اسلام آباد میں عالمی یوم خواتین کے حوالے سے نکالی جانیوالی ایک ریلی میں لہرائے گئے مختلف پلے کارڈز نے سوشل میڈیا پر خوب دھوم مچائی ہے ۔ " کھانا خود گرم کر لو"اور ایسے ہی دیگر جملوں پر ہر طبقے کے افراد طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں ۔ کچھ حلقوں کو یہ جملہ معاشرتی نظام سے بغاوت لگا تو کسی نے اسے حقوق نسواں کی آواز قرار دیا ۔ مجھے یہ بحث کچھ انجان سی لگی ۔ایسے جملے لہرانے والی خواتین کو شائد ہمارے معاشرے کے بارے کچھ بھول ہوئی ہے ۔ انہیں شائد اندازہ ہی نہیں کہ دین اور روایات کے بندھن سے جڑے رشتے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں ۔ عورت سے تقابل ، مرد کی برتری کی باتیں یہ سب انجان سی لگتی ہیں ۔ بھلا جو زندگی کا حصہ ہو اس سے مقابلہ کیسا؟؟ جی ہاں اسلامی طرز معاشرت میں تو عورت کو کو کہیں مقابل سمجھا ہی نہیں جاتا تو برتری ، کمتری کا سوال کیسا؟؟ایک ایسے معاشرے میں جہاں مرد کو سرتاج کہا جائے وہاں کی عورت بھی تو گھر کی ملکہ ہی کہلاتی ہے۔دراصل دونوں کے درمیان مقابلےکی غلط فہمی پھیلانے والے خود کسی فریب کا شکار ہیں ۔ کتنا خوبصورت رشتہ ہے جو نکاح سے جڑ تا ہے۔ جو مرد اپنے نصف ایمان کے لئے عورت کا محتاج ہو وہ برتری کا دعوی کیسے کر سکتا ہے۔ ایک خاوند کے طور پر کیا کوئی اللہ تعالی کی طرف سے عنائیت کردہ اپنی بیوی کے قدموں تلے اولاد کی جنت کا اعزاز چھین سکتا ہے ۔ کیسا مقابلہ؟؟ نبی اکرم ﷺنے تین بار ماں کا حق کہا اور چوتھی بار باپ کا ۔ کیا کوئی خاوند اس ترتیب کو بدل سکتا ہے؟ ؟ اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوگا۔ کیا ایک خاوند کو شکر گزار نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی بیوی اسے خاندان جیسی نعمت سے نوازتی ہے ۔ جی ہاں اولاد کی وہ نعمت کہ جو زندگی کا سہارا بنتی ہے ۔ جو خونی رشتوں کو بھلا کر کسی انجان کے گھر میں زندگی بنانے آجاتی ہے ۔ اس گھر کو پھر اپنے ہاتھوں سےجنت بناتی ہے ۔ جس میں آپ کے لئے خوشیاں ہوتی ہیں ۔جو بڑھاپے میں ڈھلتے آپ کے ماں باپ کی خدمت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔یہ سب اس پر فرض تو نہیں لیکن وہ رشتوں کی مٹھاس کی خاطر کرتی ہے۔ کیا خاوند کو شکریہ ادا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ جیسے اور جس حال میں رکھا جائے خوشی سے رہتی ہے ، کم سہولیات اور محدودآمدن میں بھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے گزارہ کرتی ہے ۔ آپ کی گھر سے دوری ، اولاد اور گھریلو کام کاج کو وقت نہ دینے کے باوجود اپنی سلطنت کو خوشحال رکھتی ہے ۔ یہ اچھی اور سمجھدار بیوی ہی ہوتی ہے کہ جو خاوند کے بھائی بہن اور قریبی رشتہ داروں سے تعلقات کو قائم اور مضبوط بناتی ہے ۔ ہر تہوار ، خوشی غمی کو نبھانے کا ہنر جانتی ہے ، مردوں پر ہوتو وہ اپنے کام کاج میں قریبی رشتہ داروں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں، ایک بیوی کے لئے کتنا اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے خاوند کی ہر جگہ عزت کی جائے ۔وہ ماں کے گھر جانے سے پہلے کتنی ہی ہدایات دیتی ہے کہ "وہ" بھی آ رہے ہیں ۔ جو اتنی عزت دے کیا اس سے مقابلہ کیا جاتا ہے ؟؟ کتنا عجیب لگتا ہے جب کچھ لوگ دین پر عمل پیرا ہونےسےخواتین کے حقوق صلب کرنے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ کیا آپ کو پتہ ہے سیرت النبیﷺ کی روشنی میں خاوند کیسا ہوتا ہے۔ جی اسے بیوی کے کھیل کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ بیوی کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر اس کے ساتھ دوڑ نہیں لگاسکا تو اسے معذرت کرنی چاہیے اور پہلی فرصت میں اس سنت نبویﷺ پر عمل کرے ۔ جی کبھی کبھی اپنے ہاتھوں سے نوالے منہ میں بھی ڈالا کرے کیونکہ نبی اکرمﷺ تو بخوشی ایسا کرتے اور صحابہ کرام کو تلقین بھی کرتے۔ اگر آپ بیوی کے لئے مناسب سہولیات فراہم نہیں کر پائے یا کمائی کا بڑا حصہ گھر پر خرچ نہیں کرتے تو اپنی اصلاح کر لیں کیونکہ بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو باعث ثواب قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ کی روشنی میں بہترین مومن وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے لئے بہترین ہے ۔خاوند کو بیوی کے لئے سجاوٹ کا حکم ہے ۔کئی احادیث میں عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے میں غفلت پرسخت وعید سنائی گئی ۔ یہ تعلیمات نبویﷺ گواہ ہیں کہ محسن انسانیت کسی خاوند کی جانب سے اپنی بیوی کے لئے ذرا سی بھی سختی گوارا نہیں کر سکتے ۔حقوق نسواں کے نعرے لگاتی چند خواتین پتہ نہیں کن غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ ہمارے پاس تو عائلی زندگی کی شاندار روایات ہیں اور رشتوں کی مضبوطی اور توازن قائم رکھنے کے لئے سنہری تعلیمات۔ یہ بیوی کا اپنائیت کا احساس ہی ہوتا ہے کہ جو دن بھر کے تھکے ہارے خاوند کے چہرے پر خوشی و مسرت کا احساس بکھیر دیتا ہے۔ جو پریشانیوں میں غمخوار بنتی ہے ، حوصلہ ٹوٹے تو صبر و ہمت کی چٹان بن جاتی ہے ، مشکل وقت آئے تو قدم ساتھ ملا کر چلتی ہے ، کچھ چھن جائے ، محرومی کا سامنا ہو تو دکھ بانٹ لیتی ہے ۔ جی ہاں یہ سب ایک عورت ہی کرتی ہے کیونکہ وہ گھر میں کمتر یا برتر نہیں بلکہ زندگی کا حصہ ہے ۔ یہ رشتہ دونوں کو شامل کرکے ہی تکمیل پاتہ ہے ۔ جب کسی کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں تو اس سے مقابلہ کیسا ؟؟ کونسی برتری اور کمتری کا سوال ؟؟ہم کیوں اپنے ہاں "کھانا خود گرم کر لو والی" اور" میرا جسم میری مرضی "والی غلط فہمیوں کا شکار خواتین کی باتوں کو ڈسکس کرکے وقت ضائع کریں۔ جہاں خاوند اپنی خواہشات ، آرام ، سکون حتی کہ صحت تک کی قربانی دیکر بیوی کی خوشیوں کا سامان کرتا ہو ، اس کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر ہر مشکل و مصیبت کو جھیل جائے تو اس گھرانے کی ملکہ اپنے سرتاج کے لئے کھانا شوق سے پکاتی بھی ہے اور گرم بھی کر دیتی ہے ۔ اور اگر کبھی تھکن ، بیماری یا کسی بھی اور وجہ سے نہ بھی کر سکے توخاوند کے خود کھانا گرم کرنے میں حرج ہی کیا ہے جب بیوی بھی ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہو تو اتنا سا کام تو کر ہی لینا چاہیے ۔ دراصل یہ بحث تو ہماری ہے ہی نہیں کسی نے ایویں ہی کسی بھولی خاتون کو مغالطے میں ڈال دیا ہے۔ جو زندگی کا حصہ ہو ، خوشی کا باعث ہو ، دکھ سکھ کی ساتھی ہو اسکے ساتھ ایسے مقابلے نہیں کئے جاتے ۔ وہ کھانا گرم کر کے دے یا کبھی خود کرنا پڑ جائے ۔ یہ بھی زندگی کاایک دلکش پہلو ہی ہوتا ہے جو انمول یادیں جنم دیتا ہے۔
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو بہت رحم کرنے والا ، بہت معاف کرنے والا ، بڑی سخاوت کرنے والا اور بہت وسیع رحمت والا ہے۔ وہ اپنی بےشمار نعمتوں کے ساتھ فضل کرنے والا ہے۔
جیسے اللہ تعالی نے فرمایا :
أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (لقمان: 20)
کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ نے تمہارے لئے مطیع کر دیا ہے اور اس نے اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور امانت ادا کر دی، آپ ﷺ پر، آپ کی آل اور صحابہ پر اللہ کی رحمتیں اور ڈھیروں سلامتی نازل ہو ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! اللہ سے ڈرو اس لئے کہ تقوی ہی میں آخرت کی نجات اور دنیا کی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ (الزخرف: 35)
’’اور آخرت آپ کے رب کے ہاں صرف متقین کے لئے ہے۔‘‘
اور اللہ تعالی کا فرمان:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (يونس: 62 - 64)
’’سن لو ! جو اللہ کے دوست ہیں انہیں نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ ان کے لئے دنیا میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
تقوی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ توحید کو لازماً اپنایا جائے جو کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے عظیم حکم ہے۔ اور توحید یہ ہے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ یقیناً انسانوں اور جنوں کو اسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 56)
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘
ہم ایک اللہ کی عبادت کیوں نہ کریں، جبکہ اس نے اپنی رحمت سے ساری مخلوق کو پیدا کیا اور ہر قسم کی بھلائی عطا کی۔ عنقریب تمام بندے اس کے سامنے اپنے اعلانیہ اور پوشیدہ اعمال کے محاسبے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (فاطر: 2)
’’جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ (الأنعام: 133)
’’اور تیرا رب ہی ہر طرح بے پروا، کمال رحمت والا ہے۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا:
فَقُلْ رَبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ (الأنعام: 147)
’’آپ فرما دیجئے تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔‘‘
اےعقلمندو! غور کرو اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار دیکھو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ (الشورى: 28)
’’وہی تو ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت عام کر دیتا ہے اور وہی کارساز ہے، حمد کے لائق ہے۔‘‘
اسی طرح مزید فرمایا:
فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الروم: 50)
’’ سو اللہ کی رحمت کے نشانات کی طرف دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے، یقیناً وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ ‘‘
اور فرمان باری تعالی ہے:
وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (القصص: 73)
’’اور اس نے اپنی رحمت ہی سے تمھارے لیے رات اور دن کو بنایا ہے، تاکہ اس میں آرام کرو اور اس کا کچھ فضل تلاش کرو اور تم شکر کرو۔ ‘‘
اور اللہ عزوجل نے فرمایا:
قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (الأنعام: 12)
’’آپ ان سے پوچھئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔‘‘
اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ : إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي
سیدنا ابو ہریرۃ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے نبی كريم ﷺ نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا دیا تھا ، اور یہ تحریر اس کے پا س عرش پر ہے ،" کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے"۔
یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔ جیسے کہ اس آیت میں فرمایا جو شرف والی جگہ عرفات میں نازل ہوئی تھی:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: 3)
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔‘‘
یہ عظیم دین پانچ ارکان پر قائم کیا گیا ہے۔ جن میں پہلی چیز شھادتین ، پھر نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ہے۔
شھادتین (دو چیزوں کی گواہی) سے مراد یہ گواہی دینا کہ اللہ کہ علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت درست نہیں، چنانچہ ہم اس اکیلے ہی کی عبادت کریں گے۔
اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے حکموں کی اطاعت کریں ، آپ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کریں ، نیز اللہ کی عبادت اسی طریقے پر کریں گے جو آپ ﷺ نے بیان کیا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ زکوۃ سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال میں سے طے شدہ شرح کے مطابق ایک حصہ نکالا جائے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (النور: 56)
’’اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کا حکم مانو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی نے رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا اور بیت اللہ کا حج کرنے کا حکم بھی دیا ۔ حدیث میں ہے:
إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ
’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘‘۔
اور رسول اللہ ﷺ نے حج میں سر کے بال منڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ رحمت کی دعا کی ۔
یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایمان کو اپنی رحمت حاصل کرنے کا اور نجات پانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ فرمایا:
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (النساء: 175)
’’چنانچہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رکھا انہیں اللہ اپنی رحمت اور فضل میں شامل کرے گا اور اپنی طرف آنے کی سیدھی راہ دکھا دے گا۔‘‘
اور رحیم نبی ﷺ نے بھی بتایا کہ ایمان کے ارکان چھ ہیں۔ فرمایا:
الإيمان : أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ والْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھو‘‘۔
یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے انبیاء (علیہم السلام) کو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الأنبياء: 107)
’’اور ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
اور فرمان باری تعالی ہے :
وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (القصص: 46)
’’نیز آپ طور کے کنارے پر بھی نہ تھے جب ہم نے (موسیٰ کو) آواز دی تھی، لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے (کہ اس نے آپ کو یہ سچی غیب کی خبریں دیں) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ شاید وہ نصیحت قبول کریں۔‘‘
اور اللہ تعالی نے اپنے نبی معظم ﷺکی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ (التوبة: 61)
’’وہ نبی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور ان کے لیے ایک رحمت ہے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں۔‘‘
آپ ﷺ کا ایک نام نبی رحمت بھی ہے۔ رحمٰن کا فرمان سنیں:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران: 159)
’’پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے ارد گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ایسی کتابیں نازل کی ہیں جو اس کی احکام بیان کرتی ہیں اور اس کی رحمت سے لوگوں کے احوال درست کرتی ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (العنكبوت: 51)
’’اور کیا انہیں یہ کافی نہیں ہوا کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل کی جو ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے۔ اس میں یقینا ً ایمان لانے والوں کے لیے بڑی رحمت اور نصیحت ہے۔‘‘
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الأعراف: 52)
’’یقینا ہم ان کے پاس ایسی کتاب لائے ہیں جسے ہم نے علم کی بنا پر خوب کھول کر بیان کیا ہے، ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالی نے مزید فرمایا:
يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (يونس: 57، 58)
’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ چکی۔ یہ دلوں کے امراض کی شفا اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ آپ لوگوں سے کہئے کہ (یہ کتاب) اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل کی گئی ہے) لہذا انہیں اس پر خوش ہو جانا چاہئے۔ یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘
سلف صالحین جن میں صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے نیک علماء بھی شامل ہیں، وہ اس رحمت بھرے طریقے پر ہی چلتے رہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی یہی صفت بیان کی۔ فرمایا:
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا (الفتح: 29)
’’آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انہیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہیں ۔‘‘
اللہ کے نبی اور اس کے اولیائے کرام بھی اللہ کی مخلوق پر بھی شفقت و مہربانی کرتے تھے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً (هود: 17)
’’اور اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب بھی جو امام اور رحمت تھی۔ ‘‘
اور خضر (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:
آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا (الكهف: 65)
’’ ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔‘‘
اور اسی طرح قیامت تک مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرتے ہی رہیں گے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (البلد: 17، 18)
’’ پھر ( یہ کہ) ہو جائے وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔ یہی لوگ دائیں ہاتھ والے ہیں۔‘‘
اہل علم بھی اللہ تعالی کے قول کی پیروی کرتے ہوئے فتویٰ پوچھنے والوں کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (الأنعام: 54)
’’ اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ سلام ہے تم پر، تمھارے رب نے اپنے آپ پر رحم کرنا لازم کر لیا ہے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو یقینا وہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
بلکہ سب مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے:
مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم كمثل الجسد الواحد، إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر
’’مسلمانوں کی باہمی مودت، رحمت اور بھائی چارے کی مثال ایک جسم جیسی ہے، جس کا ایک حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں رہتا ہے۔‘‘
رحمت تمام مخلوق کو بھی شامل ہے ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء
’’زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘
اور نبی ﷺ کا فرمان یہ بھی ہے:
الراحمون يرحمهم الرحمن
’’رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے۔‘‘
یہ بھی اللہ پاک کا فضل ہے کہ اس نے معاشرتی تعلقات کی بنیاد بھی رحمت پر رکھی ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان بھی رحمت ہوتی ہے ، اسی طرح میاں بیوی کے درمیان بھی رحمت ہوتی ہے ۔ والدین کے بارے میں فرمایا:
وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (الإسراء: 24)
’’اور رحم دلی سے ان کے لیے تواضع کا بازو جھکا دے اور کہہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جیسے انہوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا۔‘‘
اور میاں بیوی کے متعلق فرمایا:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الروم: 21)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جا کر) آرام پاؤ اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں ۔‘‘
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے بھی ہیں؟ ہم تو نہیں چومتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اللہ نے آپ کے دل سے رحمت چھین لی ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘
بلکہ دین اسلام میں تو پورے معاشرے اور جانوروں کے ساتھ بھی رحمت والا معاملہ کرنے کا حکم ہے۔ ایک بد کردار عورت کو جنت میں اسی لیے داخل کر دیا گیا کہ اس نے ایک پیاسے کتے پر رحم کرتے ہوئے اسے پانی پلا دیا تھا۔ اسی طرح ایک اور شخص کو جنت میں اس لیے داخل کر دیا گیا کہ اس نے لوگوں کو اذیت دینے والی کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹا دیا تھا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
اس لیے ہمیں اپنے تمام تر معاملات میں رحمت کو بنیادی حیثیت دینی چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ وَالْهَوَامِّ، فَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ، وَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ، وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى وَلَدِهَا، وَأَخَّرَ اللهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً، يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
’’اللہ کی سو رحمتیں ہیں۔ جن میں سے اس نے ایک رحمت جنوں، انسانوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں نازل کی ہے، اسی ایک حصے سے وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔ اسی ایک حصے کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے مؤخر کر رکھی ہیں جن سے وہ اس دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘
جب لوگ ایک دوسرے پر رحم کرنے لگتے ہیں تو بہت سے مثبت اثرات نظر آتے اور شاندار نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ جیسے لوگوں میں محبت پیدا ہوتی ہے، رواداری بڑھتی ہے، الفت پھیلتی ہے اور آپس میں تعاون نظر آنے لگتا ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی زندگی میں بھی بہت سے مواقع ایسے ہیں کہ جن میں ہمیں رحمت و شفقت اپنانی چاہیے۔ جیسے قانون سازی اور اس کے نفاذ میں ، رابطے کے ذرائع کے استعمال اور جدید ٹیکنالوجی ، میڈیا وغیرہ کے استعمال میں بھی رحمت اپنانی چاہیے۔
رحمت و شفقت کے مظاہر میں ایک صورت وہ بھی ہے جو ہم مشاعر مقدسہ میں کام کرنے والوں اور سپاہیوں میں دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح حجاج کرام کی رہنمائی کرتے اور عبادت کی ادائیگی میں ان کی مدد کرتے ہیں، بالخصوص بوڑھوں، معذوروں ، بچوں اور چھوٹوں کا خیال کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس ملک سعودی عرب کے حکمرانوں کی کریمانہ ہدایات ہی کی بدولت ہے ۔ اور یہ ہدایات ان خدمات کی ایک کڑی ہیں جو سعودی عرب کی حکومت حرمین شریفین اور حاجیوں کی تمام کاموں میں سر انجام دے رہی ہے۔
سعودی عرب کے قابل تعریف منصوبوں میں حرمین کی توسیع کا منصوبہ ، مشاعر مقدسہ کو حج کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور اس کے بنیادی ڈھانچے کو ترتیب دینا بھی شامل ہے۔
اس ملک کے تمام بادشاہ حرمین اور حجاج کرام کی خدمت میں ایک سے ایک بڑھ کر پیش پیش نظر آتے ہیں۔ نیک بادشاہ، شاہ عبد العزیز کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے، انہیں معاف فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، انہوں نے بھی اس معاملے میں کسر نہیں چھوڑی اور پھر ان کی نیک اولاد، شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد اور شاہ عبد اللہ بھی اسی راستے پر چلتے رہے، اللہ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔
ان دنوں بھی ہمیں مشاعر مقدسہ میں دل خوش کر دینے والی خدمات نظر آتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ہر مسلمان کا دل خوش ہو جاتا ہے۔
ہم اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کو توفیق عطا فرمائے ، اے اللہ! تو اس کا مدد گار، معاون اور نگہبان بن جا۔ ہر خیر میں اس کی مدد فرما! اے اللہ! ہر نیک کام پر اسے اجر عظیم عطا فرما اور اسے ہدایت، خیر اور رحمت کا راستہ ہموار کرنے والا بنا۔ اے اللہ! ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کو برکت عطا فرما! اسے بھی جزائے خیر عطا فرما! اسے ساری امت کے لیے خیر اور رحمت کا ذریعہ بنا۔ اسے ان کاموں کی توفیق عطا فرما جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔
اللہ کے فضل ہی سے نفس پاکیزہ ہوتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (النور: 21)
’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ رہ سکتا تھا۔ مگر اللہ جسے چاہے پاک سیرت بنا دیتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (يوسف: 53)
’’بے شک نفس امارہ تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ یقیناً میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اپنی رحمت ہی سے جنت میں داخل کرے گا۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَنْ يُدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الجَنَّةَ قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لاَ، وَلاَ أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ
"کسی شخص کا عمل اسے جنت میں ہرگز داخل نہیں کر سکے گا۔ “ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا عمل بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میرا عمل بھی نہیں۔ ہاں مگر اللہ تعالی مجھے اپنے فضل و کرم سے نواز دے۔"
اللہ کی رحمت سے ہی لوگ مختلف قسم کی مصیبتوں اور برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ (الكهف: 58)
’’اور تیرا رب نہایت بخشنے والا، خاص رحمت والا ہے، اگر وہ انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑے جو انہوں نے کیے ہیں تو وہ یقینا ً ان کے لیے جلد عذاب بھیج دے ۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
’’اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً جن باتوں میں تم پڑگئے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا ۔ (النور: 14)
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن شیطان ملعون کے مقابلے میں ہمیں کافی ہو جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا (النساء: 83)
’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔‘‘
ذیل میں چند اسباب درج ہیں کہ جن کے ذریعے رحمت الہی حاصل کی جا سکتی ہے :
1رحمت الہی کے حصول کا ایک سبب تقوی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (يس: 45)
’’بچو اس (عذاب) سے جو تمھارے سامنے ہے اور جو تمھارے پیچھے ہے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
2 رحمت الہی کے حصول کے اسباب میں ایک سبب نرمی بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَى وَإِذَا اقْتَضَى
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے۔‘‘
3 رحمتِ الٰہی کے حصول کے اسباب میں تلاوت قرآن ، اس پر غور کرنا اور اسے سننا بھی شامل ہے۔ جیسے کی حدیث میں ہے:
مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ تَعَالَى يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ
’’جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور آپس میں اس کا درس و مذاکرہ کرتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ عزوجل ان کا ذکر ان میں کرتا ہے جو اس کے پاس ( ملائکہ مقربین)ہوتے ہیں ۔ “
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الأعراف: 204)
’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الأنعام: 155)
’’اور یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی ہے، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (الزمر: 9)
’’(کیا یہ بہتر ہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟ کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں ۔‘‘
4 اسی طرح اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ لوگوں پر احسان کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (الأعراف: 56)
’’بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (يوسف: 56)
’’ ہم اپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔‘‘
5 اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ لوگوں کی آپس میں صلح کروانا بھی ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات: 10)
’’مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
6 رحمت الٰہی کے حصول کا ایک سبب اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت بھی ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (آل عمران: 132)
’’اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
7 اسی طرح صبر بھی رحمت کےحصول کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة: 156، 157)
’’ وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
8اسی طرح رحمت کا ایک سبب وہ بھی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرمایا ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ (التوبة: 71)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا ۔‘‘
9 ایک سبب وہ بھی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الأعراف: 156، 157)
’’اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (ان کے لیے) جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر نا پاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔‘‘
0کثرت سے استغفار کرنا بھی رحمت الٰہی کے حصول کا ایک سبب ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (النمل: 46)
’’تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
اے مسلمان بھائیو! تمہارے گناہ چاہے بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، تم اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہونا۔ اس لئے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر: 53)
’’آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔‘‘
اور فرمایا:
وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ (الحجر: 56)
’’اور گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے۔‘‘
! ایک سبب یہ بھی ہے کہ رحمت نازل کرنے کی دعا کی جائے۔ جیسے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا:
وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (الأعراف: 151)
’’موسیٰ نے تب دعا کی :پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما۔ تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اور جیسے سلیمان (علیہ السلام) نے بھی دعا کی :
وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (النمل: 19)
’’ اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔‘‘
فرشتے بھی اللہ سے یہی دعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (غافر: 8، 9)
’’اے ہمارے رب! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے، تو ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے اور انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا ۔ اے ہمارے رب! اور انہیں ہمیشہ رہائش والی ان جنتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو بھی جو ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے لائق ہیں۔ بلاشبہ تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ اور انہیں برائیوں سے بچا اور تو جسے اس دن برائیوں سے بچا لے تو یقیناً تو نے اس پر مہر بانی فرمائی اور یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
ہمارے والدین، آدم اور حواء (علیہما السلام) کی بھی یہ ہی دعا تھی:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الأعراف: 23)
’’دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ً ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
اصحاب کہف کی بھی یہی دعا تھی:
رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (الكهف: 10)
’’اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (المؤمنون: 109)
’’(بات یہ ہے) کہ جب میرے کچھ بندے یہ کہتے تھے کہ : اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہی سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
نیز راسخ اہل علم کی بھی یہی دعا ہے:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران: 8)
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے۔‘‘
اے بیت اللہ کا حج کرنے والو!
آپ بڑی فضیلت والی جگہ پر ہو کہ جس میں دعائیں قبول ہوتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ
’’کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے ۔‘‘
اسی لئے مسلمانوں پر رحم کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کے دن روزہ نہ رکھا، تاکہ وہ اس دن کثرت سے ذکر کریں اور دعائیں مانگیں ۔
اللہ تعالیٰ کو بھلے بن کر دکھاؤ۔ اس سے اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے اور جن کے حقوق آپ کے ذمے ہیں اور تمام مسلمانوں کے لیے رحمت اور خیر کا سوال کرو۔ نیز اللہ تعالی سے دعا کرو کہ ان کے احوال اور معاملات کو درست فرمائے۔
رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مناسک حج ادا کر کے دکھائے ۔ چنانچہ عرفات کے میدان میں آپ ﷺ نے خطبہ دیا، اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی، پھر آپ ﷺ نے ظہر کی نماز کو قصر کرتے ہوئے دو رکعتیں ادا کیں، پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور آپ ﷺ نے عصر کی نماز کو بھی قصر کرتے ہوئے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر آپ ﷺ عرفات کے میدان میں اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہے، پھر جب سورج کی ٹکیا غروب ہو گئی تو آپ ﷺ مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے ، جب آپ ﷺ مزدلفہ پہنچے تو اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی، پھر آپ ﷺ نے مغرب کی تین رکعتیں ادا کیں، پھر اقامت کہی گئی اور آپ ﷺ نے جمع اور قصر کرتے ہوئے عشاء کی دو رکعتیں ادا کیں۔
پھر آپ ﷺ رات کو مزدلفہ میں سو گئے، صبح کو فجر کی نماز وہاں ہی اول وقت میں ادا کی، اور اچھی طرح روشنی پھیل جانے تک اللہ سے دعا کرتے رہے۔
پھر آپ ﷺ منی کی طرف چلے اور طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں، پھر قربانی کی اور اپنے بال منڈوائے۔ پھر بیت اللہ کا طواف، طواف افاضہ کیا۔
آپ ﷺ نے ایام تشریق منیٰ ہی میں گزارے اور وہاں اللہ کا ذکر کرتے رہے، اور تینوں جمروں پر زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مارتے رہے۔ چھوٹے اور درمیانی جمرے پر کنکریاں مارنے کے بعد دعا بھی کرتے رہے، نیز اہل عذر کو آپ ﷺ نے اجازت دی کہ وہ ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں نہ گزاریں۔
نبی ﷺ کی سنت یہ ہے کہ منیٰ میں تیرہ ذو الحجہ تک ٹھہرا جائے، یہی افضل بھی ہے، اگرچہ بارہ ذو الحجہ کو چلے جانے کی اجازت بھی آپ ﷺ دی ہے۔
جب آپ ﷺ حج سے فارغ ہوئے تو واپسی کے سفر سے پہلے آپ ﷺ نے پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔
یااللہ! حاجیوں پر رحم فرما! ان سے حج قبول فرما! ان کے معاملات آسان فرما۔ شریروں کے شر سے انہیں محفوظ فرما! اے اللہ! انہیں اپنے ملکوں تک امن و سلامتی کے ساتھ اس حال میں پہنچا کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوں، اور ان کی حاجتیں پوری ہو چکی ہوں۔
یا اللہ! مسلمانوں کے احوال درست فرما، ان کے اختلافات دور فرما اور ان کے رزق کو کشادہ فرما۔
یا اللہ! ان کے بیماروں کو شفا عطا فرما، یا اللہ! ان کے گناہ گاروں سے درگزر فرما، اور ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرما۔
یا ا للہ ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرما اور ان کے فقراء کو مال و دولت عطا فرما نیز مقروضوں کے قرض ادا فرما۔
اے اللہ! تمام مسلمان ممالک کو خیر سے بھر دے، انہیں ترقی نصیب فرما! انہیں سکون و چین اور بہترین زندگی نصیب فرما۔
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں اور رسولوں پر سلام ہو اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (الصافات: 180 - 182)
اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور نبی محمد ﷺ پر اور آپ ﷺ کے اہل بیت اور صحابہ کرام پر
۔۔۔۔
عام طور پر ثقافت، تہذیب اور تمدن کے ہم معنی یا مترادف کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ جدا جدا الفاظ ہیں اور ان کے اپنےاصطلاحی مفاہیم مقرر ہیں۔ثقافت کے معنی ہنر یا سیکھنے کے ہیں۔انگریزی کے(culture)کا صحیح مترادف لفظ یہی ہے۔کلچر کے معنی’’ہل چلانا‘‘ یا’’کھیتی باڑی‘‘ کے ہیں۔ اور اصطلاحاً ’’انسانوں کا طریق زندگی‘‘یا ان کے طرز حیات کو کہا جاتا ہے، جو انسان غیر جبلی طور پر یعنی سیکھ کر انجام دیتا ہے۔ گویا ثقافت ایک جامع اصطلاح ہے، جس میں انسانوں کا رہنا سہنا، ملنا جلنا، کھانا پینا اور سلیقہ سکھانا سب کچھ آجاتا ہے۔
ہر وہ کام جو سیکھ کر انجام دیا جائے، خواہ یہ سیکھنا اپنی سوچ اور اپنے فکر و نظر پر مبنی ہو یا مشاہدہ کائنات سے ہو ثقافت کہلاتا ہے۔ اس میں وہ کام شامل نہیں ہیں جو جبلی طور پر انجام پاتے ہیں۔مثلاً بھوک پیاس جبلی شے ہے، اس لیے یہ ثقافت نہیں۔ اپنا جسم چھپانا جبلت انسانی) (Human Instinct(ہے، اس لیے سترپوشی ثقافت نہیں ہے۔لیکن کھانا کھانے اور کپڑے پہنے کے جتنے طریقے اور جتنے انداز اختیار کئے جائیں گے، انھیں ثقافت (culture) کا نام دیا جائے گا۔
ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ انسانی احتیاج (Human Necessity) اورماحول (Environment(بھی ثقافت کو جنم دیتے ہیں اور انسان کی تخلیقی سوچ (creative thinking) بھی۔پھر یہ ثقافت و حشیانہ( Frightfully)بھی ہوسکتی ہے اور مہذب (Civilized) بھی۔ مثلاً پتھر کے دور کی ثقافت غیر تہذیب یافتہ (Uncivilized)تھی جو 3000 قبل مسیح میں مہذب ہوئی۔ثقافت عقائد، سماجی معیارات، تعلیم، ادب، تجربہ، طبعی حالات، ٖضرورت، فکرواحساس اور ایجاد و تخلیق سے متاثر ہوتی ہے۔
تہذیب (Civilization )سے مراد عام طور پر ادب، سلیقہ، تعلیم اور رکھ رکھاو اور اخلاقی قدریں لئے جاتے ہیں۔ گویا ثقافت میں جب سلیقہ کا رنگ اجاگر ہوجاتا ہے تو وہ’’تہذیب‘‘بن جاتی ہے۔ ا س میں رسم الخط، شہروں کا وجود، سیاسی تغیرات اور پیشہ ورانہ تخصص Professional specialization))شامل ہے۔
اس کائنات میں پوری انسانی تہذیب کو اکائی( (Unit سمجھا جاتا ہے اور یہ انسانی تہذیب مرورزمانہ کا ساتھ تین ادوار سے گزری ہے۔ قدیم یعنی جبری تہذیب (Ancient or compulsive)، قرون وسطیٰ (Middle Age)اور جدید جمہور (Modern Democracy) تہذیب، مختلف قومیں، ادوار، علاقے، زبانیں اس تہذیب کا جزو ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر قوم نے تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ہر قوم اور گروہ ثقافت میں اپنا کردار اد اکرے ان تین تہذیبوں کے علاوہ چوتھی تہذیب نے ایک نیا روپ بھرا۔چنانچہ ایک طرف اشتراکیت( Socialism )نے اپنے پنچے پھیلائے تو دوسری جانب سرمایہ داری (Capitalism) نے اپنا منہ کھولا۔آج کی جدید جمہوریت ایک تماشہ بن چکی ہے جس کی تعبیر ہر کوئی اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہذیب کسی اور منزل کی طرف گامزن ہوتی جو فطرت)Nature) کے قریب ہوگی، سائنٹیفک اصولوں پر مبنی ہوگی، دین فطرت ہوگی گویا دوسرے معنی میں وہ اسلام ہوگا۔
تمدن تہذیب کی ایک شاخ ہے۔ یہ لفظ’’مدینہ‘‘سے نکلا ہے۔ جس کے معنی شہر( (City کے اور باہم مل جل کر رہنے کے ہیں۔ تمدن کو شہروں کے حوالے سے پہچاننا ضروری ہے۔ یہ مدنی ثقافت ہے۔ غلطی سے ہم تمدن کی جگہ تہذیب کا لفظ ہڑپا اور موہنجوڈارو وغیرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تمدن ایک عارضی اور مقامی تہذیب کا نام ہے۔ ہر قوم اور علاقے کا تمدن (مدنی ثقافت) اس کے ساتھ ہی نشوونما پاتا ہے۔ اور مٹ جاتا ہے۔ تمدن وحشی بھی ہوسکتا ہے اور مہذب بھی۔ لیکن اس کا ثقافت میں پایا جانا ضروری ہے۔ دور جدید میں ثقافت کا لفظ تہذیب ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ غیر مہذب ثقافت کا دائرہ اب محدود ہوچکا ہے یا ممکن ہے کسی وحشی قوم میں رائج ہو۔
اسلام اپنی ایک مخصوص ثقافت اورتہذیب و تمدن رکھتا ہے۔ چنانچہ جب ہم اسلامی ثقافت کا جائزہ لیں گے تو ان اصولوں کی بات کریں گے جو اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے ہمیں دیئے ہیں اور جنھیں سیکھ کر مسلمانوں نے اپنی زندگی کا رخ متعین کیا ہے۔ اسلام کی تہذیب کے مطالعہ سے وہ ایجادات، تخلیقات اور تحریرات بھی سامنے آئیں گی جو اسلام کی تحریک کے ذریعے سے وجود میں آئیں۔ اور تمدن کی بات ہوگی تو اسلام کے ان اصولوں پر نظر رکھنی ہوگی جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں نے اپنی شہری زندگی کو جاری و ساری کیا۔
اسلام اپنے وجودمیں ایک مکمل ثقافت ہے۔ اس کا واحد معیار تقویٰ ہے جو زندگی کے طرز اور مظاہرے کو پرکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی زبانی اور عملی طور پر توحید کا اقرار ہے اور اسی اقرار پر اسلامی ثقافت کی پوری عمارت استوار ہوتی ہے۔ ہر وہ ثقافتی مظہر جس میں اللہ کی وحدانیت نمایاں ہو اور جس میں تقوٰیٰ کی جھلک واضح نظر آتی ہو وہ اسلامی ثقافت کا مظہر ہے۔اس کے برخلاف مسلمانوں کا ہر وہ طرز عمل جو اسلام کے بنیادی اصولوں کی نفی کرتا ہو وہ غیر اسلامی ہے خواہ مسلمانوں نے اسے کتنا ہی اپنے سینوں سے لگا رکھا ہو۔
فرانسیسی ماہر علم البشریات رابرٹ بریفالٹ نے اپنی تصنیف’’تشکیل انسانیت‘‘ میں اسلامی ثقافت کے بارے میں لکھا ہے :’’یہ صرف سائنس ہی نہیں جس سے یورپ کے اندر زندگی کی لہر دوڑ گئی بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے متعدد اور گو ناگوں اثرات ہیں جس سے یورپ میں پہلے پہل زندگی نے آب و تاب حاصل کی، مغربی تہذیب کا کوئی پہلو نہیں جس سے اسلامی تہذیب و تمدن کے فیصلہ کن اثرات کا پتہ نہ چلے۔لیکن اس سے بڑھ کر روشن ثبوت اس طاقت کے ظہور سے ملتا ہے جو عصر حاضر کی مستقل اور نمایاں ترین قوت اور اس کے غلبہ اور کارفرمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے‘‘۔
درحقیت اسلامی تہذیب ایک تخلیقی اور نظریاتی تہذیب کی حامل ہے۔ یہ انقلابی اور جرات مند ذہن کی پیداوار ہے۔ جو توحید باری تعالیٰ، عظمت انسانی، مساوات اور اتحاد عالم پر مبنی ہے۔ سیاسی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ثقافت دراصل دین اور سیاست کے آمیزے کا نام ہے۔ کیونکہ سیاست سے دین اوردین سے سیاست کو نکال دیا جائے تو پھرچنگیزیت اور فرعونیت اپنا تسلط جمالیتی ہے،پھر ثقافت ادب اور آرٹ سے تعلق رکھنے والی ان سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں جس سے ہمارے خوش حال طبقوں کے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ثقافت ان لوگوں کی پوری زندگی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے جو ایک قوم کی حیثیتوں سے مل جل کر رہتے ہیں اور جن کو معاشرہ میں سرائیت کرجانے والا ایک ایسا ہمہ گیر نقطہ نظر باہم متحد کردیتا ہے جسے لوگ شعوری طور پر اپناتے یا خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں۔
امریکی ادیب اور معروف شاعر ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے ’’کسی قوم کی ثقافت بنیادی طور پر ایک مذہب کی تجسیم ہوتی ہے‘‘۔۔۔۔درحقیقت اسلامی ثقافت کے تمام سرچشمے قرآن و حدیث سے پھوٹتے ہیں۔کتاب و سنت کے مطابق صحیح اسلامی زندگی ہی اسلامی ثقافت کا امتیازی نشان ہے اور اسلامی ثقافت کی روح وہ قومی روایات ہیں جو عہد رسالتﷺ، عہد خلفائے راشدین، عہد صحابہ کرام، عہد تابعین اور تبع تابعین کی یادگارہیں۔ اسلام چونکہ ایک عالمگیر مذہب ہے اور پورا عالم اس کے وطن کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے دوسری قوموں کی ثقافت کی مانند اسلامی ثقافت نہ ملکی آب و ہواسے متاثر ہوتی ہے نہ جغرافیائی حدود کے اندر محدود ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت چودہ سو سال سے ایک منہج پر چلی آرہی ہے۔اس کی بنیاد ناقابل تغیر اسلامی قانون پر رکھی گئی ہے جس کا ہر مسلمان پابند ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی رہتا ہو۔ نیک اور صالح مسلمان اپنے اعمال صالحہ عمدگی معاملات، دیانتداری و خوش خلقی، انسانی ہمدردی اور خدمت خلق جیسے اوصاف حمیدہ سے فوراً پہچانا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہے اور یہی اسلامی ثقافت کا بنیادی مظہر (Basic Phenomenon) ہے۔
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
عصر حاضرمیں امت مسلمہ کعبہ و کلیسا کی کشمکش میں، مشرق ومغرب کے مابین معلق ہو کر رہ گئی ہے۔اس کے فکر وعمل میں معرکہ ایمان و مادیت برپا ہے۔اسلامی معاشرے کی غالب اکثریت تو ابھی تک پرانی روایات اور قدیم نظام اقدار سے وابستہ ہے۔جبکہ معاشرے کا بااپر،صاحب ثروت اور مغربی تہذیب کا دلدادہ طبقہ،بدقسمتی سے جس کے ہاتھوں میں معاشرے کی باگ ڈور بھی ہے،وہ مغربی تہذیب کو ہی معراج کمال سمجھتا ہے۔اور اس فکر ونظر کی کجروی کے باعث اپنے مرکز سے دور ہوتے ہوئے مکمل طور پر ملّی اقدار اور اصل تشخیص کی نفی کرتے ہوئے اپنے سودوزیاں کا احساس بھی کھوبیٹھتا ہے۔پھر ایک بااثر طبقہ ہمارے چند ادیبوں،دانشوروں،عالموں اور تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد کابھی ہے۔جس کی لغت میں اپنی روایات واقدار، بنیادی تصورات،اپنے دین سے بے توجہی اور بے نیازی کانام آفاقیت،وسیع المشربی،رواداری اور روشن خیالی ہے۔یہ طبقات آج بھی مغرب کے ان مستشرقین کے تزویراتی خیالات کو سند کا درجہ دیتے ہیں جو آئے دن ان جدید افکار و نظریات کو قرآن وحدیث کے حوالے سےعین اسلام ثابت کر کے دکھانے کی سعی لاحاصل کرتے رہتے ہیں۔
اس حقیقت سے ہربا شعور شخص خوب اچھی طرح واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی علم کامل ہے۔اور اس کی ان گنت صفات عالیہ میں سے ایک صفت ہے۔وہ علیمٌ بذات الصدور ہے۔یعنی جوہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے ،وہ تو اس کو بھی بخوبی جانتا ہے۔اس کےبرعکس
مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے جو انتہائی محدود ہے۔ارشاد ربانی ہے:
وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ
ترجمہ:اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ جتنا چاہے (سورۃ البقرۃ 255)
پھر انسان کے اس وہبی علم میں کمی پیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔
انسان علم دوذرائع سے حاصل کرتا ہے،ایک علم وحی ہے اور دوسرا علم کسبی(acquired knowledge) انسان کی دلآویز شخصیت کے لیے ان دونوں علوم کے ارتقاء میں ایک توازن قائم رہنا ضروری ہے۔بسا اوقات انسان کاکسبی علم،محدود عقل وفہم کی بنا پر ناقص ثابت ہوتا ہے۔اور پھر یہی نقص انسان کی خود ساختہ توجیہات اور تاویلات سے اس کےلیے فکروعمل کی گمراہی کا باعث بن جاتا ہے۔بقول علامہ یوسف القرضاوی ’’انسان کا ناقص فہم دین اس کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔اس کی بصیرتی اور بے بضاعتی سے مراد وہ کم علم لوگ ہیں جو اپنےناقص علم کے باوجود اس خوش فہمی میںمبتلا رہتے ہیں کہ وہ علماء کے زمرے میں شامل ہو گئے ہیں۔حالانکہ دین کی بہت سی باتوں کووہ جانتے ہی نہیں اور جو کچھ وہ جانتے ہیں وہ یہاں وہاں کی کچھ سطحی اور غیر مربوط باتیں ہوتی ہیں۔ ان کے علم میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی۔وہ نہ جزئیات کو کلّیات سے مربوط کرپاتے ہیں اور تعارض اور ترجیح کے فن سے آگاہ ہوتے ہیں۔اور نہ متشابہات و ظنیّات کو محکمات کی
روشنی میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ‘ ‘
روس کا ادیب اور پروفیسر پیٹر ڈی او سپینکی(Peter D.Ospensky)لکھتا ہے:
’’ جب کوئی کسی تہذیبی اثرات سے زیادہ اثر قبول کر لیتا ہے تو اس کی شخصیت میں ایک مرکز پیدا ہو جاتا ہے۔یہ مرکز ایک مقناطیس (magnet)کی طرح ہوتا ہے، جو بکھرے ہوئے اثرات کو اپنی طرف کھینچ کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔ یہ مرکز جتنازیادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے،شخصیت میں اتنی ہی قوت آتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ بعض لوگوں میں یہ مرکز اتنا قوی ہو جاتا ہے کہ ان کی شخصیت کے تمام اجزا اس کے تابع ہوجاتے ہیں۔اب یہ مرکز مختلف قسم کے اثرات کی وجہ سے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی انسانوں کی دو قسموں کاذکر کیا ہے۔جن میں ایک قسم کے لوگ باطنی طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اندر سے کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔شاہ صاحب رحمہ اللہ پہلی قسم کے لوگوں کو ’’اہل اصلاح‘‘اور دوسری قسم کے افراد کو’’اہل تجاذب‘‘کہتے ہیں۔
آج ایسےہی بہت سے’’اہل تجاذب‘‘ جنہیں جدیدیت کے ماحول میں سیکولر دانشور کہا جاتاہے،سیکولر سے مراد وہ معاشی،معاشرتی وتعلیمی نظام لیتے ہیں،جس کی اساس سائنس پراستوار ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔جبکہ سیکولرازم کی اصل تعریف یہ ہے کہ ’’انسانی زندگی کے اجتماعی امور یعنی سیاست،معیشت اور معاشرت سے اللہ کی دی ہوئی تعلمات کو یکسر خارج کردیا جائے۔انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہ بنیادی غلطی تھی جو دین کے دائرے میں کی گئی،کیونکہ انسانیت کو حیات انسانی کے ان اجتماعی گوشوں میں اللہ کی رہنمائی کی شدیدضرورت تھی اور اس عالم کی بساط لپیٹے جانے تک رہے گی۔ان اہم ترین گوشوں میں اللہ کی عطا کی ہوئی رہنمائی اور ہدایات کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ سرے سے ہے ہی نہیں۔جس کو اختیار کر کے انسان ان معاملات میں افراط وتفریط کےدھکوں سے بچ سکے۔
علم ناقص کے کینوس کوپھیلایا جائے تو ہمارے کچھ دانشور یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہےکہ اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے۔حیرت کی بات ہے کہ ان حضرات کو مطالعہ قرآن حکیم کے دوران یہ نظر نہ آیا کہ اس میں معاشرتی زندگی کے متعلق احکامات دئیے گئے ہیں،سیاسی زندگی کے اصول ومبادی بتائے ہیں،معاشی و اقتصادی تعلیمات واضح طور پر موجود ہیں۔نجی اور خانگی زندگی کے اصول بتائے گئے ہیں،یہ سب کیا ہے؟ان آیات بیّنات کی موجودگی کے باوجود،کیا پھر بھی اسلام ضابطہ حیات نہیں ہے۔پھر یہ کہ قرآن نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں بہترین نمونہ کا تذکرہ کیا ہے۔بفحوائے قرآن حکیم:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے(سورۃالاحزاب 21)
کیارسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ جامع الصّفات ہونے کے ناتے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی نہیں کرتی؟ قرآن حکیم میں اسلام کے لیے مذہب کی بجائے دین کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔اور اصل دین وہی ہوتا ہے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے جامع رہنمائی موجود ہو۔اور ان ہی صفات کا حامل دین تمام عالم کے ادیان پر غالب رہتا ہے۔ارشاد الٰہی ہے:
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے۔(سورۃ التوبۃ،سورۃ الفتح،سورۃ الصف)
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم میں اسلامی ریاست کا کوئی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔حالانکہ اگر سورۃالحج کی آیت 41 کا مطالعہ کریں تو صورت حال واضح ہو جائے گی۔اللہ فرماتا ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ
(اللہ کے دین کی مدد کرنے والے) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوہ ادا کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔ اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اسلامی حکومت کے نصب العین اورحکمرانوں کی اساسی ذمہ داریوں کو صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔اس سے یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کس چیز کا نام ہے۔ پولیٹیکل سائنس کا ایک ابتدائی طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ حکومت کے بغیر ریاست کا تصور ممکن ہی نہیں اور ریاست کے بغیر حکومت بے بنیاد ہے۔ریاست اگر تصور ہے تو حکومت اس عمل کے اظہار کا ذریعہ ہے۔اس طرح حکومت وریاست ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔مولانا مودودی رحمہ اللہ اپنے مضمون ’’اسلام کیا ہے‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام کسی ایسے دین کانام نہیں جسے پہلی مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش کیا ہواور اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بانی اسلام کہنا درست ہو۔قرآن اس امر کی پوری صراحت کرتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نوع انسانی کے لیے ہمیشہ ایک ہی دین بھیجا گیا اور وہ ہے اسلام،یعنی اللہ کے آگے سر جھکا دینا۔اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور چند عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک جامع سسٹم (مکمل ضابطہ حیات) ہےجو دنیا سے زندگی کے تمام ظالمانہ اور مفسدانہ نظاموں کو مٹانا چاہتا ہے۔اور ان کی جگہ ایک اصلاحی پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے۔جس کو وہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے بہتر سمجھتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
’’دنیا کی پوری زمین میرے لیے مسجد بنادی گئی ہے‘‘ چنانچہ دینا کے تمام علاقوں اور حصوں سے اسلام کا گہرا ربط وتعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے نہ غربی بلکہ یہ صحیح معنوں میںایک عالمگیر اورآفاقی نظام زندگی ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے صرف رحمت المسلمین نہیں بلکہ رحمت اللعالمین بنا کر دینا میں بھیجا ہے۔سیکولر ازم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرازم،مذہب سے کسی نوع کے تعلق،اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کاحل پیش کرتاہے۔یہ نظریہ اسلامی فکروفلسفہ کے قطعی برعکس ہے۔اور اس میدان میں اسلام اور سیکولرازم میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے۔ایک نظریہ حیات انسانی کےچند گوشوں کی نمائندگی کرتا ہے،تو دوسرا انسانی زندگی کےتمام گوشوں اور تمام پہلوؤں کی فوزوفلاح کا علمبردار ہے۔