کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔
مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)
19جنوری 2019ء جو کہ دل دہلا دینے والادن تھا ، جس میں لاہور سے بورے والا جانے والے ایک ہنستے بستے خاندان کو دہشت گرد ہونے کے شبہ میںانسدادِ دہشت گردی(سی ٹی ڈی)کے اہل کاروں نے چار افراد کو جن میں لاہور کا کریانہ فروش 42سالہ خلیل ، 38سالہ بیوی نبیلہ اور 13سالہ بیٹی ا ریبہ اور خلیل کا دوست جو گاڑی چلا رہا تھا کو انتہائی بے دردی سے خون میں نہلا دیا ۔ جبکہ مقتول خلیل کا 10برس کابیٹا عمیر او ر اس کی سات سالہ بہن منیبہ گولیاں لگنے سےزخمی ہوئے، تاہم پانچ سالہ بچی ہادیہ معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔وزیر اعظم صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا تاج پہننے سے پہلے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا: ’’ملک میں جنگل کا قانون ہے، اصل قانون ہم لائیں گے۔تعلیم، پولیس اور عدلیہ کو مثالی بنائیں گے،غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر عوام کو آزادی دلائیں گے، موروثی سیاست اور جاگیر داری نظام کا خاتمہ کریں گے۔ قوم اب جاگ گئی ہے، وہ ’’نیا پاکستان‘‘ دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘ باتیں بہت دلنشیں اور دعوے بہت خوبصورت ہیں اور عوام کے دلوں کے ترجمان بھی۔لیکن ہوا کیا؟ پولیس بے قابو ہے، رشوت ستانی عام ہے، پانی پر اب بھی مافیا اپنا قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔لینڈ مافیا اب بھی اپنی جگہوں پر براجمان ہے۔غیر قانونی تجاوزات گرادی جاتی ہیں ، پولیس موٹی موٹی رقمیں لے کرقبضے سے محروم ہوئے لوگوں کو پھر وہیں بٹھا دیتی ہے۔یہ آنکھ مچولی کراچی میں جگہ جگہ ہورہی ہے۔فٹ پاتھوں پر آج بھی ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈ والوں کے تخت اور کرسیاں پیدل چلنے والوں کا راستہ روک رہی ہیں۔غلامی کی زنجیریں آج بھی حکمرانوں کے پیروں میں پڑی ہوئی ہیں۔ملک سے جنگل کا قانون ختم کرنے والوں کے دور حکومت میں چار انسانوں کو گولیوں سے چھید دیا گیا۔اور معصوم بچوں کو زخمی کر کے چھوڑ دیا۔ اس دہشت گردی کا کارنامہ بھی خود دہشت گردی ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھوں ہی انجام پایا ہے۔آج کی معاشرتی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ زوال پذیر ہے وہ انسانیت ہے۔انسان نے درندگی کا روپ دھار لیا ہے۔سفاکیت، بے رحمی اورظلم کایہ عالم ہے کہ معصوم بچوں کو بھی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے میں ان پتھر دل لوگوں کا ہاتھ نہیں کانپتا۔یہ انسان نما جانور معاشرے کا رستا ہوا ناسور ہیں جو نسل انسانی کا لہو چاٹ رہے ہیں۔قانون کے ہاتھ مصلحت پرستی کے تحت مفلوج ہوچکے ہیں، منصف انصاف کے تقاضو ں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مجرم کی سماجی حیثیت اور اس مقام و مرتبے کے مطابق فیصلے کر نے پر مجبور ہیںجیسا کہ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ چکے لکھتا ہو
قانون کے رکھوالے ہی اس دور میں اپنے کر توتوں سے قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔جب با غباں ہی چمن اجاڑنا شروع کر دے ، جب راہبر ہی راہزن بن جائیں ، جب محافظ ہی قاتل بن جائیں تو اس قوم کو ذلت و رسوائی اور درماندگی کی دلدل میں گرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور نہ مظلوموں اور کمزوروں کو ان کی دہشت گردی سے کوئی بچا سکتا ہے، سوائے اس کے جسے اللہ بچانا چاہے۔ ان سفاک قاتلوں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ ایک تو ان بے گناہوں کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین یا تصدیق کیے بغیر ان کو گولیوں سے بھون دیا ، پھر اپنا جرم چھپانے کے لیے سانحہ کے حوالے سے سات مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ، دہشت گرد ہونے کے جس شک کی بنا پر ان درندوں نے خون کی ہولی کھیلی تھی اگر اس میں کوئی بھی حقیقت ہوتی تو بار بار اپنے بیانات تبدیل نہ کرتے۔ قتل و غارت کا یہ عمل دانستہ کیا گیا ہے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ صاحب نے ہلاک ہونے والے ا فراد کے ورثاکے لیے دو کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کر دیا۔ کیا پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردوں کو مارنے کے بعد ان کے وارثوں کو مالی امداد فراہم کی گئی ہو۔کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا ہوتا ہے؟وزیر اعلیٰ کے اس اقدام سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اور اب ایک تازہ خبر یہ بھی پڑھنے میں آئی ہے کہ سانحہ ساہیوال کے مظلوموں کے گواہوں اور عینی شاہدین کو مختلف طریقوں سے دھمکایا جا رہا ہے کہ تاکہ اصل مجرم قانون کی گرفت میں نہ آسکیں۔ ویسے تو سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں مجرموں کے ہاتھ قانون کے ہاتھوں سے کہیں زیادہ لمبے ہیں ہمیشہ قانون کے ہاتھ ان قاتلوں، لٹیروں ، غاصبوں اور مافیاؤں کی گرفت کے لیے چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔
اور دوسری طرف ایک ماں بار بار یہ دھائی دے رہی ہے کہ ’’میں دہشت گرد کی ماں نہیں ہوں‘‘، ’’اگر میرا بیٹا دہشت گرد تھا تو مارا کیوں؟ اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا؟ انڈیا کے جاسوس کو زندہ گرفتار کر لیا، تو کیا میرے بیٹے کو زندہ نہیں پکڑ سکتے تھے؟‘‘، ’’میرے گھر جا کر دیکھیں ہمارا حال کیا ہوا ہے؟‘‘، ’’ہم کھاتے ہیں، پیتے ہیں ،روتے ہیں، ہماری ایک بچی ہے، اُسے لوگ کیا کہیں گے کہ تم دہشت گرد کی بیٹی ہو؟ مجھے کہیں گے کہ تم دہشت گرد کی ماں ہو، برائے مہربانی آپ نے ہم پہ جو یہ (دہشت گرد کا) لیبل لگایا ہے، اسے ہٹا دیں، ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں، میں رات کو سوتی ہوں تو مجھے ڈر لگتا ہے‘‘، یہ دہائی ساہیوال پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ذیشان جاوید کی ضعیف اور معذور والدہ نے گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے دی تو وہاں مکمل خاموشی چھا گئی۔ قارئین غور کریں تو یہ ماں اپنے بیٹے کے قتل کیے جانے پر کچھ اور نہیں مانگ رہی، وہ یہ بھی شکایت نہیں کر رہی کہ اُس کے بیٹے کو کیوں مارا گیا وہ تو رو رو کر بس اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اُس کے مارے جانے والے بیٹے کو کم از کم دہشت گرد تو نہ کہیں۔ جو سوال اس ماں نے اٹھایا، وہ ہر دوسرا شخص پوچھتا ہے کہ اگر ذیشان دہشت گرد تھا تو زندہ کیوں نہ پکڑا؟ اگر کلبھوشن کو زندہ پکڑا جا سکتا تھا تو اس کے بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر‘ بغیر کسی عدالتی فیصلے کے کیوں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا؟ اِس ماں کو، اس کی بیوہ بہو اور پوتی کو ذیشان کے مرنے پر صبر تو آ ہی جائے گا لیکن ایک دہشت گرد کی ماں، ایک دہشت گرد کی بیوہ اور ایک دہشت گرد کی بیٹی کے لیبل کے ساتھ وہ معاشرے میں کیسے زندہ رہ سکتی ہیں؟ نہ سینیٹ کی کمیٹی کے پاس اس ماں کے سوالات کے جواب تھے اور نہ ہی حکومت ان سوالات کا ابھی تک کوئی جواب دے پائی ہے۔ یہ کیسا دہشت گرد تھا جو لاہور کے ایک محلے میں گزشتہ تین دہائیوں سے رہائش پذیر تھا جس کے ہمسائے اور رشتہ دار اُس کے اچھے کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ کیسا آپریشن تھا جس میں ذیشان کو دہشت گرد قرار دے کر سب سے پہلے اُسے مارنے کا حکم دیا گیا اور اس حکم کی تکمیل میں تین معصوم جانوں کو بھی اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کہ وہ اُس گاڑی میں سوار تھیں جسے ذیشان چلا رہا ویسے تو پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ عوام پر ظلم و زیادتی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔پاکستان کی72سالہ تاریخ میں کوئی ایسا حکمران نہیں آیا ، جس نے ریاست اور اس میں بسنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے عوام کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو ۔ کسی نے اپنے حکومت کے پائے مضبوط کرنے کے لیے کشت و خون کا بازار گرم رکھا اور کسی نے ملک و قوم کی دولت لوٹ کر اپنے لیے بیرون ملک محلات خریدے اور اپنے کاروبار ملکوں ملکوں پھیلا دئیے ۔اور عوام کو بے روزگاری، مہنگائی اور بنیادی ضرورتوں سے محرومی کے سوا کچھ بھی نہ دیا،جو بھی آیا اس نے عوام کو خوشنما اور دلفریب نعروں کا لولی پوپ دے کر اپنا مطلب نکالا، ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی مثال اس طوائف کی طرح ہے جو سب کی ہوتی ہے مگر کسی کی بھی نہیں ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نفس میں خواہشوں، تمناؤں اور آرزؤوں کا ایک ایسا تاریک اور گھنا جنگل ہے جس میں حرص و ہوس ، انا پرستی اور چنگیزیت کے خونخوار درندے دندناتے پھرتے ہیں ۔اگر ہم اپنی فکری رفعتوں اور روحانی قوتوں کے ذریعے سے ان پر قابو پالیں توتو ہم انسانیت کے عظیم مرتبے کو چھو لیتے ہیں، لیکن جب حبّ جاہ، حبّ مال اور نفسِ امارہ کی منہ زور آندھیاں ہمارے قدموں میں لرزشیں پیدا کرتی ہیں اور ہمارے فکر و عمل میں شیطنیت غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔اور پھر رحم کی جگہ سنگدلی، شفقت کی جگہ سفاکیت اور انصاف کی جگہ نا انصافی لے لیتی ہے۔حکمران اپنی ذاتی مصلحتوں کی آڑ میں اپنے ہی کار پردازوں کو عوام پر ظلم و بربریت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور ہر دلخراش واقعہ پر مگر مچھ کے آنسوں بہاکر سمجھتے ہیں کہ حکمرانی کا حق ادا ہوگیا۔ ہمارے وزیر اعظم پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی مملکت بنانے کے خواہشمند ہیں، لیکن شاید یہ نہیں جانتے کہ خواہش اور ارادے میں بہت فرق ہوتاہے۔اور پھر صرف ان کے چاہنے سے ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکتا جب تک ان کی کابینہ کے لوگ بھی ان کے ہم خیال و ہم نوا نہ ہوں۔ اس لیے کہ اب تک وزیر اعظم صاحب کے وزراء کی کا رکردگی سے یہی صورت حال سامنے آئی ہے کہ وہ ان کی ریاست مدینہ کی خواہش کو اپنے وزیر اعظم کا ایک بچکانہ خیال ہی سمجھ رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ان کے وزیر اعظم ’’ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ‘‘ والی خواہش دل میں رکھے بیٹھے ہیں۔ان کارندوںکی فکری گمراہیوںکے کئی ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً چند روز قبل ایک غیر مسلم ایم این اے نے حرمت ِ شراب کا بل ایوان میں پیش کیا تو خلافِ توقع حکومتی ارکان نے ہی اس کو تنقید کا نشانہ بنایا، حکومت کے مسلمان اہل کاروں کا یہ رد عمل ناقابل فہم بھی ہے اور افسوسناک اور شرم ناک بھی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خود وزیر اعظم آگے آتے اور اپنے وزیر قانون کو حکم دیتے کہ وہ وزیر مذہبی امور کی مشاورت سے حرمت شراب کا ایک جامع بل اسلامی احکام کی روشنی میں تیار کریں اور پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظور کرائیں تاکہ ریاست مدینہ کے نعرے کی عملی صداقت بھی نظر آئے۔اور جو مسلمان اس حکم کی تنفیذ کے خلاف ووٹ دے اسے دستورِ پاکستان کے تحت نا اہل قرار دلوا کر پارلیمنٹ سے باہر کیا جائے۔اور دوسری مثال ہے، بیرونی دباؤ میں آکر ملعونہ آسیہ کی رہائی جو ریاست مدینہ کے نعرے کو مشکوک بنا تی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق22 جنوری2018کو یورپین یونین کا ترجمان جان فیجل پاکستان آیا تھا ، اس نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی تھی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ میری آمد کا صرف ایک مقصد ہے کہ اگرآپ جی ایس پلس(GS+ ) کارینیول چاہتے ہیں تو اس کے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ آپ آسیہ کو رہا کریں۔ہمیں جواب میں یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ ہماری عدالت کا معاملہ ہے جو ہمارا قانون فیصلہ کرے گا وہی ہوگا۔ لیکن اس ایشو پر سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے بالکل ایک جیسا رویہ اختیارکیا کیونکہ مغربی آقاؤں کی غلامی اور ان کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہمارے حکمرانوں میں قدرِ مشترک ہے۔جب تک ہمارے حکمران اپنی سیاسی مصلحتوں کو چھوڑ کر ، اپنی عیش پرست زندگی کو خیر باد کہہ کر، اس دنیا کو عارضی ٹھکانا سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرکے اور اللہ کے سامنے اپنی مسئولیت کا خوف دل میں پیدا کرکے خود کو عوام کی فلاح، ان کی جان و مال کی حفاظت کا محافظ سمجھ کر اپنی روش نہیں بدلیں گے اس وقت تک ان کی حکومت میں خودغرض اور حرص و ہوس کے دیوانے لوگ اسی طرح دن دہاڑے اور سر راہ معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہیں گے۔لوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہے گا۔ اور یہ ارضِ پاک لہو لہو ہوتی رہے گی۔ اور ان تما م ظلم و زیادتیوں کی جواب دہی ان حکمرانوں کو اللہ کے سامنے کرنا ہوگی جو سب کچھ دیکھتے ہوئے مجرمانہ خا موشی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے ۔ عمران خان بڑے بڑے دعوے کر کے بر سر اقتدار آئے ہیں ، پاکستان کے عوام ان سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ، اگر ان کے دور حکومت میں بھی وہی کچھ ہوتا رہا جو سابقہ حکومتوںکا انداز حکمرانی تھا تو وہ یہ نوشتۂ دیوار پڑھ لیں کہ ان کی حکومت کے دن بھی زیادہ لمبے نہیں ہوں گے۔اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی آرزو ان کے دل میں ہی رہ جائے گی۔ انھیں امیر المؤمنین سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ ’’ اگر نہر فرات کے کنارے ایک کتے کا بچہ بھی بھوکا پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا‘‘۔
جس دیس میں جاں کے رکھوالے
خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں
سسکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں
آہیں نہ سنیں معصوموں کی
تو وہاں انہیں اسلامی تاریخ کی بھی ورق گردانی کرلینی چاہیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ (البروج:10) ’’بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے‘‘ ہشام بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ اﷲ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب دے گا جو اس کی مخلوق کو اذیت دیتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے:إِنَّ اللہَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا.(مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق ،4/2018 ، رقم: 2613) ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو اذیت و تکلیف دیتے ہیں۔‘‘ جملہ اَئمہ تفسیر نے اس آیت کے تحت یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کو ظلم وجبر اور فتنہ و فساد کا نشانہ بنانے والوں کی سزا جہنم اور آگ ہے۔ امام فخر الدین رازی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کل من فعل ذلک وهذا أولی لأن اللفظ عام والحکم عام، فالتخصيص ترک للظاهر من غير دليل’’جو بھی مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیف میں مبتلا کرے (خواہ ایسا کرنے والا خود اصلاً مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کے لیے عذاب جہنم ہے) یہ معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ لفظ عام ہے اور اس کا حکم بھی عام ہے اور اگر خاص کیا جائے تو یہ بغیر دلیل کے عام حکم کو خاص کرنا ہو گا۔‘‘(التفسير الکبيراز رازي، 31/ 111) اس لحاظ سے حکم الآیت کا اِطلاق زمانہ قدیم کے اَصْحَابُ الْاُخْدُوْد وغیرہ کی طرح کلمہ گو دہشت گردوں پر بھی یکساں ہوگا۔عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَتْلُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا.’’سیدنا عبد اﷲ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘(نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، 83، رقم: 3988-3990 ۔طبراني، المعجم الصغير، 1: 355، رقم: 594 بيهقي، السنن الکبری، 8: 22، رقم: 15647امام طبرانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔) ایک روایت میں کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا حادثہ قرار دیا گیا ہے۔
سکھوں کا مکہ مدینہ
وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ سکھوں کا مکہ مدینہ پاکستان میں ہے ۔ ویسے تو جناب وزیراعظم کو جو دل میں آئے وہ کہنے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ وہ حکمران ہیں اور باقی سب رعایا۔ وہ تاریخ بدل سکتے ہیں ۔ سیدناعیسیٰ علیہ السلام کو غیر معروف کہہ سکتے ہیں ۔ اپنے ہر اقدام کو ریاست مدینہ کا اصول قرار دے سکتے ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں ایسے حامی میسر ہیں جو ان کے ہر اقدام اور ہر لفظ کو ہر صورت درست قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر وہ خالص اسلامی دینی اصطلاحات کو یوں بے توقیر نہ کریں تو عین نوازش ہو گی ۔ مکہ مدینہ صرف شہروں کے نام نہیں بلکہ حرمین الشریفین کا مقام رکھتے ہیں ان کیساتھ بہت سے اسلامی احکامات منسلک ہیں ۔ عبادت اور ثواب کا مقام حاصل ہے ۔ آپ سکھوں کو ضرور سہولیات دیں ۔ ان کو خوش کریں لیکن یہ سب اسلامی و دینی اصطلاحات کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ وہ زیادہ خوش ہوں گے ۔ ان کےلئے مکہ و مدینہ کے الفاظ شاید اتنے اہمیت کے حامل بھی نہ ہو ۔ آپ ان کی ہی اصطلاحات استعمال کر سکتے ہیں۔ ہر مذہب میں عبادات ۔ اصطلاحات کا الگ الگ مقام ہوتا ہے ۔ آپ بھجن گانے کو عین نماز پڑھنا نہیں کہہ سکتے ۔ کمبھ میلے کو حج کے مترادف کہنا مناسب نہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالی اور بھگوان کے ناموں سے ایک ہی تصور نہیں ابھرتا ۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آجکل وزیر اعظم کو خلیفۃ المسلمین کہہ دیا جائے ۔ یا پھر صدر کو بادشاہ سلامت اور عوام کو غلام ۔ یقینا یہ مناسب نہیں لگے گا کیونکہ ان عہدوں کا تصور ہی ایسا نہیں ہے ۔ اسی طرح سکھوں کے مقدس مقامات کو مکہ مدینہ کہنا بھی مناسب نہیں ۔ جنم بھومی و جنم استھان کے الفاظ ہی مناسب ہیں ۔
وزارت عظمیٰ کے منصب کا تقاضہ ہے کہ ان کے الفاظ بھی انتہائی سنجیدہ اور جچے تلے ہوں ۔ مانا کہ اب ملک کا دینی طبقہ اس قدر سہم چکا ہے اور شاید بے حس تک ہو چکا ہے کہ وہ ایسی باتوں کا نوٹس تک نہیں لیتا ۔ آپ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں لیکن پھر بھی ہم گزارش کرنے کی جسارت ضرور کریں گے۔
سوال :کیا ضرورت کے تحت ایک شخص کا خون دوسرے کے جسم میں داخل کیا جا سکتا ہے ، اور اس کا شرعی حکم کیاہے؟
جواب : صورت مسئولہ جائز ہونے کے لیے تین شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔
1-جس شخص کو خون دیا جارہاہے اس کی صحت کا انحصار خون کی منتقلی پر ہو ۔
2-جس سے خون منتقل کیا جارہاہے اس کی صحت اسسے متاثر ہونے کا خدشہ نہ ہو۔
3-خون کی ضرورت کے بارے میں خبر دینے والا مسلمان باصلاحیت اور ماہر معالج ہو اور اگر مسلمان ڈاکٹر میسر نہ ہو تو غیر مسلم ڈاکٹر کی بات بھی تسلیم کی جاسکتی ہے اگر وہ اپنے فن میں مہارت کی شہرت رکھتاہو۔
پہلی شرط کی دلیل :
یہ ہے کہ ، اصل میں خون حرام ہے خواہ پیا یا پلایا جائےیا ڈرپ وغیرہ کے ذریعے جسم میں منتقل کیا جائے، جیساکہ ارشاد باری ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ:173)
’’اس نے تو صرف تم پر مردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ہر وہ چیز بھی جو غیراللہ کے نام سے مشہور کردی جائے ۔ پھر جو شخص ایسی چیز کھانے پر مجبور ہوجائے درآنحالیکہ وہ نہ تو قانون شکنی کرنے والا ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں‘‘
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر کسی بیماری یا زخم کی شفا کا انحصار اس بات پر ہوکہ خون منتقل نہ ہونے کی صورت میں مریض کی جان جانے کا خدشہ ہے تو ایسی صورت میں ایک شرعی قاعدے کےتحت حرام اشیاء سے جان بچائی جاسکتی ہے وہ قاعدہ یہ ہے ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ ’’ضرورت میں ممنوع اشیاء مباح ہوجاتی ہیں‘‘ تو لہٰذا اس صورت میں ایک سے دوسرے شخص کےجسم میں خون منتقل کیا جاسکتاہے۔
کہ شریعت مطہرہ میں کسی شخص کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور اگر کسی شخص کو اس کے جسم سے خون نکالے جانے کی وجہ سے نقصان یا ضرر پہنچے اور کوئی مرض لاحق ہوجائے اور اس کی زندگی خطرے میں پڑجائے تو ایسی صورت میں اس سے خون نہ لیا جائے کیونکہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کسی کی زندگی بچانے کےلیے کسی اور کی جان کیخطرے میں ڈالی جائے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : ’’لاضررولاضرار‘‘ یعنی نہ خود نقصان اٹھا ئے اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچائے۔
دوسری شرط کی دلیل:
اللہ تعالی نے ہر انسان کو اپنی جان کی حفاظت کرنے کاحکم دیا ہے اور اسے ہلاکت و بربادی میں ڈالنے سے روکا ہے ، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ:195)
’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (النساء: 29)
’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو‘‘
مندرجہ بالانصوص سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر کسی کو خون دینےکی وجہ سے خون دینے والے شخص کو کوئی نقصاننہ ہو یا معمولی نقصان ہو تو وہ خون دے سکتا ہے۔
تیسری شرط کی دلیل:
خون کی ضرورت ہونے کی خبر دینے والاشخص مسلمان ڈاکٹر ہو اگر مسلمان میسر نہ ہو بااعتماد غیر مسلم کا بھی اعتبار کیا جاسکتاہےجیسا کہ حدیث میں آتاہے:
’’رسول اللہ ﷺ نے ھجرت کے موقع پر ایک مشرک آدمی کو اجرت دیکر راستے کی راہنمائی کے لیے ساتھ لیا‘‘
واستأجر النبي ﷺوأبو بكر رجلا من بني الديل ثم من بني عبد بن عدي هاديا خريتا الخريت الماهر بالهداية قد غمس يمين حلف في آل العاص بن وائل وهو على دين كفار قريش (بخاری باب استئجار المشركين عند الضرورة ، أو إذا ..)
امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب بدائع الفوائد میںلکھتے ہیں :
في استئجار النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله بن أريقط الدؤلي هاديا في وقت الهجرة وهو كافر دليل على جواز الرجوع إلى الكافر في الطب والكحل والأدوية والكتابة والحساب والعيوب ونحوها ما لم يكن ولاية تتضمن عدالة ولا يلزم من مجرد كونه كافرا أن لا يوثق به في شيء أصلا فإنه لا شيء أخطر من الدلالة في الطريق ولا سيما في مثل طريق الهجرة
یعنی رسول اللہ ﷺ کا عبداللہ بن ارتقط الدیل کو ھجرت کے وقت گائیڈ (راہ دکھانے والا) بنانا حالانکہ وہ کافر تھا اس بات کی دلیل ہے کہ طبی معاملات ، سرمہ اور دواؤں ، حساب وکتاب اور اس جیسے دوسرے معاملات میں کافر کی طرف رجوع کرنا جائز ہے جب تک ان معاملات میں عدالت پر مشتمل ولایت نہ ہو اور ایک شخص کا صر ف کافر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس پر کس چیز میں کلی طور پر بھروسہ نہ کیا جائے ، کیونکہ گائیڈ (راہ دکھانے والا) کے کام سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ خطر ہ سے خالی نہیں اور خصوصاً ہجرت کے راستے کی راہنمائی ‘‘
اور علامہ ابن مفلح رحمہ اللہ اپنی کتاب الآداب الشریعہ میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’جب کوئی یہودی یا نصرانی میڈیکل میں ماہر ہو، لوگوں کے ہاں ثقہ (بااعتماد) ہوتو (مسلمان مریض کا) اس سے علاج کروایا جاسکتا ہے جس طرح اس کے لیے اپنا مال بطور امانت اس کے پاس رکھنا اور اس سے دنیاوی معاملات کرنا جائز ہیں ‘‘
(واللہ اعلم بالصواب)
سب سے پہلے توحید۔
حافظ شبیر صدیق
توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب تمام انسانوں کی ارواح کو پیدا کیا تو عالم ارواح میں ان سے جو عہد لیا وہ توحید پر مبنی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے مخاطب ہوکر یہ سوال پوچھا تھا:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَہِدْنَا
’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔‘‘ (الاعراف:172)
جس طرح انسان کی ابتداء توحید سے ہے اسی طرح اس کی انتہابھی توحید پر ہوگی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ: اللہُ، اللہُ
’’ جب تک ایک شخص بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ پکارنے والا ہوگا یہ دنیا قائم رہےگی۔‘‘ (صحیح مسلم:148)
یعنی جب تک ایک فرد بھی توحید پر قائم رہے گا دنیا قائم رہے گی اور جیسے ہی اہل توحید کا خاتمہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس دنیا کو بھی ختم کر دے گا یہ توحید کی اہمیت ہے کہ انسان کی ابتداء بھی توحید سے ہے اور انتہا بھی توحید پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تمام زندگی میں توحید کا پرچار کیا ہے کوئی خوشی کا موقع ہو یا غمی کا ، عام حالات ہوں یا جنگ کے حالات ، آپ ﷺ نے ہر موقع پر توحید کو مقدم رکھا۔ رسول اللہ ﷺ شادی کی ایک تقریب میں تشریف لے گئے وہاں کچھ بچیاں غزوۂ بدر کے شہداء کی مدح میں گیت گارہی تھیں
۔ رسول اللہﷺ جب تشریف لائے تو ایک بچی نے رسول اللہ ﷺ کی مدح میں ایک شعر پڑھا ۔
وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدِ
’’ہمارے درمیان ایک ایسا نبی موجود ہے جو آنے والے کل کی خبریں بھی جانتا ہے۔‘‘
یہ ایک ایسا جملہ تھا جس سے عقیدۂ توحید پر چوٹ پڑ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے کسی مصلحت کا لحاظ کیے بغیر ان بچیوں کو یہ شعر پڑھنے سے منع کیا اور فرمایا :
’’ جو اشعار تم پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو۔‘‘ (صحیح البخاری:4001)
ہمارے ہاں اگر کوئی شخص خوشی کے کسی موقع پر منہیات سے منع کرے تو اسے فوراً یہ طعنہ دیا جاتاہے : اس نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔‘‘ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ خوشی کے موقع پر بھی اسے دین ہی کی پڑی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے توحید کی اہمیت کے پیش نظر ایسے کسی طعنے کی پروا کیے بغیر ان بچیوں کی اصلاح کی اورعقیدۂ توحید کو واضح کیا۔
رسول اللہ ﷺ کا بیٹا ابراہیم رضی اللہ عنہ جب فوت ہوا تو آپ ﷺ بہت زیادہ پریشان تھے۔ آپ اس قدر غمگین تھے کہ بیٹے کی جدائی پر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جس دن ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اسی دن سورج کو گرہن لگ گیا۔ اسلام سے قبل لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ سورج یا چاند کو گرہن کسی بڑی شخصیت کے فوت ہونے پر یا پیدا ہونے پر لگتاہے۔ یہی نظریہ اور تصور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی گردش کرنے لگا جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے فوری طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور ایک عظیم الشان خطاب ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللہِ، وَإِنَّہُمَا لَا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِکَ فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ
’’ لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں یہ کسی شخصیت کے فوت ہونے یا پیدا ہونے پر بے نور نہیں ہوتے۔ ان کو تو اللہ تعالیٰ بے نور کرتا ہے تاکہ بندوں کے دل میں اللہ کا ڈر اور خوف پیدا ہو، اس لیے جب کبھی ایسا معاملہ ہو تو تم فوراً اللہ کی بارگاہ میں نماز کی ادائیگی کے لیے جمع ہوجایا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم : 904)
اللہ کے پیغمبر ﷺ کے بیٹے کی وفات کا موقع ایسا تھا کہ آپ بہت زیادہ پریشان اور غمگین تھے مگر عقیدۂ توحید کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے اپنی پریشانی کو ایک طرف رکھا اور فوراً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اصلاح کی۔
وفات سے قبل رسول اللہ ﷺ کو شدید قسم کا بخار ہے۔ بخار کی وجہ سے آپ ﷺ کا جسم مبارک اس قدر گرم ہے کہ آپ نے جو رضائی اوڑھی ہوئی ہے اس کے اوپر سے بخار کی شدت محسوس ہورہی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے پیغمبر ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ ایسی تکلیف دہ کیفیت میں بھی آپ ﷺ اپنی امت کو توحید کا درس دیتے ہیں۔ فرمایا
لَعَنَ اللَّہُ اليَہُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِہِمْ مَسَاجِدًا
’’یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت برسے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ (صحیح البخاری: 1390)
چونکہ نبی اکرمﷺ کی وفات کا وقت قریب تھا اس لیے آپ ﷺ نے اپنی امت کو توحید کا سبق دیا کہ کہیں تم ایسا جرم نہ کر بیٹھنا کہ تم پر بھی اللہ کی لعنت برسنا شروع ہوجائے۔
ذیل میں ہم مختلف پہلوؤں سے توحید کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
ہر نبی کی اصل دعوت توحید
ہر نبی کی دعوت کی اساس عقیدۂ توحید رہا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَةً يُّعْبَدُوْنَ
’’(اے نبی) جو رسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان میں سے کسی سے بھی آپ سوال کریں کہ کیا ہم نے کسی ایک کے لیے بھی رحمان کے علاوہ کوئی اور الٰہ بنایا تھا کہ جس کی عبادت کی جاتی۔‘‘ ( الزخرف:45)
اس سوالیہ انداز میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر نبی کی دعوت کی اساس توحید رہا ہی اس سے عقیدہ توحید کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔
توحید ہی گناہوں کی بخشش کی بنیاد ہے
قیامت کے دن جنت اور جہنم کا فیصلہ توحید کی بنیاد پر ہوگا جس کا عقیدۂ توحید صحیح ہوگا اگرچہ گناہوں کے انبار ہوں وہ آخر کار جنت میں ضرور جائے گا اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے گناہوں سے پاک صاف کرکے جنت میں داخل کر دے گا بصورت دیگر اسے گناہوں کی سزا دے کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا لیکن وہ شخص کہ جس کے عقیدۂ توحید میں شرک کی ملاوٹ بھی ہوئی اس کی چاہے جتنی بھی نیکیاں ہوئیں اس کے بارے ہمیشہ کے لیے جہنم کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اِنَّ اللّٰہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَکَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ
’’ بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے جسے چاہے گا۔(النساء:48)
اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ﷺ سے مخاطب ہوکر فرماتاہے :
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْکَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَکْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ
’’ اور بلاشبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔‘‘(الزمر:65)
رسول اللہ ﷺ کی شفاعت اہل توحید کا حق
قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے بعض گناہ گاروں کے لیےشفاعت کریں گے ۔ آپ ﷺ کی شفاعت کی بدولت انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا البتہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اہل توحید ہیں۔ شرک کا ارتکاب کرنے والے اس شفاعت سے محروم رہیںگے۔
عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّہُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّہِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ فَقَالَ: أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، خَالِصًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِہِ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کے دن کن لوگوں کو آپ کی شفاعت نصیب ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت اسے نصیب ہوگی جو خلوصِ دل سے لا الہ الا اللہ پڑھے گا۔(صحیح البخاری:6570)
یعنی جو شخص لا الہ الا اللہ پڑھنے کے بعد اس کے تقاضوں کو پورا کرے گا ، توحید میں پختہ ہوگا اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا اسے شفاعت نصیب ہوگی اس سے عقیدۂ توحید کی اہمیت عیاں ہوتی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مرکز ومحور توحید
تمام انسانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ تمام قسم کی عبادات میں سرفہرست توحید ہے۔ توحید کے بغیر عبادت نامکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد ﷺ سے باقاعدہ اس کا اعلان کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
’’ کہہ دے! بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے ۔‘‘( الانعام : 162)
یعنی تمام قسم کی عبادت ، مرنا اور جینا سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی اس کے لائق نہیں ہے۔
توحید ہی ہدفِ جہاد ہے
اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ جیسا عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاد میں آدمی کو اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑا عظیم عمل ہے لیکن جہاد اسی آدمی کا معتبر ہے جو توحید کے قیام کے لیے کرتاہے اگر اس میں کوئی اور مقاصد ہوں تو یہ ایک عظیم عمل بے کار ہوکر رہ جاتاہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللَّہِ ہِيَ العُلْيَا، فَہُوَ فِي سَبِيلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ
’’جوشخص صرف اس لیے قتال کرتاہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے تو حقیقت میں وہی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے ۔‘‘ ( صحیح البخاری : 123)
یعنی جو صرف اللہ کی توحید کی خاطر جہاد کرتا ہے فقط اسے ہی حقیقی مجاہد گردانا جائے گا۔
محترم قارئین ! دین اسلام میں عقیدۂ توحید کی اہمیت مسلّم ہے۔ اس پر بے شمار دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ البتہ ہمارا جو مقصود تھا وہ مذکورہ دلائل سے پورا ہوجاتاہے، اس لیے ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ آئندہ شمارے میں توحید کی اقسام اور دیگر لوازمات کے حوالے سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ
کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔
مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)