکمیل صحیح بخاری بھی تھی۔
اس پروقار تقریب کا باقاعدہ آغاز بعد از نماز عصر ہوا اس تقریب کو دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست:

پہلی نشست نماز عصر کے بعد سے مغرب تک اور دوسری نشست مغرب کے بعد سے نماز عشاء تک جاری رہی۔
پہلی نشست کا آغازجامعہ کے وسیع وعریض صحن میں کیا گیا۔
اسٹیج کے فرائض حسب روایت فضیلۃ الشیخ الاستاذ محمد حسین بلتستانی حفظہ اللہ نے اپنے مخصوص انداز میں انجام دیئے۔ انہوں نے روایتی نرم گوئی اور شیریں بیانی سے پوری تقریب میں سماں باندھے رکھا۔ (کثر اللہ امثالہ)
تقریب کا آغاز جامعہ کے ہونہار طالبعلم صدیق الرحمن کی خوبصورت تلاوت سے ہوا تلاوت کلام پاک کے بعد معمر اقبال(مرکز اول ’ب‘) نے نظم پیش کی ،اس کے بعد کراچی شہر کے معروف خطیب فضیلۃ الشیخ قاری محمد ابراہیم جونا گڑھی حفظہ اللہ نے بعنوان’’توبہ واستغفار‘‘ لب کشائی کی ۔
گناہ ایک سنگین ومہلک ترین روحانی بیماری ہے، الله کی نافرمانی اورگناہ وہ مضر شے ہے جس سے انسان کے قلب میں زنگ لگ جاتا ہے اوردل سیاہ ہو جاتا ہے، لیکن اس کا بہترین علاج اور تریاق توبہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے، غلطی اور گناہ کرنا اس کی فطر ت میں شاملہے، مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہائے او راپنے کیے پر الله تعالیٰ سے رجوع کرے ، معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
توبہ کیا ہے ؟ دراصل تین چیزوں کے مجموعہ کا نام توبہ ہے، ایک یہ کہ جو گناہ سر زد ہو جائے اس پر دل سے ندامت وشرمندگی اور پشیمانی ہو ۔
دوسرے یہ کہ جو گناہ ہو اس کو فوراً چھوڑ دے۔
تیسرے یہ کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم ( پکا ارادہ) ہو ، ان ہی تین چیزوں کے مکمل ہونے پر توبہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔
قرآن وحدیث میں توبہ کرنے والوں کے لیے خوش خبری اوربشارت دی گئی ہے اور الله توبہ کرنے والوں کو پسندیدگی اور محبوبیت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
”بے شک الله کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے۔“ (بقرہ:222)
حدیث شریف میں آیا ہے :
”ہر انسان خطا کار او رگناہ گار ہے، مگر بہترین خطا کار وہ ہے جو الله سے توبہ اوراس کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔“(سنن ابن ماجہ:4251، سنن ترمذی:2499)
انسان اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہی اپنے دل کو زنگ آلود کرتاہے اب اس کے ازالہ کا کیا طریقہ ہونا چاہیے اس بارہ میں فرامین رسول ﷺ بکثرت موجود ہیں بطور مثال موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرناوغیرہ
بحیثیت مسلمان مومن بندوں کو کثرت توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے دلوں سے معصیت کے زنگ کو زائل کرتے رہنا چاہیے او راحتساب کی کیفیت کے ساتھ اخلاق وکردار کا برابر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ دنیا وآخرت کی فلاح وکام یابی سے ہم کنار ہو سکیں، کیوں کہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے اورالله تعالیٰ کا ہاتھ بخشش کے لیے پھیلا ہوا ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
”اے ایمان والو! الله کی طرف سب مل کر توبہ کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ“۔ (سورہ نور آیت:31)
دوسری جگہ ارشاد ہے ” جو کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور الله سے بخشش چاہے تو وہ الله کو بخشنے والا، مہربان پائے گا“ ۔ (سورہٴ نساء آیت:110)
سیدناابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ الله تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے، تاکہ دن کا گناہ گار توبہ کرے او راپنا ہاتھ دن کو پھیلاتا ہے ،تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کر لے، یہاں تک کہ سورج اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے ( یعنی قیامت کا دن آجائے) ۔( مسلم)
یہ چند نمونے ان کے درس میں موضوع بحث رہےاور اسی پر پہلی نشست کا اختتام آذان مغرب پرہوا۔

دوسری نشست :

بعد از نماز مغرب تقریب کی دوسری نشست کا آغاز ہوا جس میں اسٹیج کی ذمہ داری فضیلۃ الشیخ محمد طاہر آصف حفظہ الله رئیس مجلس ادارت مجلہ اسوئہ حسنہ نے انتہائی احسن اور دلچسپ انداز سے سرانجام دی دوسری نشست کا آغاز بھی جامعہ کے ہونہار طالب علم حبیب عمر(مرکز ثانی ’ج‘)کی تلاوت سے کیا گیا تلاوت کے بعد جامعہ کے طالب علموں نے مجموعی صورت میں نظم پیش کی۔اس کے بعد کلمۃ الطالب کے لیے اس سال سند فراغت حاصل کرنے والے طالبعلم عبد العلیم کو دعوت دی گئی کہ جس میں انہوں نے حمد و ثنا ء کے بعد علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ علوم بہت ہیں مگر حقیقی علم وہی ہے جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہو اور اس علم کے لیے تعلیمی وسائل کا ہونا ضروری ہے اور حقیقی وسائل تعلیم یہ جامعات ہیں اور انہی میں سے یہ جامعہ بھی ہےکہ جس سے ہزاروںکی تعداد میں تشنگان علم سیراب ہوچکے ہیں اور جو دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی علمی ، تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں اس کے بعد انہوں نے جامعہ کے تمام اساتذہ ، جامعہ کی انتظامیہ کا  شکریہ ادا کیا ۔ان کے بعد کلمۃ ابناء الجامعہ پیش کرنے کیلئے ڈاکٹر حافظ قدرت اللہ حفظہ اللہ لاہور سے تشریف لائےانہوں نے جامعہ سے اپنی علمی پیاس بجھانے کے بعد کیا سرگرمیاں اختیار کی اور حالیہ کارناموں کو ذکرکرنے کے بعد مستقبل کے پلان کے بارہ لب کشائی کی۔
ان کے بعد درس بخاری کا آغاز ہواجس کی ذمہ داری فضیلۃ الشیخ علامہ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ کو سونپی گئی ۔
حافظ مسعود عالم نے درس حدیث کا آغازکیاحمد وثناء کے بعد انہوںنے جو درس بخاری ارشاد فرمایا اس میں سے چند باتیں آپ قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
اس جامعہ کے طلبہ مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں ،
یہ دین جو ہمیں ملا یہ دراصل ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت کبری کہ جس سے معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے۔
متخرجین کے اعزاز میں فرمایا کہ جو طالب علم یہاں بیٹھے ہیں ، جنہوں نے دین سیکھا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو خاص مبارک باد کے مستحق ہیں دین کے لیے آپ ان علماء کی زندگی کوسامنے رکھیں کہ جنہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا دین کو ہی سمجھا جیسےامام بخاری رحمہ اللہ کہ جن کے بارہ میں آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا داری کو پسند نہیں کرتےتھے انہوں نے تقریبا 1080اساتذہ سے علم کا اکتساب کیا اور ایک ایک استاد سےدس دس ہزار حدیثیں پڑھیںاور اپنے دل میں محفوظ کیا وہ ہر وقت علم کی تلاش میں رہتے تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ احادیث حفظ کر لیتے ہیں اور جو کچھ بھی سنتے ہیں فوراً یاد ہوجاتا ہےکوئی قوت حافظہ کیلئے دوائی وغیرہ استعمال کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں تو جب عزیز واقارب کے خطوط کے جواب دینے بیٹھتا ہوں تو نام تک بھول جاتا ہوں مگر جب حدیث لکھنے بیٹھتا ہوں تو وہ مالک میرا دماغ کھول دیتا ہے اور احادیث ذہن میں استحضار ہونے لگتی ہیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جماعت کو لازم پکڑو وہ کونسی جماعت ہے ؟ علماء کی جماعت ، صحابہ کرام کی جماعت ، اللہ کے نبی کی جماعت ہے ، خبر کی صحت آپ کو اس مقام اور مرتبہ کا حساس کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا چاہیے ویسے ہی جیسے امام بخاری نے کیا اس دین کا حق ادا کیا یہ آپ کے لیے نمونہ ہیں قرآن کریم کے بعد سب سے مقبول اور معتبر کتاب ’’ الجامع الصحیح للبخاری‘‘ ہی ہے ۔یہ وہ کتاب ہے کہ جسے بغیر پڑھے کوئی اپنے آپ کو عالم نہیں کہلوا سکتا علماء کرام کے لیے اس کو پڑھنا اور اس پرعمل کرنا لازمی ہے۔ امام بخاری سے متعلق حافظ صاحب نے بتایا کہ وہ اپنا ذکر احادیث میں نہیں کرتے مگر بہت کم کرتے ہیں یہ ان کی خوبی ہے آپ کتب سے جڑیے اصل علم ان کتابوں میں مضمر ہے۔ اپنے اساتذہ سے متصل رہیں اور ان سے گاہے بگاہے مشاورت کرتے رہیں۔
امام بخاری نے اس کتاب میں تقریباً 3882 ابواب قائم کیے ان سب احادیث کو ریاض الجنۃ جیسی مبارک ٹکڑامیں بیٹھ کر لکھیںاور زیر بحث کتاب کی تکمیل کے بعد محدثین کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے آپ کی اس سعی کو قابل قبول کیا۔
کتاب کی ابتدائیات کے بعد اصلی موضوع پر گفتگو کی کہ’’ہم قیامت کے دن ان کے اعمال کا وزن کریں گے‘‘ اسی وجہ سے وزن والا باب امام بخاری آخر میں اور نیت والا باب پہلے لائے ہیں۔ یہ دین تمام لوگوں کے لیے ہے یہ دین ہمیں عدل سکھاتا ہے ۔
حافظ صاحب نے اس کتاب کی آخری حدیث کی سند پر سیر حاصل گفتگو کی کو اس کتاب کا ایک منفرد امتیاز اور خاصا ہے ،امام بخاری اپنی سند بتاتے ہیں اس کے بغیر کوئی بات قابل قبول نہیں ہوتی ، کہا گیا ہے ، نقل کیاگیاہے ، یا سنا گیا ہےیہ سب قابل قبول نہیں ان سب کی دلیل سند سے ہونا لازمی ہے کیونکہ عقل ناقص ہے یہ حق ہے ، یہ عدل ہے اور یہی ہمیں ہمارا دین ہمیں عدل سکھاتا ہے ۔
پانچ ہزار حدیثوں کا راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ صحابی ہیں جو اس دین کی برکت سے گورنر بنے اور احادیث کے حافظ بھی بنے۔
اس کے بعد انہوں نے متن الحدیث پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی تسبیح کا اس حدیث میں ذکر ہے کہ وہ اللہ ذات وصفات میں ہر عیب ونقص سے پاک اور منزہ ہے اور وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا ۔(سبحان اللہ) اللہ پاک ہے ، اس کی تعریف ظاہر ہورہی ہے اور وہ اس تعریف کا مستحق ہے اور یہ کلمہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور یہ وہ کلام ہے جس کے بارہ میں سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ بیٹا یہ وہ کلمہ ہے جس کی وجہ سے تمام کائنات کو رزق ملتاہے۔
اور آخر میں یہ حدیث لائے ہیں کہ اس کتاب کا اختتام بھی اللہ کی تعریف سے کیا اور اس کتاب میں تمام معاملات کے مکمل راہنمائی ، آپ کے مسائل کا حل موجود ہے۔
اور آخر میںحافظ صاحب نے ترغیباً فرمایا کہ علماء سے متصل رہنا صدقہ جاریہ ہے ۔اور دعائیہ انداز میں اپنے درس کا اختتام کیا کہ اللہ تعالیٰ طلبہ کرام کو ہدایت کی راہ پر گامزن فرمائے اور دین سکھانے والا بنائے اور اس پرفتن دور میں لوگوں کو دین پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔ انہی کلمات پر حافظ صاحب نے اپنے درس کا اختتام کیا۔ کلمہ استقبالیہ حسب سابق فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ نے پیش کیا۔
حافظ صاحب کے درس بخاری کے بعد فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ افتخاراحمد شاہد حفظہ اللہ (مدیر الامتحانات) کو مدعو کیاگیا  نتائج کا اعلان عربی زبان میں کیا گیا اور انہوں نے اپنی بات کا آغاز اس آیت مبارکہ سے کیا کہ:

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم: 39)

’’اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی‘‘۔
جامعہ کا مجموعی رزلٹ 90 فیصد رہا،جامعہ کے طالب علم ابو بکر افتخارنے جامعہ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے، اور طالب مثالی کا اعزاز سند فراغت حاصل کرنے والوں میں سے صلاح الدین نے حاـصل کیا ، ان طلبہ میں اور ان کے علاوہ مختلف کلاسوں میں اول، دوئم ، سوئم آنے والوں میں انعامات تقسیم کیے گئے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انعامات کی تیاری اور تقسیم کی ترتیب کی ذمہ داری مدیر مجلۃ الجامعہ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ اور الشیخ خالد حسین گورایہ نے نبھائی طلبہ میں تقسیم انعامات کا آغازفضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم نے سند فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی دستار بندی اور ان میں کتب صحاح ستہ کے سیٹ اور نقد ی کی صورت میں کیا ان کے علاوہ  مولانا محمدعائش حفظہ اللہ ، مفتی الجامعہ علامہ نور محمدحفظہ اللہ ، مدیر مالیات انس محمد صاحب اورالشیخ داؤدشاکر حفظہ اللہ ،فضیلۃ الشیخ ابراہیم طارق اور جامعہ کے مدیرالتعلیم ڈاکٹر محمد حسین لکھوی حفظہ اللہ کے دست مبارک سےتقسیم کروائے گئے، اس کے بعد تمام حاضرین کے لیے عشائیہ کا انتظام تھا اس طرح یہ پر وقار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے