حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی تحدیث:
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی (1966ء) لکھتے ہیں :
’’شاہ اسماعیل شہید کے اس مسابقت الی الجہاد وفوز بہ شہادت کے بعد ہی دہلی میں الصدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کا فیضان جاری ہوگیا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی ہی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔
میاں صاحب کا یہ درس 60 برس تک قائم رہا ابتداء میں آپ تمام علوم پڑھاتے رہے مگر آخری زمانہ میں صرف حدیث وتفسیر پر کاربند رہے ۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص:19۔20)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ محمد اسحاق کے تلامذہ میں تنہا مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) نے دہلی میں سالہا سال حدیث کا درس دیا اور آپ کے درس سے متعدد جلیل القدر ناشرین وشارحین حدیث پیدا ہوئے جن میں مولانا عبد المنان وزیرآبادی( جن کی کثیرتعدادِ تلامذہ پنجاب میں مصروف درس وافادہ تھے) عارف باللہ سید عبد اللہ غزنوی امرتسری اور ان کے فرزند جلیل مولانا سید عبد الجبار غزنوی امرتسری (والد مولانا سید داؤد غزنوی) مولانا شمس الحق ڈیانوی مصنف غایۃ المقصود ، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا غلام رسول قلعوی ، مولانا محمد بشیر سہوانی، مولانا امیر احمد سہوانی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ، ابو محمد مولانا ابراہیم آروی مصنف طریق النجاۃ، مولانا سید امیر علی ملیح آبادی، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور (علمائے عرب میں سے) شیخ عبد اللہ بن ادریس الحسنی السنوسی، شیخ محمد بن ناصر النجدی، شیخ سعد بن احمد بن عتیق النجدی کے نام اس درس کی وسعت وافادیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔(سید ابو الحسن علی ندوی،تاریخ دعوت وعزیمت، 5/359۔360 مطبوعہ کراچی)
مولانا محمد عزیر سلفی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ
’’میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) نے شاہ محمد اسحاق (م 1262ھ) کی ہجرت 1258ھ کے بعد مسند درس سنبھال رکھا تھا اور مکمل 62 سال تک کتاب وسنت کی تدریس وتعلیم میں یک سوئی کے ساتھ مشغول رہے اسی عرصے میں بلامبالغہ ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے اور ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئے بیرون ہند سے بھی لوگ جوق درجوق آتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلا اختلاف مسلک ومشرب بعد کی کوئی بھی شخصیت ہندوستان میں ایسی نظر نہیں آتی جو ان کے سلسلہ تلمذ میں منسلک نہ ہو ہندوستان کیا پورے عالم اسلام میں اس صدی کے اندر کثرت تلامذہ میں میاں صاحب کی نظیر نہیں ہے میاں صاحب کے تلامذہ نے ہندوستان میں پھیل کر خدمت
اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا اور پوری زندگی
اشاعت کتاب وسنت میں گزاردی ۔ (محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 مطبوعہ کراچی 1984ء)
ذرائع :
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں جو ذرائع اختیار کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1 درس وتدریس
2دعوت وتبلیغ
3تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4 تصنیف وتالیف
5باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید
6 تحریک جہاد(محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 ۔22مطبوعہ کراچی 1984ء)
شمائل وخصائل :
حضرت میاں صاحب عادات واخلاق کے اعتبار سے بہت اعلی وارفع تھے خوش اخلاق ، خوش اطوار، خوش گفتار اور خوش کردار تھے ۔قناعت پسند اور درویش مشن عالم دین تھے بے حد متحمل مزاج اور حلیم الطبع تھے ان کی تمام زندگی مجاہدہ نفس سے تعبیر تھی ان کے قلب میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت راسخ ہوچکی تھی ان کی زندگی کے لیل ونہار حسنات سے عبارت اور اعمال خیر کے حسین ترین قالب میں ڈھلے ہوئے تھے طہارت وپاکیزگی ان کا شیوہ اور عبادت الٰہی ان کا معمول تھا زہد وورع کے پیکر تھے صبر وتحمل ان کا جزءحیات اور اعتدال ان کا رفیق سفر تھا ۔ (ماخذ از: دبستان حدیث ، محمد اسحاق بھٹی)
ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات :
شیخ الکل حضرت میاں صاحب علوم عالیہ وآلیہ کے بحرزخّار تھے اور تمام علوم پر ان کی وسیع نظر تھی مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’شیخ الکل میاں صاحب تمام علوم متداولہ میں عمیق نگاہ رکھتے تھے قرآن وحدیث،فقہ وکلام،صرف ونحو، اصول حدیث ، اصول فقہ ، ادب وانشاء، معانی وبیان، منطق وفلسفہ، حساب وریاضی غرض جو علوم اس زمانے میں مروج ومتداول تھے میاں صاحب کو ان سب میں عبور حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حفظ واتقان کی بے پناہ دولت سے نوازا تھا ۔ فقہ حنیفہ تو یوں سمجھیے کہ انہیں پوری ازبر تھی اور اس کی تمام جزئیات ان کے خزانہ ذہن میں محفوظ تھیں فتاوی عالمگیری کئی ضخیم جلدوں پر محیط ہے اور اسے فقہ حنیفہ کے تمام مسائل کے دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل ہے میاں صاحب اس کے تمام گوشوں سے باخبر تھے اس کا انہوں نے شروع سے آخر تک تین مرتبہ دقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:41 مطبوعہ لاہور 2008ء )
میاں صاحب میں اطاعت رسول ﷺ کا جذبہ صادقہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ تھا حدیث نبوی ﷺ کے مقابلہ قول امام کی ان کے نزدیک کوئی وقعت اور حیثیت نہ تھی جب کوئی حدیث بیان فرماتے اور اس حدیث کے برعکس کوئی شخص کسی امام فقہ کا قول پیش کرتا تو برہمہ ہوکر فرماتے ۔ سنو
یہ بزرگ جن کا تم نے قول پیش کیا ہے ہم سے بڑے ، میرے باپ سے بڑے، میرے دادا سے بڑےلیکن رسول اللہ ﷺ سے ہرگز بڑے نہیں ہیں۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:72 مطبوعہ لاہور 2008ء )
1857ء کی جنگ آزادی :
برصغیر (متحدہ ہندوستان پاکستان،بھارت ، بنگلہ دیش) میں 1857ء میں جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو علمائے اہلحدیث نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا خاص طور پر علمائے صادق پور نے جو قربانیاں پیش کیں برصغیر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مولانا یحییٰ علی صادق پور( م 1284ھ) مولانا عبد الرحیم صادق پوری (م 1341ھ) مولانا حمد اللہ صادق پوری(م1298ھ) مولانا ولایت علی عظیم آبادی (م 1269ھ) اور مولانا عنایت علی عظیم آبادی (م 1374ھ) کی خدمات آب زریں سے لکھنے کے قابل ہیں ان علمائے کرام میں سے کئی ایک نے جام شہادت نوش کیا کئی ایک کو تختہ دار پر لٹکایا گیا کئی ایک کو جزائر انڈیان میں جلاوطن کیاگیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے دن پورے کئے اور وفات پائی ۔ (عبد الرشيد عراقي،حيات نذير ، ص:23 مطبوعه لاهور 2007ء)
بغاوت کے مقدمات :
1857ء کی تحریک آزادی کے سلسلہ میں علمائے صادق پور پر بغاوت کے مقدمات مختلف شہروں میں قائم کئے گئے یہ مقدمات پٹنہ اور انبالہ وغیرہ میں قائم کئے گئے ۔
مقدمہ انبالہ :
انبالہ کے مقدمہ میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کا بھی مؤاخذہ ہوا حکومت کو پولیس کے اہل کاروں نے رپورٹ دی کہ مولوی سید محمد نذیر حسین دہلوی کے پاس بہت خطوط آتے ہیں چنانچہ میاں صاحب کے مکان کی تلاشی لی گئی جو خطوط برآمد ہوئے وہ تمام کے تمام فتاویٰ اور دینی مسائل کے بارے میں تھے یا مختلف کتابوں کے بارے میں دریافت کیاگیا تھا کہ کہاں اور کس شہر سے دستیاب ہیں۔
حضرت میاں صاحب سے دریافت کیاگیا کہ
آپ کے پاس اتنے خطوط کیوں آتے ہیں ۔
حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ
یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کیا جائے نہ کہ مجھ سے بہر حال آپ کو گرفتار کرکے راولپنڈی جیل میں نظر بند کردیاگیا۔
مولانا غلام رسول مہر ( م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
شیخ الکل میا ںنذیر حسین محدث دہلوی بھی ہدف ابتلاء بنےتھے میاں صاحب مرحوم اہل حدیث کے سرتاج تھے اہل حدیث اور وہابیوں کو مترادف سمجھا جاتا تھا مخبروں نے میاں صاحب کے خلاف بھی شکایتیں حکومت کے پاس پہنچائیں ان کے مکان کی تلاشی ہوئی بہت سے خط پائے گئے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے آتے رہتے تھے ان میں یا تو مسئلے پوچھے جاتے تھے یا مختلف دینی کتابوں کے متعلق دریافت کیاجاتا تھا میاں صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس اتنے خط کیوں آتے ہیں انہوں نے بے تکلف جواب دیا کہ یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کرنا چاہیے نہ کہ مجھ سے ۔
ایک خط میں مرقوم تھا کہ نخبۃ الفکر (اصول حدیث کی ایک کتاب) بھیج دیجیےمخبر نے کہا کہ یہ خاص اصطلاح ہے جس کا مفہوم کچھ اور ہے اور یہ لوگ خطوں میں اصطلاحی الفاظ سے کام لیتے ہیں میاں صاحب نے سنا تو جلال میں آگئے تو فرمایا
نخبۃ الفکر کیا توپ ،
نخبۃ الفکر کیا بندوق،
نخبۃ الفکر کیا گولہ بارود
بہر حال آپ کو دہلی سے راولپنڈی لے گئے اور وہاں کم وبیش ایک سال جیل خانے میں نظر بند رکھا دو آدمی ساتھ تھے ایک میر عبد الغنی ساکن سورج گڑھ جو بڑے عابد ، زاہد بزرگ تھے انہوں نے جیل خانے ہی میں وفات پائی میاں صاحب نے خود ہی تجہیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی ۔ دوسرے صاحب عطاء اللہ تھے جنہوں نے اس زمانے میں پوری صحیح بخاری سبقاً سبقاً پڑھی اور قرآن مجید بھی حفظ کیا ۔ میاں صاحب نے سرکاری لائبریری سے کتابیں منگوانے کی اجازت لے لی تھی اور ان کا بیشتر وقت مطالعے میں گزرتا تھا۔ راولپنڈی جیل میں مجاہدین کے متعلق بہت سے کاغذات جمع کردیئے گئے تھے جن میں اکثر فارسی میں تھے ۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد ان کاغذات کی جانچ پڑتال پر لگائے گئے تھے وہ بھی دیر تک راولپنڈی میں مقیم رہے۔ ذوق کے دیوان کی ترتیب انہوں نے وہیں شروع کی تھی میاں نذیر حسین کے خلاف کوئی الزام پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکا تو تقریباً ایک سال بعد انہیں ابتلاء سے نجات ملی ۔ (غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین، ص: 382، مطبوعہ لاہور)
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ( م 1966ء) لکھتے ہیں کہ
ایک سال تک راولپنڈی جیل میں محبوس رہے روزانہ پھانسی کی دھمکیاں دی جاتیں مگر پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ ہوئی۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:149 مطبوعہ دہلی 1938ء)
انگریز آپ کو رہا کرنے پر مجبور تھا اس لیے کہ اس نے بہت کوشش کی کہ آپ کے خلاف کوئی ثبوت مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہوا ۔پروفیسر عبد الحکیم اپنی انگریزی کتاب Wohhabi Trial of 1863-1870میں لکھتے ہیں :
It will be difficult to obtain evidence against him.
ان (مولوی نذیر حسین) کے خلاف ثبوت مہیا ہوجانا بہت مشکل ہوگا۔ (پروفیسر محمد مبارک، حیات شیخ الکل سید محمد نذیر حسین دہلوی)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10 رجب 1320ھ / 13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی آپ کے پوتے مولوی عبد السلام ( م 1916ء) نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیدی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:155)
حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے تلامذہ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ میں بہتوں نے صادق پوری خاندان کے ساتھ مل کر تحریک جہاد کو منظم کیا اس سلسلہ میں بڑی بری قربانیاں پیش کیں اور ہمیشہ برطانوی سامراج کی نظروں میں کھٹکتے رہے مثلاً
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
3مولانا شاہ عین الحق پھلواروی ( م 1333ھ)
4 شیخ پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ( م 1334ھ)
5 مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ)
6 مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (م1337ھ)
7 مولانا فقیر اللہ مدراسی ( م 1341ھ )
8 مولانا محمد اکرم خان آف ڈھاکہ ( م 1968ء )
حضرت میاں صاحب کے ان تلامذہ کے بارے میں جنہوں نے تحریک جہاد کو منظم کیا اورمالی تعاون بھی کیا ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) فرماتے ہیں کہ
حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین ( جو شاہ محمد اسحاق کی ہجرت حجاز کے بعد ان کی علمی جانشینی کے سبب’’میا ں صاحب‘‘ کے لقب سے مشہور تھے) کی سیاست سے کنارہ کش اور مشاغل درس کے باوجود میاں صاحب سے ایک جماعت استخلاص وطن اور حکومت الٰہیہ کے قیام اور استحکام کے لیے بدستور سرگرم عمل رہی جن میں حضرت شیخنا الاکرم مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، حضرت شاہ عین الحق پھلواروی صاحب خلق سواھم وحمھم اللہ اجمعین خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تمام عمر یہی مشغلہ رہا اپنے ذاتی اموال نیز زکوۃ وصدقات وغیرہ سے مجاہدین کی اعانت فرماتے رہے ۔
ثبت امت بر جریدئہ عالم دوام ما
’’جریدہ عالم پر ہمارا نام مستقل طور پر نقش ہے یعنی ہمارا نام زندہ جاوید ہے ۔‘‘(مقدمہ کالا پانی از محمد جعفر تھانسیری، ص: 20 مطبوعہ طارق اکیڈمی فیصل آباد 2004ء)
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
مولانا غلام رسول قلعوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتاہے آپ جلیل القدر عالم، محدث اور صاحب کرامات بزرگ تھے آپ کا سن ولادت 1228ھ/1813ء ہے بچپن ہی سے نیکی اور ورع طبیعت پر غالب تھا تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا ابتدائی تعلیم مولانا نظام الدین بگوی رحمہ اللہ سے حاصل کی حدیث کی تحصیل عارف باللہ شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) کے ہمراہ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے کی ۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی ( م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وأخذ الحديث عن الشيخ المحدث نذير حسين الحسيني الدهلوي مشاركاً للشيخ الأجل عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي (عبد الحی الحسنی ، نزهة الخواطر 8/348)
20 سال کی عمر میں علوم عالیہ وآلیہ سے فراغت پائی جب حج بیت اللہ کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ میں مولانا شیخ عبد الغنی مجددی (م 1296ھ) سے حدیث کی سند واجازت حاصل کی۔
مولانا غلام رسول بہت بڑے مبلغ اور واعظ تھے ہزاروں غیر مسلم آپ کے وعظ اور تبلیغ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 1857ء کے ہنگامہ میں تقلیدیان احناف نے انگریزی حکومت سے شکایت کی کہ اس ہنگامہ میں مولانا غلام رسول قلعوی کے وعظوں کا بڑا دخل ہے چنانچہ ایک طرف انگریزی حکومت نے آپ کے وعظوں پر پابندی لگادی۔(نزھۃ الخواطر 8/348) دوسری طرف آپ کو گرفتار کرکے لاہور میں سیشن جج مسٹر منٹگمری کی عدالت میں پیش کیاگیا۔
لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ مولوی غلام رسول کو پھانسی کا حکم ہوگا چنانچہ ہزاروں آدمی مسٹر منٹگمری کی عدالت کے باہر جمع ہوگئے ۔ مسٹر منٹگمری کو پتہ چلا تو اس نے دریافت کیا کہ یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں تو اس کو بتلایا گیا کہ
’’مولوی غلام رسول جید عالم دین اور اہل پنجاب کا استاد اور پیر ہے یہ لوگ اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے پیر کو پھانسی ہوگئی تو ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے چنانچہ منٹگمری نے پھانسی کا ارادہ بدل دیا اور کچھ عرصہ کے لیے نظر بند کردیا۔ (محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، تاریخ اہلحدیث ، طبع اول ، ص:428)
مولانا غلام رسول نے 15 محرم الحرام 1291ھ / 4 مارچ 1874ء قلعہ مہان سنگھ میں رحلت فرمائی عمر 63 سال تھی۔ ( محمد اسحاق بھٹی ، فقہائے ہند 6/483، مطبوعہ لاہور 2013ء)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبد العلی بن رحیم بخش علمائے فحول میں سے تھے آپ بلند پایہ خطیب،مقرر،واعظ اور مبلغ تھے ان کی وعظ اور تبلیغ سے ہزاروں لوگ ( جو بدعات اور محدثات میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے) صراط مستقیم پر آگئے ان کا وعظ بڑا جامع اور پُر تأثیر ہوتا تھا علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1373ھ) لکھتے ہیں کہ
’’وعظ کہتے تو خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رلاتے۔ (سید سلیمان ندوی، حیات شبلی ، ص:308)
حدیث کی تحصیل شیخ الکل حضرت میاں صاحب سے کی جب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مکہ مکرمہ شیخ عبد الجبار مکی اور مدینہ منورہ میں شیخ عبد الغنی مجددی(م 1296ھ) سے حدیث میں سند واجازت حاصل کی شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) سے بھی مستفیض ہوئے۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی (م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وسافر إلى أمرتسر وصحب الشيخ الكبير عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي، واستفاض منه (نزهة الخواطر 8/4)
’’ آپ نے امرتسر کا سفر کیا اور شیخ کبیر عبد اللہ محمد اعظم غزنوی کی مصاحبت اختیار کی اور اکتساب فیض کیا۔‘‘
فراغت تعلیم کے بعد آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام ایک دینی درسگاہ قائم کی اس مدرسہ میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ) اور مولانا محمد سعید محدث بنارسی ( م 1322ھ) جیسے اساطین فن نے تدریس فرمائی۔
مولانا بدر الزمان محمد شفیع نیپالی لکھتے ہیں کہ
’’مدرسہ احمدیہ اس اعتبار سے منفر د تھا کہ اس میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی اوراس کے ساتھ ساتھ جہاد کی تیاریوں کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔ (بدر الزمان محمد شفیع، الشیخ عبد اللہ غزنوی، ص:138)
مدرسہ احمدیہ اپنے عہد میں اہلحدیث کی یونیورسٹی تھی۔(ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ، ص: 158)
حافظ ابراہیم صوفی،واعظ،مبلغ،مقرر،خطیب،مدرس، مصنف،ماہر تعلیم، منتظم، مجاہد،علوم اسلامیہ میں بحرزخّار، تفسیر،حدیث،فقہ،تاریخ وسیر میں یگانہ روزگار اور عربی ادب میں کامل دسترس رکھتے تھے۔
حافظ ابراہیم آروی نے 6 ذی الحجہ 1319ھ بحالت احرام مکہ مکرمہ میں انتقال کیا اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (سید عبد الحی الحسنی ، نزھۃ الخواطر 8/5)
کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔
مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)
ڈاکٹر مقبول احمد مکی
کشمیر وہ خطہ ہے جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی،سرسبز وشادابی،قدرتی حسن، بلند وبالا پہاڑوں،دنیا کے بہترین پھلوں،میووں ،برف پوش چوٹیوں، حسین وادیوں،یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلام دوستی، محبت ، بھائی چارہ، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی۔ریاست جموں وکشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر،جموں،کارگل،لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15 اگست 1947 میں قائم ریاست جموں وکشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہ پوری ریاست متنازع کشمیر قرار پائی۔
14/15 اگست 1947 کو جب انڈیا اور پاکستان وجود میں آئے اس وقت کشمیر ایک خود مختار شاہی ریاست تھی اور کشمیر کے پاس انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار موجود تھا ۔کشمیر میں اکثریت مسلمان تھی جبکہ وہاں کا حکمران ہندوں راجہ ہری سنگھ تھا. پاکستان کی کوشش تھی کہ کشمیر خود کو پاکستان میں ضم کردے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرلے ۔دوسری طرف بھارت اپنی جگہ انہی کوششوں میں سرگرم تھا. جبکہ کشمیری عوام جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی وہ پاکستان کے ساتھ نا سہی لیکن بھارت کے ساتھ الحاق پر بالکل بھی تیار نہیں تھی. کہانی تب مشکوک ہوئی جب کشمیری عوام نے راجہ ہری سنگھ کا جھکاو بھارت کی طرف جھکتا ہوا دیکھا اور کشمیری مسلم اکثریت میں بغاوت نے سر اٹھا لیا.مسلمان اکثریت نے راجہ ہری سنگھ کے سامنے اپنے مطالبات رکھتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہندوستان کا بٹوارا مذہب اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہوا ہے تو اگر الحاق ہی کرنا ہے تو پاکستان سے کرو کیونکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔راجہ ہری سنگھ چونکہ ہندو تھا اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا سخت مخالف تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے اپنا اقتدار بھی عزیز تھا اس لیے اسے وہی ملک عزیز تھا جو اس کے اقتدار کی تاحیات ضمانت دیتا اور ایسی صورتحال میں ایک ہندو کے لیے ہندو ہی بہتر انتخاب تھا.22 اکتوبر 1947 کو راجہ ہری سنگھ کا جھکاو بھارت کی طرف دیکھ کر کشمیری مسلم اکثریت نے قبائلی جنگجووں کو اپنا دکھڑا سنایا اور مدد کی اپیل کی جس کے نتیجے میں 20 ہزار سے زائد قبائلی جنگجوں کشمیر میں داخل ہوگئےچونکہ کشمیری مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق پر راضی تھی وہ راجہ ہری سنگھ کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر کسی بھی طرح راضی کرنا چاہتے تھے اس لیے اس کار خیر میں پاکستانی حکومت نے بھی یقینا اپنا حصہ ڈالا اور یہی راجہ ہری سنگھ کے بھارت سے الحاق کی وجہ بنی۔ادھر قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے ادھر راجہ ہری سنگھ اقتدار سے ہاتھ دھونے کے ڈر سے مدد کے لیے بھارت چلا گیا.بھارت نے مدد کے بدلے الحاق کی شرط رکھ دی جسے راجہ ہری سنگھ نے فورا قبول کرلیا لیکن راجہ ہری سنگھ حاضر دماغ تھا اس نے الحاق ایسا کیا کہ انڈیا کے ہاتھ بھی کچھ نا آیا۔راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ جس الحاق پر دستخط کیے تھے اس کے نقاط مندرجہ ذیل تھے:
1 بھارت کا ریاست کشمیر میں اختیار اس دستاویز میں درج شقوں کے مطابق ہوگا۔2 بھارتی پارلیمنٹ کو کشمیر میں صرف ان معاملات میں قانون سازی کا اختیار ہوگا جو 1935 ایکٹ کے شیڈول میں درج ہیں۔3 1935 ایکٹ میں یا بھارت آزادی ایکٹ 1947 میں کسی ترمیم کے ذریعے اس الحاق میں درج شرائط میں ردوبدل نہیں کرسکتا۔4بھارتی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جس کے ذریعے جموں و کشمیر میں جبراً زمین کا حصول کیا جائے، اور اگر بھارت کو اپنے کام کے لیے زمین کی ضرورت پڑی تو وہ زمین ریاست کشمیر ان کو حاصل کرکے دے گی ان شرائط پر جو باہمی طور پر طے پائی جائیں گی۔5 اس معاہدے کی کوئی شق مجھے اس کا پابند نہیں کرتی کہ میں بھارت کے آئندہ بننے والے آئین کو منظور کروں اور نہ ہی مستقبل کے آئین کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے میرے اختیار پر کوئی پاپندی عائد ہوتی ہے۔6 اس معاہدے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو اس ریاست میں اور اس کے اوپر میری خود مختاری کو متاثر کرے، سوائے اسکے جیسا کہ اس دستاویز میں بیان کردیا گیا ہے، ریاست کشمیر پر میرے اختیار، اقتدار اور استحقاق جو مجھے بحیثیت حکمرانِ ریاست حاصل ہیں کم نہیں ہونگے نہ ہی ان قوانین کی تنفیذ جو اس وقت نافذ العمل ہیں۔یہ وہ مضبوط الحاق تھا جو راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کیاجس کے نتیجے میں بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی اور پاک بھارت پہلی جنگ کا آغاز ہوا۔ جنگ کی صورتحال خطرناک حد میں داخل ہوچکی تھی پھر اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروائی تب تک پاکستان نے کشمیر کا 38فیصد حصہ فتح کرلیا تھا جو آج الحمدللہ آزاد کشمیر کی شکل میں پاکستان کے پاس ہے۔
غور کریں پاکستان نے اس وقت اپنے سے دوگنابڑے ملک بھارت سے جنگ لڑ کر کشمیر کا 38% حصہ اپنے نام کیا جب پاکستان کی عمر صرف 2 مہینے 10 دن تھی۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ بھارت راجہ ہری سنگھ کے ساتھ کیے ہوئے اس تمام الحاق کی دھجیاں اڑا کر وہاں پر قابض ہوچکا ہے۔
1949 میں بھارت کے کشمیر کے ساتھ الحاق کے بعد جب بھارتی آئین بنایا جارہا تھا تب کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔بھارت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ کشمیر کی حیثیت کو آئین کے اس حصے میں ڈال دیا جائے جو عارضی، انتقال اور خصوصی معاملات سے متعلق ہے۔اس کے لئے بھارتی آئین میں ایک نیا آرٹیکل شامل کیا گیا جس کا نمبر 370 ہے۔
1 اس آرٹیکل 370 کے مطابق بھارت کے آئین میں جو کچھ بھی لکھا ہو، ریاست کشمیر کے ضمن میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق صرف ان معاملات تک محدود ہے جو کشمیری حکومت کے مشورے سے صدر جمہوریہ طے کریں گے۔2 جو دستاویز الحاق سے مطابقت رکھتے ہیں ان کا تعین بھی صدر ہی کریں گے اور بھارتی آئین کے کون سے حصے کشمیر میں لاگو ہوں گے اس کا تعین بھی صدر ہی کریں مگر کشمیری حکومت کی منظوری کے بعد۔3 اس آرٹیکل میں صدر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اس آرٹیکل کو جب چاہے ختم کردیں، لیکن صدر یہ اختیار صرف اس صورت میں استعمال کرے گا جب کشمیری حکومت اس کو منظور کرلے گی۔ 1953 میں اُس وقت کے خودمختار حکمران شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا، جس کی مطابق بھارتی وفاق میں کشمیر کو واضع طور پر ایک علیحدہ ریاست کی حیثیت دی گئی۔آرٹیکل 35A آرٹیکل 370 کی ہی ایک مضبوط اور مکمل قانونی شکل ہے۔فرق بس یہ ہے 1949 میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو عارضی، انتقال اور خصوصی معاملات کے طور پر آئین میں شامل کیا گیا جب کہ 1953 میں آرٹیکل 35A کو مکمل قانونی حیثیت دے کر بھارتی آئین میں شامل کرلیا گیا تھا۔آرٹیکل 35A کے مطابق 1 کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ وہاں پیدا ہوا ہو۔2 کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں زمین جائیداد نہیں خرید سکتا۔3 کسی بھی دوسری ریاست کا شخص کشمیر میں سرکاری نوکری نہیں حاصل کرسکتا۔4 کوئی بھی دوسری ریاست کا شخص جموں کشمیر میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا ،آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا ہے اور راجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ ہونے والا الحاق بھی چیخ چیخ کر یہی کہ رہا ہے۔بھارتی پارليمنٹ نے آرٹیکل 35A کو ختم کرکے نا صرف اس الحاق کی خلاف ورزی کی جو راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کیا تھا بلکہ بھارتی سابقہ حکومت کے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون آرٹیکل 370 کی بھی نفی کردی۔آرٹیکل 370 ہو یا آرٹیکل 35A یہ دونوں آرٹیکل ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں کسی بھی ایک آرٹیکل کو ختم کردیا جائے دوسرا آرٹیکل اپنی موت خود مرجائے گااور ایسا ہوچکا ہے۔آرٹیکل 35A کو ختم کرکے بھارت نے اپنے مزموم مقاصد عالمی دنیا کو بتا دیے ہیں بھارت کاپوری طرح دنیا کے سامنے خبث باطل ظاہر ہوچکا ہے. جب کہ کشمیری عوام اور حکمرانوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس عمل کی ان کے نزدیک کوئی قانونی حیثیت نہیں۔بھارت فلسطین کی کہانی کشمیر میں بھی دہرانا چاہتا ہے بھارت کا مقصد یہ ہے کہ آرٹیکل 35A یا آرٹیکل 370 کو ختم کرکے بھارتیوں کو وہاں پر پراپرٹی خریدنے کی اجازت دے دی جائےپھر وہاں پر انڈیا کے لوگوں کو سرکاری نوکریاں آفر کی جائیں اور شہریت دے کر ووٹ کا حق بھی دیا جائے۔ آسان زبان میں کشمیر میں ہندو آبادی میں اضافہ کیا جائے کیونکہ انڈیا تب تک کشمیر حاصل نہیں کرسکتا جب تک ریفرنڈم کروا کر وہاں کی عوامی رائے میں بھارتی اکثریت حاصل نہیں کرلیتا۔اور آرٹیکل 35A میں ترمیم ایک طرح کا طبل جنگ ہے جو بھارت نے بجا دیا ہے اب اگر عالمی طاقتیں اس پر خاموش تماشائی بنی رہی تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ بھارت نے یہ کام امریکہ و اسرائیل کے زیر سایہ ہی کیا ہے۔پاکستان کو اس پر زبردست اقدامات اٹھانے چاہیے اور ایک جامع اور جارحانہ پالیسی اپنا کر عالمی طاقتوں کے سامنے کشمیری عوام کی بھرپور جنگ لڑنی چاہیے اور پاکستانی عوام کو بھی ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے۔عام لوگ جان لیں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A اے کی منسوخی سلامتی کونسل کی قرادادوں کی کھلی توہین ہے اس آگ میں انڈیا ہی جلنے والا ہے۔ ان شاء اللہ
کشمیری عوام کو مسائل سے دوچار کرنے کےلیے بھارت نے سازشوں سے کام لیا وہی پربرصغیر پاک وہند کی تقسیم میں قادیانی جماعت کا بڑا ہی گھناؤنا کردار رہا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان باؤنڈری کمیشن کے سربراہ اوروائسرائے ہند سے مل کر پاکستان کےخلاف ایسی گھناؤنی اور شرمناک سازشیں کیں ، جن کی وجہ ریاستوںحیدرآباددکن،ریاست کشمیر،تحصیل پٹھان کوٹ ، گجرات، گورداسپور اور کئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں ریڈ کلف، ماؤنٹ بیٹن اور ظفر اللہ قادیانی شریک تھے۔ تاریخ کے اوراق میں اس سازش کے کئی پوشیدہ ثبوت موجود ہیں۔تقسیم کے وقت گورداسپور میں 51 فیصد مسلمان تھے۔49 فیصد ہند اور 2 فیصدقادیانی تھے۔ طے یہ تھا کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ اس موقع پر قادیانیوں نے ہندوؤں کا ساتھ دیا اور مسلمانوں سے الگ ہوئے۔ اس طرح ہندو 49 فیصد سے 51 فیصد ہوئے اور مسلمان 51 فیصد سے 49 فیصدرہ گئے۔ یوں قادیانیوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت سے گورداسپور جاتارہا۔ یہ وہ واحد زمینی راستہ تھا جو کہ گورداسپور سے کشمیر کو جاتا تھا۔بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر کے وادی پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ دوسرے لفظوں میں ریاست کشمیر کے خلاف ریڈ کلف، ماؤنٹ بیٹن اور قادیانیوں نے ناپاک سازش تیار کی جس کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ قادیانیت نے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کشمیری مسلمان ستربرسوں سے بھارتی ظلم وجبر کی چکی میں پستے چلے آرہے ہیں۔یہ مہربانی بھی قادیانیت ہی کی تھی۔ جو آج کشمیر پر بھارتی ناجائزقبضہ ہے۔ پنجاب باؤنڈری کمیشن میں دو مسلم اور دو غیر مسلم ممبران شامل تھے اور سرظفر اللہ خان وکیل تھے۔ قادیانی اخبار الفضل(قادیان 19 جون 1947ء) کے مطابق اس وقت کے قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین نے تقسیم کی اکائی ضلع کے بجائے تحصیل کو قراردیا۔ جسے حکم جان کر سرظفر اللہ خان سکہ بند قادیانی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سراسر بھارتی مفاد میں ہے، اس کے باوجود حد بندی کی اکائی تحصیل کی سطح پر منتخب کی۔ نتیجتاً ہندو اکثریت والی پٹھان کوٹ کی تحصیل بھارت کی جھولی میں جاگری جس کی بدولت بھارت کو کشمیر کا راستہ مل گیا۔ضلع گورداسپور مسلم اکثریتی ضلع تھا۔ اس کی صرف ایک تحصیل پٹھان کوٹ ہندو اکثریت رکھتی تھی۔ اگر حد بندی ضلعی سطح پر ہوتی تو بھارت کو کشمیر پر ناجائز قبضے کا راستہ نہ ملتا ، نہ ہی پاکستانی دریا بھارتی کنٹرول میں جاتے جن کے منبع کشمیر میں ہیں۔ قادیانیوں نے صرف ہندوؤں کی محبت میں انگریز سرکار کو کہا کہ انہیں امت مسلمہ میں نہ گنا جائے۔ وہ ایک الگ مذہب کے پیروکار ہیں لیکن جب مسلمان یہی کہتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے وہ اپنے آقاؤں سے اس کی شکایت کرتے ہیں اور روتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کیوں نہیں کہا جاتا؟ان سب سازشوں کا اگر حل تلاش کیا جائے وہ ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ’’الجہاد‘‘ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’ کشمیر مذمت سے نہیں مودی کی مرمت سے آزاد ہوگا‘‘۔
ڈاکٹر مقبول احمد مکی
رسول مکرم رحمت دو عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: أَيُّهَا النَّاسُ، لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ(صحیح البخاری:2966)
’’لوگو! دشمن سے مقابلے کی آرزونہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو۔ لیکن اگر دشمن سے مقابلہ ہو تو صبر کرو اورخوب جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔پھر آپ نے یوں دعا کی: "اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، (کافروں کے)لشکروں کو شکست دینے والے، انھیں شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔ ‘‘ اس حدیث کے تناظر میں اصولی طور پر ہم امن پسند قوم اور امن کے خوہاں ہیں اور دونوں ملکوں میں غربت ،جہالت ،پسماندگی کے خلاف اپنی طاقت خرچ کرکے جہاد کرنا چاہتے ہیں تاہم انڈیا حملہ اور جارحیت پر ہی اترنا چاہتاہے تو پھر یادر کھیےکہ اسی حدیث کے آخر ی ایمانی اورنبوی فرمان پر عمل پیرا ہونے کیلئے آج پاکستان کا بچہ بچہ تیار ہے کہ جنت تلوار وں کے سائےتلے ہے۔ افواج پاکستان کے علاوہ ہر عام مسلمان پاکستانی کا بھی اس پر اتنا پختہ ایمان ہے کہ انڈیا کی طرف سے کسی بھی بزدلانہ حرکت پر سچی بات یہ ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کے جذبات کو کنڑول کرنا مشکل ہوجاتاہے ہر پاکستانی مسلمان پاک آرمی کا سپاہی نظر آتاہے اورسیاسی پارٹیوں کے اندرونی اختلافات کے باوجو انڈیا کے خلاف پوری قوم متحد اور سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے اور میں ایک نفسیاتی غیر جذباتی اور حقیقت پسندانہ تجزیہ یہ پیش کرنا چاہتاہو ں کہ ایک اللہ پر بھروسہ اور ایمان رکھنے والے جہاد وشہادت کے غیر معمولی جذبہ سے سرشار ،صبح وشام قرآن مجید میں پانچ سو اٹھاون آیات جہاد کی تلاوت کرنے والے پاکستانی فرزندان توحید کا وہ بزدل مشرک ہندوستان کیسے مقابلہ کرسکتاہے جو موت سے ڈرتے ہوجبکہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتاکیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوتی ہےبالخصوص کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے ، مقدس آئین ودستور رکھنے والے اسلامی ملک پر جان قربان کرنا ہر مسلمان اپنی عظیم سعادت سمجھتا ہے قرآن وحدیث میں جہاد وشہادت کی بیان کردہ ہزاروں فضیلت اپنی جگہ اس میں صرف ایک روایت مقداد بن معدیکرب جو کہ فضائل شہید سے متعلق ہے ۔
لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ: يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ، وَيَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الجَنَّةِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَيَأْمَنُ مِنَ الفَزَعِ الأَكْبَرِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الوَقَارِ، اليَاقُوتَةُ مِنْهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنَ الحُورِ العِينِ، وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَقَارِبِهِ(سنن الترمذی ابواب فضائل الشهيد ، باب في ثواب الشهيد، رقم الحدیث : 1663)اللہ کے نزدیک شہیدکے لیے چھ انعامات ہیں،1 خون کاپہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے ،2 وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے،3 عذاب قبرسے محفوظ رہتاہے ،4 فزع اکبر (عظیم گھبراہٹ والے دن)سے مامون رہے گا ،5 اس کے سرپر عزت کا تاج رکھا جائے گاجس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے ،6 بہتر (۷۲) جنتی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی، اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔
شہادت کی فضیلت میں رسول معظم ﷺ کا یہ بھی فرمان گرامی ہے : مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ، لَهَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ، يَسُرُّهَا أَنَّهَا تَرْجِعُ إِلَى الدُّنْيَا، وَلَا أَنَّ لَهَا الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، إِلَّا الشَّهِيدُ، فَإِنَّهُ يَتَمَنَّى أَنْ يَرْجِعَ، فَيُقْتَلَ فِي الدُّنْيَا لِمَا يَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ(صحيح مسلم:1877) کوئی بھی ذی روح جو فوت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے بھلائی موجود ہو، یہ بات پسند نہیں کرتا کہ وہ دنیا میں واپس جائے یا دنیا اور جو کچھ بھی دنیا میں ہے، اس کو مل جائے، سوائے شہید کے، صرف وہ شہادت کی جو فضیلت دیکھتا ہے اس کی وجہ سے اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور اللہ کی راہ میں (دوبارہ) شہید کیا جائے۔
ان حالات میں ہرپاکستانی کو افوا ج پاکستان کے لیے نیک دعاؤں اور تمناؤں کا اظہار کرنا چاہیےاور جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر اپنی افواج کی آواز پر صف اول میں جاکر دشمن سے لڑنے اور جہاد کے لیے تیار رہے ۔
یہ تمام پاکستانیوں کے لیے ہمارا پیغام ہے اور یہی قرآن وحدیث کا حکم ہے ۔ویسے انڈیا کانام آتے ہی پورا پاکستان متحد ہوجاتاہے اس لیے انڈیا پاکستان سے جنگ کی ہمت ہرگز نہیں کرسکتا اور یہ بھی اس کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے خلاف حملہ سعودیہ عرب کے خلاف حملہ ہوگا پاکستان کے خلاف جارحیت عالم اسلام کے خلاف جارحیت ہو گی پوری دنیا کے مسلم ممالک کے خلاف جنگ ہوگی اور اب مجھے بتائیے کیا یہ انڈیا پورے عالم اسلام سے جنگ کو برداشت کر سکتاہے ہرگز نہیں کرسکتاپاکستانی قوم علماء ، طلباء، مکاتب، اسکول ، یونیورسٹیز اور مدارس دینیہ یہاں کی عوام اس سلسلے میں متحد اور متفق ہیں ۔ ہر سطح پر اتفاق نظر آتاہے اس لیے بہترین مشورہ یہی ہے کہ باز آئیں اور کشمیریوں کو حق آزادی دیں اور پاکستان کے خلاف مہم جوئی سے باز رہیں ۔ ورنہ انڈیا والوں یادرکھوں جس قوم کو مندرجہ قرآنی آیات واحادیث یاد ہوں تو ان سے تم کس طرح جنگ کر سکتے ہو۔اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے :وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ( سورۃ انفال 60)
’’تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔‘‘
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام ضحاک رحمہ اللہ نےوَخُذُوا حِذْرَكُمْ کی تفسیر میں فرمایا ہے یعنی اپنی تلواریں گلے میں لٹکا کر رکھا کرو کیونکہ یہی مجاہد کا حلیہ ( زیور ) ہے۔اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قوت سے مراد اسلحہ اور تیر کمانیں ہیں ۔ (الجامع الاحکام القرآن ) یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیجئے کہ شہسواری سیکھنا اور سیکھانا اور اسلحہ کا استعمال سیکھنا عمومی حالات میں فرض کفایہ ہے ۔علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ کبھی فرض عین بھی ہو جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو اس کی سخت ضرورت ہو اور فرض کفایہ ادا کرنے والے بھی باقی نہ رہیں ( الجامع الاحکام القرآن )
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں قیامت سے پہلے تلوار دے کے بھیجا گیا ہوں تاکہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں اور میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھ دی گئی ہے اور ذلت اور پستی ان لوگوں کا مقدر بنا دی گئی ہے جو میرے لائے ہوئے دین کی مخالفت کریں اور جوکسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔ ( مسند احمد )
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا جس جگہ جہاد کی ضرورت ہو وہاں نیزے بنانا نفل نماز سے افضل ہے ۔ (لفروسیتہ المحمدیہ)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ر سو ل اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو ایسے اعمال نہ بتاؤں جو تمھیں جنت میں لے جائیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ۔ ضرور ارشاد فرمایئے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ اعمال یہ ہیں تلوار چلانا ، مہمان کو کھانا کھلانا ، نمازوں کے اوقات کا اہتمام کرنا ۔ ( ابن عساکر )
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالی مجاہد کی تلوار اس کے نیزے اور اسلحے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور جب اللہ تعالی کسی بندے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے تو پھرا سے کبھی عذاب میں مبتلا نہیں فرماتا ۔ ( کتاب ترغیب لابی حفص بن شاہین و ابن عساکر )
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا دشمنوں کے علاقوں میں جنگ کے دوران اپنے ناخن بڑھاؤ کیونکہ یہ بھی اسلحہ ہے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاد کے دوران دشمنوں کے علاقے میں ناخنوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے مثلاً رسی وغیرہ کھولنے اور دوسرے کاموں میں ۔ ( المغنی)
اللہ کے راستے میں جو تلوار سب سے پہلے سونتی گئی وہ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی تلوار تھی اور اس تلوار کے لیے رسول اکرم ﷺ نے دعا بھی فرمائی ۔ واقعہ یہ ہوا ایک بار شیطان نے یہ افواہ اڑا دی کہ نبی اکرم ﷺ کو گرفتار کر کے مکہ کے پہاڑوں پر لے جایا گیا ہے ۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اس وقت بارہ سال کے تھے یہ افواہ سنتے ہی وہ اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر باہر نکل آئے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ رسول اکرم ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا ہوا تمھیں کہ اس طرح ہاتھ میں تلوار لے کر پھر رہے ہو۔ کہنے لگے مجھے اطلاع ملی تھی کہ آپ ﷺ کو گرفتار کیا گیا ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے پوچھا اگر ایسا ہوتا تو تم نے کیا کرنا تھا۔ کہنے لگے میں اس تلوار سے
آپ ﷺ کے پکڑنے والوں کو ختم کر دیتا ۔ اس پرنبی اکرم ﷺ نے خود انہیں اور ان کی تلوار کو دعائیں دیں ۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اسلام کے جانبازوں اور عظیم بہادروں میں تھے ۔ ( المستدرک )
ابن ابی الزناد کہتے ہیں کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ کے سر پر تلوار ماری جو اس کے لوہے کے خود [ یعنی جنگی ٹوپی ] کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی زین تک سے گزر گئی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ کی تلوار کیا ہی عمدہ ہے اس پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے ان کا خیال یہ تھا کہ یہ تو ہاتھ کی طاقت کا کمال ہے تلوار کا نہیں ۔
علامہ طرطوشی رحمہ اللہ نے سراج الملوک میں لکھا ہے کہ کچھ پرانے اور بوڑھے مجاہدین نے یہ قصہ سنایا کہ ایک بار مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی ہوئی تو انہوں نے میدان جنگ میں لوہے کے خود کا ایک ٹکڑا دیکھا جس کا ایک تہائی حصہ سر کے اندر گھسا ہوا تھا وہ کہتے تھے کہ ایسے زور دار وار کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سنا تھا۔ رومی اسے اٹھا کر لے گئے اور اپنے ایک گرجا گر میں لٹکا دیا۔ انہیں جب شکست پر عار دلائی جاتی تھی تو وہ یہی خود دکھایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا مقابلہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جن کے وار اس طرح کے تھے۔ ( سراج الملوک )
جہاد کے لیے خریدے جانے والے اور تیار کئے جانے والے اسلحہ کی فضیلت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی میراث میں نہ درھم چھوڑے نہ دینار ۔ اور نہ کوئی اور مال اور دولت ۔ البتہ آپ ﷺ اپنی میراث میں امت کو علم اور جہاد کے ہتھیار عطاء فرما کر اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ مسلمانوں نے جب تک میراث نبوی کو تھامے رکھا اس وقت تک وہ واقعی مسلمان رہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان پر غالب نہ آسکی ۔
ہماری عسکری قوتیں چاہے فضائی،بحری اور بری ہوں ان کے لیے اپنے ملک کی تمام حدود کی حفاظت اپنے وجود کی بقاسے زیادہ معتبر اور مقدم ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم نے اپنا وطن پاکستان کتنی لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا۔ ان قربانیوں میں ہم نے صرف اپنی جانیں نہیں گنوائیں بلکہ اپنے اہل و عیال،بزرگ،مال و مویشی اور اپنے گھر بار سب کچھ ایسے قربان کر دیئے جیسے قربان کرنے کا حق تھا۔ ہر مسلمان اللہ کا سپاہی ہے۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیف اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ کا شاھین ہے۔ جب بھی ہمارے وطن پہ مشکل وقت آیا تو ہماری افواج اور عوام نے اپنے فوجی بھائیوں کی اس طرح مدد کی کہ بچوں نے اپنے جیب خرچ ،ملک کی ماں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے زیور تک بیچ کر ملک کے خزانے میں جمع کروا دئیے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جنگیں صرف فوجیں نہیں بلکہ قومیں جیتا کرتی ہیں۔ کچھ محاذ ایسے ہوتے ہیں جو زمینی و آسمانی آفات کی بنا پر قوم کو یکجا کرتے ہیں اور قومیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں جیسے سیلاب،زلزلے اور کوئی بڑا حادثہ۔ سب سے بڑا محاذ جنگی محاذ ہوتا ہے جس میں دشمن اپنے ناپاک عزائم لے کر بزدلوں کی طرح رات کی تاریکی میں بنابتائے ہمارے ملک پہ حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ستمبر 1965میں بھارت جیسے ازلی دشمن نے بنا للکارے گیدڑوں کی طرح حملہ کر دیا مگر آفرین ہے ہماری افواج اور قوم پر کہ ناموافق بین الاقوامی حالات اور محدود وسائل کے باوجود جذبہ مسلمانی و ایمانی اور جذبہ جہاد کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور لازوال جذبے کے تحت ہم نے ایک ہو کر ان کو شکستِ فاش دی اور ان کی فتح کا جھنڈا ذلت کی پستیوں میں گاڑھ دیا۔ ہمارے دفاعی فرزند ایک ہی نظریے کے تحت میدانِ جنگ میں اترتے اور شہہ زوری سے لڑتے ہیں کہ اپنے دین اور قومی وجود کو کسی بھی طور باطل قوتوں سے مغلوب نہیں ہونے دینا۔ ہمارے نبی پاکﷺ نے خود مدینہ شریف کے دفاع کے لیے راتوں کو پہرہ دیا اور اپنے صحابہ کرام کو جو وہاں حفاظت کے لیے مامور تھے انہیں خفیہ ہدایات دیں۔
مملکتِ اسلامیہ پاکستان کو استحصالی قوتیں برداشت کہاں کرتی ہیں لیکن ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان کی جنت تلواروں کے سائے تلے ہے،ویسے بھی اللہ کے راستے میں لڑنے کو مسلمان کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔ 6ستمبر 1965 کو ہندوستانی کمانڈر انچیف جے۔این چوہدری نے پاکستان پر حملے کی نادانی تو کر لی مگر پھر اسے بری طرح
بھگتنا پڑا۔ وہ ہمارے وسائل سے تین گنا زیادہ ہتھیاروں کے ساتھ لیس ہو کر آئے تھے اور جم خانہ لاہور میں اپنی فتح کا جشن شراب کے نشے میں دھت ہو کر منانا چاہتے تھے مگر ہماری پاک زمین کا ایک ذرہ بھی ان کے نصیب میں نہ ہوا۔ سیالکوٹ میں جسور کے علاقے پہ انہوں نے قبضہ کرنے کوشش کی مگر ہماری افواج نے جب قدم آگے بڑھائے تووہ جوابی کارروائی کیے بغیر ہی سر پر پاؤں رکھ کے سرپٹ ہوئے۔ ہماری آزمائش کے اس دن کو آج پچاس سال گزر گئے مگر ہمارے ملک اور مذہب کا عزت و وقار آج بھی قائم ہے۔
جس ملک کی مائیں وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی گود خالی ہونے پر شکرانے کے نفل ادا کرتی ہیں اس وطن کا ہر فرد بوڑھا اور بچہ اللہ کی تلوار بنتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے ہماری قوم میں مایوسی اور بزدلی کا شائبہ تک بھی نہ تھا، پوری قوم جذبۂ ایمانی، حوصلہ مندی اور نئی امنگوں کے جذبوں کے ساتھ متحرک تھی، ملک کا بچہ بچہ قربانی دینے کو یوں تیار تھا جیسے ماں کی گود میں سونے کے لیے تیار ہو رہا ہو۔ ہماری فضائیہ نے جب ہندوستان کا "پٹھان کوٹ" بیس (Base) تباہ کیا تو عوام کی خوشی دیدنی تھی وہ فضا میں لڑتے طیاروں کی جنگ دیکھنے کے لیے خندقوں اور اندھیرے کمروں سے نکل کر چھتوں پر آجاتے اور جب اپنی فضائیہ کا کوئی جوان دشمن کاطیارہ گراتا تو نعرہِ تکبیر بلند کرتے۔ اسوقت قوم کا جذبہ یہ تھا کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقام پہ جاتے ہوئے اپنے گھروں کی چابیاں فوجیوں کو دے جاتے۔ ان کے ٹیوب ویل، ان کی دکانیں، ان کے مویشی سب افواجِ پاکستان کے لیے وہیں موجود رہیں تا کہ ضرورت پڑنے پر جو وہ استعمال کرنا چاہیں کر لیں۔ سڑک پہ روک روک کر جانے والے فوجیوں کو بوڑھی مائیں چنگیر میں گرم روٹی اور مکھن رکھ کر کھلانے کو کھڑی ہوتیں۔ دانے بھون کر اپنا پیٹ پالنے والے دانوں کو گٹھڑی میں باندھ کر فوجی گاڑیوں میں رکھ دیتے کہ جہاں ان کا سپاہی کچھ نہ ملنے پر بھوکا رہے گا وہاں اِن کو کھا کر اپنا پیٹ بھرے گا اور شاید اسی طرح ہم بھی اس جنگ میں وطن کی حفاظت کے لیے کچھ حصہ ڈال سکیں گے۔
جس دن سے انڈین وزیراعظم نے جنگ کی دھمکی دی ہے اس دن سے سوشل میڈیا پر ہر طرف صرف جنگ کے حوالے سے پوسٹس پڑھنے کو مل رہی ہیں، کوئی جگتیں کر رہا ہے تو کوئی دشمن کو للکار رہا ہے، ہم ماشاءاللہ پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں ہم نے جنگ کے حوالے سے کتابیں بھی پڑھی ہیں اور ہم میں سے اکثریت نے جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناغا ساقی پر ایٹمی بم پھینکے جانے کے بعد کے حالات بھی پڑھے ہوں گے، سب کچھ جاننے کے باوجود ہم خیر اور امن کی دعا مانگنے کی بجائے غرور اور تکبر کر رہے ہیں مذاق سمجھ رہے ہیں اس چیز کو، یہ کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں ہے کہ دو ٹیمیں کھیلیں گی اور باقی سب تماشائی ہوں گے یہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ ہوگی اس کے بعد یہاں کیا بچے گا کیا نہیں یہ ہم سب جانتے ہیں، اس لیے امن کی دعا کیجئے اللہ تعالیٰ سے خیر مانگیں، گزارش ہے کہ اس مذاق کو بند کر دیجئے اللہ ہمارے ملک کو ہمیشہ امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین
کرب وپریشانی کے عالم میں نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی دعائیں بطورِ خاص کرنی چاہئیں جیسا کہ ارشاد گرامی ہے:
اللّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُكَ العَفْوَ وَالعافِيةَ في الدُّنْيا وَالآخِرَة ، اللّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُكَ العَفْوَ وَالعافِيةَ في ديني وَدُنْيايَ وَأهْلي وَمالي ، اللّهُمَّ اسْتُرْ عوْراتي وَآمِنْ رَوْعاتي ، اللّهُمَّ احْفَظْني مِن بَينِ يَدَيَّ وَمِن خَلْفي وَعَن يَميني وَعَن شِمالي ، وَمِن فَوْقي ، وَأَعوذُ بِعَظَمَتِكَ أَن أُغْتالَ مِن تَحْتي [صحيح ابن ماجه 2/332]
اے اللہ! میں تجھ سے دنیاو آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا، اپنے اہل اور اپنے مال میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میرے پوشیدہ امور پر پردہ ڈال اور میری گھبراہٹوں میں مجھے امن دے، اے اللہ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے، میرے اوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کے ذریعے پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اچانک ہلاک کردیا جاؤں۔
انسان جس جگہ اورخطے ملک یا شہر میں رہتا ہےاس جگہ سے قلبی لگا ؤ اورمحبت کا پیداہوناایک فطری عمل ہے امانت اور دیانت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ انسان جہاں رہے وہاں کی خیر خواہی ،تعمیر وترقی اور فلاح وبہبود کی کوشش میں لگا رہے اس لیے ہم اپنا یہ دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ کی طرح پاکستان کی بقاء وسالمیت اور حفاظت کے لیے حکومت اور افواج پاکستان کے ساتھ دامے،درمے،قدمے اور سخنے ہر طرح سے ساتھ ہے جہاں افواج پاکستان کے پسینے کا قطرہ گرے گا وہاں پر ہمارہ خون بہے گا۔
اِن شاء اللہ تعالیٰ