اس وقت الحاد پہ خصوصی اشاعت نذر قارئین ہے الحاد کیا ہے اور اس وقت کیوں خصوصی نمبر شائع کیا جارہا ہے ؟ وقت کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہمارے دین کا تقاضا ہے ۔الحاد سے عموماً لادینیت اور رب واحد پر عدم یقین مرادلیا جاتاہے لغوی اعتبار سے الحاد کے معنی پھر جانے اور مڑنے کے کیے گئےہیں اس کے مقابلے میں استقامت ہے جس کا مطلب دین سے اعراض اور پھر جانے کی بجائے اس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے یہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام نے مکمل دین اسلام چند لفظوں میں سمیٹتے ہوئے جو نصیحت ارشاد فرمائی وہ یہ استقامت ہی تھی ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

قُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ، ثُمَّ اسْتَقِمْ (مسند احمد : 19431۔ مسند أبی داؤد الطیالسی : 1327)

’’کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘ زمانۂ قدیم میں تاریخ عالم پہ اگر نگاہ ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی بھی غالب نہیں رہا یا تو انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کو غلبہ حاصل ہوا یا پھر اہل شرک غالب رہے البتہ الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے میں ہی حاصل ہوا جس کی بڑی وجہ پندرھویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ کا اپنے ممالک سے نکل کر مشرق ومغرب میں فتوحات کے ذریعے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت قائم کرنا اور وہاں اپنے سیاسی اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنے الحادی نظریات کو بھی عام کرنا تھا۔ ان کی نو آبادیات میں مسلم ممالک کی اکثریت بھی شامل تھی ۔ عیسائیت اپنے تضادات کی وجہ سے مغربی ملحدین کے سامنے بہت جلد شکست کھا گئی یہی ملحدین پھر اسلام کی اساس پر بھی حملہ آور ہوئے جن کے خلاف مسلم ممالک میں چار قسم کے رد عمل سامنے آئے ۔مغربی الحاد کی مکمل پیروی : یہ ایک انتہا تھی فیشن ایبل ، دولتمند اشرافیہ کا طبقہ اکثر اس کا شکار ہوا جو دین سے پہلے ہی دور تھے اب مغرب کی پیروی ترقی پسند ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا ۔ سو یہ لوگ نام کے مسلمان رہ گئے باقی سب طور طریقے مغرب کے اپنالیے۔ دین اسلام کے مخالف ان کی اجتماعی زندگی الحاد اور لادینیت کا نمونہ تھی ۔ عوام الناس کے معاشی مفادات چونکہ اسی طبقہ اشرافیہ سے جڑے ہوئے تھے لہٰذا یہ عملی الحاد عوام میں بھی پھیلتا چلا گیا ۔

دوسرا رد عمل دوسری انتہا تھی کہ مغرب سے آنے والی ہر اچھی اور بری چیز کو رد کردو۔
تیسرا ردعمل ان لوگوں کا تھا جو دین کی پیروی کے ساتھ ساتھ مغرب سے مرعوب بھی تھے لہٰذا انہوں نے دین میں تبدیلیاں کرکے مغرب کا قر ب حاصل کرنے کی کوشش کی۔
چوتھا رد عمل ان اہل علم کا تھا کہ جنہوں نے مغرب کے مثبت پہلوؤں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔
ان چار قسم کے رد عمل سے معاشرے میں ایسے چار طبقات وجود میں آئے اور یہ سلسلہ آزادی کے بعد بھی جاری رہا حتی کہ موجودہ دور میں الحاد ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مسلم معاشرے کی وجہ سے کلی الحاد تو شاذونادر ہی دیکھنے میں آتا ہے نمائشی اور فیشنی کا مریڈ اور اشتراکیت کے پرچار کرنے والے بھی روس کی شکست وریخت کے بعد تقریباً تائب ہوچکے ہیں اور مفادات کی خاطر اب ان کی دوستی یورپ سے ہے۔ سو ان کی خوشنودی کے لیے دین مخالف نظریات اور اعتراضات کا اظہاراکثر کرتے رہتے ہیں یا پھر تحریفات اور من مانی تفسیر وتشریحات کے ذریعے الحاد کی اشاعت الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہوتی رہتی ہے مگر مایوسی والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کا جواب دینے والے جدید تعلیم سے آراستہ علماء کرام بھی موجود ہیں اور تحریفات وتأویلات کا جواب دینے کے لیے پختہ کار باعمل علماء کرام کا گروہ مدارس دینیہ میں بھی مصروف عمل ہے چونکہ ذرائع ابلاغ بہت زیادہ ترقی کرگئے ہیں اور الحادی نظریات کا انتشار بھی بڑھ گیا ہے سو اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جولائی واگست کے شمارے کو اس موضوع سے خاص کیا گیا ہے ۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم آزادی کے ستر سال مکمل کر رہی ہے مگر پاکستان اپنی اساس میں لا الہ الا اللہ کا خمیر سمونے کے باوجود بھی اس کی عملی تعبیر سے محروم ہے اس کی وجہ اشرافیہ کی ملحدانہ روش ہے اس لیے موقع کی مناسبت سے اس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے ۔
28 جولائی کا دن میاں نواز شریف کے لیے کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا اور وہ تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نااہل ہوگئے ان کے دور میں بلوچستان میں حالات بہتر ہوئے کراچی کی رونقیں بحال ہوئیں ٹارگٹ کلنگ کا تقریباً خاتمہ ہوا پیٹرول سستا ہوا ، سی پیک کا تحفہ قوم کو ملا ، آٹھ ہزار میل سڑکوں کا جال بچھایا جاں بلب ریلوے کو دوبارہ زندگی ملی اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوا کچھ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہوئی مگر ہم اس لیے ان کے جانے سے افسردہ نہیں ہمارے افسوس کی وجہ کچھ اور ہے ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم لیگ عموماً دوسری خالص سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں دین اور دینداروں سے نسبتاً ہمدردی رکھنے والی جماعت سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں عموماً اس کی تائید کرنا بہتر سمجھتی ہیں مگر میاں صاحب کی حکومت کا یہ دور اس تہمت کو ختم کرنے میں گزراکبھی سابقہ وزیر اطلاعات مدارس دینیہ کو جہالت کے مراکز کے استعارے دیتے رہے کبھی حرمت رسول ﷺ کے معاملے میں حکومت توہین رسالت کے مرتکبین کو سزا دلانے کی بجائے ممتاز قادری کو پھانسی لگانے میں پھرتیاں دکھاتے نظر آئی کبھی شریعت سے متصادم حقوق نسواں بل کے پیچھے حکومت ہلکان نظر آئی اور آخر اہل کشمیر کے ساتھ یہ ہمدردی کی کہ ان کی بات کرنےوالوں کو نظر بند کیا اور گھر کی خبریں دشمن بتانے لگا ۔ اقتدار تو ڈھلتا سایہ ہے ۔

تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ (آل عمران : 26)

تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے ۔

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ (الحشر : 2)

پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو ۔
اس ملک کا مقدر اسلامی نظام ہی ہے اور جو اسے الحاد کی طرف ڈھالنے کی کوشش کرے گا وہ ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہو گا ۔
کاش یہی اقتدار کے متلاشی اور اسے پالنے والے اس حقیقت کو سمجھیں اور اسلام کو بطور نظام قبول کرکے ملک میں اس کی تنفیذ کی کوشش کریں تاکہ اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہو اور جانے کے بعد اچھے لفظوں سے یاد کیے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے