Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

یوم کشمیر اور مسلم نسل کشی کی عالمی سازش

26 Mar,2017

کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔

مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)

Read more...

عصرِ حاضر کی مظلوم ترین قوم اور امت مسلمہ کی بے حسی

19 Nov,2017
عصرِ حاضر کی مظلوم ترین قوم اور امت مسلمہ کی بے حسی عصرِ حاضر کی مظلوم ترین قوم اور امت مسلمہ کی بے حسی

 

گذشتہ چند ہفتوں سے شاید اس صدی کی مظلوم ترین قوم ایک بار پھر اخبارات، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں آئی ہوئی ہے۔ظلم کی یہ داستان سننے والوں کے لئے شاید نئی ہو مگر تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محکوم و مظلوم قوم مختلف ادوار میں ظلم کی چکی میں پستی رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں راکھین کے روہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات انہیں تو خود کو ملک کا شہری کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ میانمار غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ برمی بودھوئوں کا خیال ہے کہ چونکہ مسلمان یہاں غیر قانونی طور پر ہجرت کرکے آئے اس وجہ سے انہیں خود کو ملک کا شہری کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس لئے بار بار مسلمانوں کے خلاف میدان سجایا جاتا ہے تا کہ مسلمان یہاں سے واپس ہجرت کرکے اپنے ملکوں میں چلے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد یہاں سے ہجرت کرکے بنگلا دیش کے ساحلی علاقوں پر پناہ لینے پر مجبورہوگئی ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے ان لوگوں کو نہ صرف شہریت دی بلکہ انہیں اپنے یہاں آباد بھی کیا۔ بے شمار روہنگیا بنگلا دیش اور انڈیا کے راستے پاکستان میں آکر آباد ہوئے۔ ’’اراکان ہسٹوریکل سوسائٹی‘‘ کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی دو لاکھ سے زائد برمی مسلمان کراچی میں آباد ہیں۔ برما کی تاریخ اُٹھا کر دیکھا جائے تو مسلمانوں پر اس طرح کی قیامتیں ٹوٹنے کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ 1559ء میں مذہبی عقائد کی آڑ میں جانور ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ حتیٰ کہ عید الاضحی کے موقع پر بھی کسی مسلمان کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی جانور پر چھڑی چلا سکے۔ 1752ء میں بھی جانوروں کے ذبح پر پابندی لگا دی گئی۔ 1782ء میں تو بادشاہ ’’بودھاپایہ‘‘ نے پورے علاقے کے مسلمان علماء کرام کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ ظلم و ستم کی یہ داستان بڑھتے بڑھتے 1938 ء تک جا پہنچتی ہے جب برمی بودھ برطانوی فوجوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑنے میں مشغول تھے تو گولیوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتلِ عام 1962ء میں ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر اُن کے خلاف آپریشن شروع کردیا، جو وقفے وقفے سے 1982ء تک جاری رہا اور اس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اندازاً 20 لاکھ کے قریب مسلمان اس دور میں بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کرگئے۔ برما کی فوجی حکومت نے 1982ء کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8 لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی، مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کر دیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔ جس وجہ سے وہاں رکنے والوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوگیا۔ روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک تاریخ 1997ء میں بھی رقم کی گئی جب 16 مارچ 1997ء کو دن دیہاڑے بے لگام بودھ راکھین صوبے کے شہر’’مندالے‘‘ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہوگئے اور مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگے۔ گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرِ آتش کردیا گیا، دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا جس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے شہروں میں پناہ لی۔ اس فساد کی اگلی قسط 15 مئی سے 12 جولائی 2001ء کے دوران اس وقت دیکھی گئی جب بودھوئوں نے ایک مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کر دیا اور اس فساد کے نتیجے میں 11 مساجد شہید، 400 سے زائد گھروں کو نذرِآتش اور کم و بیش 200 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ دنیا میں جب کبھی، کہیں بھی کسی نے اگر اسلام کے نام پر کوئی ظلم کیا تو اس کا شکار بے چارے روہنگیا مسلمان ہوئے۔ حتیٰ کہ جب طالبان کی طرف سے بامیان کے مجسموں کو نشانہ بنایا گیا تو اس وقت بھی روہنگیا مسلمانوں پر حملے کی خبریں سامنے آتی رہیں اور بودھ بھکشوئوں کی جانب سے مسلسل یہ ہی مطالبہ کیا جاتا رہا کہ برمی حکومت کو انتقاماً برما میں موجود تمام مسجدوں کو ڈھا دینا چاہئے۔ 1962ء سے میانمار فوجی حکومت کے زیر اثر تھا۔ 2010ء میں الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں طویل آمریت کا یہ سورج 2011ء میں غروب ہوا اور ملک میں ایک جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دوران روہنگیا مسلمانوں نے بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کا مطالبہ دہرایا لیکن بڑی سختی کے ساتھ یہ آواز دبا دی گئی۔ مسلم کش فسادات کی ایک قسط مئی 2012ء میں بھی نشر ہوئی جب ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جس پر بودھ بہت رنجیدہ ہوئے اور لڑکی کو گھر بدر کردیا، لڑکی نے مسلم آبادی میں پناہ لے لی۔ چند دن بعد اس لڑکی کی لاش ملی جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے الزام لگایا کہ بودھوئوں نے اپنی خفت مٹانے کے لئے اسے قتل کیا ہے جب کہ بودھوئوں نے تین مسلمان نوجوانوں کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ جس نے علاقے کے حالات کافی کشیدہ کر دئیے۔ اس کے بعد 3 جون 2012ء کو بودھ بھکشوئوں نے زائرین کی ایک بس روکی اور اس میں سے عمرہ کی ادائیگی کرکے واپس آنے والے 10 مسلمان علماء کو باہر نکال کرموت کے گھاٹ اتار دیا اور بس جلا دی۔ ساتھ ہی ساتھ بودھوئوں کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی دھاوا بول دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قتلِ عام پر بہت واویلا کیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پہلے پہل تو مقامی حکومت کی جانب سے اسے صاف جھٹلا کر حیلے بہانے کئے جاتے رہے اور متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگادیا اور فوج بھیج کر صحافیوں کو فساد زدہ علاقوں سے نکال دیا گیا۔ مگر اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’چینل فور‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح مسلمان، کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں قریباً 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ادارۂ برائے پناہ گزین نے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار ’نوی پلے‘ نے انتظامیہ کے سلوک و رویے کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ دی کہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کیلئے بھیجے جانے والی فوج بھی بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔ پھرجولائی 2012ء میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلادیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں اکثر نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کومیانمار کی فوج نے قتل کیا۔ اکتوبر 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس طرح کے دفاتر ’’لوگوں کی خواہشات‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے بے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش بھی کئے اور اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن ساری کوششیں بے سود رہیں۔ دوسری جانب میانمار کی عالمی شہرت یافتہ رہنما ’’آنگ سان سوچی‘‘ نے مسلمانوں کو ’’صبر‘‘ کی تلقین کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’’رہنما کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لئے کھڑے نہیں ہو جانا چاہئے‘‘، انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے اس پر سوچی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں اس قسم کے ردعمل پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ پھر 2012ء میں عین عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی جس کے نتیجہ میں عید کے روز ہونے والے فساد میں 50 مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ویسے بھی جہاں انسانوں کا گلا کاٹا جا رہا ہو وہاں سنتِ ابراہیمی کی یاد میں جانور نہ کاٹنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور فرق پڑتا ہی کسے ہے،تمام عالم ہی چپ چاپ تماشا دیکھنے میں مصروف ہے۔ میانمار کی حکومت اور اس کا موقف کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میانمار کے صدر نے تو جولائی 2012ء میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ’’اس سارے مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ یا تو مسلمانوں کو ملک بدر کیا جائے یا پھر انہیں مہاجر کیمپوں میں منتقل کیا جائے‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے حکومت سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بارہا مطالبہ کیا ہے مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ ان عالمی اداروں کی کاوشوں سے فسادات کی تحقیقات کیلئے 2012ء میں مسلمانوں، بودھ، عالمی اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا مگر عین وقت پر میانمار کی حکومت نے اقوامِ متحدہ کی قیادت میں کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ پھر ان فسادات میں ایک ٹھہراو سا آگیا لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ ٹھہراو ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھا کیونکہ اس کے بعد فسادات کی لہر راکھین سے نکل کر ملک کے سب سے بڑے شہر رنگون تک پہنچ گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگا رہا جبکہ مسلم ممالک اور انسانی حقوق کے دعوایدار ’’روز روز کی اس چک چک اور بک بک‘‘ سے تنگ آ چکے تھے۔ اسی دوران 2013ء میں مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے میانمار کے دو صوبوں میں ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی جبکہ ان کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ بودھوئوں سے تو کسی کو کوئی گلہ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ درست انداز میں گوتم بودھ کے فلسفے پر عمل کر رہے ہیں کہ آپ کا فلسفہ تھا کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔ بس ذرا سا سمجھنے کا فرق ہے کہ میانمار کے بودھ بھکشوئوں نے یہ سمجھ لیا کہ جس نے کسی انسان کو قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی جانور کو قتل کیا۔ البتہ مسئلہ توروہنگیا مسلمانوں کا تھا کہ وہ کہاں جاتے، کس کو دکھڑے سناتے۔ شرع یہ کہتی ہے کہ جب تم پر زمین تنگ کردی جائے تو ہجرت کر جاؤ، روہنگیا ئی ہجرت کرکے بنگلادیش پہنچے جہاں پر ان کا گولیوں کے ساتھ استقبال کیا گیا، کئی مرگئے، کچھ زخمی ہوئے مگر مجال کہ کسی نے دنیا کے اس سوتیلے بچے کو جسے اس کا ملک بھی تسلیم نہیں کرتا، اپنانے میں حامی بھری ہو۔ انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ، سنگا پور، سری لنکا، کون سا ایسا ملک تھا جہاں انہوں نے رحم طلب نگاہوں سے پناہ کی اپیل نہ کی ہو۔ وہ بھارت گئے مگر وہاں بھی ردعمل مختلف نہ تھا۔ یہ تو فطرتِ انسانی ہے کہ وہ مہمان کو بھی چند دن سے زیادہ قبول نہیں کرتی۔ اسی لئے بنگلا دیشی حکومت نے اپنا اصل رخ دکھلایا اور جو پناہ گزین بنگلادیش میں محصور تھے انہیں فوری طور پر بنگلادیش سے نکل جانے کو کہا۔ یہ ساڑھے تین ہزار افراد خدا کے
سہارے کشتیوں میں بیٹھ کر نکل پڑے کہ شاید کوئی ان پر مہربان ہوجائے مگر یہ تو دنیا کے لئے ایک پنگ پانگ بال کی حیثیت رکھتے تھے، بنگلا دیش نے بال کو ہٹ کیا تو یہ سری لنکا پہنچا، وہاں سے ہٹ ہوئے تو تھائی لینڈ، وہاں سے ملائیشیا، وہاں سے انڈونیشیا، وہاں سے سنگاپور۔ دنیا کو کیا فکر کہ یہ انسانوں کی بات ہو رہی ہے، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں، سب کو اپنا بارڈر محفوظ اور پناہ گزین سے پاک چاہئے تھا۔ 2013ء میں پھر برما میں روہینگا مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے گئے۔افسوس کہ سدھا رتھ گو تم بدھ نے عالم گیر انسانی محبت کا ہمیشہ درس دیا اورحشرات الارض اور دیگر جانداروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ،آج اسی گو تم بدھ کہ یہ نام نہاد پیرو کار برمی مسلمانون پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جس کی باز گشت صدیوں گونجتی رہے گی ۔اسلام کے نزدیک ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے جس میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے زندگی کا راز مضرہے اور جو عقل والے ہیں وہ خوب اس حکمت سے واقف ہیں ۔
دوسری جانب جہاں دیگر اقوامِ عالم اس مظلوم ترین قوم سے اظہارِ یکجہتی کرتے نظر آتی ہے، وہاں کچھ اسلامی ممالک کے حکمران بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
عالم اسلام کا اہم ملک ترکی کی جانب سے برما کے مسلمانوں پر بدترین مظالم کے خلاف عالم اسلام کو متوجہ کرنا اور ان کی مدد کے لئے عملی طور پر آگے آنا خوش آئند امر ہے۔ یہ صرف ترکی کی نہیں پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ برما کے مظلوم اور بربریت کاشکار مسلمانوں کو پناہ دینے کے لئے اقدامات کریں۔ترکی کی نیوز ویب سائٹ ٹی آر ٹی ورلڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اوغلو نے صوبہ انطالیہ میں عید الاضحی کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ میانمار کی ریاست راکھائن میں پرتشدد فسادات سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کے لیے بنگلہ دیشی حکومت اپنے دروازے کھولے اور اخراجات کی فکر نہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ روہنگیا مہاجرین پر جتنے بھی پیسے خرچ ہوں گے وہ ترکی برداشت کرے گا۔ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے اسلامی تعاون تنظیم کو بھی متحرک کیا ہے اور اس معاملے پر رواں برس ایک سمٹ کا انعقاد کیا جائے گا، ہمیں اس معاملے کا کوئی فیصلہ کن حل نکالنا ہے۔ دریں اثناء پاکستان کی جانب سے بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور جبرا ًنقل مکانی کی رپورٹس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے میانمار کے حکام سے مسلمانوں کے حقوق کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس قسم کے اب تک گنتی کے مسلم حکمران ہیں جنہوں نے اس مظلوم ترین قوم کی داد رسی کیلئے کچھ اقدامات کا اعلان کیا ہے۔گو کہ یہ لائقِ تحسین امر ہےمگر زخم ان مرہموں سے کہیں گہرا ہے اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر امداداور ان کی فریاد رسی کی ضرورت ہے۔
دیگر امت مسلمہ محض احتجاج، سوشل میڈیا پر ڈی پی لگاکر اور کچھ گلی چوراہوں میں برمی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے کچھ کلمات ادا کرکے اپنا فرض پورا سمجھ بیٹھے ہیں۔
شاید علامہ اقبال کسی اور امت کے متعلق کہہ گئے تھے
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہوجائے

Read more...

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی انتہا

19 Nov,2017

برما (میانمار) کے مغربی صوبہ رخائن کاتاریخی نام اراکان ہےتھا جہاں عمر بن عبد العزیز کے دور میں اسلام کی کرنیں جلوہ گر ہوئیں یہاںایک آزاد مسلم ریاست بھی قائم ہوئی جس کا اپنا سکہ تھا اس پر کلمہ طیبہ کندہ تھا اراکان کا صوبہ جغرافیائی و تاریخی لحاظ سے برما سے جدا علاقہ فطری طور پر بنگلہ دیش سے متصل ہے 1778ءمیں برما نے اس پر قبضہ کرلیابعدازاں1824ءسے لے کر 1947ءتک برطانیہ کےزیرتسلط رہا۔اراکان کا قدیم نام روہنگیا تھا اسی لیے یہاں کے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں۔تقسیم ہند کے دوران اراکان کے مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں مشرقی پاکستان میں شامل کیا جائے لیکن فتنوں کی ماں برطانوی حکومت نے پنجاب کی طرح اراکان کے علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرایاایک حصہ چٹاگانگ کو بنگال کا حصہ بنادیا اور دوسرے حصےراخائن کو برما کے تسلط میں دے دیا ۔ اراکان
راخائن میں تیل گیس سمیت قیمتی خزائن موجود ہیں برمی حکومت کے ذہن پر خوف سوار ہے کہ کہیں کشمیر کی طرح راخائن میں آزادی کی لہر نمودار ہو جائے تو برمی حکومت ان قیمتی خزائن سے محروم نہ ہوجائے اس لیے برما کی بدھ مت حکومت روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کرتی آرہی ہے ۔عالم اسلام کے کے مسلمان عیدا لاضحی1438ھ کے موقع پرقربانی کے جانور ذبح کر رہے تھے جبکہ میانمار کے بدھ پرست روہنگیا کے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے سوشل میڈیا پر انسان کے جسموں کے تکے دور دور تک پھیلے نظر آتےلاشوں کی بے حرمتی میں غزوہ احد کی تاریخ دہرائی گئ بلکہ ایک قدم بڑھ کرانہوں نے لاشوں کو آگ لگادی خود تماشا دیکھتے رہے اور سیٹیاں بجاتے رہےایک اور تصویر میں مسلما ن کے جسم میں درجن بھر چھرے پیوست کیے کہیں مسلمانوں کی گردن کو ڈرل کر رہے ہیں دوسرے مقام پر مسلم کی لاش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر سڑک پر گھسیٹا جارہاہے برمی بدھوں نے مسلمانوں کی بستیوںکو آگ لگادی چار لاکھ سے زائد مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ،تاحال سلسلہ جاری ہے ترکی کے کہنے پر بنگلہ دیش نے مخصوص علاقہ میں پناہ دی ہے جبکہ بھارت سرحد پر پہرہ لگادیا کہم کوئی دراندازی نہ کرسکے اسرائیل نے فلسطین سے مسلمانوں کو بےدخل کیاوہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہو گئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کوآباد کیابوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی یہی تاریخ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں سے دوہرائی جارہی ہے جن کامقصد وہی ہے کہ مسلمانوں کو بے دخل کر کے وہاں بدھوں کو آباد کیا جائے۔
یہود ،ہنود،مجوس اورنصاریٰ مسلمانوں کا بے دریغ خون بہارہے تھے البتہ بدھ مت غیر جانبدار پالیسی پر گامزن تھے ۔پاکستان وچند دیگر ممالک نے امریکہ کے دوغلے پن سے مجبور ہو کرچین کی طرف جھکاؤکیا تو طاغوتی قوتوں کی سازش تنازعہ کھڑا کردیا تاکہ بدھ پرستوں اورمسلمانوں میں نفرت کی خلیج حائل ہو جائےاس وقت کرہ ارض کے تمام مذاہب مسلمانوں کے خلاف سر گرم عمل ہیں۔ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے ہے کہ کہیں مسلمانوں کا آپس میں اتحادنہیں وہ مذہبی نسل ،لسانی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ داخلی اختلاف کو پس پشت ڈال کر برما کے مسلمانوں کا ساتھ دیں اور دنیا بھر کے روہنگیا مسلمانوں کو واپس لاکر اراکان میں آباد کریں اور مشرقی ۔۔۔۔ کی طرح اراکان کو خود مختار کی حیثیت دلوائیں لیکن اس حسرت کو کون پایۂ تکمیل تک پہنچائے کرہ ارض پر تقریبا ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان آباد ہیں وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے دعا تو کرسکتےہیں لیکن دوانہیں کرسکتے کیونکہ وہ پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر دوسرے ملک میں جانہیں سکتے ۔دنیا میں 57اسلامی ممالک ہیں وہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کی وجہ سے عدم مدافعت کی پالیسی پر گامزن ہیں اسلیے وہ مظلوموں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ سے اپیل کرسکتے ہیں براہ راست عملی کاروائی نہیں کرسکتے جبکہ او آئی سی(O.I.C)بھی اقوام متحدہ کے تابع ادارہ ہے.

اقوم متحدہ اپنے طورپر مالی تعاون تو کرسکتی ہے اس کی امن فوج اس وقت تک حرکت نہیں کرسکتی جب تک پانچ ویٹوپاور ممالک منظوری نہ دیں افسوس کن امر ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل نے اپیل کی ہےکہ اگر اقوام عالم نے مالی تعاون نہ کیا تو روہنگیا کےمہاجر بھوک اور بیماری سے مر جائیں گے اور یہ تاریخ کا المناک سانحہ ہوگا۔
مسلم دنیا کے کسی ملک میںخدانخواستہ عیسائی دہشت گردی کا نشانہ بن جائے یا تو ہین رسالت کے مقدمہ میں صرف گرفتار ہوجائے تو امریکہ و یورپ کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک ایک کے بدلےمیں سینکڑوں کو موت کے گھاٹ نہ اتار دے اور توہین رسالت ﷺ کے مرتکب کو آزاد نہ کرالے۔ اگر مسلم دنیا کا کوئی ملک حقیقی معنوں میں آزاد ہوتا تو وہ محمد بن قاسم کی طرح کسی جرنیل کو بھیج کرروہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انتقام لیتا فلسطین ،افغانستان ا ورعراق میں کسی کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی شام میں بشار کے خلاف جمہوری جدوجہد کرنے والوں پر کسی کوکیمیائیبمباری کرنےکی ہمت نہ ہوتی کشمیر کے سات لاکھ بھارتی فوج کو بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی سکت نہ ہوتی ۔
مسلم دنیا خلافت کے سائبان سے نکل کر چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکے ہے اگر کوئی ریاست معاشی طور پر خود کفیل ہے تو دفاعی طور پر کمزور ہے ،اگر دفاعی طور پرمضبوط ہے تو وہ معاشی طور پر عالمی ساہوکاروںکی غلام ہیں۔امت مسلمہ کے عالمی مسائل کے حل کے لیےخود مختارمسلم ریاست کا قیام ضروری ہے جواللہ تعالی کے ضابطوں کی توپابند ہو لیکن طاغوت کے خود ساختہ ضابطوں کی گرفت سے آزادہو اللہ تعالی کی نصرت سے یہ شرف افغانستان اور شام کی دھرتی کو حاصل ہوگا۔(ان شاءاللہ)

Read more...

یوم کشمیر اور مسلم نسل کشی کی عالمی سازش

12 Feb,2017

کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔

مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)

 

Read more...
  • Prev
  • 1
  • 2
  • Next
  • End

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2017