Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

13 قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط

26 Mar,2017

پچیسواں اصول:
وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیَاتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًا(الإسراء:59)
’’ہم نشانیوں کو صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں۔‘‘
معاشروں اور امتوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کے دستور کو سمجھنے میں اِس اصول سے راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو آیات بھیجتا ہے اُن سے مراد کیا ہے‘ اِس کی وضاحت میں علماء تفسیر کی عبارتیں مختلف ہیں :
ایک مفسر کی رائے ہے کہ اس سے مراد وہ موت ہے جوکسی وباء یا مرض کی وجہ سے وبائی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے مفسر کی رائے ہے کہ اس سے مراد رسولوں کے وہ معجزے ہیں جو اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں کو ڈرانے کی خاطر بھیجا کرتا ہے۔ تیسرے مفسر کی رائے ہے کہ اس سے مراد وہ سزائیں ہیں جو گناہوں سے ڈرانے کے لیے آتی ہیں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ چاند یا سورج گرہن کی احادیث پر باب باندھتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ باب اس روایت کے بارے میں ہے جو خبر دے رہی ہے کہ چاند /سورج کا گرہن اللہ کی طرف سے بندوں کو ڈرانے کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًا (الإسراء:59)
’’ہم نشانیوں کو صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا مختلف الفاظ پرمشتمل عبارتوں سے پتا چلتا ہے کہ ِان کو کسی ایک شکل میں محصور کردینا ممکن نہیں ہے۔ اور سلف صالحین رحمہم اللہ نے جو ذکر کیا ہے وہ ان آیات کی مثالیں ہیں‘ اُن کی مراد اِن آیات کو کسی ایک شکل میں محصور کرنے کی نہیں تھی ۔اس قسم کے مواقع پر جب سلف صالحین تعبیر کرتے ہیں تو ان کا یہی طریقہ ہوتا ہے ۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ یہاں پر ہر مؤمن مرد اور مؤمن عورت اس حکمت پر بہت زیادہ غور کرے جس کی خاطر یہ نشانیاں بھیجی جاتی ہیں‘ اور وہ ہے ڈرانا اور متنبہ کرنا‘ تاکہ ہر انسان ہر وقت اس ڈر اور خوف میں مبتلارہے کہ کہیں یہ سزا اُس پر نہ آجائے۔
ا س قرآنی اصول {وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلاَّ تَخْوِیْفًا} ’’ہم نشانیوں کو صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں‘‘۔ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’جس نشانی کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے لوگوں کو ڈراتا ہے ‘شاید کہ وہ عبرت حاصل کر لیں یا نصیحت پکڑ لیںیاگناہوں سے باز آجائیں۔ ہمیں پتا چلا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میںکوفہ میں زلزلہ آگیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں خبردار کر رہا
ہے‘ لہٰذا تم اُسے راضی کر لو ۔‘‘
امام ابن شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مصنف‘‘ میں روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس قدر شدید زلزلہ آیا کہ چارپائیاں آپس میں ٹکرا گئیں ‘ادھر سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نماز پڑھ رہے تھے اور انہیں احساس بھی نہ ہوا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اگر زلزلہ دوبارہ آیا تو میں تمہیں چھوڑ کر یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘‘
اس آیت کریمہ کے معنیٰ کی تفسیر میں سلف صالحین کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ آیاتِ ربانی بھیجنے کا سب سے بڑاسبب لوگوں کو ڈرانا ہوتاہے اور ان گناہوں اور غلطیوں کے انجام سے خوف دلانا ہوتا ہے جووہ کر رہے ہیں‘ تاکہ وہ اپنے اُس رب کی طرف پلٹ آئیں جس نے ان کی طرف یہ نشانیاں اور ڈرانے کی چیزیں بھیجی ہیں۔ اگر پھر بھی وہ نہ پلٹیں تو یہ دل کی سختی کی علامت ہے۔ (اللہ کی پناہ!)
اس آیت ِ کریمہ میں بیان ہونے والا مفہوم قرآنی اصول کی خوب وضاحت کر رہا ہے اور یہ معنیٰ بہت ہی واضح ہےلیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کچھ رسالوں میں لکھنے والے یا بعض ٹی وی چینلزپر گفتگو کرنے والے حضرات قرآنی اصولوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان واضح شرعی مفاہیم کو بے وزن سمجھتے ہیں‘ اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اِن زلزلوں ‘سیلابوں ‘تیز آندھیوں اور اِس قسم کی بڑی بڑی نشانیوں کو محض مادّی اسباب سے جوڑ دیں‘ اور یہ بہت ہی بڑی غلطی ہے۔
ہم اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ زمین میں زلزلہ کے بہت سارے معروف ارضیاتی (Geological) اسباب ہوا کرتے ہیں ‘ سیلاب کے بھی اسباب ہوا کرتے ہیں ‘ طوفانوں کے بھی اسباب ہیں ‘ لیکن ایک سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ کس ذات نے زمین کو حکم دیا کہ اب تو حرکت میں آجا؟ اور کس ذات نے پانی کو اجازت دی کہ تو فلاں علاقے میں عام عادت سے زیادہ برس جا؟ اور کس نے ہواؤں کو حکم دیا کہ تو اس قدر شدید ہو جاؤ ؟ کیا یہ حکم دینے والی ذات اللہ کی نہیں ہے؟ کیا جس ذات نے یہ آیات بھیجی ہیں وہ بندوں سے یہ نہیں چاہتا کہ بندے اپنے رب کے سامنے عاجزی کریں اور گڑگڑائیںاور اس کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کریں تاکہ وہ ذات ان سے ان پریشانیوں کو دور کر دے؟
ان لوگوں کو علم ہے یا نہیں ‘ وہ ارادۃً ایسا کر رہے ہیں یا بے ارادہ ہو رہا ہے‘ یہ لوگ جو اِن آیات کی حقیقت کو معمولی سمجھتے ہیں‘ جو اس قسم کی بے روح مادّی تعبیریں کر رہے ہیں‘ وہ بخاری ومسلم میں بیان ہونے والی روایات کوکیا مقام دیں گے جن میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تیز آندھی چلتی تو نبی اکرم ﷺ فرماتے:
اَللّٰھُمَّ اَسْأَلُكَ خَیْرَھَا وَخَیْرَ مَا فِیْھَا وَخَیْرَ مَا اَرْسَلْتَ بِہِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا فِیْھَا وَشَرِّ مَا اَرْسَلْتَ بِہِ (صحیح مسلم‘ :899)
’’اے اللہ !میں اس کی بھلائی کا سوالی ہوں اور جو خیر اس میں ہے اس کا بھی سوالی ہوں اور اس کے ساتھ جو خیر تو بھیج رہا ہے اس کا بھی سوالی ہوں‘ اور اس کے شر سے میں تیری پناہ میں آتا ہوں‘ اور جو شر اس کے اندر ہے اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ جو شرتو بھیج رہا ہے اس سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘
اور جب آسمان ابر آلود ہو جاتا‘ اس میں بادل ہوتے‘ بجلی کی گرج چمک ہوتی‘ یہ گمان ہوتا کہ بارش ہونے والی ہے‘ تو آپ ﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ بدل جاتا‘ آپﷺ بار بار گھر میں آتے جاتے‘ اِدھر اُدھر گھومتے۔ جب بارش شروع ہو جاتی تو آپﷺ کا چہرہ کھل اُٹھتا۔ آپؐ کے چہرۂ انورپر یہ کیفیت بہت واضح ہوتی‘ تو میں پہچان جاتی۔ سیدہ عائشہرضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں‘ میں نے آپ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا توآپ ﷺنے فرمایا: ’’اے عائشہ ! یہ صورت (عذاب کی) بھی ہو سکتی ہے جیسے قومِ عاد نے کہا تھا:
فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا (الاحقاف:24)
’’پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورتِ بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے یہ ابر ہمارے اوپر برسنے والاہے۔‘‘
قوم ِ نوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے حوالے سے یہ لوگ کیا جواب دیںگے ؟
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِہِمْ اُغْرِقُوا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا (نوح25)
’’یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیے گئے اور جہنم میں پہنچا دیے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مدد گار انہوں نے نہ پایا۔‘‘
بعض لوگوں کی طرف سے اعتراض:
کچھ ملکوں میں اُن ملکوں سے زیادہ گناہ ہوتے ہیں جن میں زلزلہ آیا ‘ اور کچھ ملکوں میں ان ملکوں سے زیادہ فسق وفجور کے کام ہوتے ہیں جن میں طوفان آئے (پھر ایسا کیوں ہے؟) اصلاً تو اس قسم کے اعتراضات کرنا ہی صحیح نہیں ہے ‘کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ‘ اس کے کاموں‘ اُس کے فیصلوں اور اُس کی تقدیر پر اعتراض کرنے والی بات ہے۔ اس لیے کہ ہمارا رب جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے اور جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ بر حق ہوتا ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے بارے میں کسی کو اختیار نہیں کہ وہ پوچھے۔ اس کے ہر کام میں اُس کی عظیم حکمت ہوتی ہے اور اُس کا علم بھی انتہائی کامل ہے ‘اور ان آزمائشوں کے پیچھے حکمتیں اور اسرار ہوتے ہیں۔ ہماری عقلیں تو ان کوسمجھ ہی نہیں سکتیںکجا یہ کہ ان کی حقیقت تک پہنچ سکیں۔
۔۔۔جاری ہے۔۔۔

Read more...

پھونکوں سے یہ چراغ بھجھایا نہ جائے گا

13 Sep,2015

پھونکوں سے یہ چراغ بھجھایا نہ جائے گا

مدرسه

کا لفظ درس سے ماخوذ ہے جسے انگریزی میں SCHOOLکہتے ہیں گویا کہ مدرسہ اس ادارے کو کہتے ہیں جہاں علم کے پیاسے کو علم وہنر کے زیور سے آراستہ کیا جاتاہے ، مدرسہ وہ ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی قرآن وسنت کی روشنی میں دینی تعلیم کے ساتھ ذہنی و جسمانی نشونما ، تخلیقی و تحقیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب و معاشرتی عوامل ومحرکات نظم و نسق سکھائے جاتے ہوں۔

دینی مدارس جو ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں جو متوسط طبقہ کی تعلیمی ضروریات کو پوراکررہے ہیں جوکہ اسلامی اقدار وروایات کو بچانے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی زبان ’’عربی‘‘ کے احیاء اور پاکستان کی قومی زبان اردوکو زندہ رکھے ہوئے ہیںجبکہ صرف عصری تعلیم دینے والے اور خاص طور پر انگلش میڈیم ادارے جن کی تعلیم کا محور ومرکز صرف یورپ اور امریکہ ہے بلکہ انہوں نے پاکستان کی نئی نسل کی دینی اقدار ، روایات اور زبان تک چھین لی ہے کیمبرج اور امریکن سسٹم کے تحت تعلیم دینے والے یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے مسلمان بچوںکو پاکستانیت ، اسلام اور قومی زبان سےدانستہ اور سوچی سمجھی سازش کے تحت محروم کر رہے ہیں ، برصغیر میںا نگریزوں کی آمد سے پہلے تعلیمی خدمات کا فریضہ مسجد ومدرسہ اور مکتب میں اداکیا جاتاتھا مگر انگریزکو یہ طریقہ تعلیم پسند نہ آیا اور اس نے سازشوں کےذریعہ تبدیل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ کا فی حد تک اس نظام کو بدل ڈالا گیا، 19ویں صدی کی آخری دہائیوں میں نیم مذہبی و نیم سرکاری ادارے بنانے کا آغاز کیا گیا 20ویں صدی میں بھی یہ مداخلت جاری رہی دینی مدارس کے نظام کو بار بار ختم کرنے کی بھر پور کوششیں کی گئیں جوکہ آج تک جاری ہیں اور اب 21ویں صدی میں پھر دینی مدارس میں اصلاحات اور تبدیلی کامعاملہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کیونکہ مدارس سے اپنوں سے زیادہ غیروں کو شکایت ہے یہ وہ اغیار کہ جو اسلام ، مسلمان اوردینی مدارس سے ہمیشہ شاکی رہے ہیں اور وہ ان شکایات کا ازالہ بھی اپنے من پسند طریقے سے چاہتےہیں جوکہ ناممکن ہے ۔

علوم اسلامیہ کے ان اداروں کی خشت اول ہی دین الٰہی سے محبت پر رکھی گئی ہے اغیار اس تعلق کو کمزور ، بلکہ ختم کرنا چاہتے ہیں جیساکہ انہوں نے کلیسا کا حال کیا ہے ، کلیسا کا دائرہ کار صرف کلیساکی چاردیورای تک محدود ہے اس کے باہر اس کا کوئی تعلق کوئی اختیار نہیں ، جبکہ مدارس بہر حال جیسے بھی ہیں ابھی بھی معاشرے میں اپنی ایک نمایاں حیثیت رکھتے، لوگ اپنی دینی دنیاوی راہنمائی کے لیے مدارس اور علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں جبکہ مدارس اور علماء کرام فساد فی الارض کےبھی داعی نہیں رہے بلکہ یہ تو امن عالم کے دعویدار ہیں اگر کوئی ایساہوتو جس کے قول وفعل سے منفی کردار کی بو آتی ہوتو یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ اس پر گرفت کی جائے اور اس کی اصلاح کردی جائے ، اہل مدارس کو بھی اس سلسلہ میں حکومت سےتعاون کرنا چاہیے کیونکہ مدارس کامقصود ومطلوب بھی اعتدال پسندی امن و سلامتی کی اشاعت اور نوع انسانی کی اصلاح و تعمیر ہے۔

عصر حاضر میں ایک مرتبہ پھر امت اسلامیہ مغربی تہذیب و تمدن سےمتاثر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اسلامی ممالک کے اکثر و بیشتر سیاسی اور بعض مذہبی قائدین اسلامی ممالک کی آفاقی

تعلیمات کو پس پشت ڈال کر یہود وہنود کی خوشامد کرنے میں مصروف ہیں ایسے میں اھل مدارس ذمہ داران کےلیے ضروری ہےکہ وہ کتاب و سنت کو سمجھنے سمجھانے کو اور عمل کرنے کو آسان بنانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیں ۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ مدارس کی رسمی تعلیم سے اس قدر نالاں نہیں جتنے جدید مغربی تعلیم سے،اس تعلیم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر مادیت پر مبنی ہے اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔ ان کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم دین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہےجونو جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر رہی ہے۔ یہ تعلیم ضرورت سے زیادہ تعقل زدہ تھی اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جسے اقبال نفر ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

چونکہ مغربی تعلیم کی بنیاد ہی مادیت پر ستی ہے وہ عقل پرستی ، تن پروری ، تعیش و آرام کی دلدادگی کا سبق دیتی ہے اس سے مسلمان نوجوانوں کے عقائد متزلزل ہو جاتے ہیں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ان سے ان کا نصب العین چھین لیتی ہے اور انہیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے یہ بے دینی اور الحاد انہیں احساس ِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے اور ان شاہیں

بچوں کو خاکبازی کا سبق دے کر انہیں توحید کے نظریہ سے دور لے جاتی ہے۔

مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب العین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کرانہیں دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے اس طر ح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں                          جس علم کا حاصل ہو جہاں ِ میں دو کفِ جو

مغربی تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گفتا ر اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے۔ اور مغرب کے جھوٹے میعار ، جھوٹے نظریات اور جھوٹی اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیر ہ کر دیتی ہے اس طرح وہ اپنی فطری حریت ، دلیری ، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر ایک احساس ِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مغرب کی بھونڈی تقلید کی کوشش میں وہ مغرب کی خرابیوں کو اپنا لیتے ہیں اور خوبیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔

آخر تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے۔ چنانچہ محض مادی یا محض روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا درست نہیں ، روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اورمسلمان کا فرض ہے کہ تن اور من دونوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی اور روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے اس کے ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کے لئے تیار کرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے اور تعلیم کا آخری اور بڑا مقصد خودی کی تقویت اور استحکام ہے۔

جدید ذہن کےحوالےسےقدیم نصاب کےحامل مدارس اور مکاتب کی اصلاح اور ان کی جدید ترتیب و تعمیر کےسلسلےمیں آئےدن بہت سی باتیں تحریر و تقریر میں نظر آرہی ہیں ۔ ترمیم اور نظر ثانی کی یہ باتیں اس قدر تواتر اور اصرار کےساتھ منظر عام پر آرہی ہیں کہ ہمارےمدارس کےذمہ دار بھی مرعوب ہو کر یا تو دفاعی پوزیشن میں آگئےہیں یا پھر ان کےذہن و فکر نےنظر ثانی اور تبدیلیوں کی بات قبول کرلی ہےجوکہ خوش آئند نہیں ہے۔مدرسوں کےتئیں علامہ اقبال کےچونکا دینےوالےخیالات و احساسات ، ملاحظہ ہوں جو انہوں نےایک مستشیر کی بات سن کر درد بھری آواز میں کیےتھے۔

جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہےتو جانتےہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کےاثرسےمحروم ہو گئےتو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کےباوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کےکھنڈر اور الحمراءاور باب الاخوتین کےسوا اسلام کےپیرواں اور اسلامی     تہذیب کےآثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کےسِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا۔

اس پس منظرمیں علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ارتقاء کا ساتھ دیتے ہوئے خود کو اس مقام تک پہنچائیں کہمسلم معاشرے کی ضروت پوری ہو۔معاشرے کی یہ شکایت دور نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہےکہ عوام علماء سے اسی طرح دور ہوتے جارہے ہیں جیسے لوگ اس دکان پر جانا چھوڑ دیتے ہیں جہاں سے اکثر یہ جواب ملتا ہو "فلاں چیز میرے پاس شاٹ ہے آپ ساتھ والی دکان سے لے لیں" علماء دین کو یہ بات سمجھنی ہوگی فقہی میدان میں آج کل ساتھ والی دکان پر اکثر جو مل رہا ہوتا ہے وہ کیا ہوتا ہے ؟ یہ پاکستان ہے یہاں ملاوٹ اور دونمبری صرف اشیاء صرف میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں سرایت کرچکی ہے۔ یہ آپ کی ناکامی کے سوا کچھ نہیں کہ لوگ تیزی سے ساتھ والی دکان پر جانے لگے ہیں اور جب آپ اخلاص کی بنیاد پر بھی کہتے ہیں کہ بھائی ساتھ والی دکان پر پڑا مال دونمبر ہے تو وہ غصے میں پلٹ کر اس اعلان کو بھی فرقہ واریت کے کھاتے میں ڈالدیتا ہےاور جب دہشت گردی کے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ ان کا ساراملبہ صرف مدارس پہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ اب تو منبر ومحراب بھی اس دستبرد سے محفوظ نہیں راگ و رنگ کی محافل سربازار اور خطبات جمعہ کےلیے لاؤڈ اسپیکر ز پہ پابندی اب اس کی آڑ میں مذہبی منافرت کی بنا پر دشمنیاں نکالی جارہی ہیں منبر ومحراب کے ورثاء ، جیل و کچہری کے چکر لگائیں گے تو پھر دامن دعاتو پھیلے گا دہشت گردی کی اگر کوئی تائید کرتاہے تو یقیناً جرم کا مرتکب ہوتاہے مگر یوں بہانوں سے مذہبی بیزاری کی تنقید مزید فساد کا ہی سبب بنے گی ہاں اضافی بیانات و محافل پہ پابندی نہ صرف مساجد میں بلکہ مساجد سے باہر بھی ایسی محافل اور جلوس جو مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینے پر پابندی ہونی چاہیئے

اچھے اور برے کی تمیز ختم ہوجائے تو معاشرے کا سفر تباہی کی طرف تیز ہو جاتاہے، جہاں حکومت صرف ذاتی مفادات و مصالح کے حصول کا ذریعہ بنی ہوئی ہو اقرباء پر وری عروج پر ہو ، اہنے خاندان کو نوازنے کے لیے اعلی مناصب اور غیر ضروری غیر ملکی دورے ترتیب دیے جائیں تعمیری منصوبوں کا مقصد اصل میں اپنی صنعت کا فراوغ ہوتو صرف دعوے ہی رہ جاتے ہیں وہ چاہے کتنے ہی بلند وبانگ ہوں حاصل کچھ نہیں ہوگا مارچ کا مہینہ پھر قراداد پاکستان کی یاد لیے ہمیں یادکروارہا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نفاذ شریعت ہم بھلا بیٹھے ہیں اور اب تو ایک قدم بڑھ کر اصحاب اقتدار اہل مدارس کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں بس اللہ خیر کرے !!

Read more...

 اسلامی شعائر کے بے شمار فائدے

12 Aug,2018

 

اوراقِ تاریخ اس بات پر شاہدہیں کہ اسلام اور اہل حق کو ہمیشہ مختلف زاویوں سے نشانے پر رکھا جاتا رہا ہے مگر ان تمام مذموم و ناپاک عزائم کو ہمیشہ منہ کی کهانی پڑی ہے!!!

یہ سلسلہ ابھی، چند برس یاصدیاں قبل نہیں بلکہ ولادت  آدم سے جاری و ساری ہے کبھی آدم و ابلیس کبھی ہابیل و قابیل کبھی ابراہیم و نمرود سے لیکر وغیرہ وغیرہ پر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا!!!

قصہ مختصر کہ آج بھی یہ سازشیں ہر روز نت نئے پہلوؤں اور طریقوں سے نمودار ہوکر اسلام پہ حملہ آور ہیں بلکہ یہ بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آج کلمہ گو سادہ مسلمان بھی لاشعوری طور پرمتاثر ہوکر اکثر اوقات سوالات کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ بات اسلام میں کیوں ہے!!!

اسلامی تہذیب و تمدن ہو یا شرعی اصول و قواعد!!! ہر جگہ خودساختہ اعتراضات گھڑ گھڑ کر اسلامی شعار کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے!!!

ان اصول و قواعد میں سے ایک رکن ذبیحہ یعنی عید قربان بھی ہے جس میں تمام مسلمان عیدالاضحیٰ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر یہاں بھی انسانیت کا خودساختہ رونا رو کر سادہ لوح مسلم و غیرمسلم کے اذہان میں شدید قسم کے اعتراضات اٹھائےجا رہے ہیں!!!

حقیقی معنوں میں یہ جو اعتراضات کیئے جاتے ہیں میں بحیثیت ایک کامرس طالبعلم  انہیں اعتراض بھی نہیں گردانتا بلکہ یہ ان جہلا کی جہالت ہی ہے جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے وگرنہ معاشیاتی علم رکھنے والا کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا!!!

آئیے اسلام مخالف (ملحدین) گروہ کے ان اعتراضات کا مختصرا جائزہ لیتے ہیں جس کا ہر ماہ ذی الحج میں رونا رویا جاتا ہے!!!

1قربانی کے نتیجے میں غربت کا رونا رونے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ درحقیقت زیادہ فائدہ کسان اور مویشی صنعت (cattle industry) کو ہی ہوتا ہے اور غریب طبقہ کیلئے پورے سال میں یہی سنہری ایام ہوتے ہیں جن میں وہ اپنی محنت کا پھل اٹھا پاتا ہے۔

جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔

2 پھر یہ پروپیگنڈہ دہرا دیا جاتا ہے کہ یہ رقم مویشیوں کا خون بہانے کے بجائے غریبوں میں بانٹ دی جائے مگر وہ کم عقل اس بات سے ناواقف ہیں کہ غربت مٹانے کیلئے رقم بانٹنا علاج نہیں ہوتا بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اور قربانی سے بڑھ کر بھلا  اس عمل کا بہترین ذریعہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

3 مارکیٹ ریٹ کو دیکھا جائے تو ان بڑے جانوروں کا گوشت اس قیمت میں فی کلو فروخت ہوتا ہے جو مڈل کلاس بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا مگر یہ کتنی عظیم قربانی ہے کہ معاشرے میں غرباء و مساکین بڑے آسانی سے گوشت بالکل مفت میں حاصل کرتا ہے جو پورا سال صرف اس کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔

4 اس کے علاوہ قربانی سے جو کھالیں حاصل ہوتی ہیں وہ بھی مختلف ہسپتالوں کے علاوہ سینکڑوں فلاحی و رفاہی اداروں کے فنڈنگ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جن سے کروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں اور اس کہ ساتھ ساتھ اس سے لیدر پراڈکٹس بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔

5 پھر مویشیوںکی ترسیل کے لیے جو ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی روز روشن کہ طرح عیاں ہے کہ کیسے ان جانوروں کی ترسیل سے کروڑوں روپے گورنمنٹ کو جاتے ہیں جس سے ملک کا پہیہ چلتا ہے اور ٹرانسپورٹ سے منسلک لوگ (ڈرائیور، کنڈیکٹروغیرہ) بھی وہ پیسہ روپیہ کما لیتے ہیں جن سے ان کے گھر کا چولہا چلتا ہے ۔

مختصر یہ کہ عیدالاضحٰی میں قربانی کے چند دنوں کے دوران کھربوں روپے کی خطیر رقم کو حرکت دیکر جس طرح ملکی معیشت کو مثل برکت دیتا کے وہ بالکل خشک کنواں کو پانی سے بھرنے کے مصداق ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ان بے دین افراد کو غریب و مساکین کا خیال ہمیشہ اسلامی تہواروں پر آتا ہے یہ غریبوں کا ہمدرد بنتے ہوئے عید کی خوشیاں نہیں مناتے مگر کرسمس، ہولی، دیوالی ودیکر غیر اسلامی تہواروں پر مبارکباد دیتے نہیں تھکتے!!!

یہ عیدین میں مسلمانوں کی خریداری پر تو انگلی تو اٹھاتے ہیں مگر انہیں وہ لاکھوں کھربوں نظر ہی نہیں آتے جوہر میک اپ و  کاسمیٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) میں فالتو خرچ کیئے جاتے ہیں تاکہ میں تادیر جواں دیکھائی دوں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ تدبر و فکر کی نظر سے اگر معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو اربوں کھربوں کی خطیر رقم کے بے دریغ ضیاع پر کوئی ملحد بھی اعتراض کرنے و اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا جو اپنی نوعیت میں غریب کی احساس محرومی بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی مگر سنت ابراہیمی کی ادائیگی پر ایسے ہمدرد دیکھائی دیتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی ہمدرد پیدا ہی نہیں ہوا ، دراصل یہ تمام چالاکیاں غربت کی ہمدردی نہیں بلکہ فقط اسلامی تعلیمات تہذیب و تمدن کی مخالفت ہے جو انہیں پتہ نہیں کیوں ہضم نہیں ہوتیں!!!

اخيراً اللہ تعاليٰ سے بدست دعا ہوں کہ اللہ رب العزت ان تمام احباب کو ہدایت دے جو شعوری اور لاشعوری کیفیت میں مخالفت حق میں لگے ہوئےہیں۔

آمین یارب العالمین

Read more...

یوم کشمیر اور مسلم نسل کشی کی عالمی سازش

12 Feb,2017

کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔

مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)

 

Read more...

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2017