وحوش وطیور کو سدھارنا ، ان کو وقت اور کام کا پابند کرنا اتنا دشوار اور مشکل کام نہیں ہے جتنا کہ کسی انسان کو اس کے نظریات وعقائدسے دستبردا رکروانا ہے ، کیونکہ جب کوئی شخص اپنے عقائد پر پختگی سے کا ربند ہو تا ہے تو اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے پر آمادہ اور راضی نہیں ہو تا۔ لیکن اس کائنات رنگ وبو اور جہان آب وگل میں اللہ رب العزت نے کچھ ایسی ہستیاں بھی پیدا کی ہیں کہ جن کے نظریات سے متاثر ہو کرمتعصب ترین انسان بھی اپنے نظریات سے پہلو تہی کرتا ہوا نظرآتا ہے انہی برگزیدہ ہستیوں میں سے سب سے نمایاں ہستی تاجدار مدینہ ، ختم المرتبت ، نبی الفت ومحبت جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہستی بھی ہے انہوں نے اس وقت کہ جب عرب کے باسی تہذیب وثقافت سے نابلد ، اخوت ومحبت سے ناواقف ، خالص عبادت وریاضت سے کوسوں دور ، عقیدہ وحدت الٰہ سے یکسر محروم تھے ، فاران کی چوٹیوں سے دعوت توحید دی ، اس دعوت پر لبیک کہنے والے خوش بخت انسان ، انسانیت کے ماتھے کا جھومر بنے لیکن اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا اظہار کرنے والے بدبخت لوگ قعر مذلت میں ڈوب گئے ۔
کیا کبھی ہم نے غوروفکر کیا ہے کہ پیغام محمدی صلی اللہ علیہ و سلم پر لبیک کہنے والوں پر آج بھی تاریخ رشک کر رہی ہے اور ہم اسی پیغام کو پس پشت ڈال کر اشک بہا رہے ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکا ہے کہ ہم نے ختم الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کے عطا کیے ہوئے سنہری اصول حیات کو بروئے کار لانے کیلئے کیا کیا ہے ؟ کیا ہم نے من حیث القوم دعوت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی زندگی میں جگہ دی ہے ؟ یقینا ہم سے کہیں بھول ہوئی ہے بلا شبہ ہم بھی دعوت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا مختلف حیلوں سے انکار کرتے ہیں ، کیا رسول ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں وحدت الٰہ کا درس نہیں دیا ، مگر ہم ہر دور میں مختلف چیزوں کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کر تے ر ہے ، سیرت نے تو ہمیں ’’اَلا اِنَّ القُوَّۃَالرَّمَی‘‘ (قوت وطاقت تیر اندازی میں ہے )کا درس دیا لیکن ہم نے خواب خرگوش سے بیدار ہونا گوارا نہ کیا ، سیر ت طیبہ نے تو ہمیں ’’اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کَافَّۃ ‘ ‘(اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ)کی تلقین کی مگر ہم نے ’’یُؤمِنُون بِبَعضِ الکِتَابِ وَیَکفُرُونَ بِبَعض‘‘ (شریعت کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض احکام کا انکار کرتے ہیں )کو ہی اپنا وطیرہ بنا لیا ، سیرت تو ہمیں ’’اِعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جَمِیعًا‘ (تم سب اکٹھے ہو کراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو) کی وصیت کرتی ہے مگر ہم ہیں کہ معمولی اختلاف پر ڈیڑ ھ اینٹ کی مسجد کو استوار کرنے کے لیے تیار ہیں ، پیغام محمدی صلی اللہ علیہ و سلم تو ’’اَلحَیَائُ مِنَ الاِیمَان‘ ‘(حیاء ایمان کا حصہ ہے )ہے مگرہم نے زبان حال سے ’’اِذَا لَم تَستَحیِ فاَصنَع ما شِئتَ ‘‘(جب حیاء رخصت ہو جائے تو جو جی میں آئے کرو) کو اپنا مطمع نظر بنا لیا ہے ، پیکر اخلاص صلی اللہ علیہ و سلم تو ہمیں ’’لا فَضلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍ ‘‘(کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے )کی کسوٹی فراہم کرے مگر ہم ہیں کہ دوستی اور دشمنی کیلئے لسانی ، علاقائی ، جماعتی اور قومی وابستگی کو مد نظر رکھتے ہیں ، محسن انسانیت تو ’’یَضَعُ عَنہُم اِصرَھُم وَالاغلَالَ الَّتِی کَانَت عَلَیھِم ‘‘(رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ان بندشوں کو ختم کرتے ہیں جو لوگوں نے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں اور اس بوجھ سے نجات دلاتے ہیں جو ان پر لاد دیا گیا ہے )خودساختہ رسوم ورواج سے آزاد کروانے آئے مگر ہم ہیں کہ دوبارہ سے انہی جاہلیت کے رسم ورواج کو اپنی گردنوں کا طوق بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ’’مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم ‘‘ (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے ) کی وعید سنائیں اور ہم ہیں کہ اغیار کی نقالی کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’یَا فَاطِمَۃَ بِنتَ مُحَمَّدٍ : اِعمَلِی فَاِنِّی لَا اَغنِی عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا‘‘(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی : اعمال میں سبقت لے جاؤ میں قیامت کے دن تمہیں بچا نہیں سکتا ) کہہ کر طبقاتی کشمکش کا استحصال کیا مگر اسی پیغمبر کے ماننے والے اپنے عزیزواقارب کو بڑ ے بڑ ے مناصب سے نوازتے ہیں ۔ احترام انسانیت کی بنیادیں استوار کیں اور فرمایا:’’ کُلُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہ وَعِرضُہ‘‘ (ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، مال اور عزت وآبروحرام ہے )لیکن ہم ہیں کہ خون مسلم کے پیاسے ، مال غیر کو ہڑ پ کرنے کے رسیا اور عزت وآبرو کو سربازار تار تار کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔
سیرت طیبہ نے ہمیں اعتماد علی النفس اور خود داری کی اعلیٰ صفات کو اجاگر کرنے کا درس دیا تاکہ ایک طرف ہر ہر فرد بذات خود قوت کی چٹان بن جائے تو دوسری طرف پوری امت و ملت قوت وطاقت کا ایسا ہمالہ بن جائے جو حوادث کے ہجوم اور جنگجوؤں کی شعلہ باری کے موقع پر غیروں کے در پر کاسہ گدائی کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات سے نکلنے والی ہو ۔
منتظم اعظم صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہمیں دنیا پر اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے نظام حکمرانی عطا کیا مگر ہم نے مغربی جمہوریت کو ہی بہترین نظام سمجھا اور اختیار کیا رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم تو ہمیں غریب پروری ، انسانی ہمدردی ، غم خواری کا درس دیں مگر نسبت محمدی پر فخر کرنے والے متمول افراد ہی غریبوں کو نان شبینہ سے محروم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔والی اللہ المشتکی۔
نام محمد اور پیغام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہماری بے وفائی کا خمیازہ ہے کہ آج اغیار رحمت کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے توہین آمیز خاکے شائع کر رہے ہیں ایسے لمحے قوموں میں بیداری کا باعث بنتے ہیں ، بقول شاعر: ’’ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے ‘‘ضرورت اس بات کی ہے کہہ ہم ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اصلاح اعمال کیلئے کمر بستہ ہو جائیں ، اغیار اور دشمنوں کا یہ انداز ہمیں مجموعی طورپر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اہل اسلام میں بے حسی حد سے بڑ ھ گئی ہے ورنہ خبیث مزاج انسانوں کو اس کی جرأت نہ ہوتی ، آئیے اپنے دلوں میں داعی اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت وسیرت کے ساتھ وہ محبت وجذبہ پیدا کریں کہ ان کے بارے میں کسی کو بکواس کی جرأت پیدا نہ ہو ، یاد رہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ایمان کا جزو لا ینفک ہے لیکن یہ محبت اسی وقت باعث نجات ہو گی جب احکام محمدی پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے گا ۔اس موقع پر ہمیں مثبت کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً:
٭اقتصادایک مؤثر اور سریع الاثر ہتھیار ہے ، معاشی بائیکاٹ خاکوں والوں کو خا ک میں ملا سکتا ہے ، مجرم ممالک سے سفارتی تعلقات کو ختم کرنا ہی محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا عملی مظاہر ہ ہے ۔
٭عرب ممالک کے پاس تیل کی صورت میں اللہ کا خزانہ ہے عرب ممالک تیل کے ذریعے عالمی منڈی سے یہودوہنود کو بھگا سکتے ہیں ۔
٭ اقوام متحدہ سے جان چھڑ انا ہو گی کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی نگران اور اس کے جرائم کو سند جوا ز فراہم کرنے والا ادارہ بن چکا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ صرف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی ’’متحد ‘‘ ہے اور اقوام سے مراد درحقیقت اقوام کفا رہے نہ کہ جملہ اقوام ۔
٭علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقہ اورعوام الناس کو ناموس رسالت کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کریں ۔ محض جذباتی نعرے اور دوچار ہزار افراد کا جلوس نکالنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔الغرض حالات کو سدھارنے اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کیلئے سیرت مدثر و مبشر صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ اوراس سے اخذ کردہ مسائل پر کما حقہ عمل پیرا کرنا ہو گا ۔ بقول امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ: (لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا )
ترجمہ: ’’ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے جس کے ساتھ پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی ‘‘ یہی صاحب اسوہ حسنہ کا پیغام لازوال ہے اس کی پیروی میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی ہے ۔
برصغیر پاک وہند میں جماعت اہلحدیث کے جو علمائے ذی وقار اپنے علمی تبحر، ذوق مطالعہ، وسعت معلومات، درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور وعظ وتبلیغ کے ذریعہ اور علوم اسلامیہ(تفسیر،حدیث،فقہ خاص کر علم حدیث نبوی ﷺ اور اس کے متعلقہ علوم اسماء الرجال، جرح وتعدیل،اصول حدیث اور فقہ الحدیث میں دسترس رکھتے تھے اور ان علوم میں صاحب امتیاز ہونے کی وجہ سے ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور ہوئے۔ اُن کا مختصر تذکرہ مع اُن کی تصانیف متعلقہ حدیث نبویﷺ پیش خدمت ہے۔ (عبد الرشید عراقی)
مُحَدِّث
علمائے اسلام محدث کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ
’’ جو عالم دین علوم اسلامیہ یعنی تفسیر، حدیث ، فقہ، اصول فقہ اور حدیث نبوی ﷺ کے متعلقہ تمام علوم یعنی اسماء الرجال، لغت، جرح وتعدیل اور فقہ الحدیث پر کامل عبور رکھتا ہو اُس کو محدث کہا جاتاہے۔
برصغیر(پاک وہند) کے جو علمائے کرام ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور ہوئے۔ان کے اسمائے گرامی مع سن وفات حسب ذیل ہیں۔
1۔مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی 1320ھ
2۔ علامہ حسین بن محسن انصاری محدث الیمانی 1327ھ
3۔ مولانا محمد سعید محدث بنارسی 1322ھ
4۔ مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی 1339ھ
5۔ حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی 1334ھ
6۔ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری 1337ھ
7۔ مولانا عبد الوہاب محدث صدری دہلوی 1351ھ
8۔ مولانا محمد عبد الرحمان محدث مبارکپوری 1353ھ
9۔ مولانا عبد التواث محدث ملتانی 1366ھ
10۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (گوجرانوالہ) 1387ھ
11۔ مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی 1381ھ
12۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی 1384ھ
13۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی 1408ھ
14۔ حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلوی 1405ھ
15۔ مولانا محمدعلی جانباز محدث سیالکوٹی 1429ھ
16۔ مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی1363ھ
1۔مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ (1220۔1320ھ/1805۔1902ء)
شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ امام حدیث تھے۔ حدیث کی مہارت ان پر ختم تھی۔ آپ مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے 1258ء میں مکہ مکرمہ ہجرت کرنے کے بعد دہلی کی سند تحدیث پر فائز ہوئے اور 62 سال تک حدیث نبوی ﷺ کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م1996ء) لکھتے ہیں کہ
’’شاہ اسمعیل شہید کی اس مسابقت الی الجہاد وفوزبہ شہادت کے بعد دہلی میں مولانا شاہ محمد اسحاق کا فیضان جاری ہوگیا تھا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید محمد نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔ (ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص:20۔21)
جس عالم دین نے 62 سال تک قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کی ہوں اس کے تلامذہ کا شمار ممکن نہیں ۔
وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت،کتاب وسنت کی ترقی وترویج ، شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ اور ادیان باطلہ اور کتاب وسنت کے مخالف افکار ونظریات کی تردید کے لیے جو ذرائع استعمال کئے۔ وہ درج ذیل ہیں :
1۔ درس وتدریس
2۔ دعوت وتبلیغ
3۔ تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4۔ تصنیف وتالیف
5۔ باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید ۔
6۔ تحریک جہاد
تلامذہ :
تبرکاً حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کے چند معروف ومشہور تلامذہ کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :
حافظ ابراہیم آروی (م1319ھ)
حافظ عبد المنان وزیر آبادی (م1334ھ)
حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ)
عارف باللہ سید اللہ غزنوی ( م 1298)
حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی (م 1311ھ)
مولانا شمس الحق عظیم آبادی ( م 1329ھ)
مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی (م 1348ھ)
مولانا عبد الحمید سوہدروی ( م 1330ھ)
مولانامحمد عبدالرحمان مبارک پوری ( م 1353ھ)
مولانا عبد السلام مبارک پوری ( م 1342ھ)
مولانا عبد الحق حقانی ( م1335ھ)
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م 1367ھ)
مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی ( م 1341ھ)
مولانا سید عبد الجبار غزنوی ( م 1331ھ)
مولانا عبد الوہاب صدری دہلوی ( م 1351ھ)
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ( م 1375ھ) رحمہم اللہ اجمعین ۔(الحیاۃ بعد المماۃ )
تصنیف :
حضرت میاں صاحب کی ساری زندگی درس وتدریس میں بسر ہوئی ۔
اس لئے تصنیف وتالیف کے لیے فراغت نہیں ملی لیکن ان کی ایک بہت مفید کتاب ہے جس کا موضوع تردید تقلید ہے ۔
دوسری تصنیف ’’فتاوی نذیریہ‘‘ ہے جو دو جلدوں میں دہلی سے شائع ہوا۔
بعد میں اہلحدیث اکیڈمی لاہور نے تین جلدوں میں شائع کیا یہ فتاوی حضرت میاں صاحب کے دو تلامذہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی(م 1329ھ) اور مولانا عبد الرحمان مبارکپوری (م 1352ھ) نے حضرت میاں صاحب کی وفات کے بعد شائع کیا۔
حل صحیح بخاری یعنی نسخہ عتیقۃ صحیحۃ مع حل مشکلات وحواشی وجمیع نسخ من خزانۃ الکتب العلامۃ شمس العلماء مولانا السید نذیر حسین المحدیث الدہلوی ( م 1320ھ)
حضرت میاں صاحب صحیح بخاری کا درس جس نسخہ کو اپنے سامنے رکھ کر ارشاد فرمایا کرتے تھے اس کے بارے میں آپ کے تلمیذ رشید مولانا عبد السلام مبارک پوری ( م 1342ھ) فرماتے ہیں کہ
’’ یہ نسخہ بہت عتیق نہایت واضح خوش خط ہے ، مع جمیع نسخ وحل مشکلات وحواشی ورق کلاں پر تیس(30) ضخیم جلدوں میں ختم ہوا ہے اس نسخہ کی صورت اس کی قدامت کی دلیل روشن ہے یہ وہ نسخہ ہے جو بڑے بڑے اساتذہ اور شیوخ کے درس وتدریس میں رہا اور ہر زمانہ میں بڑے بڑے افاضل نے اس پر حواشی نکات چڑھائے مختلف اوقات میں حواشی چڑھانے کی وجہ سے حاشیہ لکھنے کا کوئی نظم نہیں رہا جس نے جس طرف جگہ پائی ۔ لکھ دیا
حضرت شیخ الکل کے خاص ہاتھ کے حواشی لکھے ہوئے بھی اس پر موجود ہیں اس طرح مدت کے بعد یہ نسخہ اس کمال کو پہنچا حضرت شیخ الکل اس نسخہ کی بڑی حفاظت فرماتے او ر اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے الحمد للہ کہ اس نسخہ کے دیدار سے ہماری آنکھیں بہی منور ہوئیں اور اس کی جلدیں اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں اور تیسوں جلدیں الگ الگ ہیں محشی میں ذیل کے علامات لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ (سیرت البخارین صدی ایڈیشن (مطبوعہ 2009) ص : 285)
پروفیسر عبد الجبار شاکر ( م 2009ء) لکھتے ہیں کہ |
شیخ الکل کا ذاتی کتب خانہ ’’ہمدرد لائبریری دہلی‘‘ میں ہزاروں کتب اور مخطوطات میں موجود ہے مجھے 2005ء میں ان کی زیارت نصیب ہوئی کاش کوئی ان کے حواشی مدون کرے۔ (ایضاً)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10رجب1320ھ/13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی اور شیوی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (تراجم علمائے اہلحدیث ہند ص 1501)
2۔علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ
برصغیر پاک وہند میں علوم اسلامیہ کی تدریس میں علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی ( م 1327ھ) کا اسم گرامی سنہری حروف میں لکھا گیا ہے آپ جلیل القدر محدث، محقق اور حافظ حدیث تھے۔ برصغیر کے ممتاز علمائے حدیث نے آپ سے حدیث میں استفادہ کیا ہے اور ان کی شاگردی کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھا ہے اور ان کے علمی تبحر،ذوق مطالعہ، قوت حافظہ اور وسعت ِ معلومات کا اعتراف کیا ہے ۔
مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
میں نے علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی کو علم اور عمل کا جامع پایا، شیخ قوی وجوہ، عظیم الشان اور بلند مرتبے کے حامل ایسے سمندر تھے جس کا کوئی ساحل نہ ہو آپ محدث، محقق اور کتاب اللہ کے معانی کی وضاحت کرنے والے ، اصول حدیث ،علل حدیث ، رجال حدیث کے عالم ، علم اصول حدیث اور لغت کے ماہرتھے۔ سنن ابی داؤد اور دیگر کتب حدیث پر ان کی مختلف تعلیقات ہیں اور بہت سے مفید رسائل علم حدیث کے مباحث پر ہیں۔ ( غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ص 71’’مقدمہ‘‘)
علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات کے بارے میں مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م1999ء) رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ شیخ حسین بن محسن کا وجود اور ان کا درس حدیث ایک نعمت خداوندی تھا جس سے ہندوستان اس وقت بلاد مغرب ویمن کا ہمسر بنا ہوا تھا اور اس نے جلیل اقدر شیوخ حدیث کی یادتازہ کر دی تھی جو اپنے خداداد اور حافظہ،علو سند اور کتب حدیث ورجال پر عبور کامل کی بنا پر خود ایک زندہ کتاب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ شیخ حسین بیک واسطہ علامہ محمد بن علی شوکانی صاحب نیل الاوطار کے شاگرد تھے اور ان کی سند بہت عالی اور قلیل اوسائط سمجھی جاتی تھی۔ یمن کے جلیل القدر اساتذہ حدیث کے تلمذ وصحبت ، غیر معمولی حافظہ ، جو اہل عرب کی خصوصیت چلی آرہی تھی سالہا سال تک درس حدیث کے مشغلے طویل مزاولت اور ان یمنی خصوصیات کی بنا پر جن کی ایمان وحکمت کی شہادت احادیث صحیحہ میں موجود ہے حدیث کا فن گویا ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر گیا تھا اور اس کے دفتر ان کے سینے میں سماگئے۔ (بقول میر ... استاد حدیث مولانا حیدر حسن ٹونکی رحمہ اللہ شیخ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنو ۔ جو شیخ کے شاگرد تھے فتح الباری( جس کی 13 ضخیم جلدیں اور ایک مقدمہ علیحدہ جلد ہے) شیخ صاحب کو تقریباً حفظ تھی) وہ ہندوستان آئے تو علماء وفضلاء نے( جن میں بہت سے صاحب درس وصاحب تصنیف بھی تھے)پروانہ وارد ہجوم کیا اور فن حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سند لی تلامذہ میں نواب صدیق حسن خان، مولانا محمد بشیر سہیوانی، مولانا شمس الحق ڈیانوی، مولانا عبد اللہ غازی پژری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ، مولانا سلامت اللہ جیراج پوری نواب وقار نواز جنگ مولوی وحید الزماں، علامہ محمد طیب مکی، شیخ اسحاق بن عبد الرحمان نجدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔(حیات عبد الحی ص 79۔80)
علاوہ ازیں ان علمائے کرام کے اور بھی بہت سے علمائے حدیث نے علامہ حسین بن محسن سے کتب حدیث پڑھیں اور سند واجازت حاصل کی، مثلاً :
’’ سعید شریف حسین بن شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہولی ، مولانا عبد الحمید سوہدروی(والد محترم مولانا عبد المجید خادم سوہدروی) حافظ عبد الوہاب نابینا دہلوی، مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی، مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی، مولانا سید عبد الباقی سہیوانی، مولانا عبد السلام مبارک پوری، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری، مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی، رحمہم اللہ اجمعین ۔
( تراجم علمائے حدیث ہند)
تصانیف :
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنیرحمہ اللہ (م1341ھ) لکھتے ہیں کہ
’’ تالیف سے مناسبت نہ تھی ورنہ حدیث اور متعلقات حدیث پر بہتر لکھ سکتے تھے تاہم حدیث پر لکھا خوب لکھا۔
1۔ تعلیقات علی سنن ابی داؤد(عربی)
2۔ تعلیقات علی سنن نسائی ( عربی)
3۔البیان المکمل فی تحقیق الشاذ والمعلل ( عربی)
(اس کتاب میں شاذ اور معلل کی تعریف میں جو علمائے معللین کے اختلافات ہیں اُن کی نقل کرکے لکھ دیاگیا ہے نیز ایسی احادیث کے حجت وعدم حجت ہونے پر بحث ہے۔
4۔ التحفۃ المرضیۃ فی حل بعض المشکلات المرضیۃ( عربی)
(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص:68۔69)
3۔مولانا محمد سعید محدث بنارسی رحمہ اللہ
مولانا سعید بنارسی رحمہ اللہ کا شمار اُن علمائے حدیث میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوؤں کے شہر بنارس میں دین اسلام کی نشر واشاعت،توحید وسنت کی ترقی وترویج، شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مولانا محمد سعید کا تعلق ایک غیر مسلم گھرانے سے تھا۔ مولانا شیخ عبید اللہ نو مسلم صاحب(م 1310ھ) تحفۃ الہند کی تحریک پر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پہلے دار العلوم دیوبند میں مختلف اساتذہ سے علوم عالیہ وآلیہ میں استفادہ کیا بعد ازاں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی(م1320ھ) اور مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری(م 1337ھ) سے تفسیر،حدیث،فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں پڑھیںجب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجازتشریف لے گئے تومکہ مکرمہ میں شیخ عباس بن عبد الرحمان تلمیذ قاضی شوکانی سے سند واجازت حاصل کی۔
حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس ہندوستان تشریف لائے اور مولانا حافظ ابراہیم آروی (م1319ھ) کے مدرسہ احمدیہ آرہ(مدراس) میں تدریس پر مامور ہوئے کچھ عرصہ مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریسی خدمات دینے کے بعد اپنے استاد محترم مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری( م 1337ھ) کی تحریک پر بنارس کو اپنا مسکن بنایا اور بنارس تشریف لانے کے بعد ایک دینی درسگاہ بنام’’مدرسہ سعیدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی اور ساتھ کتب توحید وحدیث نبوی ﷺ کی تائید، نصرت، حفاظت، مدافعت کے لیے ایک پریس بنام ’’سعید المطابع‘‘ قائم کیا اور توحید وسنت کی حمایت میں لاکھوں ورق شائع کئے۔
مولانا محمد سعید محدث بنارسی فن مناظرہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے آپ نے کئی ایک مناظرے اہل بدع اور اہل تشیع سے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر مناظرہ میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئے۔ مولانا محمد سعید صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ ان کی کتابوں کی تعداد (38) ہے جو مختلف موضوعات سے متعلق ہیں۔ مولانا محمد سعید صاحبِ علم وفضل تھے۔ بنارس شہر میں اپنے علمی تبحر، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کی وجہ سے ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور تھے۔
مولانا محمد سعید محدث بنارسی نے 18 رمضان 1322ھ/ 37 نومبر 1904ء کو بنارس میں انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ( تراجم علمائے حدیث ہند ص 353۔354 ، نزھۃ الخواطر جلد 8)
4۔مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی(م 1341ھ) فرماتے ہیں کہ
وكان حليماً متواضعاً، كريماً عفيفاً، صاحب صلاح وطريقة ظاهرة، محباً لأهل العلم(نزھۃ الخواطر 8/180)
’’وہ بہت بڑے حلیم،متواضع،شریف پاک دامن، نیک اور عمدہ طریقہ کے مالک اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے۔
حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں جن علمائے ذی وقار نے حدیث نبویﷺ کی اشاعت،حفاظت،نصرت اور مدافعت میں نمایاں خدمات انجام دیں ان میں مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ سرفہرست تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی(م 1373ھ) نے مولانا عظیم آبادی کی خدمت حدیث کا اعتراف کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’(درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی)کے نامور مولانا شمس الحق مرحوم صاحب عون المعبود ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کا مقصد قرار دیا اور اس میں وہ کامیاب ہوئے۔ ( مقدمہ تراجم علمائے حدیث ہند ، ص 37)
حدیث نبوی ﷺ سے مولانا عظیم آبادی کو بہت زیادہ شغف تھا حدیث کی کئی کتابیں اپنے خرچ پر طبع کرکے علمائے کرام میں مفت تقسیم کیں مثلاً امام عبد العظیم منذری(م656ھ) کی مختصر السنن ، حافظ ابن القیم الجوزی کی تہذیب السنن ، حافظ جلال الدین سیوطی ( م911ھ) اسعاف المبطأ برجال الموطأ وغیرہ
حدیث نبوی ﷺ کی حفاظت،نصرت اور مدافعت میں مولانا عظیم آبادی رحمہ اللہ کی جو نمایاں خدمات ہیں وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک سفیر کا باب ہے اس سلسلہ میں آپ نے جو خدمات انجام دیں اس کی مختصر تفصیل یہ ہے:
1۔ مولانا شبلی نعمانی( م 1914ء) نے حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے سوانح حیات بنام’’سیرۃ النعمان‘‘ لکھی اور اس کو شائع کیا اس کتاب میں مولانا شبلی مرحوم نے حدیث نبویﷺ پر بے جا قسم کی تنقید کی مولانا شمس الحق مرحوم نے سیرت النعمان کا جواب نامور اہلحدیث عالم اور مجاہد مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ) تلمیذ حضرت شیخ الکل میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حسن البیان کے نام سے لکھوایا۔
2۔ پٹنہ کے ایک غالی مولوی ڈاکٹر عمر کریم نے امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسمعیل بخاری ( م 256ھ) کی عدیم المثال اور بے نظیر تصنیف الجامع الصحیح البخاری اور امام صاحب پر بے جا قسم کے اعتراضات پر مشتمل ایک کتاب ’’الجرح علی البخاری‘‘ تین جلدوں میں شائع کی اور اس کے ساتھ کئی ایک اشتہارات بھی شائع کیے جن میں حدیث نبوی کے خلاف امام صاحب کی ذات پر ناروا قسم کے اعتراضات کئے۔
مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی مدافعت میں مولاناعبد السلام مبارک پوری (م1342ھ) سے ’’سیرت البخاری‘‘ لکھوائی یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔
پہلی جلد میں امام صاحب کی مکمل سوانح عمری ہے یعنی دلادت سے زمانہ طفولیت،طالب علمی کے استاد، بعد فراغت تعلیم درس وتدریس ،اخلاق وعادات وغیرہ اور وفات تک کے حالات مذکور ہیں دوسرے حصہ میں عملی زندگی کے کارنامے،اسلامی خدمات ،فقایت واجتہادات وفنون حدیثیہ وتاریخ وغیرہ پر مفصل بحث ہے ان کے علاوہ آپ کی تصانیف کا تذکرہ اور الجامع الصحیح البخاری کی شروح کا تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔
3۔ ڈاکٹر عمر کریم نے جو اشتہار امام بخاری اور صحیح بخاری پر کئے اُن کے جوابات اپنے شاگرد خاص مولانا ابو القاسم سیف بنارسی(م 1369ھ)سے لکھوائے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ حل مشکلات بخاری مسمی بہ ’’الکوثر الجاری فی جواب الجرح علی البخاری(3جلد)
2۔ الامر المبرم لابطال الکلام المحکم
3۔ ماء حمیم للمولوی عمر کریم
4۔صراط مستقیم لہدایۃ عمر کریم
5۔الریح العقیم بحسم بناء عمر کریم
6۔ العرجون القدیم فی افشاء عمر کریم
(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ،ص:368۔369)
درس وتدریس :
مولانا شمس الحق ڈیانوی نے ہندوستان میں جلیل القدر علمائے کرام اور اساطین فن سے استفادہ کیا ان میں چند ایک معروف اساتذہ یہ ہیں۔
مولانا فضل اللہ لکھنوی ( م 1311ھ) مولانا بشیر الدین قنوجی ( م 1296ھ) شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ) علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی ( م 1327ھ)
رجب 1311ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین کا سفر کیا حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وہاں کے اہل کمال اور اساطین فن سے تفسیر،حدیث، فقہ وغیرہ علوم میں استفادہ کیا اور اُ ن سے سند واجازت حاصل کی۔
حج سے واپس آکر اپنے وطن میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا آپ سے بے شمار علمائے کرام نے اکتساب فیض کیا مشہور ومعروف تلامذہ یہ ہیں :
مولانا عبد الحمید سوہدروی(م1330ھ) مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی(م1381ھ) مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی(م 1363ھ) مولانا ابو القاسم سیف بنارسی( م 1369ھ) حکیم مولانا محمد ادریس ڈیانوی(م 1962ء)(صاحبزادہ)
(مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی(حیات وخدمات) ص : 56)
کتب خا نہ :
مولانا عظیم آبادی کا کتب خانہ نایاب ونادر کتابوں پر مشتمل تھا اور برصغیر پاک وہند میں ایک مثالی کتب خانہ تھا۔ اپریل 1906ء میں مولانا شبلی نعمانی نے بنارس کے ٹاؤن ہال میں ندوۃ العلماء کے زیر اہتمام نایاب ونادر کتابوں کی نمائش لگوائی۔ اس نمائش میں بیشتر کتابیں مولانا عظیم آبادی نے اپنے کتب خانہ سے بھیجوائی تھیں لیکن یہ کتب خانہ دو حادثوں میں ضائع ہوگیا۔
پہلا حادثہ 1946ء میں آیا جب بہاد میں مسلم کش فسادات ہوئے تو مولانا عظیم آبادی کے صاحبزداہ حکیم مولوی محمد ادریس ڈیانوی نے مسلمانوں کے لیے وہ مکان کھول دیاجس میں کتب خانہ تھا تو اُن مسلمانوں نے جنہوں نے مکان میں پناہ لی انہوں نے بے شمار کتابیں کھانا پکانے کے لیے چولہوں کی نذر کر دیں جب مولوی حکیم محمد ادریس صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے بقیہ کتابوں میں بے شمار کتابیں خدا بخش لائبریری پٹنہ کو دے دیں اور کچھ کتابیں اپنے پاس رکھ لیں قیام پاکستان کے بعد حکیم محمد ادریس صاحب نقل مکانی کرے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) لے گئے اور حکیم صاحب کی یہ کتابیں 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریک میں ضائع ہوگئیں۔
فضل وکمال :
مولانا شمس الحق عظیم آبادی علم وفضل کے اعتبار سے جامع العلوم تھے تمام علوم اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ حدیث اور اسماء الرجال میں دسترس حاصل تھی فقہی مذاہب اور ائمہ کرام کے اختلافات ودلائل پر مکمل عبور رکھتے تھے۔مطالعہ کا عمدہ ذوق تھا تحقیق وتدقیق میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی ذہانت اور قوت فہم سے نوازا تھا۔
تصانیف :
مولانا شمس الحق رحمہ اللہ ایک کامیاب مصنف تھے آپ نے تقریباً ہر موضوع پر قلم اُٹھایا آپ نے عربی، فارسی اور اُردو میں (33) کتابیں لکھیں۔
عربی : 19
فارسی : 7
اُردو : 7
کل : 33
حدیث نبوی ﷺ پر آپ کی (9) تصانیف ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ( عربی)
یہ کتاب سنن ابی داؤد تالیف امام ابو داؤد سجستانی (م275ھ) کی مبسوط شرح ہے اور 32 مجلدات میں اس کی تکمیل ہونی تھی لیکن شارح کی عمر نے وفا نہ کی اس کی پہلی جلد 1305ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی جو باب ترک الوضوء مما مست النار تک کی شرح ہے۔ (صفحات : 194)
2۔ عون المعبود شر ح سنن ابی داؤد ( عربی)
اس شرح میں اسناد ومتن سے متعلق اشکالات کے حل وایضاح کی طرف پوری توجہ کی گئی ہے اور الفاظ کی مختصر وضاحت کرتے ہوئے جابجا ترکیب کر دی گئی ہے ( مطبع انصاری دہلی 1318تا 1322) (4مجلدات صفحات مجموعی 1341)
3۔سنن میں ضعیف، صحیح ،منکر،موضوع ہر قسم کی روایتیں ہیں شارح نے روایت کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے الفاظ کی مختصر وضاحت اور تشریح کردی ہے۔ (مطبع انصاری دہلی 1310ھ) (2 مجلد مجموعی صفحات : 554)
4۔تعلیقات علی اسعاف المبطأ برجال الموطأ (عربی)
اس کتاب میں مولانا عظیم آبادی نے تعلیقات کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی (م911ھ) کی لغزشوں کی نشاندہی کی ہے ۔(اسعاف علامہ سیوطی کی تالیف ہے ) (مطبع انصاری دہلی 1320ھ (صفحات : 50)
5۔ تعلیقات علی سنن نسائی (عربی)
یہ کتاب طبع نہ ہوسکی مولانا عظیم آبادی کی وفات کے بعد اس کا مسودہ گم ہوگیا اس کتاب کا ذکر مولانا عبد السلام مبارک پوری نے اپنی کتاب سیرۃ البخاری (صفحہ 437 طبع دوم 1367 مطبع کریمی الہ آباد میں کیا ہے ۔
6۔ رفع الالباس عن بعض الناس ( عربی)
’’بعض الناس فی دفع الوسواس‘‘ یہ کتاب احناف کی طرف سے شائع ہوئی (مصنف کا نام کتاب پر درج نہیں ہے) جس میں امام بخاری کے وقال بعض الناس کا جواب دیا تھا یہ کتاب اسی کے جواب میں ہے ۔ ( مطبع شمسیہ ملتان 1358ھ صفحات :32)
7۔ غنیۃ الامعی(عربی)
یہ کتاب حدیث اور علوم حدیث سے متعلق چند سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے ۔ (مطبع انصاری دہلی 1311ھ صفحات : 15)
8۔ فضل الباری شرح ثلاثیات البخاری(عربی)
اس کتاب میں ثلاثیات بخاری (جن کی تعداد23ہیں) اُ ن کی شرح کی گئی ہے مولانا عبد السلام مبارک پوری (م 1342ھ) نے اپنی کتاب’’سیرۃ البخاری‘‘ میں کیا ہے۔
9۔ ہدایۃ اللوذعی بنکات الترمذی(عربی)
یہ کتاب چند فصلوں پر مشتمل ہے اس میں امام ترمذی(م 279ھ) اور جامع ترمذی پر بحث کرتے ہوئے امام ترمذی کے اساتذہ اور شراح اور محشین کے حالات بیان کئے گئے ہیں ( صفحات 12 بڑی تقطیع فی صفحہ 21 سطر) (جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات صفحہ : 50تا 52)
وفات :
مولانا شمس الحق رحمہ اللہ نے 19 ربیع الاول 1329ھ بمطابق 21 مارچ 1911ء 56 سال کی عمر میں بعارضہ طاعون ڈیانواں میں وفات پائی بقول اُن کے تلمیذ رشید مولانا ابو القاسم بنارسی جس وقت دینا کا آفتاب طلوع ہورہا تھا عین اسی وقت دین اسلام کا آفتاب(شمس الحق) غروب ہورہا تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ایرانی انقلاب کے بعد ان کے حامیون نے عالم اسلام میں سعودی حکومت کے خلاف یوم انہدام بقیع منانا شروع کردیا باعث تعجب ہے کہ احتجاج وہ لوگ کرتے ہیںجو خود مفسدہیں اور ان کا اپنا انتہائی بھیانک منصوبہ ہے ۔
ایرانی مجتہد علامہ محمد باقر مجلسی نے بحار الانوار میں تحریر کیا کہ ان کا آنے والاقائد آکر اپنا عمل کہاں سے شروع کرے گا:’’بشیر نبال نے ابو عبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے، قال ھل تدری اول مایبدء بہ القائم علیہ السلام؟
قلت: لا
قال:یخرج ھٰذین رطبین غضین فیحرقہما ویدریہما فی الریح ویکسر المسجد، ثم قال، ان رسول اللہ ﷺ قال، عریش کعریش موسیٰ علیہ السلام وذکران مقدم مسجد رسول اللہ کان طیناً وجانبہ جرید النخل‘‘(روایت200)
’’کہا کیا تم جانتے ہوکہ القائم سب سے پہلے کیا کرے گا، میں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا ان دونوں (ابو بکر و عمر) کوتروتازہ نکالے گا ، پس ان کو جلائےگا اور پھر انہیں ہوا میں بکھیر دے گا ، پھر کہا کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اس کو جھونپڑا موسی علیہ السلام کے جھونپڑے کا سا ہوگااور مسجد کا اگلا حصہ مٹی کا تھا اور ایک طرف کھجور کے تنوں کی تھی‘‘
چہار دیواری سے متعلق اسحاق بن عمار نےسیدنا ابو عبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہےکہ ۔
قال: اذاقدم القائم علیہ السلام وثب ان یکسر الحائط الذی علی القبرفیبعث اللہ ریحاً شدۃً وصواعق ورعوداً حتی یقول الناس: انما ذالذا فیتفرق اصحابہ عنہ حتی لایبقی معہ احد فیاخذ المعول بیدہ فیکون اول من یضرب بالمعول ثم یرجع الیہ اصحابہ اذارأوہ یضری المعول بیدہ، فیکون ذلک الیوم فضل بعضہم علی بعض ویصلبہما ثم ینزلہما ویحرقہماثم یذیہما فی الریح(روایت:201)
(بحار الانوارجلد 12 باب 27 روایات200اور201 )
’’کہا جب القائم آئے گا تو(روضے کی) دیوار کو توڑدے گاپش اللہ شدید ترین ہوا چلائےگاجس میں کڑک ہوگی یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ یہ اس (دیوار توڑنے کی وجہ سے ہوا ہے)پس اس کے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے یہاں تک کہ کوئی بھی اس کے ساتھ نہ رہے گا ، پس وہ کھدال اپنے ہاتھ میں اٹھائے گا اور سب سے پہلا مارنے والا وہ ہوگاپھر اس کے ساتھ لوٹ آئیںگے اس کی طرف جب وہ اسے دیکھیں گے کہ اس کے ہاتھ میں کھدال ہے اور وہ توڑ رہا ہے ، وہ دہ ایسا ہوگا جب لوگ ایک دوسرے پر فضیلت لے جائیں گے، اور وہ ان دونوں (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی لاشوں) کو پھانسی دے گا اور پھر اتار کر جلا دے گا پھر(اس کی راکھ) ہوا میں بکھیر دے گا‘‘
ایرانیوں اور ان کے حامیوں کا اپنے خبث باطن کو چھپانے کے لیے یوم انہدام منانامنافقانہ فعل ہے اور سعودی حکومت کو بدنام کرنا عربوں سے دیرینہ کینہ و عداوت کا بین ثبوت ہے دراصل افسوس ان صاحبان پر ہے جو ایک طرف گنبد خضری سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ریاض الجنہ میں محو استراحت ہستیوں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں لیکن عداوت ان سے رکھتے ہیںجو گنبد خضری کی خدمت پر معمور ہیں، مگر عملی طور پر ساتھ ان کا دیتے ہیںجو ریاض الجنہ اور اس میں مدفون شیخین کے بارے میں مذموم ارادہ رکھتے ہیںان کی خدمت میں یہ آئینہ ہے۔
الٰہی روضہ اطہر میں مدفون کائنات کے امام رحمت للعالمین ﷺ اور سیدنا ابو بکر الصدیق ، اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھنے والوں کے دلوں میں الفت ومحبت کا رشتہ پیوست کردے۔
حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی تحدیث:
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی (1966ء) لکھتے ہیں :
’’شاہ اسماعیل شہید کے اس مسابقت الی الجہاد وفوز بہ شہادت کے بعد ہی دہلی میں الصدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کا فیضان جاری ہوگیا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی ہی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔
میاں صاحب کا یہ درس 60 برس تک قائم رہا ابتداء میں آپ تمام علوم پڑھاتے رہے مگر آخری زمانہ میں صرف حدیث وتفسیر پر کاربند رہے ۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص:19۔20)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ محمد اسحاق کے تلامذہ میں تنہا مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) نے دہلی میں سالہا سال حدیث کا درس دیا اور آپ کے درس سے متعدد جلیل القدر ناشرین وشارحین حدیث پیدا ہوئے جن میں مولانا عبد المنان وزیرآبادی( جن کی کثیرتعدادِ تلامذہ پنجاب میں مصروف درس وافادہ تھے) عارف باللہ سید عبد اللہ غزنوی امرتسری اور ان کے فرزند جلیل مولانا سید عبد الجبار غزنوی امرتسری (والد مولانا سید داؤد غزنوی) مولانا شمس الحق ڈیانوی مصنف غایۃ المقصود ، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا غلام رسول قلعوی ، مولانا محمد بشیر سہوانی، مولانا امیر احمد سہوانی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ، ابو محمد مولانا ابراہیم آروی مصنف طریق النجاۃ، مولانا سید امیر علی ملیح آبادی، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور (علمائے عرب میں سے) شیخ عبد اللہ بن ادریس الحسنی السنوسی، شیخ محمد بن ناصر النجدی، شیخ سعد بن احمد بن عتیق النجدی کے نام اس درس کی وسعت وافادیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔(سید ابو الحسن علی ندوی،تاریخ دعوت وعزیمت، 5/359۔360 مطبوعہ کراچی)
مولانا محمد عزیر سلفی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ
’’میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) نے شاہ محمد اسحاق (م 1262ھ) کی ہجرت 1258ھ کے بعد مسند درس سنبھال رکھا تھا اور مکمل 62 سال تک کتاب وسنت کی تدریس وتعلیم میں یک سوئی کے ساتھ مشغول رہے اسی عرصے میں بلامبالغہ ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے اور ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئے بیرون ہند سے بھی لوگ جوق درجوق آتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلا اختلاف مسلک ومشرب بعد کی کوئی بھی شخصیت ہندوستان میں ایسی نظر نہیں آتی جو ان کے سلسلہ تلمذ میں منسلک نہ ہو ہندوستان کیا پورے عالم اسلام میں اس صدی کے اندر کثرت تلامذہ میں میاں صاحب کی نظیر نہیں ہے میاں صاحب کے تلامذہ نے ہندوستان میں پھیل کر خدمت
اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا اور پوری زندگی
اشاعت کتاب وسنت میں گزاردی ۔ (محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 مطبوعہ کراچی 1984ء)
ذرائع :
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں جو ذرائع اختیار کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1 درس وتدریس
2دعوت وتبلیغ
3تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4 تصنیف وتالیف
5باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید
6 تحریک جہاد(محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 ۔22مطبوعہ کراچی 1984ء)
شمائل وخصائل :
حضرت میاں صاحب عادات واخلاق کے اعتبار سے بہت اعلی وارفع تھے خوش اخلاق ، خوش اطوار، خوش گفتار اور خوش کردار تھے ۔قناعت پسند اور درویش مشن عالم دین تھے بے حد متحمل مزاج اور حلیم الطبع تھے ان کی تمام زندگی مجاہدہ نفس سے تعبیر تھی ان کے قلب میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت راسخ ہوچکی تھی ان کی زندگی کے لیل ونہار حسنات سے عبارت اور اعمال خیر کے حسین ترین قالب میں ڈھلے ہوئے تھے طہارت وپاکیزگی ان کا شیوہ اور عبادت الٰہی ان کا معمول تھا زہد وورع کے پیکر تھے صبر وتحمل ان کا جزءحیات اور اعتدال ان کا رفیق سفر تھا ۔ (ماخذ از: دبستان حدیث ، محمد اسحاق بھٹی)
ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات :
شیخ الکل حضرت میاں صاحب علوم عالیہ وآلیہ کے بحرزخّار تھے اور تمام علوم پر ان کی وسیع نظر تھی مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’شیخ الکل میاں صاحب تمام علوم متداولہ میں عمیق نگاہ رکھتے تھے قرآن وحدیث،فقہ وکلام،صرف ونحو، اصول حدیث ، اصول فقہ ، ادب وانشاء، معانی وبیان، منطق وفلسفہ، حساب وریاضی غرض جو علوم اس زمانے میں مروج ومتداول تھے میاں صاحب کو ان سب میں عبور حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حفظ واتقان کی بے پناہ دولت سے نوازا تھا ۔ فقہ حنیفہ تو یوں سمجھیے کہ انہیں پوری ازبر تھی اور اس کی تمام جزئیات ان کے خزانہ ذہن میں محفوظ تھیں فتاوی عالمگیری کئی ضخیم جلدوں پر محیط ہے اور اسے فقہ حنیفہ کے تمام مسائل کے دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل ہے میاں صاحب اس کے تمام گوشوں سے باخبر تھے اس کا انہوں نے شروع سے آخر تک تین مرتبہ دقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:41 مطبوعہ لاہور 2008ء )
میاں صاحب میں اطاعت رسول ﷺ کا جذبہ صادقہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ تھا حدیث نبوی ﷺ کے مقابلہ قول امام کی ان کے نزدیک کوئی وقعت اور حیثیت نہ تھی جب کوئی حدیث بیان فرماتے اور اس حدیث کے برعکس کوئی شخص کسی امام فقہ کا قول پیش کرتا تو برہمہ ہوکر فرماتے ۔ سنو
یہ بزرگ جن کا تم نے قول پیش کیا ہے ہم سے بڑے ، میرے باپ سے بڑے، میرے دادا سے بڑےلیکن رسول اللہ ﷺ سے ہرگز بڑے نہیں ہیں۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:72 مطبوعہ لاہور 2008ء )
1857ء کی جنگ آزادی :
برصغیر (متحدہ ہندوستان پاکستان،بھارت ، بنگلہ دیش) میں 1857ء میں جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو علمائے اہلحدیث نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا خاص طور پر علمائے صادق پور نے جو قربانیاں پیش کیں برصغیر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مولانا یحییٰ علی صادق پور( م 1284ھ) مولانا عبد الرحیم صادق پوری (م 1341ھ) مولانا حمد اللہ صادق پوری(م1298ھ) مولانا ولایت علی عظیم آبادی (م 1269ھ) اور مولانا عنایت علی عظیم آبادی (م 1374ھ) کی خدمات آب زریں سے لکھنے کے قابل ہیں ان علمائے کرام میں سے کئی ایک نے جام شہادت نوش کیا کئی ایک کو تختہ دار پر لٹکایا گیا کئی ایک کو جزائر انڈیان میں جلاوطن کیاگیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے دن پورے کئے اور وفات پائی ۔ (عبد الرشيد عراقي،حيات نذير ، ص:23 مطبوعه لاهور 2007ء)
بغاوت کے مقدمات :
1857ء کی تحریک آزادی کے سلسلہ میں علمائے صادق پور پر بغاوت کے مقدمات مختلف شہروں میں قائم کئے گئے یہ مقدمات پٹنہ اور انبالہ وغیرہ میں قائم کئے گئے ۔
مقدمہ انبالہ :
انبالہ کے مقدمہ میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کا بھی مؤاخذہ ہوا حکومت کو پولیس کے اہل کاروں نے رپورٹ دی کہ مولوی سید محمد نذیر حسین دہلوی کے پاس بہت خطوط آتے ہیں چنانچہ میاں صاحب کے مکان کی تلاشی لی گئی جو خطوط برآمد ہوئے وہ تمام کے تمام فتاویٰ اور دینی مسائل کے بارے میں تھے یا مختلف کتابوں کے بارے میں دریافت کیاگیا تھا کہ کہاں اور کس شہر سے دستیاب ہیں۔
حضرت میاں صاحب سے دریافت کیاگیا کہ
آپ کے پاس اتنے خطوط کیوں آتے ہیں ۔
حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ
یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کیا جائے نہ کہ مجھ سے بہر حال آپ کو گرفتار کرکے راولپنڈی جیل میں نظر بند کردیاگیا۔
مولانا غلام رسول مہر ( م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
شیخ الکل میا ںنذیر حسین محدث دہلوی بھی ہدف ابتلاء بنےتھے میاں صاحب مرحوم اہل حدیث کے سرتاج تھے اہل حدیث اور وہابیوں کو مترادف سمجھا جاتا تھا مخبروں نے میاں صاحب کے خلاف بھی شکایتیں حکومت کے پاس پہنچائیں ان کے مکان کی تلاشی ہوئی بہت سے خط پائے گئے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے آتے رہتے تھے ان میں یا تو مسئلے پوچھے جاتے تھے یا مختلف دینی کتابوں کے متعلق دریافت کیاجاتا تھا میاں صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس اتنے خط کیوں آتے ہیں انہوں نے بے تکلف جواب دیا کہ یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کرنا چاہیے نہ کہ مجھ سے ۔
ایک خط میں مرقوم تھا کہ نخبۃ الفکر (اصول حدیث کی ایک کتاب) بھیج دیجیےمخبر نے کہا کہ یہ خاص اصطلاح ہے جس کا مفہوم کچھ اور ہے اور یہ لوگ خطوں میں اصطلاحی الفاظ سے کام لیتے ہیں میاں صاحب نے سنا تو جلال میں آگئے تو فرمایا
نخبۃ الفکر کیا توپ ،
نخبۃ الفکر کیا بندوق،
نخبۃ الفکر کیا گولہ بارود
بہر حال آپ کو دہلی سے راولپنڈی لے گئے اور وہاں کم وبیش ایک سال جیل خانے میں نظر بند رکھا دو آدمی ساتھ تھے ایک میر عبد الغنی ساکن سورج گڑھ جو بڑے عابد ، زاہد بزرگ تھے انہوں نے جیل خانے ہی میں وفات پائی میاں صاحب نے خود ہی تجہیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی ۔ دوسرے صاحب عطاء اللہ تھے جنہوں نے اس زمانے میں پوری صحیح بخاری سبقاً سبقاً پڑھی اور قرآن مجید بھی حفظ کیا ۔ میاں صاحب نے سرکاری لائبریری سے کتابیں منگوانے کی اجازت لے لی تھی اور ان کا بیشتر وقت مطالعے میں گزرتا تھا۔ راولپنڈی جیل میں مجاہدین کے متعلق بہت سے کاغذات جمع کردیئے گئے تھے جن میں اکثر فارسی میں تھے ۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد ان کاغذات کی جانچ پڑتال پر لگائے گئے تھے وہ بھی دیر تک راولپنڈی میں مقیم رہے۔ ذوق کے دیوان کی ترتیب انہوں نے وہیں شروع کی تھی میاں نذیر حسین کے خلاف کوئی الزام پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکا تو تقریباً ایک سال بعد انہیں ابتلاء سے نجات ملی ۔ (غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین، ص: 382، مطبوعہ لاہور)
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ( م 1966ء) لکھتے ہیں کہ
ایک سال تک راولپنڈی جیل میں محبوس رہے روزانہ پھانسی کی دھمکیاں دی جاتیں مگر پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ ہوئی۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:149 مطبوعہ دہلی 1938ء)
انگریز آپ کو رہا کرنے پر مجبور تھا اس لیے کہ اس نے بہت کوشش کی کہ آپ کے خلاف کوئی ثبوت مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہوا ۔پروفیسر عبد الحکیم اپنی انگریزی کتاب Wohhabi Trial of 1863-1870میں لکھتے ہیں :
It will be difficult to obtain evidence against him.
ان (مولوی نذیر حسین) کے خلاف ثبوت مہیا ہوجانا بہت مشکل ہوگا۔ (پروفیسر محمد مبارک، حیات شیخ الکل سید محمد نذیر حسین دہلوی)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10 رجب 1320ھ / 13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی آپ کے پوتے مولوی عبد السلام ( م 1916ء) نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیدی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:155)
حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے تلامذہ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ میں بہتوں نے صادق پوری خاندان کے ساتھ مل کر تحریک جہاد کو منظم کیا اس سلسلہ میں بڑی بری قربانیاں پیش کیں اور ہمیشہ برطانوی سامراج کی نظروں میں کھٹکتے رہے مثلاً
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
3مولانا شاہ عین الحق پھلواروی ( م 1333ھ)
4 شیخ پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ( م 1334ھ)
5 مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ)
6 مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (م1337ھ)
7 مولانا فقیر اللہ مدراسی ( م 1341ھ )
8 مولانا محمد اکرم خان آف ڈھاکہ ( م 1968ء )
حضرت میاں صاحب کے ان تلامذہ کے بارے میں جنہوں نے تحریک جہاد کو منظم کیا اورمالی تعاون بھی کیا ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) فرماتے ہیں کہ
حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین ( جو شاہ محمد اسحاق کی ہجرت حجاز کے بعد ان کی علمی جانشینی کے سبب’’میا ں صاحب‘‘ کے لقب سے مشہور تھے) کی سیاست سے کنارہ کش اور مشاغل درس کے باوجود میاں صاحب سے ایک جماعت استخلاص وطن اور حکومت الٰہیہ کے قیام اور استحکام کے لیے بدستور سرگرم عمل رہی جن میں حضرت شیخنا الاکرم مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، حضرت شاہ عین الحق پھلواروی صاحب خلق سواھم وحمھم اللہ اجمعین خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تمام عمر یہی مشغلہ رہا اپنے ذاتی اموال نیز زکوۃ وصدقات وغیرہ سے مجاہدین کی اعانت فرماتے رہے ۔
ثبت امت بر جریدئہ عالم دوام ما
’’جریدہ عالم پر ہمارا نام مستقل طور پر نقش ہے یعنی ہمارا نام زندہ جاوید ہے ۔‘‘(مقدمہ کالا پانی از محمد جعفر تھانسیری، ص: 20 مطبوعہ طارق اکیڈمی فیصل آباد 2004ء)
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
مولانا غلام رسول قلعوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتاہے آپ جلیل القدر عالم، محدث اور صاحب کرامات بزرگ تھے آپ کا سن ولادت 1228ھ/1813ء ہے بچپن ہی سے نیکی اور ورع طبیعت پر غالب تھا تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا ابتدائی تعلیم مولانا نظام الدین بگوی رحمہ اللہ سے حاصل کی حدیث کی تحصیل عارف باللہ شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) کے ہمراہ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے کی ۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی ( م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وأخذ الحديث عن الشيخ المحدث نذير حسين الحسيني الدهلوي مشاركاً للشيخ الأجل عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي (عبد الحی الحسنی ، نزهة الخواطر 8/348)
20 سال کی عمر میں علوم عالیہ وآلیہ سے فراغت پائی جب حج بیت اللہ کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ میں مولانا شیخ عبد الغنی مجددی (م 1296ھ) سے حدیث کی سند واجازت حاصل کی۔
مولانا غلام رسول بہت بڑے مبلغ اور واعظ تھے ہزاروں غیر مسلم آپ کے وعظ اور تبلیغ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 1857ء کے ہنگامہ میں تقلیدیان احناف نے انگریزی حکومت سے شکایت کی کہ اس ہنگامہ میں مولانا غلام رسول قلعوی کے وعظوں کا بڑا دخل ہے چنانچہ ایک طرف انگریزی حکومت نے آپ کے وعظوں پر پابندی لگادی۔(نزھۃ الخواطر 8/348) دوسری طرف آپ کو گرفتار کرکے لاہور میں سیشن جج مسٹر منٹگمری کی عدالت میں پیش کیاگیا۔
لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ مولوی غلام رسول کو پھانسی کا حکم ہوگا چنانچہ ہزاروں آدمی مسٹر منٹگمری کی عدالت کے باہر جمع ہوگئے ۔ مسٹر منٹگمری کو پتہ چلا تو اس نے دریافت کیا کہ یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں تو اس کو بتلایا گیا کہ
’’مولوی غلام رسول جید عالم دین اور اہل پنجاب کا استاد اور پیر ہے یہ لوگ اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے پیر کو پھانسی ہوگئی تو ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے چنانچہ منٹگمری نے پھانسی کا ارادہ بدل دیا اور کچھ عرصہ کے لیے نظر بند کردیا۔ (محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، تاریخ اہلحدیث ، طبع اول ، ص:428)
مولانا غلام رسول نے 15 محرم الحرام 1291ھ / 4 مارچ 1874ء قلعہ مہان سنگھ میں رحلت فرمائی عمر 63 سال تھی۔ ( محمد اسحاق بھٹی ، فقہائے ہند 6/483، مطبوعہ لاہور 2013ء)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبد العلی بن رحیم بخش علمائے فحول میں سے تھے آپ بلند پایہ خطیب،مقرر،واعظ اور مبلغ تھے ان کی وعظ اور تبلیغ سے ہزاروں لوگ ( جو بدعات اور محدثات میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے) صراط مستقیم پر آگئے ان کا وعظ بڑا جامع اور پُر تأثیر ہوتا تھا علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1373ھ) لکھتے ہیں کہ
’’وعظ کہتے تو خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رلاتے۔ (سید سلیمان ندوی، حیات شبلی ، ص:308)
حدیث کی تحصیل شیخ الکل حضرت میاں صاحب سے کی جب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مکہ مکرمہ شیخ عبد الجبار مکی اور مدینہ منورہ میں شیخ عبد الغنی مجددی(م 1296ھ) سے حدیث میں سند واجازت حاصل کی شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) سے بھی مستفیض ہوئے۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی (م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وسافر إلى أمرتسر وصحب الشيخ الكبير عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي، واستفاض منه (نزهة الخواطر 8/4)
’’ آپ نے امرتسر کا سفر کیا اور شیخ کبیر عبد اللہ محمد اعظم غزنوی کی مصاحبت اختیار کی اور اکتساب فیض کیا۔‘‘
فراغت تعلیم کے بعد آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام ایک دینی درسگاہ قائم کی اس مدرسہ میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ) اور مولانا محمد سعید محدث بنارسی ( م 1322ھ) جیسے اساطین فن نے تدریس فرمائی۔
مولانا بدر الزمان محمد شفیع نیپالی لکھتے ہیں کہ
’’مدرسہ احمدیہ اس اعتبار سے منفر د تھا کہ اس میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی اوراس کے ساتھ ساتھ جہاد کی تیاریوں کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔ (بدر الزمان محمد شفیع، الشیخ عبد اللہ غزنوی، ص:138)
مدرسہ احمدیہ اپنے عہد میں اہلحدیث کی یونیورسٹی تھی۔(ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ، ص: 158)
حافظ ابراہیم صوفی،واعظ،مبلغ،مقرر،خطیب،مدرس، مصنف،ماہر تعلیم، منتظم، مجاہد،علوم اسلامیہ میں بحرزخّار، تفسیر،حدیث،فقہ،تاریخ وسیر میں یگانہ روزگار اور عربی ادب میں کامل دسترس رکھتے تھے۔
حافظ ابراہیم آروی نے 6 ذی الحجہ 1319ھ بحالت احرام مکہ مکرمہ میں انتقال کیا اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (سید عبد الحی الحسنی ، نزھۃ الخواطر 8/5)