اسلام کے فکری عروج کو زوال میں بدلنے کے لیے اہلِ مغرب نے دو سازشیں کیں۔
ایک تو انہوں نے ہمارے ہاں تشکیک کو فروغ دیا ۔ دوسرا اظہار رائے کی آزادی کے ایک مخصوص تصور کو ۔
اول انہوں نے تشکیک کا کام تحقیق کے نام پر کیا ۔ مستشرقین نے اس کے لیے بہت محنتیں کیںآپ اندازہ کیجئے کہ مسند احمد بن حنبل جیسی ضخیم کتاب کی ایک مستشرق نے سطر سطر پڑھ چھوڑی کہ جس کو مسلمان علماء میں بھی شاذ ہی کسی نے یوں پڑھا ہو گا ۔ اس تشکیک کے شکار اول مصری لبرل اسکالر ہوئے اور پھر جدت پسندی کے نام پر عالم اسلام میں ان کا عروج ہوتا گیا ۔ ویسے بھی پون صدی پیشتر عالم عرب میں یہ صورت حال تھی کہ مصر سے ’’علم و فکر‘‘ کے نام پر مٹی بھی آتی تو سونا ہوتی ۔ اسی تشکیک کے پردے سے عالم عرب میں الحاد نے جنم لیا جو اب ہر سو اور ہر دن پھیل رہا ہے ۔
مستشرقین کے تین طرح کے طبقات تھے ان میں ایک طبقے نے اسلام کی تعریف بھی کی اور نبی کریم کی ذات کو بہت سی خوبیوں کا مرقع قرار دیا ۔ جب کہ دوسری قسم کے مستشرقین نے اسلام کے خلاف نفرت کی فضاپیدا کی ، غلو کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کیا لیکن حیرت یہ ہے کہ ملحد مستشرقین نے بھی اسلام کے خلاف ہتھیار اٹھائے رکھے اور نفرت و تعصب سے کام لیا ۔ملحد مستشرقین نے اسلام کے خلاف کیوں کام کیا اس کی وجہ بہت دل چسپ ہے ۔ قرون وسطی میں جب یورپ میں مذہب بیزاری کی تحریک زوروں پر تھی اور ایک طبقہ مذہب کی قید سے آزاد ہونا چاہ رہا تھا دوسری طرف مذہب پسندوں کی گرفت گو کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی لیکن ایسی بھی نہیں کہ الحاد ان پر غلبہ پا لیتا ۔ سو اس الحادی سوچ پر شدید ترین پابندیاں لگائی جا رہی تھیں ۔ ان پابندیوں اور سزاؤں سے بچنے کے لیے اور مذہب کے خلاف کام کرنے کے لیے ملحد مستشرقین نے اسلام کو بطور استعارہ اختیار کیا اور اسلام کے پردے میں مذہب پر شدید تنقید کو جاری رکھا۔ ان ملحد مستشرقین کا ہی دوسرا ہتھیار “آزادی اظہار ” تھا۔
اندازہ کیجئے کہ آزادی اظہار کی تاریخ اور حقیقت کیسی مکروہ صورت لیے ہوئے ہے ۔
مذہب سے آزادی کی یہ یورپین تحریک آخر کامیاب ہوتی ہے اور مغربی معاشرے سے مذہب کو دیس نکالا مل جاتا ہے ۔ اب مذہب ان کی زندگی کا محض ایک ’’پرسنل‘‘ معاملہ ہے اور ریاست کے امور اور قانون سازی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ان کو حق تھا کہ اپنے لیے جو چاہیں پسند کریں لیکن انہوں نےچاہا کہ تمام دنیا بھی ان کی طرح مذہب بیزار ہو جائے لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ اس چاہت نے ہمیشہ حملہ اسلام پر کیا ۔ کبھی بھی ان کی فکری توپوں کا رخ دیگر مذاہب کی طرف نہ ہوا ۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ اسلام جیسا زندہ مذہب اور انسانیت کو مسلسل متاثر کرنے والا کوئی دوسرا مذہب نہیں تھا ۔ دوسرا سبب ممکن ہے ان کا احساس کمتری رہا ہو کہ اہلِ مغرب نے مذہب کو معاشرتی زندگی سے دیس نکالا تو دے دیا ، لیکن ہر قسم کی روحانیت سے دوری نے ان کی زندگی میں شدید ترین خلا پیدا کر دیا ۔ تعمیری رویہ تو یہ تھا کہ وہ اس عملی الحاد کو چھوڑتے اور مذہب کی طرف واپس پلٹتے لیکن انہوں نے سازشیں شروع کر دیں ، اور اپنے احساس کمتری کو اسلام پر حملوں کی صورت میں نمایاں کرنے لگے ۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اسلام کے خلاف نفرت اور سازشیں محض اوپر بیان کردہ واحد وجہ سے نہیں جڑی ہوئیں بلکہ سیاسی اور جغرافیائی جھگڑے بھی اس کی وجہ بنے ہیں ۔ خیبر سے بے دخلی سے لے کر صلیبی جنگوں تک ایک لمبی فہرست ہے واقعات کے تسلسل کی اور اس ٹکراؤ کے تاریخی حقیقت ہونے کی سو عالم کفر ملت واحدہ ہو کر اسلام پر حملہ آور ہے ۔اور اس حملے میں وہ ہر طرح کے ہتھیار برت رہا ہے ۔ بہت سے میدانوں میں یہ جنگ جاری ہے ۔ کمال یہ ہےکہ اسلام باوجود اپنے حاملین کی کمزوری کے مردانہ وار نہ صرف ان حملوں کا مقابلہ کر رہا ہے بلکہ کسی حد تک اس کا دشمن ہزیمت کا شکار ہے ۔ اس کا سبب اسلام کی اندرونی قوت ہے ، نظریے کی بے انتہا مضبوطی ہے ۔ روحانی سبب اس کا یہ ہے کہ اسلام اللہ کو طرف سے بنی نوع انسانی کی طرف اتارا گیا آخری مذہب ہے سو اس کی حفاظت اللہ کو منظور ہے ۔
اسلام پر حملوں کے مختلف میدانوں میں ایک فکری محاذ بھی ہے ، جہاں آزادی اظہار کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ہدف اسلام کو بنایا جا رہا ہے ۔ آزادی اظہار بظاہر بہت خوش کن الفاظ ہیں ۔ انسان کی فطرت میں آزاد رہنا لکھا ہے سو اپنی آزادی پر کوئی قدغن برداشت کرنا اس کے لیے مشکل امر ہے ۔ اسی فطری خواہش کی بقاء کے جذبے کو استعمال کر کے اہلِ مغرب نے آزادی اظہار کو ’’عقیدہ‘‘ بنا دیا ۔
اہلِ یورپ کہ جو اپنی دانست میں عالم انسانی کی فکری قیادت کر رہے تھے خود ان کا آزادی اظہار کے باب میں کیا رویہ تھا ، یہ بہت دلچسپ کہانی ہے ۔
آزادی اظہار کے اس نام نہاد یورپی معاشرے میں آپ کو مذہب پر تنقید کی مکمل آزادی ہے ، تاریخ کے پرخچے آپ جیسے چاہیں ویسے اڑا کے رکھ دیں ، لیکن آپ کو ’’ہولو کاسٹ ‘‘ پر بات کرنے کی اجازت نہیں ۔ گو تمام مغربی ممالک میں ایسی صورت نہیں ہے لیکن جہاں ہے وہاں عجیب ہی صورت میں ہے ۔ فرانس ، آسٹریا اور جرمنی میں ہولو کاسٹ کا انکار قانونا جرم ہے مگر نبی کریم کی ذات اور آپ کے کارٹون بنانا آزادی اظہار ہے ۔ ان کو تمام مسلم امہ کا احتجاج بھی یہ نہیں سمجھا سکا کہ نبی کریم کی ذات ہمارے لیے اس سے بدرجہا افضل ہے جتنا یہودیوں کے لیے محض پچھلی صدی میں ہونے والا ایک قتل عام ۔ اس میں اس بات کا بہت امکان ہے کہ اہلِ مغرب اس بات کو سمجھنے کے باوجود نہ سمجھنا چاہ رہے ہوں ۔
ان کے ہاں اظہار آزادی بہت ہی متضاد صورت لیے ہوئے ہے ، کسی بھی خاتون کو سر بازار برہنہ ہونے کی آزادی تو ہے لیکن یہاں اظہار کا پیمانہ بدل جاتا ہے ، اب آپ اگر اعتراض کرتے ہیں تو یہ آزادی اظہار نہیں کسی کے حقوق میں کھلی مداخلت ہے لیکن ٹھہریے جاتے کہاں ہیں ، ابھی “عشق ” کے امتحان اور بھی ہیں اگر کوئی خاتون برہنہ ہونے کی بجائے سر ڈھانپ لیتی ہے ، خود کو ملفوف اور با حجاب بنا لیتی ہے تو اس کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ، اور نہ یہ اس کی شخصی آزادی کا معاملہ رہ جاتا ہے اور ایسے میں اگر آپ اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں ، اس پر فقرے کستے ہیں تو اس اظہار کی آپ کو آزادی ہے اور اس اظہار سے جو اس کی دل شکنی ہو گی ، توہین ہو گی اس کی فکر نہ کیجئے کہ آج آپ کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے ۔
اور ہاں اگر آپ کسی کو گالی دیتے ہیں اور اس گالی سے اس کا دماغ گھوم جاتا ہے اور اس گھومنے کے نتیجے میں وہ آپ کو تھپڑ رسید کر دیتا ہے تو مجرم آپ ہیں کہ گالی دینا جرم ہے ، آزادی اظہار نہیں ۔بظاہر بات درست ہے ، لیکن وہ جو اوپر خاتوں بازار میں سے گزر رہی تھی ، باحجاب تھی اس کو گالی دینا کیوں روا اور جائز ٹھہرا ؟
قصہ مختصر آزادی اظہار کا یہ مغربی عقیدہ چوں چوں کا ایسا مربہ ہے کہ بندہ حیرت زدہ رہ جائے ۔
خود ان کی دوعملی کی یہ صورت حال ہے کہ الجزیرہ ٹیلی وزن نے امریکی فوجیوں کی لاشیں کیا دکھا دیں کہ امریکی ادارے تمام اخلاقیات بھول گئے ، تب ان کے نزدیک یہ آزادئ اظہار نہ رہا بلکہ لاشوں کی بے حرمتی ہو گئی ۔ جب کہ اصل صورت یہ تھی کہ امریکہ کی ناک کٹ سی گئی تھی ، سو اس شرمندگی کو انسانی حقوق تلے دبا رہا تھا اور تب تک چین نہ لیا جب تک الجزیرہ ٹی وی کے دفتر پر بمباری نہ کر لی اسے تباہ نہ کر لیا ۔ اسی طرح وہ مشھور کارٹون کا قصہ کس کو بھولا ہو گا جب ان کی وزیر خارجہ کے ایک عرب اخبار نے کارٹون بنا کے چھاپ دئیے جس میں موصوفہ کے پیٹ سے نیا مشرق وسطی برآمد ہوتا دکھایا گیا تھا۔کارٹون چھپنے کی دیر تھی کہ آزادی اظہار کے نام لیواؤں کی چیخیں آسمان تک بلند ہونے لگیں لیکن جب نبی کریم کے خاکے شائع ہوئے تو یہ بنیادی انسانی حق یانی اظہار آزادی کا مظہر ٹھہرے ۔
تضادات کا یہ شاہکار نظریہ اپنے مخصوص “مفادات ” کے لیے عالم اسلام میں درآمد کر دیا گیا ۔
اور اس اظہار کو مسلم معاشرے میں مذہب پر تنقید کے لیے برتا جانے لگا ۔ بات یہاں تک بڑھی کہ اسلام کے مسلمات تک کو ہدف تنقید بنایا جانے لگا ۔ یہ معاملہ کچھ ایسی چابک دستی سے انجام دیا گیا کہ جانے انجانے میں بہت سے مسلمان ہی اس فکری لڑائی میں ان کے پیادے بن گئے اور ان پیادوں نے اتنی محنت کی کہ بہت جلد اس ایجنڈے کا ہراول دستہ بن گئے۔ستم ظریفی ہے نا کہ ہراول دستہ بھی خود مسلمان ہی ٹھہرے ، بھلے وہ نام کے مسلمان ہوں یا نسبا ۔
اپنی بات کو سیمٹتے ہوے میں پاکستان میں چلا آتا ہوں ، ہمارے ہاں کے اس ہراول دستے میں میڈیا کے افراد اور “این جی اوز ” کے ذمے داران خوب خوب کام کر رہے ہیں ۔ اور کفر کے ایجنڈے کے یہ سہولت کار بسا اوقات ایسے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ “شیطان ” بھی مسکرا اٹھتا ہو گا کہ ایسا تو میں نے بھی نہ کہا تھا ۔
ہمارے ہاں آزادی اظہار کو مولوی کی توہین کے مترادف بنا لیا گیا ، مولوی کی توہین ، استہزاء ، ٹھٹھا دراصل ایک حفاظتی دیوار تھی کہ مقصود مذہب کا مذاق اور انکار تھا ، لیکن حالات اس کے لیے سازگار نہ تھے سو مولوی کا سہارا لیا گیا ۔ آہستہ آہستہ ماحول کو “سازگار ” پا کر بلی تھیلے سے باہر آنے لگی ۔ سوشل میڈیا نے ان کے لیے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور جعلی ناموں سے ، فرضی پیج بنا کر کھلم کھلا مذہب کا مذاق اڑایا جانے لگا اور اس قبیح عمل کو آزادی اظہار کا نام دیا گیا ۔ آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک ازادی اظہار اصل میں توہین مذہب بلکہ توہین اسلام کا نام ہے ۔ جب پچھلے دنوں بدترین گستاخ بلاگر پکڑے گئے تو ان کے مربی اس گرفت کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دے رہے تھے ۔ ان لوگوں نے شعائر اسلام کی توہین کا نام ہی اظہار کی آزادی کو قرار دے رکھا ہے ۔
حالانکہ معروف اخلاقیات بھی اس طرز عمل کی نفی کرتے ہیں ۔ اہل یورپ کا محاورہ ہے کہ آپ کی آزادی آپ کی ناک تک ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں آپ کی آزادی ختم ہو جاتی لیکن جب اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے محاورے الٹ ہو جاتے ہیں ، معانی بدل جاتے ہیں ۔ مسلمان اپنے مذہب کا دفاع کریں یا احتجاج کریں تو آزادی اظہار کے منکر قرار دئیے جاتے ہیں ۔ ان کو تنگ نظری کا طعنہ دیا جاتا ہے ، حالانکہ صورت اس کے برعکس ہے ۔ جتنی اظہار کی آزادی اسلام میں ہے کسی اور مذہب میں نہیں ۔ عورتوں کے حقوق کا جیسا اسلام محافظ ہے کوئی اور مذہب نہیں ۔
عورتوں کے حقوق کی بات سن لیجئے ۔ زمانہ نبوت کا واقعہ ہے کہ ایک عورت اپنے خاوند سے الگ ہونا چاہتی تھی ، اس کو اپنے خاوند سے کوئی لگاؤ نہ تھا ،دوسری طرف خاوند کو اس سے بے تحاشا پیار تھا ، لیکن عورت کیا کرتی کہ دل پر کس کا اختیار ، الگ ہونے پر بضد تھی ..خاوند آنسوں کی برسات لیے نبی کریم ﷺکے پاس چلا آیا ۔آپ نے اس کی حالت دیکھی تو اس کی اہلیہ کو بلا بھیجا ۔ خاتون آئی تو آپ نے اس کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا کہا ۔ اس نے سر جھکا کے پوچھا کہ حضرت یہ آپ کا حکم ہے کہ مشورہ ۔ آپ نے فرمایا کہ مشورہ ، اس نے انکار کر دیا ۔ معاملہ ایسا سادہ نہیں ۔ اہل اسلام میں نبی کی بات کا انکار کرنا کفر سمجھا جاتا ہے اور یہ کفر ابدی جہنمی بنا دیتا ہے ۔ لیکن یہاں اختیار عورت کا تھا جس میں نبی بھی مداخلت نہیں کر سکتے ، سو اس عورت نے انکار کر دیا ۔ آپ نے اس کے انکار کو تسلیم کیا کہ اس نکاح میں رہنا یا نہ رہنا اس عورت کا شخصی حق تھا ، سو اس حق کی تعظیم کی گئی ۔
اسی طرح ایک عورت آپ کے پاس آئی اور زمانہ بلوغت سے پہلے کے کیے گئے اپنے نکاح پر تحفظات کا اظہار کیا اس کے باپ نے بچپن میں اس کا نکاح کر دیا تھا ۔ اب جب وہ بالغ ہوئی اور رخصتی کا وقت قریب آیا تو اس کو اپنا خاوند پسند نہ آیا ۔وہ نبی کریم ﷺکی طرف چلی آئی ۔ آپ نے اسے مکمل اختیار دے دیا کہ چاہے تو اس نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو فسخ کر دے ۔ اندازہ کیجئے کہ عورت کی کیسی تکریم کی گئی کہ آج کی آپ کی نام نہاد روشن خیال سوسایٹی بھی اتنی آسانی سے ایسا نہ کر سکے ۔ اس طرح کے بہت سے واقعات آپ کو زمانہ نبوت و خلفا راشدین میں مل جائیں گے ۔ اسی طرح دنیاوی معاملات میں مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ جو بہتر سمجھیں اختیار کریں ۔ جیسے کہ کھجوروں کی کاشت میں نبی کریم کی رائے تھی اور آپ نے اپنی رائے کی پابندی کی بجائے مسلمانوں کو اختیار دیا کہ جو چاہیں سو کریں ۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ آپ ایک روز مدینے کے باغات کی طرف نکل دئیے ۔ جہاں لوگ کھجوروں کی پیوند کاری کر رہے تھے ، آپ نے ان کو ایساکرنے سے روک دیا ۔ وہ لوگ اطاعت کے سبب رک گئے ۔اسی برس فصل بہت کم ہوئی ۔ جب سبب پوچھا گیا تو مذکورہ امر سامنے آیا اس پر آپ نے فرمایا کہ میں بھی انسان ہوں جب دین کی بات بتاؤں تو اس پر عمل کرو ، لیکن جب کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں اس طرح آپ نے لوگوں کو اختیار دیا کہ دنیاوی معاملات میں جو بہتر ہو وہ لر لیا کریں۔
اور بتائیے انسانیت کے حق میں ، انسان کی آزادی کے حق میں ایسا عظیم الشان جملہ کس طبقہ فکر کے دامن میں ہو گا کہ:’’انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنم دیا ، تم ان کو غلام بنانے والے کون ہو ‘‘۔
جی ہاں ! یہ جملہ ہمارے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق کا ہے جس پر انسانیت کے بڑے سے بڑے چارٹر قربان کیے جا سکتے ہیں ۔لیکن کبھی پڑھئے ، کبھی کتابوں کو اٹھایے کہ یہ جملہ کب اور کس موقعے پر انہوں نے کہا تھا ۔ مصر کے گورنر کے بیٹے نے گھوڑ دوڑ میں ایک غریب کے بچے کو آگے نکلنے پر چھڑی دے ماری ۔ اس غریب نے حج کے موقعے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حضور شکایات کا پلندہ کھول دیا ۔ آپ کا حکم تھا کہ حج کے موقعے پر تمام بلاد اسلامیہ کے گورنر مکہ میں جمع ہوں۔ آپ خود بھی وہاں موجود ہوتے تھے اور یوں عوامی احتساب کا شان دار موقع مل جاتا ۔ آپ نے گورنر اور ان کے بیٹے دونوں کو طلب کر لیا ۔ مقدمہ پیش ہوا اور واقعہ ثابت ہو گیا ۔ آپ نے اس پر یہ مشہور جملہ بولا تھا ۔
لیکن جھوٹ اور پراپیگنڈے کے زور سے سفید کو سیاہ کر دیاکہ جس مذہب نے آزادی اظہار کے حقیقی معنوں سے انسانیت کو روشناس کرایا اسی کو اس کا دشمن گردانا جانے لگا ۔ فیصلہ اسی بات پر آ ٹھہرا ہے کہ کسی کے دامن میں کوئی ایسا جملہ ہے تو لائے کہ :’’انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنم دیا ، تم ان کو غلام بنانے والے کون ہو‘‘
آزادی اظہار کو اسلام کے خلاف ایک سازش کے تحت استعمال کیا گیا ، مسلمانوں کی توہین کی گئی ، ان کو تنگ نظر گردانا گیا ، اسلام کو ایک پسماندہ مذہب قرار دیا گیا ۔ گو ہم یہاں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ کی یہ تنقید ، توہین کیا بذات خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟
لیکن ہم ان کی اس بدتہذیبی کو نظر انداز کر کے ان سے ایک سوال کرتے ہیں :
سوال یہ ہے اس “مبینہ ” آزادی اظہار کا حق استعمال کرتے ہوے کیا مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ وہ بائبل کے ساتھ وہی سلوک کریں جو اظہار کے نام پر آپ کرتے ہیں اور کبھی آپ کے فکری رہنما “ٹیری جونز ” جیسے افراد کرتے ہیں ؟
چلیے چھوڑئیے ! آپ کے پاس جواب کہاں ہم ایک اور سوال کرتے ہیں کہ کبھی کسی مسلمان نے آپ کے مقدسات کی توہین کی،بائبل کو جلایا ، مقدسہ مریم کے بارے میں بدزبانی کی ؟ آپ تمام عالم اسلام ڈھونڈ لیں آپ کوئی کہیں ایسا نہیں ملے گا ۔ سبب کیا ہے ؟
صاف بات کہوں ؟مسلمان آپ سے ہزار گنا زیادہ مہذب قوم ہیں ، ممکن ہے کوئی صاحب کہہ اٹھیں کہ مذہب اسلام میں عیسیٰ علیہ سلام بھی ایسے ہی معزز ہیں جیسے تمام انبیاء ، لیکن ہم تب سوال کریں گے کہ پاکستان کی ہندستان سے تین جنگوں میں ، نفرت کی شدید ترین فضا میں بھی ہمارے ہاں کوئی ” ٹیری جونز ” کیوں نہ پیدا ہوا؟
جناب سبب وہی کہ ہم آپ سے بحمد اللہ ہزار گنا زیادہ مہذب ہیں ، با شعور ہیں اور انسانی حقوق کے محافظ ہیں ۔ دیکھئے ہمارے ہاں آزادی اظہار کا یہ تصور ہے کہ :
’’وہ کہیے جو آپ کا من چاہے ، لیکن وہ نہ کہیے جو دوسرے کے مذہب کی ، ذات کی ، اسلاف کی اور عقیدے کی توھین ہو۔رہا اختلاف سو کیجئے لیکن تھذیب کے ساتھ ۔
آزادی اظہار کے ضمن میں “عورت کی آزادی ” بھی بہت اہمیت کا حامل موضوع ہے اور اس آزادی کی نمائندہ خواتین کا رویہ بہت ہی جارحانہ ہوتاہے ۔ آزادی اور اظہار کی آزادی کے نام پر توہین مذہب اور توہین اسلام ان کا روزمرہ کا شغل ہے ۔ ان کی سوچ کا یہ عالم ہے ایک خاتون ٹی وی پروگرام میں کہنے لگی کہ “میں اس ترجمہ قران کو نہیں مانتی جو کسی مرد نے کیا ہو” ۔
عورت کی یہ نام نہاد آزادی کا شوشہ بھی انہی اہلِ مغرب کا پھینکا ہوا ایک جال ہے ۔ گو ہمارے اس مضمون کے موضوع سے کچھ باہر نکلتا عنوان ہے لیکن چلتے چلتے لکھتا چلوں کہ ہمارے ہاں عورت کی آزادی کو بھی مبینہ طور توہین مذہب کے لیے برتا گیا ۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں حدود آرڈیننس کا صرف لفظی نفاذ ہوا تھا ، اس پر عمل درآمد بہت دور کی بات تھی ، لیکن عورت کی آزادی کے ان علم برداروں نے وہ گرد اڑائی کہ الامان ۔ کوئی “میں نہیں مانتی” کا شور کر رہی ہے اور ایک خاتون کتاب لکھ رہی ہے “آدھی عورت ” ۔ نفاق کی حد ہے، یہی عورت کے حقوق کی پرچارک خواتین اسی عورت کو بازار کی جنس بننے پر معترض نہیں ہوتیں ۔ وہی معصوم عورت جب “بازار حسن ” کی پروڈکٹ بن کر “استعمال” کی شے بن جاتی ہے تب ان کو اس کی توہین دکھائی نہیں دیتی ، جب اس بازار میں اس کے سودے کیے جاتے ہیں تب یہ اس “بیوپار ” کو روشن خیالی قرار دے کر آنکھیں موند لیتے ہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی مذہب کا سہارا لے کر ان کے حقوق کی بحالی کی بات کرے تو

یہ اسے اس کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہیں اپنی عیاشی کے لیے ان کے دانشور ، انسانی حقوق کے نام لیوا… عورت کی آزادی کے نام پر روشن خیال بن جاتے ہیں..دوسروں کی بیٹیاں ان کو ننگی دیکھنا پسند ہوتی ہے…اس کی ننگی تصاویر کو یہ آزادی کی “برکات” جانتے ہیں …لیکن جب گھر کی باری آتی ہے تو اندر سے یہ بھی وہی “تنگ نظر پاکستانی” نکلتے ہیں۔
پنجابی کا محاورہ ہے جو ان کی منافقت کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے’’اپنا بچہ ..اور دوسرے کی بیوی ہمیشہ خوبصورت لگتی ہے‘‘
….اب ان سے سوال ہے…
ظالمو!قوانین تم بناؤ ، حکومت تم کرو ، اسمبلیاں تمھاری ، اختیار تمہارا ، اقتدار تمہارا ، میڈیا تمھارے قبضے میں ، اخبارات پر تمہارا قبضہ ، ملکی انتظامیہ پر تم براجمان ، عدلیہ مکمل تمھاری ….. مولوی دور دور تک نہیں پھٹکتا…
تو کیوں نہ بناے قوانین ؟…کس نے روکا؟
بناؤ قانون کہ جو عورت کے چہرے پر تیزاب پھینکے اس کے چہرے پر بھی ویسے ہی تیزاب پھینکا جائے ، تب تمہیں مجرم کے انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں
بناؤ قانون کہ جو عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرے اسے قتل کیا جائے ۔
زنا بالجبر اور گروہ بنا کر عزت لوٹنا فساد میں آتا ہے بناؤ قانون کہ جو عورت کے ساتھ ایسا کرے اسے قتل کیا جائے گا۔
تب کہتے ہو کہ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں
تو بتاؤ ! عورت کے مجرم کون ہیں؟
لیکن آزادی اظہار کا سہارا لے کر ان تمام جرائم کی سزاؤں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے ۔ تمام تر تنقید مذہب پر کی جاتی ہے ۔پاکستان میں آزادی اظہار کو بلا شبہ ایک طبقہ مذہب کی توہین کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور ہمیں ان کی اس منافقت کو ہر صورت آشکار کرنے کی ضرورت ہے ۔ وما علینا إلا البلاغ المبین
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے